شہرِ عظیم کی آمد

ا۔ش۔

عالمِ اسلام پر ہر سال رمضان کا عظیم و بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے۔ اس عظیم مہینے میں نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لیے وہ آخری کتاب دی گئی جس کے بغیر وہ زندگی کی شاہراہ پر ایک قدم بھی ٹھیک طرح دھر نہیں سکتی۔ اور اس عظیم مہینے میں وہ عبادت فرض قرار دی گئی جو اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرنے والے افراد کی انفرادی زندگی کی دوسری سب عبادات سے بڑھ کر تربیت کرتی ہے اور انھیں اجتماعی زندگی خوشگوار خطوط پر بسر کرنے کی عادی بناتی ہے۔
یہ مہینہ اسلامی معاشرے کو سب سے نمایاں رنگ یہ بخشتا ہے کہ پوری دنیائے اسلام میں مسلمانوں کی توجہات ہر طرف سے ہٹ کر اپنے اللہ پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ عراق کے مشہور فاضل اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر جمالی نے اپنے ایک مقالے میں مسلمانوں کی ساری مصیبتوں اور پریشانیوں اور ہر جگہ ان کے معاشرے کے اندر پھیلے ہوئے اضطراب اور انتشار کی بنیادی وجہ یہ قرار دی ہے کہ ان کاتعلق اپنے اللہ سے کٹ چکا ہے۔ اوریہ مسلمانوں کے امراضِ اجتماعی کی صحیح تشخیص ہے۔اور رمضان کا مہینہ ان امراض کا مداوا فراہم کرتا ہے۔ مسلمانوں کا تعلق اپنے اللہ کے ساتھ مضبوط بناتا ہے۔ رمضان کے روزے ایک مسلمان کے اس ایمان و یقین کو جلا بخشتے اور قوی بناتے ہیں کہ ایک برتر و بالا ذات اُس کے اعمال و افعال کی ہر آن نگرانی کررہی ہے۔ جس کے آگے اسے ایک روز ان اعمال و افعال کی جوابدہی کرنی ہے۔ یہی ایمان و یقین ایک فرد کو اپنی انفرادی زندگی میں اور ایک اسلامی معاشرے کی اجتماعی زندگی میں حق کے منہاج پر قائم رکھتا ہے۔
پھر رمضان کا مہینہ مسلمان افراد اور معاشرے کے اندر رحم، ایثار اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے…… ایک معاشرے کے افراد اقتصادی اور معاشی اعتبار سے کبھی یکساں نہیں ہوتے۔ ان میں متمول اور محنتی بھی ہوتے ہیں۔ حاجت مند ، فاقہ کش بھی اور فاقہ و احتیاج سے ایک انسان پر جو بیتتی ہے، اُسے وہ شخص محسوس نہیں کرسکتا جسے پیٹ بھر کر کھانے کو مرغن غذائیں ملتی ہیں اور تجوریوں کا منہ جس کی ہر احتیاج کو پورا کرنے کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ یہ بیگانگی اور بے خبری ایک معاشرے کے ان دو طبقات میں نفرت اور کش مکش کا باعث بن جاتی ہے۔ رمضان کے روزے ہر سال اسلامی معاشرے کے متمول اور خوش حال افراد میں یہ احساس اجاگر کرتے ہیں کہ فاقہ و احتیاج اور بھوک پیاس کیا ہوتی ہے اور معاشرے کے جو افراد اس سے دوچار ہوتے ہیں، ان پر کیا گزرتی ہے۔ یہ احساس انھیں غریبوں اور ناداروں کے ساتھ ہمدردی، مراعات اور ایثار پر اکساتا ہے۔ متمول افراد کا یہ ایثار اور ہمدردانہ برتاؤ غریبوں اور ناداروں میں محبت اور خلوص کے جذبات پیدا کرتا ہے، اس طرح اسلامی معاشرہ اُس کشمکش سے پاک رہتا ہے جو غریبوں اور دولت مندوں کے درمیان ہر دوسرے معاشرے میں بپا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ان دوطبقات میں باہمی ہمدردی اور محبت کی خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں اور حریف سمجھنے کے بجائے ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ مسلمان افراد اور معاشرے کو صبر و توکل اور مشقت کا خوگر اور مشکلات و مصائب کا سامنا کرنے کا عادی بناتا ہے۔ زندگی یوں بھی کشمکش تگ و دو، صعوبت اور مشقت سے عبارت ہوتی ہے مگر ایک مسلمان فرد اور معاشرے کی زندگی تو سراپا صعوبت و مشقت ہوتی ہے۔ اسے خود حق پر قائم رہنے اور نیکی کا پرچم بلند رکھنے کے لیے زبردست جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ باطل سے ہر آن تصادم رہتا ہے۔ بدی اس کو شکست دینے اور مغلوب کرنے کے لیے اس سے بار بار ٹکراتی ہے اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کے لیے قدم قدم پر رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ایسی پرتعب اور کٹھن زندگی میں کامیابی و کامرانی تبھی مقدر ہوسکتی ہے کہ مسلمان فرد اور معاشرہ مشکلات برداشت کرنے کا عادی ہو۔ جان و مال کی قربانی پر آمادہ ہو، بھوک اور پیاس کا متحمل ہو اور صبر و توکل سے بہرہ ور ہو۔ رمضان کے روزے یہی چیز اس کے اندر پیدا کرتے ہیں۔
پھر یہ مہینہ مسلمان افراد اور معاشرے کو برائیوں، لڑائی جھگڑوں اور باہمی رنجشوں سے پاک رہنے کا عادی بناتا ہے۔ اس کے اندر یہ احساس اجاگر کرتا ہے کہ گناہوں اور سرکشی کی زندگی کے ساتھ رسمی عبادت و طاعت کی زندگی لاحاصل ہوتی ہے۔ رسالت مآب ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنے اور برے کام کرنے سے باز نہیں آتا، اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ کتنے روزہ دار ہیں، جنھیں دن بھر بھوک پیاس کے سوا اور کچھ نصیب نہیں ہوتا اور کتنے راتوں کو قیام کرنے والے ہیں کہ رت جگے کے سوا اُن کے پلّے کچھ نہیں پڑتا۔ رمضان کے روزے گویا مسلمان فرد اور معاشرے کو بدی اور غلط کاری کی زندگی تج کرنیکی اور بھلائی کی صاف ستھری، کینہ کپٹ، لڑائی جھگڑے اور فساد و عناد سے منزہ زندگی بسر کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔
اسلام کی تقویم میں اس مہینے کو اسی لیے معظم اور بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ مگر افسوس! ہزار افسوس! یہ عظیم و بابرکت مہینہ اپنے دامن میں جو اثرات رکھتا ہے، باوجودیکہ ہر سال آتا ہے مسلمان معاشرے ان سے محروم رہتے ہیں۔ مسلمان معاشروں سے بڑھ کر آج کوئی بھی معاشرہ ایمان و یقین سے تہی دست، رحم، ایثار اور ہمدردی سے خالی، صبر و توکل، صعوبت اور مشقت برداشت کرنے سے عاری اور بدی اور فساد و انتشار کی آماجگاہ نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ بجز اس کے اورکچھ نہیں ہے کہ اس مہینے کو محض ایک رسمی عبادت کا مہینہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ایسی رسمی عبادت جس کا روح اور جذبات سے اور زندگی کی گہرائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146