صبر و تحمل بہ مقابلہ شدت پسندی(کرناٹک حجاب تنازعہ پر گراؤنڈ رپورٹ)

محمد عبد اللہ جاوید

حالیہ دنوں میں کرناٹکا کے شہر اڑپی سے اٹھا جحاب ایشو ‘کئی پہلوؤں سے جائزہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس مسئلہ کی نوعیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ شروع ہی سے احتیاط اور حکمت عملی کے پہلو دبے رہے۔ معاملہ صرف ایک کالج اور چند لڑکیوں تک محدود تھا‘ لیکن اب یہ ریاست کی حدوں کو پار کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض تک پہنچ گیا۔

کرناٹکا کا ساحلی علاقہ

اس مسئلہ کے ابھرنے کی اصل وجوہات جاننے کے لئے ریاست کرناٹکا کے ساحلی علاقہ پر نظر ڈالیں۔ ریاست کے دیگر مقامات کی بہ نسبت اس علاقہ کے بیشتر مقامات پر نفرت وتعصب کے کافی نمایاں اثرات محسوس کئے جاتے ہیں۔اس کی کئی تاریخی‘ تہذیبی اور سیاسی وجوہات ہیں ۔ایک وجہ یہاں کے مسلمانوں کا آبادی کے لحاظ سے کم ہونے کے باوجود دینی‘ معاشی اور تعلیمی اعتبارات سے نمایاں ہونا کافی اہم ہے۔یہاں کے مسلمانوں نے سخت حالات کے باوجود اپنی ملی وتہذیبی شناخت باقی رکھی ہے جو پوری آب وتاب کے ساتھ ہر سونظر آتی ہے۔لہٰذا اس علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والے واقعات کبھی کبھار پیش آتے رہتے ہیں۔علاقہ کی اس سنگین صورت حال کے پیش نظر ‘ ملت کے بعض طبقے میں جذباتیت اور شدت پسندی کے رجحانات کو بڑھنے سے روکا نہیں جاسکا۔حجاب کےایک معمولی سے مسئلہ کو بین الاقوامی بنانے میں ہماری اسی جذباتیت اور سطحیت کا دخل معلوم ہوتاہے۔

حجاب مسئلہ کی ابتدا

ضلع اڑپی کے سرکاری پی یو کالج(بارہویں جماعت) میں تقریباً ایک ہزار کی تعداد میں لڑکیاں زیر تعلیم ہیں ۔جن میںتقریباًسو مسلم لڑکیاں ہیں۔ ان میں کی بیشتر لڑکیاں ‘ان مزدوروں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی ہیں جو ‘شمالی کرناٹکا سے یہاں نقل مکانی کرکے آئے ہیں۔ اس کالج میں لڑکیاں کبھی حجاب پہن کر نہیں رہا کرتیں تھیں۔اور کالج کے اندر حجاب پہننے کاکبھی کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ہوا یوں کہ حال ہی میں دائیں بازو والوں کی طلبہ تنظیم کی جانب سے ایک معاشرتی مسئلہ پر دھرنا کا اہتمام کیا گیا۔اس میں بعض مسلم لڑکیاں ، شامل ہوئیں۔ بعد میں اس دھرنے کی شائع شدہ تصویر کو لے کر ہنگامہ کھڑا ہوا۔شاید اس تنظیم کی جانب سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلم لڑکیاں بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اس مسئلہ کو بعض مسلم نوجوانوںنے کافی سنجیدگی سے لیا اور مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کالج جانے کے لئے آمادہ کیا۔ جب خلاف معمول باحجاب لڑکیاں نظر آئیں تو کالج ڈیلپمنٹ کمیٹی (سی ڈی سی)نے اس پر اعتراض جتایا اور کالج ڈریس کوڈ کے مطابق، ڈریس زیب تن کرنے کی ہدایت کی،البتہ یہ واضح کردیا کہ لڑکیاں جحاب پہن کر کالج میں داخل ہوسکتی ہیں اورکلاس میں بیٹھ بھی سکتی ہیں، لیکن اگر دوران کلاس کسی استاد کو اعتراض ہو تو جحاب نکالنا پڑے گا۔ اس پر کچھ لڑکیاں آمادہ ہوئیں اور کچھ لڑکیوں نے انکا ر کردیا اور اپنا احتجاج درج کرایا۔ بعض نوجوانوں کی مدد سے کالج انتظامیہ سے بات کرائی‘ جو حکمت اور حالات کی نزاکت کاخیال نہ رکھنے کی وجہ سے فرقہ واریت کی نظر ہوگئی۔ جب حجاب کا مسئلہ زور پکڑ چکا ‘تو تمام علمائے کرام کی نگرانی میں شہر کی ملی تنظیموں اور سرکردہ افراد کی نشست منعقد ہوئی تاکہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں کوئی متفقہ فیصلہ لیں اور اس کو زیادہ طول پکڑنے نہ دیں۔ اس نشست میں متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ سی ڈی سی کے فیصلے کے مطابق مسلم لڑکیاں حجاب کے ساتھ کالج جائیں اور اگر کوئی استاد کلاس میں حجاب نکالنے کو کہتا ہے تو بحالت مجبوری ایسا کیا جاسکتا ہے۔

سنگینی کی وجوہات

حجاب مسئلہ کو لے کر پہلے ایک سیاسی پارٹی کی طلبہ تنظیم نے عدالت سے رجوع کیا۔اس کے بعد بڑی ہی عجلت پسندی سے کام لیتے ہوئے ہماری جانب سے بھی معاملہ کو عدالت تک پہنچادیاگیا، لیکن افسوس کہ عدالت میں اپنے موقف کی پرزور وکالت کے لئے کما حقہ کوشش نہیں ہوسکی۔جب حجاب کا مسئلہ بڑھتا گیا تو سخت گیر تنظیموں سے وابستہ نوجوانوں نے بھی بھگوا رنگ کی شال پہن کر مظاہرہ شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اڑپی ضلع کے کئی مقامات پر بڑے اشتعال انگیز نعروں کے ساتھ پرزور مظاہرے ہونے لگے اورحجاب کا مسئلہ اڑپی کے ایک کالج اور چند لڑکیوں کی حد سے پار ہوتا ہوا ملک اور بیرون ملک کی سرحدوں تک پہنچ گیا۔اگر مسلمانوں کے نمائندہ وفاق مسلم وکوٹا (اتحاد) کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد پر توجہ دی جاتی تو صورت حال بڑی حد تک قابو میں رہ سکتی تھی ۔اس قرارداد میں مسلمانان اڑپی ضلع کا کیا موقف اورکردار ہونا چاہئے ‘ بخوبی واضح کیا گیا تھا اور ساتھ ہی آئین ہند کے مطابق برسرکار سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ان کے تعمیری کردار پر بھی متوجہ کیا گیا تھا۔
اس پورے واقعہ میں ہماری جذباتیت اورخلاف حکمت رد عمل کے علاوہ سخت گیر تنظیموں کی جانب سے موقع کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا فن ظاہر ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جذباتی ماحول کا فروغ دراصل ان کے عزائم کی تکمیل کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔

شدت پسندی کی وجوہات

حجاب کا مسئلہ ‘ اس لئے سنگین رخ اختیار کرگیا کیونکہ اس کو صرف شرعی نقطہ نگاہ سے دیکھا گیا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مسئلہ کو سی ڈی سی کے طے شدہ ڈریس کوڈ کی نگاہ سے دیکھاجاتا۔ بھارت جیسے مخلوط سماج میں ہم کو کس حد تک اسلامی شعائر سے سمجھوتا کرنا پڑسکتا ہے‘ اس کا صحیح علم وشعور ہونا چاہئے۔غالباً اڑپی میں منعقدہ علمائے کرام کی نشست میں لیا گیا فیصلہ ‘عین حکمت کے مطابق تھا‘ جس کی بہرحال پاسداری نہیں کی جاسکی۔
جہاں تک سخت گیر تنظیموں کی جانب سے جذباتیت اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی دانستہ کوششوںکا تعلق ہے‘ اس ضمن میں بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ جب انسان اپنی اصل بھول جاتا ہے تو اس کا عمل‘سوائے تخریب کے کسی اور امر پر منتج نہیں ہوتا لہٰذا ان کو تخریبی کاموں سے دوری کا درس دیتے ہوئے‘ مقصد زندگی اور خالق کی بندگی پران سے کھل کرگفتگو کا ماحول بنانا چاہئےاور مختلف انسانی مسائل کے حل کے لئے باہم اشتراک و تعاون کی فضا ہموار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

مسئلہ کو ہوا دینے والے عوامل:

