مکہ کے زمانہ قیام میں صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم اسلام کے دشمنوں کے خلاف اقدام کریں، مگر آپؐ نے فرمایا: ’’صبر کرو۔‘‘ غزوہ احزاب میں آپؐ نے خندق کھود کر اپنے اور دشمنوں کے درمیان آڑ قائم کردی تاکہ دونوں فریقوں میں دست بدست جنگ نہ ہونے پائے۔ مکہ کے سفر میں بعض مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا اور کہا کہ ’’تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے ہو۔‘‘
اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ عمل کسی اندھا دھند کارروائی کا نام نہیں ہے۔ عمل کا تعلق تمام تر حالات سے ہے۔ حالات کے مطابق کبھی کبھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی بولے اور کبھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ چپ ہوجائے، کبھی یہ مطلوب ہوتا ہے کہ آدمی مقابلہ کرے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مفید اور معروف چیز بھی غیر مناسب اور نقصان دہ بن جائے ۔ زندگی کے نشیب و فراز میں کبھی مقابلہ کامیابی ہوتا ہے اور کبھی یہ مطلوب ہوجاتا ہے کہ مقابلہ کے میدان سے اپنے آپ کو ہٹادے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمیں حضورﷺ کی زندگی میں بھی ملتی ہیں اور تاریخ میں بھی بڑے بڑے لوگوں کے بارے میں اس طرح کے واقعات ملتے ہیں۔
موجودہ حالات مسلمانوں کے لیے حد درجہ نازک حالات ہیں یہ مسلمانوں کے لیے صبر کا وقت ہے آج انھیں مقابلہ نہیں کرنا ہے بلکہ اعراض کرنا ہے۔ اس صبر اور اعراض کا مطلب بزدلی نہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس وقفہ میں تعمیر کا کام لیا جائے اور اپنے کو حالات کے مقابلے کے لیے تیار کیا جائے۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو امریکہ کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اس کے بعد اپریل ۱۹۴۵ء میں امریکی فوجیں جاپان میں اتر گئیں۔ جنرل ڈگلس میک آرتھر کی مرضی کے مطابق جاپان کا نیا دستور بنایا گیا، جو ۳؍نومبر ۱۹۴۶ء کو جاپانی اسمبلی کو منظور کرنا پڑا۔ اس دستور کے تحت شہنشاہِ جاپان کی حیثیت گھٹا کر اس کو علامتی حکمراں کا درجہ دے دیا گیا۔ دستور کی دفعہ ۹ کے تحت جاپانی قوم اس بات کی پابند بن گئی کہ وہ کبھی بھی زمینی یا ہوائی فوج نہ رکھے گی نہ کسی قسم کی اور کوئی جنگی تیاری کرے گی۔ یہ دستور بظاہر جاپان کی مستقل قومی موت کے ہم معنیٰ تھا۔ مگر جاپان کے لیڈروں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس کو مکمل طورپر منظور کرلیا۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ دستور اگرچہ فوجی اور سیاسی اعتبار سے جاپان کے لیے اقدام کا راستہ بند کررہا ہے مگر ان کے لیے سائنس اورصنعت میں اقدام کا راستہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ جاپان کی اس غیر معمولی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس نے فوجی اور سیاسی میدان میں شکست کھانے کے بعد اپنے میدانِ عمل کو بدل دیا اور اپنی ساری توجہ علم کی راہ میں لگادی۔ اور دکھایا کہ دوسری جنگ عظیم میں مکمل شکست سے دوچار ہونے کے بعد بھی دوبارہ اس طرح کھڑا ہوگیا کہ آج خود اپنے فاتح (امریکہ) کے لیے چیلنج بن گیا ہے۔ جاپان کی موجودہ کامیابی کا واحد عامل اگر کسی چیز کو قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف ایک ہے وہ ہے جاپانی قوم میں علم کی تلاش کا لامتناہی جذبہ۔ جب باہر کا کوئی آدمی جاپان آتا ہے تو اکثر جاپانی یہ کوششیں کرتے ہیں کہ میں اس سے کیا بات سیکھ سکتا ہوں۔ حال کو مان لینا آدمی کے لیے مستقبل کا راستہ کھولتا ہے۔ جو لوگ حال کو نہ مانیں وہ مستقبل کے عظیم تر امکانات سے محروم رہیں گے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ ان کی بے شعوری ہے۔
اسی بنا پر وہ اس رازکو نہیں جانتے کہ مواقع کو استعمال کرنے کے لیے کبھی کبھی مسائل کو نظر اندازکرنا پڑتا ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ تقریریں کرنے اور بڑے بڑے الفاظ بولنے کو کام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض لفاظی ہے نہ کہ کوئی واقعی کام۔
اس دنیا میں آدمی کو دوسروں کے ظلم اور تعصب کے باوجود اپنے لیے راہ نکالنی پڑتی ہے اور یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔ مسلمان اس صلاحیت کو کھوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حالات کے خلاف صرف چیخ و پکار کررہے ہیں۔ وہ ابھی تک اپنے لیے کوئی راستہ دریافت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کوئی بھی حقیقی کام کرنے کے لیے لازمی طور پر حکمت درکار ہوتی ہے۔ حکمت کے بغیر نہ دین کا کوئی کام کیا جاسکتا ہے نہ دنیا کا۔ حکمت کیا ہے؟ حکمت یہ ہے کہ مطلوب کام مطلوب وقت پر اور اچھے انداز سے صحیح حالات دیکھ کر کیا جائے۔ موجودہ حالات میں ہمارے لیے لازم ہے کہ ہماری بنیادی ترجیح دعوت کا میدان ہو اسی راستے سے ہم لوگوں کے ذہن و فکر کو تبدیل کرسکتے ہیں اور حالات کو اپنے مطابق موڑ سکتے ہیں۔ آج مسلمانوں اور اسلام کے نام پر بے معنی لیڈری خوب ہورہی ہے مگر اس اہم اور بنیادی کام کی کسی کو نہ فرصت ہے اور نہ وہ اسے ترجیح تصور کرتا ہے، اس لیے اس کی کوئی قیمت نہ تو دین کے اعتبار سے ہے نہ دنیا کے اعتبار سے۔ موجودہ دنیا میں کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے حکمت اور صبر ضروری ہیں، اس کے بغیر نہ دین کا کوئی مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ دنیا میں مسائل سے نجات کا کوئی راستہ ہے۔
——