الازہر کے مشہور عالم اور ادیب شیخ علی طنطاوی کو کسی دنیا دار امیر نے اپنی لڑکی کی شادی سے متعلق مشورہ طلب کرنے کے لیے خط لکھا، اس خط کے جواب میں شیخ صاحب نے جو بے لاگ نصیحت فرمائی ہے وہ دورِ حاضر کے ان تمام والدین کے لیے مشعلِ راہ ہے جو شادی کے معاملے میں رسولِ کریم ﷺ کی ہدایات سے منہ موڑ کر طرح طرح کی الجھنوں میں پھنستے ہیں۔
’’محترم! میں نے آپ کا بھیجا ہوا تفصیلی خط پڑھا اور آپ کی عظیم الجھن کو پوری طرح سمجھ لیا۔ میں چاہتا ہوں کہ پوری صفائی کے ساتھ تفصیل سے اپنی رائے کا اظہار کروں، اگرچہ میری اس صفائی اور بے لاگ رائے سے آپ ہی کو کیا اُن سب ہی لوگوں کو تکلیف ہوگی جو اپنی پیدا کی ہوئی اس الجھن میں گرفتار ہیں۔
آپ کے متعلق میری صاف صاف رائے یہ ہے کہ آپ عقل و خرد جیسی نعمت سے بالکل محروم ہیں اور ہرگز اس قابل نہیں کہ کسی سمجھ دار بیٹی کے باپ بنیں اور یہ صرف آپ ہی کا کردار نہیں ہے بلکہ دورِ حاضر کے اکثر و بیشتر والدین اسی کردار کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
آپ کی الجھن یہ ہے کہ آپ کی سمجھ دار لڑکی ایک ایسے شریف، ہنر مند اور صاحبِ علم نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے جس کے پاس روپئے پیسے نہیں ہیں لیکن شرافت واخلاق کی دولت ہے اور آپ اس لیے انکار کررہے ہیں کہ یہ شریف نوجوان غریب اور نادار ہے اور آپ کی نظرِ انتخاب اس نوجوان پر ہے جس کے پاس اتنا سونا ہے کہ اگر اس سونے سے اس کو تولا جائے تو سونے ہی کا وزن زیادہ بیٹھے اور پھر وہ اپنے شفیق ماں باپ کا اکلوتا بھی ہے۔ لیکن اگر کمی ہے تو صرف عقل و خرد اور علم وہنر کی، دنیا کی دولت سے تو مالا مال ہے لیکن عقل و خرد سے کورا ہے۔ آپ اس کی دولت پر ریجھ کر اپنی بچی کو اس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں مگر آپ کی سمجھ دار بچی اس سے شادی کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں۔ یہ ہے وہ بڑی الجھن جس نے آپ کو پریشان کررکھا ہے اور آپ کی مظلوم بچی بن بیاہی بیٹھی آپ کے گھر میں عمر گزار رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس الجھن میں آپ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ آبادی کا بڑا حصہ اسی الجھن میں گرفتار ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس الجھن کے اصل ذمہ دار آپ اور آپ جیسے والدین ہی ہیں جن کے نزدیک لڑکی ایک تجارتی سودا ہے کہ جہاں یہ مہنگے داموں بک سکے وہیں اس کو فروخت کردیا جائے۔ آپ لوگوں کے نزدیک شادی دولت کمانے کا ایک اچھا چانس ہے اور دانائی یہ ہے کہ اس چانس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔آپ ہی جیسے لوگ ہیں جو شادی کو محبت اور تعلق کا مضبوط بندھن نہیں سمجھتے بلکہ دولت بٹورنے اور شان دکھانے کا ذریعہ جانتے ہیں۔ آپ کے نزدیک شادی کا حاصل کیا ہے، زیادہ سے زیادہ مہر وجہیز حاصل کرنا اور شاندار تقریب منانا۔ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ولیمہ کرنا اور خوب دھوم دھام سے جشن منانا۔ آپ یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ جس کا ہاتھ جس کے ہاتھ میں دے رہے ہیں— پوری زندگی کے لیے جن دو آدمیوں کو شریکِ زندگی بنا رہے ہیں ان میں محبت و تعلق اور موافقت و نباہ بھی ہوسکے گا یا نہیں۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم بھی رہ سکیں گے یا نہیں۔
آپ ہی جیسے لوگوں نے بہت سے سعادت مند نوجوانوں کی راہ میں کانٹے بچھا رکھے ہیں۔ یہ نوجوان اپنے گھر کو خوشیوں اور مسرتوں کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ خاندان کوپریشانی اور انتشار سے بچانا چاہتے ہیں۔ خدا کی خوشنودی اور مخلوق کے حقوق کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر آپ لوگوں نے ان خوش نصیبوں کے لیے اپنی نادانی سے سکون و آرام کے دروازے بند کردیے ہیں اور بداخلاقی اور برائیوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ انہی دروازوں سے نافرمانی، بغاوت، غربت اور اخلاقی بیماریوں کی وبائیں برابر داخل ہورہی ہیں اور آپ ہی لوگ ہیں جو اپنی بچیوں کی صحت و جوانی، پاک دامنی، شرم و حیا، اخلاق و شرافت کو چند ٹکوں، نام و نمود اور دنیوی شان و شوکت کے بدلے قربان کررہے ہیں۔
آپ ہی لوگوں کے حد سے بڑھے ہوئے لالچ اور حرص کی وجہ سے بے حیائی کے اڈّے آباد ہورہے ہیں۔ بالا خانوں کو زینت مل رہی ہے۔ صرف آپ اور آپ جیسے والدین ہی ہیں، جو اس الجھن کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ آپ خود ہی اپنے لیے الجھن پیدا کرتے ہیں اور اپنے فکر و عمل پر غور کرنے کے بجائے دوسروں کے پاس اس کے حل تلاش کرتے ہیں۔ میری بے لاگ رائے یہ ہے کہ آپ ہی بڑے مجرم ہیں اور آپ ہی اس الجھن کے ذ مہ دار ہیں۔
——