صبر و استقامت

تحریر: امل عبدالستار عربی سے ترجمہ: روید خان، علی گڑھ

زندگی کے دباؤ کو برداشت کرتے کرتے ہم ٹوٹ جاتے ہیں اور ہمارے جذبات و احساسات میں منفی پہلو نمایاں ہونے لگتا ہے، دوسروں کے ساتھ ہمارے رد عمل اور طرز معاشرت میں فرق آجاتا ہے بالآخر ہم پوری طرح سے بکھر جاتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس طرح سے صبر و استقامت کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں اور زندگی کی ناختم ہونے والی الجھنوں اور دباؤ سے کیسے نمٹنے کی کوشش کریں؟
صحیح معنوں میں ہمیں اپنے خالق و مالک اللہ تعالی سے صبر و استقامت کا سوال کرتے رہنا چاہیے ۔مشہور ماہر نفسیات کوباز [kobasa] نے ۱۹۷۹ میں psychological hardiness[صبر و استقامت ] کی اصطلاح اپنے ڈاکٹریٹ کے پہلے مقالے میں لوگوں کے سامنے اجاگر کی لیکن اسلام میں اس بات کی بہت پہلے وضاحت کی جاچکی ہے ۔
جو شخص بھی صبر و استقامت کے دامن کو تھامے گا وہ اللہ کا مقرب بندہ بن جائے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ لقمان میں بیان کیا ہے: يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوف وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ[لقمان: ۱۷]
اے میرے بیٹے!نماز کا اہتمام رکھو،بھلائی کا حکم دو،برائی سے روکواور جو مصیبت تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو،بے شک یہ باتیں عزیمت کے کاموں میں سے ہیں۔
ہمارے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک بہترین مثال کی شکل میں موجود ہے ۔آپ کو جوامع الکلم سے نوازا گیا تھا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اِنَّ رَجُلًا قَالَ للنَّبِيِّ ﷺ: أَوْصِني، قَالَ: لا تَغْضَبْ، فَرَدَّدَ مِرَارًا قَالَ: لا تَغْضَبْ (البخاري )
ایک آدمی نے آپ سے کہا کہ مجھے کوئی وصیت کریں ؛ آپ نے فرمایا غصہ نہ کرو ؛پھر اس نے بار بار یہی سوال کیا اورہر مرتبہ آپ کا جواب یہی تھا کہ غصہ نہ کرو ۔
ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ ’’ایک آدمی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول مجھے ایسا کام بتا دیجیے جو مجھے جنت تک لے جائے ، آپ نے فرمایا : غصہ نہ کرنا جنت تمہارے لیےیقینی ہے ۔
انسان غصہ کے وقت صبر و استقامت کے ذریعہ خود پر قابو پاسکتا ہے ۔صبر و استقامت ایسی طاقت ہے جو غصہ کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اس کی وجہ سے انسان اپنے جذبات کو قابو میں رکھ سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ انسان کے پاس دفاعی قوت اور مضبوط نفس ہوتا ہے جن کی مدد سے وہ پریشانیوں اور مصیبتوں کو چیلنج کرسکتا ہے ۔وہ اپنے آپ کو ناموافق حالات میں ڈھالنے کی سکت رکھتا ہے اور خودی کو پہچان لیتا ہے اسی طرح وہ اپنی قناعت پسندی سے واقف ہوجاتا ہے جو اس کی سوچ اور طرز عمل پر کنٹرول کرنے میں فعال کردار ادا کرتی ہے ۔
انسان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس زندگی میں کوئی ایسا مقصد ہو جس کو وہ ہر حال میں ترجیح دیتاہو۔ انسان کو دوسروں کی نگرانی کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے ۔
حالات کو قبول نہ کرنا ہی ہم سے صبر و استقامت کا دامن چھڑواتا ہے مثلا :خاندانی تعلقات ،والدین کا اس بات پر ناراض ہوجانا کہ ان کی اولاد نے ان سے پوچھے بغیر شادی کرلی، اس وجہ سے والدین نفسیاتی کمزوری اور اندورنی گھٹن کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن جلد ہی ان کا غصہ سکون و اطمینان میں بدل جاتا ہے اور وہ صبر و استقامت کا دامن تھام لیتے ہیں ،وہ اس بات کا ادراک کرلیتے ہیں کہ زندگی کی تنگیاں اور اس کے بوجھ نے ہماری اولاد کو اپنے گرفت میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے انھوں نے بغیر قصد و ارادہ کے اس طرح کا کام انجام دیا ۔
جو چیزیں ہماری نفسیاتی مضبوطی کا باعث بن سکتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم افراد واشخاص پر مطلق کسی چیز کا حکم لگانے اور منفی رجحانات کو ان کی طرف منسوب کرنے سے گریز کریں۔
دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے درمیان کچھ حدبندیاں مقرر کردی جائیں ،جن میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہ ہو ،نیز یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے لیےامکانات اور اپنی مخفی صلاحیتوں کا پتہ لگائیں اور بہتر سے بہتر طریقے سے اس کا استعمال کریں۔ اسی طرح حقیقی شعور کی بدولت انسان اس دنیوی زندگی میں ہر ناکامی کا سامنا کرسکتا ہے ، ناکامی کے تئیں انسان کو اپنا نقطہ نظر بدلنے کی ضرورت ہے ،دنیا کا کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کو ناکامی پسند ہو بلکہ ہر شخص کامیابی کی تمنا کرتے ہوئے اس کے لیے کوشش کرتا ہے اور اس کی تاک میں لگا رہتا ہے۔لیکن حقیقت میں ہمیں ناکامی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا اور اس قابل بننا ہوگا کہ ناکامی کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے۔ ہم جان لیں کہ ناکامی ہی در اصل کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اور فطرت کا ناقابل فراموش جز ہے ۔
انسان کو اپنی زندگی میں ناکامی کا مزہ تو چکھنا ہی چاہیے ۔البتہ کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ۔
انسان کے پاس ایسی قوت ہونی ضروری ہے جس سے وہ سنگین حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے اور یہ مان کر چلنا چاہئے کہ حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ جب انسان ناممکنات میں تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فطرت کا زناٹے دار طمانچہ اس کے رخسار پر پڑتا ہے اور پھروہ تبدیلی کو فطرت کا اصول سمجھ کر قبول کرلیتا ہے اور اسی میں اپنا فائدہ سمجھتا ہے ۔ جب انسان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو خود کو دھوکے میں رکھنے کے بجائے اپنی لغزش کا اعتراف کرلینا چاہیے کیونکہ تمام اولاد آدم خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں ۔ صبر و استقامت کا دامن تھامے رہنے کے لیے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹانا ضروری ہے ۔
جب انسان دشواریوں کے چپیٹ میں آجائے اور مصائب و آلام کا اس کے اوپر پہاڑ ٹوٹ پڑے تو اس کو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ یہی حالات اس کے اندر مضبوطی و استحکام پیدا کریں گے اور اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ممد و معان ثابت ہوں گے۔ انہی کی بدولت وہ حکمت،تقوی اور ایمان کا پیکربنے گا۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب انسان تمام لوگوں کی پرواہ کرنا بند کردے ۔ اگر انسان لوگوں کو خوش کرنے میں لگ گیا تو یوں سمجھوں کہ وہ سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے، جو لاحاصل ہے ۔ہر وقت لوگوں کی رضا طلب کرنے میں لگے رہنا انسان کے خوف، ہچکچاہٹ اور کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔
کہنے کا مقصود ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسان انا پرستی کا شکار بن کر باہمی تعامل سے صرف نظر کرےاور لوگوں کے احساس کو بالائے طاق رکھ کر بالکل بے پرواہ ہوجائے؛ بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان لوگوں کو راضی کرنے کے بجائے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور لوگوں کے ساتھ اچھے طرز عمل سے پیش آئے، خود پر ظلم نہ کرے اور اپنے آپ کو ابن الوقتی سے بچائے، جو لوگوں کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ، لوگ اگر اچھائی کرتے ہیں تو وہ بھی اچھائی کرتا ہے اور اگر لوگ برائی کرتے ہیں تو وہ بھی برائی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیےکہ وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور اگر لوگ برائی کرنے پر آمادہ ہیں تو وہ لوگوں سے کنارہ کش ہوجائے ۔ یہی ہمارے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ لوگوں کی تعمیری تنقید کو قبول کرنا چاہیے اور تخریبی تنقید سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔
سب سے پسندیدہ اور محبوب عمل اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنا ہے۔ جب آپ اللہ پر حسن ظن اور پختہ یقین رکھیں گے تب آپ کو یقین ہوجائے گا کہ مصائب و آلام کے بعد سکون و چین کا وقت آتا ہے اور تنگی کے بعد فراخی کا دور آتا ہے ؛ تھکن اور گھٹن کے بعد راحت و کامیابی آتی ہے ۔ غم و حزن کے بعد فرحت و بشاشت آتی ہے ؛ بیماری کے بعد صحت و شفا ہے اور اس دار فانی کے بعد ابدی جنت ہے ؛ جس کی چوڑائی زمین و آسمان ہے ۔ ہم آپ کو تقوی اور ایمان کی ڈھیر ساری مبارک باد پیش کرتے ہیں کیونکہ صبر و استقامت کے اصل معنی یہی ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں