’’حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا : بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیرہے اور اگر اسے کوئی دکھ یا رنج پہنچتاہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر اور موجب برکت ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم شریف)
’’حضرت عبداللہ بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ ہی لوگوں سے شکوہ و شکایت کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گے۔‘‘ (طبرانی)
تشریح: اس دنیا میں تکلیف و آرام، خوشی وغم سب کچھ اللہ کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے۔ جب کسی مسلمان پر کوئی دکھ اور مصیبت پیش آجائے تو وہ مایوسی اور سراسیمگی کا شکار نہ ہو بلکہ ایمانی صبروثبات کے ساتھ اس کا استقبال کرے اور دل میں اس یقین کو تازہ کرتا رہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو ہمارا حکیم و کریم رب ہے اور وہی ہم کو اس دکھ اور مصیبت سے نجات دینے والا ہے۔ دکھ سکھ اور خوشی و ناخوشی ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کی زندگی کسی وقت بھی خالی نہیں رہتی اس لیے ہر گھڑی اور ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے اس لیے حضور اکرمؐ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ ایمان کے دو حصے ہیں: آدھا صبر اور آدھا شکر۔ صبر کی حقیقت یہ ہے کہ طبیعت کے خلاف کاموں پر پریشان نہ ہو، اپنے قول و عمل میں ناشکری سے بچے اور اللہ کی رحمت کا دنیا میں امیدوار رہے اور آخرت میں بھی صبر کے اجر عظیم کا یقین رکھے اور شکر کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی نافرمانی اور حرام و ناجائز کاموں میں خرچ نہ کرے اور زبان سے بھی اللہ کا شکر ادا کرے اور اپنے افعال و اعمال کو بھی اس کی مرضی کے مطابق بنائے تاکہ شکر کے نتیجے میں تقویٰ اور عمل صالح کی کیفیت پیدا ہو۔