(1) حجاب کے مسئلہ کو شریعت کی خلاف ورزی سمجھنے کی بجائے‘ مخلوط سماج میں رہنے کے تقاضوں کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اس صور ت میں بحالت مجبوری سمجھوتا کرنے پر آمادگی ممکن ہوسکتی تھی۔جیسا کہ ہم بحیثیت بھارتی شہری ‘مختلف سیاسی ‘سماجی اور معاشی معاملات میں کرتے آرہے ہیں۔ چاہے بات سود پر مبنی بینکوں میں رقم جمع کرنے کی ہو یا سود ی لین دین کی بنیاد پر ہورہی تجارت سے استفادہ کا معاملہ ہو۔
(2) علمائے کرام کے متفقہ فیصلہ پر عمل نہ کرنااور مسلم وکوٹا کی جانب سے جاری کردہ رہنما خطوط پر خاطر خواہ توجہ نہ دینا ۔
(3) مسئلہ کو مقامی اور ایک کالج کی حدود میں حل کرنے کی بجائے ‘ انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام کرتے ہوئے اس کو عدالت تک لے جانا۔
(4) ملی مسائل میں ‘ متفقہ فیصلوں پر توجہ کرنے کی بجائے‘ جذباتی اور سطحی رخ اختیار کرنا۔
لمحہ فکریہ
(1) ہمارے مخلوط سماج میں ‘اکثریت کی اکثریت اچھی ہونے کے باوجود ‘ اس کی اقلیت سے کافی نقصان پہنچا ہے۔اس میں ہماری جذباتیت اور سطحیت کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ بحیثیت امت محمدیہﷺ ہم کو تمام انسانوں کے لئے رحمت ہونا چاہئے۔ اگر انسانوں کی راہنمائی کرنے والے افراد ہی انسانوں سے دور ہوں تو پھر‘ ان کی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا کیا؟ اللہ کے رسولﷺ نے اس مومن کو اچھا کہا ہے جو سب انسانوں سے مل کررہتا ہے اور ان کے تکلیف دینے پر صبر کرتا ہے‘بہ نسبت اس کے جو نہ انسانوں سے ملتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔(اَلَّذِي يُخَالِطُ اَلنَّاسَ,وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنْ اَلَّذِي لَا يُخَالِطُ اَلنَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ۔ترمذی)۔ سب کے ساتھ مل کر رہنے سے تکلیف ضرور پہنچے گی لیکن ‘اللہ واسطے صبر کرنا چاہئے۔
(2) ہر مسئلہ پر اقدام کرنا ضرور ی نہیں ہوتا۔بعض مسائل کا حل صبر کے ساتھ‘ تعمیری کاموں میں انفرادی اور اجتماعی حیثیتوں سے لگے رہنا ہوتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں اہل مکہ کی جانب سے جذبات اور دلوں کو ٹھیس پہنچانے والے کئی اقدامات کئے جاتے تھے (جیسے قرآن پڑھنے میں خلل ڈالنا: سورہ حم السجدہ آیت ۲۹۔آپﷺ کو جادوگر اور مجنون کہنا: سورہ الذاریات آیت ۵۲وغیرہ)۔اورظلم کی تو انہوں نے انتہا کردی تھی۔ صرف شعب ابی طالب کی گھاٹی میں تین سال حصار بندی اور واقعہ طائف کو دیکھ لیں۔لیکن ان میں سے کسی کا اللہ کے رسولﷺ نے نہ جوا ب دیا اور نہ ہی حضرات صحابہ کرامؓ نے اس جانب توجہ فرمائی۔بالکل یہی معاملہ بھارت میں ہمارا ہونا چاہئے کہ بڑے ہی باوقار انداز سے اسلام پر چلنا اور اس کی تعلیمات کی جانب لوگوں کو متوجہ کرنا ہم سب کا شیوہ ہو۔چاہے نادان کیسا ہی طوفان بدتمیزی کیوں نہ کھڑاکریں۔
(3) اور یہ بات بھی اچھی طرح اپنے آپ کو سمجھانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بڑی پسند یدہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جائے‘ اسلام سے عمل کے بغیر محض جذباتی لگائو کوئی کام نہیں دے گا۔لہذا جن لوگوں نے مسکان کے اللہ اکبر کہنے پر خوشیاں منائی ہیں‘ انہیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہے کہ جب موذن دن میں پانچ مرتبہ اللہ اکبر کی صد ا لگاتا ہے تو ان کی دلوں کی کیا کیفیت ہوتی ہے‘ کس حد تک وہ خوش ہوتے ہیں اور کس قدر تیزی کے ساتھ مسجد کی جانب قدم بڑھاتے ہیں؟
(4) اس جانب ہمارے ان نوجوانوں کو بطور خاص توجہ دینی چاہئے جن کے جذباتی اقدامات سے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں‘اور’’لمحوں نے خطا کی تھی‘ صدیوں نے سزا پائی‘‘ کے مصداق ان کے اقدامات قرار پاتے ہیں۔ اڑپی کے علمائے کرام اور باشعور طبقے کا یہ ماننا تھا کہ حجاب کے مسئلہ کو ایک کالج کی حد تک بحسن وخوبی حل کیا جاسکتا تھا‘ جس کے لیے کالج کا غیر مسلم انتظامیہ بھی بڑی حد تک تیار تھا‘لیکن یہ محض ہمارے نوجوانوں کی عجلت پسندی ہے جس کا خمیازہ آج اس صورت میں بھگتنا پڑا۔ اب معاملہ نے صرف چند لڑکیوں کی بجائے ملت کی ایک بڑی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لیاہے۔لہٰذاانہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ملت کا ایک حصہ ہیں‘ کل نہیں۔اس لئے کسی بھی اقدام سے پہلے ملت کے اجتماعی موقف کو جاننا اور اس کے ذمہ داران سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
(5) ہمارے ملک کی اکثریت خیر پسند واقع ہوئی ہے۔لہٰذا کسی بھی معاملہ میں احتجاج ہو یا جشن ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ یہاں کی اکثریت کو کوئی غلط پیغام جائے۔ شر پسندوں کی محدود حرکتوں کے بالمقابل ہمارا رویہ حدوں کو پار کرنے والا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔

کرنے کے کام

اس ملک میں نفرت اور تعصب کے تحت ہونے والے اقدامات کے پیش نظر ہمیں جذباتیت اور شدت پسندی کا راستہ اختیار کرنےکی بجائے ‘ دین کی اساس کے پیش نظر اختیار کئے جانے والے ملت کے اصولی موقف کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھارتی عوام کے لئے ہم کو راہنمائی ورہبری کا مقام عطا فرمایا ہے(سورہ آل عمران:آیت ۱۱۰) اس اہم ترین ذمہ داری کا احساس ہمیشہ دامن گیر رہنا چاہئے ‘تاکہ ہم میں سے ہر ایک فرد کا معاملہ رحمت اللعالمینﷺ کے شایان شان ‘ دلوں کو فتح کرنے والا ہو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں