جمال میرا بچپن کا ساتھی تھا۔ ہائی اسکول کے بعد جمال نے تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا اور اپنے باپ کے کاروبار میں لگ گیا۔ میں کالج اور یونیورسٹی کے مراحل طے کرکے عمرِ عزیز کے ایک اہم حصے کو گنوا کر محض ایک ادیب ہی رہا۔ اور میرا دوست جمال اس تمام عرصے میں ترقی کرتے ہوئے شہر کے دولت مند ترین لوگوں کی صف میں پہنچ گیا۔ بے پناہ دولت، عیش و آرام اور بے فکری، ہزاروں ملنے جلنے والے، ان گنت غرض مند افراد، وسیع حلقۂ احباب۔ جمال مجھے یاد رکھتا بھی تو بھلا کس طرح؟
موجودہ زمانے میں اپنے آپ کو بچانا واقعی بڑا مشکل کام ہے۔ دنیا کی اس منڈی میں متاعِ قلب و نظر اور ضمیر کو بیچنے اور خریدنے والے بہت ہیں۔ لیکن زندگی بھرنہ مجھے خریدنا آیا اور نہ بیچنے کے فن کی آگہی ملی۔ جب میرا قلم بیچا اور خریدا نہ جاسکا تو الفاظ و اصطلاحوں سے بہ نام انسانیت، ملک و قوم کی دہائی دے کر لوگوں نے مجھ سے وہ کام لیا جو میں کرسکتا تھا اور جس کی انھیں ضرورت تھی۔ اور مطلب نکل جانے کے بعد وہ انجان ہوگئے اور میں نے بھی انھیں یاد دلانے کی سعی نہیں کی۔ فن میری زندگی تھی اور میں زندہ رہا۔ شہرت میرا مقدر تھی سو میں مشہور بھی ہوا۔ زندگی بھر میں نے خواب دیکھے اور خوابوں کا سلسلہ ہمیشہ دراز رہا۔ خوابوں کے سوا مجھے دنیا میں کچھ اور نہ مل سکا۔ زندگی کی اس منزل پر جب کہ میرا دوست جمال شہر میں درجنوں عالیشان مکانوں اور شاندار بنگلوں کا مالک تھا۔ مجھے سر چھپانے کے لیے کرایہ کا مکان تک نہیں مل رہا تھا۔ جمال نے ایک دو نہیں بلکہ تین شادیاں کی تھیں اور میں ابھی تک کنوارا تھا۔ بوڑھی بیوہ ماں، چھوٹے بھائی بہن اور غیر مستقل آمدنی۔ میں کرائے کے مکان کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ ایک ادبی جلسہ میں جمال سے ملاقات ہوگئی۔ وہ اس جلسہ کی صدارت کررہا تھا۔ سیٹھ جمال الدین کا ایک ادبی جلسہ کی صدارت کرنا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ جمال کو ادب اور خاص طور پر شاعری سے غیر معمولی دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔ جمال مجھے دیکھتے ہی پھول کی طرح کھل اٹھا۔ بڑی گرم جوشی سے بھری محفل میں مجھ سے بغل گیر ہوا۔ اور فخرومسرت سے اعلان کیا کہ ملک کا یہ ممتاز افسانہ نگار اس کے اسکول کا ساتھی اور ظالم و بے مروت دوست بھی ہے۔ اس طرح لوگوں کو سیٹھ جمال الدین کے علمی و ادبی ذوق کی تاریخ سے آگہی ہوئی۔ جمال بڑے خلوص اور بے تکلفی سے مجھ سے باتیں کرتا رہا۔ جلسہ ختم ہوا تو زبردستی مجھے اپنی شاندار کوٹھی پر لے گیا۔ دیر تک مجھ سے بے وفائی اور بے مہری کی شکایتیں کرتا رہا۔ اور دیر تک مجھے رنگین رومانی نظمیں اور غزلیں سناتا رہا۔ اور پھر اپنے انوکھے پیار کا ذکر چھیڑ دیا۔ جس کی آگ میں وہ برسوں سے جل رہا تھا۔ عاشقی نے اسے شاعر تک بنادیا تھا۔ قصہ مختصر تھا۔ اسے ایک ایسی لڑکی سے محبت ہوگئی تھی جو اس کے الفاظ میں چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھی۔ برق تھی، مجسم قیامت تھی۔ اس نے اس لڑکی کی زلفوں، آنکھوں، لب و رخسار، رفتار،گفتار اور آواز ، اس کی ایک ایک ادا پر سیکڑوں شعر کہے تھے۔ وہ اس کا دیوانہ ہوگیا تھا۔ لیکن وہ نازنین اس کی نہ بن سکی۔ ایک معمولی درجہ کے کلرک کی بیٹی ایک ایسے نوجوان کی محبت میں گرفتار تھی جو صورت، شکل، اخلاق و عادات کے لحاظ سے لاجواب تھا۔ اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار تھا۔ مفلسی میں محبت کا تصور جمال کے پاس مضحکہ خیز تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کمبخت مفلس نوجوان سے اس کے خوابوں کی ملکہ سے شادی ہوجائے گی۔ اور اس طرح وہ اپنی زندگی کی روشنی سے محروم ہوجائے گا۔ اسے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے رقیب روسیاہ کو ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ اور ملازم ہوتے ہی اس نے شادی کرلی۔ اور ٹریجڈی تو یہ تھی کہ رقیب روسیاہ کو ملازمت اس فیکٹری میں ملی تھی جس کا وہ حصہ دار تھا۔ انتقام کا شعلہ بھڑکا اور چند ماہ بعد ہی جمال نے اپنے رقیب کوملازمت سے برطرف کروادیا۔ بھوکے رہ کر تو محبت نہیں کی جاسکتی۔ اس نے سوچا تھا۔ ایک نہ ایک دن اس کمبخت کو مجبوراً ہی سہی اپنی بیوی سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ لیکن خلافِ توقع وہ دونوں بھوک اور مفلسی کا مقابلہ کرتے رہے اور جمال عشق اور حسد کی آگ میں جلتا رہا۔ اس نے اپنے رقیب کو راستے سے ہٹانے کی ہر وہ تدبیر کی جو اس سے ممکن تھی۔ لیکن اس کی ہر تدبیر بے کار گئی، اس کا رقیب روسیاہ بڑا سخت جان ثابت ہوا۔ تھک ہار کر وہ اپنی آگ میں آپ جلتا رہا۔
دن گزرتے گئے۔ اور غم روزگار میں مبتلا اس کا رقیب زیادہ دنوں تک حالات کا مقابلہ نہ کرسکا۔ اس کی صحت مسلسل گرتی گئی۔ اور اب وہ پورے سال بھر سے صاحبِ فراش تھا۔ ڈاکٹروں نے طرح طرح کی باتیں کیں، ٹی بی، کینسر اور ذیا بیطس ان گنت بیماریوں کا حملہ اس اکیلے آدمی پر ہوا تھا۔ جمال کو پورا یقین تھا کہ اس کا رقیب چھ ماہ سے زیادہ نہ جی سکے گا، لیکن چند ماہ بعد بھی وہ نہیں مرا تو غضب اور حسد کے مارے جمال نے ایک اور چال چلی۔ ہمدردی اور خلوص کا لبادہ اوڑھ کر وہ اپنی محبوبہ کے ہاں گیا۔ اس کے بیمار شوہر کا ہمدرد و دوست بنا۔ علاج و معالجے کے سلسلے میں ان کی مدد کرنے لگا اور پھر نگار باغ کو خرید کر اس کے ایک حصہ میں انھیں مفت رہنے کی اجازت دے دی۔
’’ایک بات ہے دوست ‘‘ جمال نے کہا: ’’نگار باغ بڑی پُر فضا جگہ ہے۔ اور اب تم خود اسے دیکھ لو گے۔‘‘
مجھے جمال کی داستانِ غم سن کر حیرت نہیں ہوئی۔ افسوس اور غم بھی نہیں ہوا۔ احساس اس قسم کی باتوں کا کچھ اس طرح خوگر ہوگیا ہے کہ بہت سی ایسی باتیں جو کبھی مجھے بے چین اور مضطرب کردیتی تھیں اور پہروں خون کے آنسو رلاتی تھیں، اب یوں گزر جاتی ہیں جیسے رات کے وقت گہرے سناٹے میںہوا کا کوئی آوارہ جھونکا چپکے سے نکل جاتا ہے۔
مجھے نگار باغ میں مکان مل گیا۔ اس دن جب میں اپنے نئے ٹھکانے پر پہنچا تو شہزادی کو دیکھ کر واقعی حیران و ششدر رہ گیا۔ حسن کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا تھا۔
شہزادی نے بڑے خلوص سے مجھے اپنے بیمار شوہر سے ملایا۔ میری بوڑھی ماں اور بھائی بہنوں سے تھوڑی ہی دیر میں کچھ اتنی گھل مل گئی کہ ہم اسے اپنے افرادِ خاندان میں سے ایک سمجھنے لگے۔ اس رات میرے دل و دماغ میں ایک طوفان سا آگیا۔ یہی تھی وہ حسینہ جس کے عشق کی آگ میں جمال جل رہا تھا۔ سیٹھ جمال الدین شہر کا ایک دولت مند اور بااثر آدمی جس سے سارا زمانہ مرعوب تھا وہ اس مجسم حسن کے آگے بے بس و مجبور تھا۔ مجھے اس سے ایک قسم کی ہمدردی اور ایک لگاؤ سا پیدا ہوگیا تھا۔ میری دلی خواہش تھی کہ میں اس کے کام آؤں۔ اس کے لیے کچھ کروں۔
اور پھر شہزادی کچھ اس انداز میں اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی کہ دیکھنے والوں کو رشک آتا۔ اس کا محبوب، اس کا شوہر کسی زمانے میں ایک خوبصورت اور پرکشش نوجوان رہا ہوگا مگر اب تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ وہ اتنا نحیف و ناتواں تھا کہ بستر سے اٹھنے کے لیے بھی اسے شہزادی کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔ بیماری نے اسے چڑچڑا اور بدمزاج بنادیا تھا۔ وہ زندگی سے مایوس ہوچکا تھا۔ اور کرب و اضطراب کے عالم میں موت کی راہ تک رہا تھا۔ موت جو یقینی تھی، لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب ہورہی تھی۔ دن میں ایک بار بھاری بھرکم جمال پابندی سے آتا۔ اور جب بھی آتا اپنے ساتھ دوائیں، ٹانک، پھل اور تحفے لاتا۔ وہ شہزادی سے تو بات نہیں کرتا تھا، البتہ اس کے بیمار شوہر کو طرح طرح کی باتوں سے دلاسہ دیتا۔ یا پھر مجھ سے شعروادب کے موضوع پر گفتگو کرنے لگتا۔ میں جو جمال کے رازوں سے واقف تھا۔ اس کے بارے میں سوچتے سوچتے گھٹن کا شکار ہونے لگتا تھا۔ یہ بات نہیں کہ جمال کو اپنی سوچ کی خامی اور گمراہی کا اندازہ نہ تھا۔ وہ جانتا تھا۔ سماجی اور اخلاقی جرم کو تسلیم کرتا تھا۔ پھر بھی وادیٔ جرم سے باہر نکلنا نہیں چاہتا تھا شہزادی کے بغیر اس کی زندگی ادھوری تھی۔ وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔
’’جمال صاحب آدمی نہیں فرشتہ ہیں۔‘‘ شہزادی اکثر کہا کرتی ’’وہ ہر طرح سے ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ دنیا میں کون ہے جو اتنا بے لوث اور بے غرض ہوکر انسانوں کی خدمت کرے؟ دولت مند تو یہاں بہت ہیں مگر جمال صاحب کی بات اور ہے۔‘‘
’’ہاں، جمال آدمی نہیں۔‘‘ میں رک کر کہتا ’’شائد فرشتہ ہو، پَر کٹا فرشتہ!‘‘
شہزادی کچھ چونک کر، کچھ سہم کر اور پھر مسکراتے ہوئے کہتی ’’ آپ تو ان کے بچپن کے ساتھی ہیں۔‘‘
’’میں جمال کو ہر طرح سے جانتا ہوں، اور یہ جانکاری اور یہ آگہی بہت بری شئے ہے۔ ایک دودھاری تلوار ہے، خوشی کی خیر منانا ہو تو آدمی بس بے خبر رہے … کم آگاہ۔‘‘
’’آپ کی یہ گہری باتیں میں سمجھ نہ سکوں گی۔‘‘ وہ مسکراتی ہوئی کہتی۔’’بھائی صاحب! میں نے کہا تھا نا، وہ بات یاد ہے آپ کو؟‘‘
’’کونسی بات؟‘‘
’’دیکھئے آپ بھول گئے‘‘ وہ سنجیدگی سے کہنے لگتی۔ ’’مجھے کوئی کام دلا دیجیے، ان کی حالت تو آپ دیکھ رہے ہیں، آمدنی کے بغیر کب تک یوں ہی چلتا رہے گا۔ گھر کی کوئی چیز نہیں رہی جسے بیچ کر گزارہ کیا جاسکے۔ جو کچھ بھی تھا وہ ختم ہوگیا، بیماری اور علاج کا سلسلہ جانے کب تک چلتا رہے۔ ہم بری طرح مقروض ہوچکے ہیں۔ پھر قرض دے گا بھی کون؟ اور کب تک؟ جمال صاحب کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ انھیں بار بار تکلیف دوں۔‘‘
’’میں کوشش کروں گا۔‘‘ میں گہری آواز میں کہتا ’’تم فکر مت کرو، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھ سے جو بھی خدمت درکار ہو بلا تکلف کہہ دیا کرو۔‘‘
’’میں آپ کو غیرنہیں سمجھتی بھائی صاحب! آپ کے حالات کا بھی مجھے اندازہ ہے۔‘‘ وہ محبت بھرے لہجے میں کہتی۔ ’’آپ میرے لیے کوئی موزوں کام تلاش کیجیے۔ مسئلہ بس اسی طرح حل ہوسکتا ہے۔‘‘
اور میں وعدہ کرلیتا۔ ایک بار اور اسے یقین دلاتا۔
برسات کی اندھیری رات تھی اور بجلی فیل ہوگئی تھی۔ دیا سلائی لینے کے لیے میں شہزادی کے کمرے کی طرف بڑھا۔ شہزادی کے کمرے میں مٹی کے تیل کا چراغ مدھم لو میں جل رہا تھا اور وہ اپنے بیمار شوہر کے قدموں پر سر رکھے سسک رہی تھی۔
’’مجھے تمہارے بے پناہ حسن سے ڈر لگتا ہے، شہزادی۔‘‘ اس کا بیمار شوہر کمزور آواز میں کہہ رہا تھا۔ ’’جمال نے جو بھی کہا وہ، ٹھیک ہی ہے۔ دنیا میں کوئی بلا وجہ اور بغیر کسی مطلب کے کسی سے ہمدردی نہیں کرتا۔‘‘ وہ کھوکھلی آواز میں کہنے لگا۔ ’’میں واقعی زندہ نہیں رہ سکتا۔ تم میرے لیے ناحق بھاگ دوڑ کررہی ہو۔ اپنی جوانی کو خاک میں ملا رہی ہو۔ یہ احساس مجھے چین نہیںلینے دیتا کہ میرے بعد تمہارا کیا ہوگا؟ میں اب زیادہ دنوں تک واقعی زندہ نہیں رہوں گا۔ شہزادی! خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو، مجھ سے طلاق لے لو۔ اور جمال کی بات مان لو۔‘‘
’’ایسا مت کہو۔‘‘ وہ زخمی ناگن کی طرح تڑپ کر بولی’’میں جان دے دوںگی اگر تم نے پھر ایسی بات کہی۔‘‘ وہ گلوگیر لہجے میں کہنے لگی ’’تم آخر مجھے سمجھتے کیا ہو جی؟ میں صرف تمہاری بیوی ہی نہیں ہوں، تمہاری زندگی بھی ہوں۔ ہاں، طلاق دے کر تم بیوی کو خود سے الگ کرسکتے ہو، لیکن اس روح کو کیسے جدا کرسکوگے جو تمہاری اور صرف تمہاری ہے۔ مرنا ہی مقدر میں ہے تو ہم ساتھ ساتھ مریں گے۔ میں زہر کھالوں گی۔‘‘
’’تم ایسی حماقت نہیں کرو گی۔‘‘ اس کا شوہر خوف بھری آواز میں بولا۔ ’’وعدہ کرو کہ نہیں کروگی۔ قسم کھاؤ‘‘ وہ بری طرح لرزنے لگا۔ ’’وعدہ کرو میری جان! تم میرے بعد بھی زندہ رہوگی۔ خوش رہوگی۔ تم جب تک وعدہ نہ کرو گی میں چین سے مر بھی نہ سکوں گا۔‘‘
جواب میں شہزادی کی زور دارسسکیاں گونج اٹھیں۔ اور میرے قدم جیسے دروازے کی دہلیز نے جکڑ لیے تھے۔ میں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔
دوسرے دن مجھے واقعہ کی تفصیلات کا علم ہوا۔ جمال نے اپنی موٹر بھیج کر شہزادی کو اپنے ہاں بلایا تھا۔ اور شہزادی نے جب اس سے بھی کوئی موزوں کام دلانے کی خواہش کی تو جواب میں اس نے اپنا مدعا بیان کردیا۔ اور اس سے خواہش کی کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر اس سے شادی کرلے۔ اس لیے کہ اس کا شوہر اب زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کا مرنا یقینی تھا۔ تو پھر کیوں وہ اپنی جوانی کو برباد کرے۔ اس نے بڑی فراخدلی سے اس کے بیمار شوہر کو تادمِ مرگ کسی اچھے ہاسپٹل میں رکھنے کا وعدہ بھی کیا۔ شہزادی نے غم و غصہ اور نفرت کے طوفان کو دباتے ہوئے نہایت واضح الفاظ میں جمال کی پیش کش ٹھکرادی تھی۔ اور گھر واپس آگئی تھی۔
اس کے بعد جمال پھر کبھی نگار باغ نہیںآیا۔ شہزادی کے مسائل اور الجھ گئے۔ اس کے شوہر کی حالت اور ابتر ہوگئی۔ ڈاکٹر روز نئی نئی دوائیں اور انجکشن لکھ دیتا، اور شہزادی بھاگ دوڑ کرتی۔ جگہ جگہ سے قرض حاصل کرتی۔ دوائیں اور پھل، گھر کا خرچ الگ۔ ان ہی دنوں جمال کا آدمی روز تقاضہ کرنے آجاتا تھا۔ دو ڈھائی ہزار روپیہ شہزادی کی طرف نکلتا تھا۔ جمال اب انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ کمرے کے کرایہ کی وصولی کے سلسلے میں بھی جمال کا رویہ سخت ہوگیا تھا۔ میں نے جمال کو سمجھانا چاہا تو وہ مجھ ہی سے بدگمان ہوگیا۔ اس پر ایک جنون سا سوار تھا۔ وہ سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے جیسے محروم ہوگیا تھا۔ شہزادی کی پریشان حالی مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ مجھ سے جو کچھ بھی بن پڑتا میں اس کے لیے کردیتا تھا۔
