زندگی میں انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں: آرام و راحت یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکرا لٰہی کی تلقین اور تکلیف و پریشانی میں صبر اور اللہ سے استقامت کی تاکید ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’مومنوں کا معاملہ بھی عجیب ہے، اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو اللہ کا شکر اداکرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لیے خیر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
صبرکی دو قسمیں ہیں: ایک محرمات اور معاصی کے ترک اور اس سے بچنے پر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر۔ دوسرے، احکامِ الٰہیہ کے بجا نے میں جومشقتیں اور تکلیفیں آئیں، انھیں صبر و ضبط سے برداشت کرنا، اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا، چاہے وہ نفس وبدن پر کتنی ہی گراں ہوں۔ اور اللہ کی ناپسندیدہ باتوں سے بچنا، چاہے خواہشات و لذت اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھینچیں۔ (ابنِ کثیر)
لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے عبادت صرف روزہ، نماز ، صدقہ، زکوٰۃ اور حج کو سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے! ’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ حقیقتاً نیک وہ انسان ہے جو اللہ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کودے، نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔‘‘ (سورہ البقرۃ: ۱۷۷)
صبر و استقامت کی دلیل میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ہے : ’’قسم ہے زمانے کی، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘(سورۃ العصر)
اللہ کا فرمان ہے ’’جب تمہیں کوئی مصیبت یا پریشانی لاحق ہو تو مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منھ موڑتے ہیں، ضرور و ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ (المؤمنون: ۶۰) دوسری جگہ ’’بس تم انسانوں سے نہ ڈرنا بلکہ مجھ سے ڈرنا، اگر تم حقیقت میں ایمان والے ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۷۵)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صبر اور شکر کے متعلق واضح فرمادیا ہے۔ ’’جس طرح ہم نے تم میں سے رسول بھیجا ہے، جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے، اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم لاعلم تھے۔ اس لیے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو، اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘(سورہ البقرۃ: ۱۵۰-۱۵۳)
دراصل یہ مصیبتیں پریشانیاں اللہ کی طرف سے آزمائش ہے، انسان کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ راضی بہ رضا ہونا چاہیے کیونکہ یہ دنیا دارالعمل ہے۔ دارالجزاء وسزا تو آخرت ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے، جنھیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اورہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ (البقرۃ: ۱۵۴-۱۵۵)
مذکورہ قرآنی آیات کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کس حد تک صبر کرتے ہیں۔ مصیبت و پریشانی میں اللہ سے کس انداز میں ڈرتے، گڑگڑاتے اور پناہ مانگتے ہیں؟ اور جب اللہ ہمیں مطلوبہ چیزیں عطا کرتا ہے تو ہم کس طرح اس کا شکر بجالاتے ہیں؟ مصیبتوں سے گھبرانا، دنیا سے راہِ فرار اختیار کرنا اور لعن کرنا، تقدیر کو کوسنا وغیرہ مومن کا شعار نہیں ہے۔ بلکہ عین امتحان ہے کہ ہم کس حد تک صبر سے کام لیتے ہیں اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے کیونکہ یہ دنیا اور اس دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے۔ یہ تو مستقل امتحان گاہ ہے۔ ہمیں اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے صبر اور شکر کا دامن تھام کر چلنا ہے۔ تبھی ہم آخرت میں کامیابی حاصل کرسکیں گے۔ جہاں کی زندگی لازوال ہوگی، کبھی ختم نہ ہوگی۔
اللہ رب العزت نے ہمیں صبر وشکر، ایسے ہتھیاردیے ہیں، جو ہمیں مایوسی، نامرادی، مصیبت وپریشانی میں رہنمائی دیتے ہیں اور خوشحالی وکامیابی پر شکر بجالانے کا حوصلہ بھی۔ ویسے بھی مایوسی کفر ہے۔ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اور زندگی کے ہر مرحلے میں صبر و شکر سے کام لیتا ہے۔
——