اسلام عورت کے لیے خاص نعمت ہے جس نے اسے صحیح مقام عطا کیا ہے جبکہ دوسری تہذیبوں کا مشاہدہ کریں تو کہیں عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا تو کہیں شوہر، عورت کو قتل کرنے کا مجاز تھا تو کہیں والدین بیٹیوں کو قتل کر دیا کرتے اور کہیں عورت کی پیدائش کو ذلت کا باعث سمجھا جاتا تھا تو کہیں پیدائش سے پہلے ہی لڑکی کے لیے قبر کھودی جاتی تھی۔ اس کے بعد اسلام کا سورج طلوع ہوا اور عورت کو ایسا باعزت کا مقام حاصل ہو اجو اُسے کبھی حاصل نہیں تھا آپﷺ کا فرمان ہے کہ :
’’ عورتیں شقائق الرجال ہیں‘‘ (ترمذی)
یعنی عورت اور مرد ایک اکائی کے دو حصے ہیں یعنی عورت نصف انسانیت ہے۔
قرآن مجید کا خطاب مردوں اور عورتوں دونوں سے:اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
’’تم سب بہتر امت ہو جسے لوگوں کے لئے نکا لا گیا ہے معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آلِ عمران :۱۱۰)
’’ ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہیں۔‘‘ (التوبہ :۷۱)
اِن آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے ساتھ عورت کو بھی دین کے کاموں میں حصّہ لینا چاہئے۔ یعنی معاشرہ میں صالح انقلاب لانے کے لئے جتنی ذمہ داری مرد پر عائد ہے اُتنی ہی خواتین پر بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
’’ مرد جیسا کام کریں گے ویسا حصّہ پائیں گے اسی طرح عورتیں جیسا کام کریں گی ویسا حصّہ پائیں گی۔‘‘ (سورۃ النساء :۳۲)
معاشرہ میں صالح انقلاب لانے کے لئے خواتین کا جو رول ہے وہ درجِ ذیل نکات پر مبنی ہے۔
۱) اپنی اصلاح آپ :کسی بھی معاشرہ میں انقلاب لانے اور اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شخص سب سے پہلے اپنی اصلاح آپ کی جائے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی اصلاح کو انجام دیں اور اپنی زندگی کو سچی اسلامی زندگی بنانے کی کوشش کریں اور اُن تمام باتوں کو اپنی زندگی سے نکال باہر کریں جو دین کے خلاف ہوں۔ ہمیں ہروقت یہ محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے اندر مومنانہ زندگی کے اوصاف پائے جاتے ہیں یا نہیں۔
تعلق بِاﷲ، حبِّ رسولﷺ،فکر آخرت، خاکساری، عفوودرگذر، نصح و خیر خواہی، مرحمت و مساوات، صلہ رحمی، امر بالمعروف و نہی عنِ المنکر، صبر و استقامت اورایثار و قربانی وہ اہم اوصاف ہیں جن کا مطالبہ خود ہمارے رب نے ہم سے کیا ہے۔
عورت بہ حیثیت ماں:کسی بھی والدہ کی گود اس کے بچے کے لئے پہلی درسگاہ ہے۔ اسی لیے ماں کا مقام بہت بلند ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ:
’’ ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے۔‘‘ (نسائی احمد)
اولاد کی تربیت کیلئے ضروری ہے کہ جن چیزوں سے ہم اُنھیں روکتے ہیں سب سے پہلے ہم خود و عادتیں چھوڑیں جب بچے ماںکو گھر میں نماز پڑھتے دیکھیں گے تو وہ خود بہ خود نماز کے عادی ہو جائیں گے ایک بچہ سب سے زیادہ وقت گھر پر اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے اگر گھر کی خواتین ہی گھر میں بیٹھ کر ٹی وی، فحاش فلمیں دیکھیں گی تو بچے کیوں وہی کام نہ کریں گے۔ کسی بزرگ نے فرمایا ہے کہ’’ خراب لوہے سے اچھی تلوار کی امید رکھنا نا ممکن ہے ۔‘‘ جب تک والدین دین پر عمل نہ کریں گے تو بچے کیسے کریں گے۔
حضرت انسؓ کی والدہ حضرت ام سلیمؓ تھیں۔ وہ حضرت انس بن مالکؓ کو ۱۰ سال کی عمر میں حضورﷺ کے پاس لائیں اور کہا کہ میری دلی تمنّا ہے کہ یہ آپﷺ کی خدمت کرے۔ آپﷺ نے انھیں اپنے خادموں میں شامل کرلیا۔ اور اُن کے لئے دعا کی۔
خواتین کا رول بحیثیت بیوی: میاں بیوی کے درمیان اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی محبت و کشش رکھی ہے۔ عورت مرد کی معاون و مدد گار ہے۔ وہ کفر و شرک میں بھی اسکا تعاون کر سکتی ہے اور اسلام کے لئے بھی ۔ابولہب کی بیوی کی مثال لیں تو ابولہب آپؐ کا بدترین دشمن تھا اور اس کی اس دشمنی میں اس کی بیوی بھی آگے آگے رہی تھیں۔ ابو لہب نے جو مال ناجائز طریقہ سے کمایا تھا اُس کی بیوی اس دولت کو سمیٹنے میں اسے ترغیب دیتی رہتی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ابو لہب دین کی مخالفت میں بڑھتا گیا اس کے برعکس حضرت خدیجہؓ کی مثال ہے جنھوں نے دامے درمے سخنے اپنے شوہر کا دین کی راہ میں ساتھ دیا اور ہر قسم کے مصائب کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آقائے دو جہاںﷺ کی رفاقت اور جاں نثاری کا حق ادا کیا ۔ بیوی کے تعاون سے آدمی کی ہمت بڑھتی ہے اور وہ قوت و توانائی محسوس کرتا ہے۔ بیوی کی زبان سے تائید کا ایک لفظ ہزار لوگوں کی تعریف سے بہتر ہوتا ہے لیکن کئی مرتبہ ایک مسلمان خاتون کیلئے پریشانی اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب کہ شوہر دین کی راہ پر نہ چلے اور نہ چلنے دے۔ اس صورتِ میں بیوی کوچاہئے کہ بحث و تکرار کئے بغیر اور شوہر کے مرتبہ و مقام کی پوری رعایت کرتے ہوئے دلسوزی اور غمخواری کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش جاری رکھے۔
خاندان کی اصلاح:انسان اپنے خاندان سے بہر صورت بندھا ہوتا ہے زندگی کے ہر قدم پر ہمیں اسکی اور اسے ہماری ضرورت ہوتی ہے۔ اگر خاندان کے لوگ دین سے منحرف ہوں یا غلط رسموں کے چکر میں پھنسے ہوئے ہوں یا شرک میں مبتلا ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اُنھیں سیدھی راہ دکھائیں جیسا کہ اﷲ کا حکم ہے: ’’ اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈرائو۔‘‘ (الشعراء :۲۱۴)
ماحول کی اصلاح: شوہر اولاد اور خاندان کے علاوہ بھی خواتین شرعی حدود میں رہ کر اصلاح کا فرض انجام دے سکتی ہیں۔خاص طور پر ہمارے اطراف جو غلط رسم و رواج اور شادی بیاہ کی غلط رسومات ہیں ان میںسب سے بڑا رول خواتین کا ہی ہے جسے خواتین ہی ختم کر سکتی ہیں۔ آج جہیز ، ہلدی، مہندی جیسی کتنی رسومات اور بدعات ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں جِسے روکنے کیلئے خواتین کو ہی پہل کرنی ہوگی۔
معاشرہ کی تعمیر اور علمی رول: کسی بھی معاشرہ کی اصلاح کے لئے خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ عہد نبوی میں خواتین کے مسائل کے لئے بطور خاص ازواج مطہرات سے رجوع کیا جاتا۔ ام المومنین حضرت حفصہؓ ، حضرت میمونہؓ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت عائشہؓ کی علمی خدمات کسی سے مخفی نہیں ہیں خاص طور پر حضرت عائشہؓ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں جن سے روایات کی تعداد ۲۰۰۰ سے زیادہ ہے۔ آپ حضورؐ کی وفات کے بعد نصف صدی تک ہر خاص و عام کے لئے مرجع علم رہیں۔ ازواج مطہرات کے علاوہ صحابیات نے بھی تعلیم کے میدان میں قابلِ تقلید مثالیں پیش کیں۔ ام قیس (۲۲ احادیث)، ام فصل بن حارث (۳۰ احادیث)، فاطمہ بنت قیس (۳۴ احادیث)، اسماء بنت ابوبکر (۵۸ احادیث)، اسماء بنت عمیس (۶۰ احادیث) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ روز ینہ اور ماریہ نے خادم رسول ہونے کے باوجود بھی روایات حدیث کا شرف حاصل کیا اور معاشرے کا ہر طبقہ دین کی دعوت میں آگے بڑھ گیا یہ علم جو آج ہم تک پہنچا ہے اس میں کتنی ہی خواتین بھی شامل ہیں جنہیں ہمیں اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے۔
خواتین کا معاشی رول: آج کل زیادہ تر خواتین کہتی ہیں کہ ہم کس طرح معاشی طور پر معاشرہ کی اصلاح کریں جبکہ زندگی کے ہر شعبہ میں بے تحاشہ خرچ کرتی ہیں کپڑوں اور بیوٹی پارلر کے اخراجات ہی دیکھیں تو لاکھوں میں ہوتے ہیں حضرت خدیجہؓ کی مثال دیکھیں تو انھوں نے اپنا تمام زرومال اسلام پر نثار کردیا۔ ان کی ساری دولت یتیموں اور مسکینوں کی دستگیری اور حاجت مندوں کی حاجت روائی میں وقف ہو چکی تھی۔ خواتین اسی ذاتی خرچ کا کچھ حِصّہ معاشرہ کی تعمیر کے کاموں میں لگاسکتی ہیں۔ ابھی حال میں ہی حیدر آباد کی ایک خاتون نے اپنا سارا سونا بیچ کر تقریباً 25 لاکھ روپئے ایک Islamic Centre کی تعمیر میں وقف کردیئے۔
کسی بھی نظر یہ کو اختیار کرنا اور ہر حال میں اس پر ثابت قدم رہنا استقامت کہلاتا ہے۔ تاریخ میں اس استقامت کی کئی مثالیںملتی ہیں جیسے کہ فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم جنھوں نے اپنی ساری آسائش و راحت کو چھوڑ کر ایسی سخت سزائیں پائیں کہ ان کے تصور سے ہی لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور اپنی جان کی بازی لگا کر بھی دین پر قائم رہیں۔ دوسری مثال حضرت مریم ؑکی ہے قرآن مجید میں ان کے حالات بہت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیںیہ دونوں خواتین ایمان و عمل دونوں پہلوئوں سے درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھیں اور وہ استقامت کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہیں اور ان خواتین نے ایسی مثالیں چھوڑیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان خواتین کو قابل تقلید مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورت بھی اسی طرح مثالی اور قابل تقلید ہوسکتی ہے جس طرح مرد۔ لیکن اس کے لیے عمل صالح اور فکر صالح کی ضرورت ہے جو ہم اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہماری ذات بھی خیر کا ذریعہ بن جائے گی۔lll