شہزادی کے شوہر کی حالت جب حد سے زیادہ بگڑ گئی تو اسے سینی ٹوریم میں داخل کردیا گیا۔
شہزادی گزشتہ کئی مہینوں سے سینی ٹوریم کے عہدہ داروں کی منت و سماجت کررہی تھی کہ اس کے شوہر کو وہاں ایڈمٹ کرلیں۔ لیکن سینی ٹوریم میں کوئی پلنگ خالی نہ تھا۔ مجبوری تھی اور اب آخری لمحات میں مریض کو سینی ٹوریم میں ایڈمٹ کرلیا گیا تھا۔
گرمیوں کی ایک سہ پہر شہزادی میرے پاس آئی۔ پریشان پریشان اور گھبرائی گھبرائی سی آواز میں اس نے آتے ہی کہا: ’’وہ کل سے بے ہوش ہیں۔ ڈاکٹروں نے کچھ دوائیں لکھ دی ہیں جو بہت قیمتی ہیں۔ مجھے دوائیں دلا دیجیے بھائی صاحب کچھ بھی کیجیے۔‘‘
میری بدقسمتی کی انتہا کہ میں اس وقت کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ میری خاموشی ایک جواب تھی۔ اور وہ سرجھکائے ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے چلی گئی۔
اور میں غم و اندوہ کے طوفان کو سینے میں دبائے ہوئے سیدھا سینی ٹوریم پہنچ گیا۔ شہزادی کے شوہر کی حالت آخری تھی۔ ڈاکٹروں کی ایک جماعت اسے گھیرے ہوئے تھی۔ وہاں شہزادی کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ مریض کی سانس اکھڑ چکی تھی۔ وارڈ میں ایک جان لیوا اداسی چھائی ہوئی تھی۔ پھر ایک زوردار ہچکی کے ساتھ مریض نے دم توڑ دیا۔ عین اسی وقت شہزادی وارڈ میں داخل ہوئی۔ میلے کچیلے لباس میں پژمردہ و نڈھال سی اس کے ہاتھوں میں دواؤں کا ایک بنڈل تھا۔ انچارج ڈاکٹر نے رحم اور بے بسی سے اس کی وحشی نگاہوں سے نگاہیں ملائیں اور آہستہ سے بڑھ کر لاش کے چہرے کو چادر سے ڈھانک دیا۔
میں زندگی بھر اس لمحہ کو فراموش نہیں کرسکتا۔ اس ایک لمحہ میں وہ سب کچھ ہوگیا جس پر مجھے اب بھی یقین نہیں آتا۔ شہزادی کے ہاتھ سے ایک دم دواؤں کا بنڈل چھوٹا، ایک دلخراش چیخ فضا میں گونجی اور وہ دھڑام سے فرش پر گرگئی۔ اور وہ دوبارہ اٹھ نہ سکی۔
اور میرا دوست سیٹھ جمال الدین وحشت، غم اور ندامت سے ڈاکٹروں کی منت و سماجت کررہا تھا۔’’اسے ہوش میں لائیے، میں اپنی ساری دولت دے دوں گا، اسے بچالیجیے۔‘‘
’’اب اسے ہوش میں لانا ناممکن ہے۔‘‘ وارڈ کے انچارج نے حیرت و افسردگی سے کہا۔ ’’شِی از ڈیڈ!‘‘
ادھر حرص شکست خورہ کھڑی تھی اور اُدھر وفا مسکراتے ہوئے ویVیعنی فتح و کامیابی کا نشان دکھا رہی تھی۔