شیریں کلامی

سمیہ لطیف

شیریں کلامی اور نرم گفتگو کا انداز انسانوں کو انسانوں کے درمیان محبوب اور مقبول بناتا ہے۔ یہ انسان کی شخصیت کا پرتو ہے جس سے لوگوں کے درمیان شناخت بنتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس کی طرف مختلف انداز میں توجہ دلائی ہے۔ آپ نے ایک جگہ فرمایا: ’’بھلی بات کہنا صدقہ ہے۔‘‘ اور ایک جگہ آپ نے ارشاد فرمایا: اپنے بھائی کو دیکھتے اور ملتے وقت مسکرادینا بھی صدقہ ہے۔ گھریلو، ازدواجی اور معاشرتی زندگی میں تو اس کے اثرات بڑے اہم ہوتے ہیں۔ غصہ اور چڑچڑے پن سے دل اور پھر گھر، خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔ جبکہ نرم انداز گفتگو اور شیریں کلامی، باہمی اتحاد، محبت، اعلیٰ اخلاقی قدروں کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ خواتین کے ساتھ تو معاملہ خاص ہے۔ وہ محبت اور شیریں کلامی پر جان نچھاور کردیتی ہیں۔ اور دیکھا گیا ہے کہ بہت سی چراغ پا خواتین سے اگر اچھے طریقے سے بات چیت کرلی جائے تو اُن کا غصہ پل بھر میں ہوا ہوجاتا ہے اور وہ جس بات پر آپ سے لڑ رہی ہوتی ہیں، آپ سے متفق ہوجاتی ہیں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ’’زبان شیریں ملک گیری‘‘ اسی طرح کچھ گھریلو خواتین کام کے دباؤ کی وجہ سے چڑچڑی ہوجاتی ہیں اور غصہ میں رہتی ہیں۔ ایسے میں نرم انداز گفتگو اور محبت کے جذبات ان کی اصلاح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

زیادہ غصہ اور ہر وقت جلے بھنے رہنے سے چہرے سے مسکراہٹ کے نشان تک مٹ جاتے ہیں۔ اور اس طرح سلوٹیں پڑجاتی ہیں کہ لگتا ہے کہ آپ بے حد مغرور ہیں۔

آپ کے خیالات دوسروں کے بارے میں کتنے ہی مثبت کیوں نہ ہوں جب تک آپ اپنے نرم اور محبت بھرے لہجے سے مخاطب کو اس کا اندازہ نہیں کرائیں گی اسے محسوس ہی نہ ہوگا اور سب آپ کو اکھڑ اور چڑچڑا سمجھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

قَوْلٌ مَعْرُوْفٌ خَیْرٍ مِنْ صَدَقَۃٍ یَتْبَعُہَا اَذیً۔

’’بھلی بات کہہ دینا اس صدقے سے زیادہ بہتر ہے جس کے بعد احسان جتا کر تکلیف پہنچائی جائے۔‘‘

یاد رکھئے! یہ ہمارا شیریں لہجہ ہی تو ہوتا ہے جو ہمیں کسی کا بھی گرویدہ بنادیتا ہے۔ ورنہ کوئی آپ کا دل تو چیرے گا نہیں کہ آپ کتنے خیرخواہ اور حساس دوست ہیں۔ لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ دوسروں کو اپنا گرویدہ بنانے میں کہیں آپ چاپلوس نہ بن جائیں، بلکہ وہ انداز اپنائیں کہ بھلا معلوم ہو۔

کسی کے لیے کینہ، بغض، عداوت رکھنا بھی شیریں کلامی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ایسی صورت میں انسان صرف تلخ کلامی اور طنزیہ گفتگو ہی کرسکتا ہے۔ یہ چیزیں رذائل اخلاق میں سے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے۔ چنانچہ شیریں کلامی اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا دل بغض، کینہ اور حسد سے پاک ہو۔ اگر ایسا ہوگا تو ہم لوگوں سے پر خلوص محبت کے انداز میں گفتگو کرکے ان کے دلوں کو مسخر کرسکتے ہیں۔

دیکھا جاتا ہے کہ اکثر لوگ باہر تو بہت اچھے لہجے میں بات کرتے ہیں اور دوستوں کی محفلوں میں ہنستے مسکراتے ہیں، لیکن گھر میں ان کا انداز بدل جاتا ہے بلکہ ان جیسا کوئی بدزبان نہیں ہوتا۔ یہ انتہائی غلط اور منافقانہ طرزِ عمل ہے اور گناہ بھی۔ انسان کو اپنا کردار آئینہ کی طرح شفاف رکھنا چاہیے۔ ورنہ ایک دن تو ہمارے سارے عیب سب کے سامنے آہی جائیں گے، تب کیا ہوگا؟

بہترین انداز گفتگو اپنانے کے لیے آپ کے پاس ذخیرہ معلومات نہ سہی تو ذخیرہ الفاظ ضرور ہو۔ ضرورت سے زیادہ قابلیت جھاڑنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر آپ قابل ہیں تو مخاطب کو خود ہی معلوم ہوجائے گا۔ ہمیشہ مخاطب سے اس کی دلچسپی کے موضوع پر بات کریں۔ بری بات پر محبت اور پیارسے ٹوکیں۔ ایسے نہ کہیں کہ سامنے والا اپنی بے عزتی محسوس کرے۔ بحث سے ممکنہ حد تک بچنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کے اندازِ گفتگو میں یہ تمام صفات موجود ہیں تو سبھی کو اپنا گرویدہ بنالیں گی اور سب کی عزیز ترین بن جائیں گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں