ایک اونچے ٹیلے پر گڈریے کا لڑکا دور گھنے جنگلوں کی طرف منہ کیے چلا رہا تھا ’’شیر آیا، شیرآیا، دوڑنا۔‘‘
بہت دیر تک وہ اپنا گلا پھاڑتا رہا۔ اس کی بلند آواز بستی میں بڑی دیر تک گونجتی رہی، جب چلا چلا کر اس کا حلق سوکھ گیا، تو بستی سے دو تین بوڑھے لاٹھیاں ٹیکتے ہوئے آئے اور گڈریے کے لڑکے کو کان سے پکڑ کر لے گئے۔
پنچایت بلائی گئی۔ بستی کے سارے عقلمند جمع ہوئے اور گڈریے کے لڑکے کا مقدمہ شروع ہوا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے غلط خبردی اور بستی کے لوگوں کو خواہ مخواہ پریشان کیا۔
لڑکے نے کہا: میرے بزرگو! تم غلط سمجھے ہو… شیر واقعی نہیں آیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ آہی نہیں سکتا۔‘‘
بزرگوں نے کہا: ’’نہیں آسکتا۔‘‘
لڑکے نے با ادب پوچھا: ’’وہ کیوں؟‘‘
جواب ملا: ’’جنگلوں کے محکمے کے بڑے افسر نے ہمیں لکھا تھا کہ شیر بوڑھا ہوچکا ہے۔‘‘
لڑکے نے کہا: ’’لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ وہ جوان ہونے کے لیے بہت سی جڑی بوٹیاں کھا رہا ہے۔‘‘
جواب ملا: ’’یہ افواہ تھی… جنگلوں کے محکمے کے بڑے افسر سے ہم نے اس بارے میں پوچھا تو اس نے ہمیں یہ لکھا تھا کہ شیر نے تو اپنے رہے سہے دانت بھی نکلوا دیے ہیں، کیونکہ وہ اپنی زندگی کے باقی دن خدا کی یاد میں گزارنا چاہتا ہے۔‘‘
لڑکے نے بڑے جوش کے ساتھ کہا: ’’میرے بزرگوار! ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو۔‘‘
بزرگوں نے کہا: ’’ہرگز نہیں… ہمیں جنگلوں کے محکمے کے بڑے افسرپر پورا بھروسا ہے، اس لیے کہ وہ سچ بولنے کی قسم کھاچکا ہے۔‘‘
لڑکے نے پوچھا: ’’کیا یہ قسم جھوٹی نہیںہوسکتی؟‘‘
بزرگے غصے میں چلائے: ’’ہرچیز جھوٹی کیسے ہوسکتی ہے… تم خود جھوٹے ہو… مکار ہو… چال باز ہو…‘‘
لڑکا مسکرایا: ’’میں سب کچھ ہوں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں وہ شیر نہیں جو کسی وقت بھی یہاں آسکتا ہے۔… جنگلوں کے محکمے کا بڑا افسر بھی نہیں جو سچ بولنے کی قسم کھا چکا ہے… میں…‘‘
پنچایت کے ایک عمر رسیدہ بوڑھے آدمی نے لڑکے کی بات کاٹ کر کہا: ’’تم اسی گڈریے کی اولاد ہو، جس کی کہانی سالہا سال سے اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہی ہے۔ کان کھول کر سن لوکہ تمہارا حشر بھی وہی ہوگا جو اس کا ہوا تھا۔ شیر آئے گا تو تمہاری تکہ بوٹی بنادے گا۔‘‘
گڈریے کا لڑکا پھر مسکرایا اور بولا: ’’بزرگو! میں تو اس سے لڑوں گا۔ مجھے تو ہر گھڑی اس کے آنے کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ تم کیوں نہیں سمجھتے، شیر آیا شیر آیا دوڑنا، والی کہانی جو اپنے بچوں کو پڑھاتے ہو، آج کی کہانی نہیں… آج کی کہانی میں، تو شیر آیا شیر آیا دوڑنا، کا مطلب یہ ہے کہ خبردار رہو، ہوشیار رہو… شیر آئے نہ آئے۔ ہوسکتا ہے کوئی گیدڑ ہی منہ اٹھا کر ادھر چلا آئے، اس حیوان کو بھی تو ہمیں اپنی بستی میں گھسنے سے روکنا چاہیے۔‘‘
بزرگ کھلکھلا کر ہنس پڑے ’’کتنے ڈرپوک ہو تم… گیدڑ سے ڈرتے ہو۔‘‘
گڈریے کے لڑکے نے کہا: ’’میں شیر سے ڈرتا ہوں نہ گیدڑ سے… مگر ڈرتا اس لیے ہوں کہ یہ حیوان ہیں اور ان کی حیوانیت کا مقابلہ کرنے کے لیے میں اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھتا ہوں … میرے بزرگو، زمانہ بدل چکا ہے، اپنے اسکولوں سے خدا کے لیے وہ کتاب اٹھا لو جس میں ’شیرآیا، شیرآیا دوڑنا، والی پرانی کہانی چھپی ہے… اس کی جگہ یہ نئی کہانی پڑھاؤ۔‘‘
ایک اور بڈھے نے کھانستے ہوئے کہا: ’’بھائیو! یہ لڑکا ہمیں غلط راستے پر لے جانا چاہتا ہے، اس کا سر پھر گیا ہے۔‘‘
دوسرے بڈھے نے غصے سے کانپتے ہوئے کہا: ’’اس کو فوراً قید کرو۔‘‘
گڈریے کے لڑکے کو فوراً جیل میں بند کردیا گیا۔
اتفاق کی بات ہے اسی رات شیر بستی میں داخل ہوا اور بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ لوگ بستی چھوڑ کر بھاگ گئے کئی ایک شیر نے شکار کرلیے۔ مونچھوں کے ساتھ لگا ہوا خون چوستا جب شیر جیل کے پاس سے گزرا تو اس نے لوہے کی مضبوط سلاخوں کے پیچھے گڈریے کے لڑکے کو دیکھا۔ شیر نے اس سے پوچھا: ’’کون ہو تم؟‘‘
لڑکے نے جواب دیا ’’میں گڈریے کا لڑکا ہوں۔‘‘
شیر کی آنکھوں میں خون اتر آیا ’’افوہ … تم ہو گڈریے کے لڑکے … وہی جو میرے آنے کی اطلاع دیا کرتے تھے… باہر آؤ، میں تمہیں اس کی سزا دینا چاہتا ہوں۔‘‘
لڑکا مسکرایا’’جنگل کے بادشاہ… مجھے افسوس ہے کہ میں باہر نہیں آسکتا… میرے بزرگوں نے جو مجھے سزا دی ہے، اس نے مجھے تمہاری سزا سے محفوظ کردیا ہے…‘‘اور شیر دانت پیس کر رہ گیا۔