یہ وہی نیک خاتون ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ فرعون کے محل میں زندگی بسر کررہی تھی، اس کا شوہر فرعون کا وزیر تھا اور وہ فرعون کی بیٹیوں کی خادمہ اور مربیہ تھی۔ اللہ نے ان دونو ںکو ایمان کی دولت سے نوازا تھا، فرعون کو اس کے شوہر کے ایمان کا علم ہوگیا اور اس نے اس کو قتل کرادیا۔ اس شہید کی بیوی فرعون کے محل میں کام کرتی رہی، وہ فرعون کی بیٹیوں کی خدمت کرتی اور اپنے پانچ بچوں کی پرورش کرتی۔ ایک دن وہ فرعون کی بیٹی کے بالوں میں کنگھا کررہی تھی، اچانک کنگھا اس کے ہاتھ سے گرپڑا۔ اس نے کہا بسم اللہ!
یہ سن کر فرعون کی بیٹی نے اس سے پوچھا: اللہ کون ہے؟ میرے والد؟
نیک خاتون بولی نہیں۔ اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارابھی اور تمہارے والد کا بھی رب ہے۔ فرعون کی بیٹی کو اس جواب سے تعجب ہوا کہ اس کے باپ کو چھوڑ کر وہ کسی اور کو اپنا رب بنارہی ہے۔ اس نے اپنے باپ (فرعون) کو اس سے باخبر کیا، تو فرعون کو بھی حیرت ہوئی کہ اس کی سلطنت ہی میں نہیں، بلکہ خود اس کے اپنے محل میں ایسا بھی کوئی ہے، جو اسے رب نہیںمانتا۔ بلکہ وہ کسی اور کی ربوبیت کے گن گاتا ہے۔ اس نے اس عورت کو بلوایا اور اس سے پوچھا تمہارا رب کون ہے؟ اس خاتون نے جواب دیا: میرا رب اور آپ کا رب اللہ ہے۔
فرعون نے اسے اپنے خیالات سے باز آنے کا حکم دیا، اس نے انکار کردیا، فرعون نے اسے قید میں ڈال دیا، اور اسے شدید اذیت دی، لیکن اس کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی تو فرعون نے ایک تانبے کا کڑھاؤ لانے کا حکم دیا۔ کڑھاؤ کو تیل سے بھرا گیا، پھر اس کے نیچے آگ جلا دی گئی۔ یہاں تک کہ کڑھاؤ کھولنے لگا ، اب فرعون نے خاتون کو کڑھاؤ کے سامنے کھڑا کیا، یہ دہکتی ہوئی آگ اور کھولتا ہوا تیل دیکھ کر اس کو یقین ہوگیا کہ اب دنیا میں وہ چند لمحے کی مہمان ہے، پھر وہ اپنے مولائے حقیقی سے جاملے گی۔
فرعون اس کی استقامت پر اور بھڑک اٹھا اور اس کے پانچوں بچوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ ان یتیم بچوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا جو اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھے، اور جن کے لیے وہ ساری مشقتیں جھیل رہی تھی۔
جب بچے حاضر کیے گئے تو وہ گھبرائے ہوئے تھے حالانکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ انھیں کہاں لے جایا جارہا ہے۔ جب بچوں نے اپنی ماں کو دیکھا تو اس سے لپٹ گئے۔ ماں نے انھیں بوسے دئے اور رونے لگی، پھر اس نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو سینے سے چمٹا لیا۔ جب فرعون نے یہ منظر دیکھا تو اس نے ان میں سے سب سے بڑے لڑکے کو لانے کا حکم دیا۔ سپاہی اسے گھسٹتے ہوئے کھولتے ہوئے تیل کی طرف لے گئے، لڑکا اپنی ماں کو چیخ چیخ کر پکارنے لگا۔ اور مدد طلب کرنے لگا، پھر فرعون سے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ اور چھوٹے بھائیوں کو پکارنے لگا۔ لیکن ظالم سپاہی اسے تھپڑ مارتے ہوئے لے جارہے تھے۔ جب کہ ثابت قدم ماں اپنے لختِ جگر کو نہایت بے بسی کے ساتھ دیکھ رہی تھی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے الوداع کہہ رہی تھی۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ بچے کو کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دیا گیا، اس کے بھائیوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھو ںسے اپنی آنکھیں ڈھانپ لیں۔ اس کے بے گناہ جسم سے گوشت غائب ہوگیا اور اس کی سفید ہڈیاں تیل کے اوپر ناچنے لگیں۔
اب فرعون دوبارہ اس خاتون کی طرف متوجہ ہوا، اور اسے اللہ کے ساتھ شرک کا حکم دیا، لیکن خدا پرست خاتون نے اب بھی انکار کردیا۔ فرعون کی غضب ناکی مزید بڑھ گئی۔ اور اس نے دوسرے بیٹے کو لانے کا حکم دیا۔ وہ بھی اپنی ماں کے پاس سے کھینچ لایا گیا اور کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دیا گیا۔ ماں اسے دیکھتی رہی یہاں تک کہ اس کی بھی ہڈیاں سفید ہوکر اوپر آگئیں اور اس کے بھائی کی ہڈیوں سے جاملیں۔
اب بھی ماں اپنے دین پر ثابت قدم تھی اور اسے اپنے رب سے ملاقات کا انتظار تھا۔
اس کے بعد فرعون نے تیسرے لڑکے کو تیل میں پھینکنے کا حکم دیا، اسے بھی کھولتے ہوئے تیل میں پھینک دیا گیا۔
اس کے بعد فرعون نے چوتھے لڑکے کو لانے کا حکم دیا، سپاہی اس کی طرف بڑھے، سپاہی کو آتے دیکھ کر بچے نے اپنی ماں کے کپڑے پکڑلیے اور چلانے لگا، جیسے ہی سپاہی نے اسے کھینچا وہ اپنی ماں کے قدموں پر گرپڑا، اس کے آنسو ماں کے قدموں پر ٹپک پڑے، ماں نے چاہا کہ اسے الوداع کہنے سے پہلے گود میں اٹھا کر اسے بوسہ دے، لیکن ظالم سپاہی بچے اور ماں کے درمیان حائل ہوگئے اور معصوم بچے کے نازک ہاتھوں کو پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ بچہ دہشت زدہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور نہ سمجھ میں آنے والے لفظوں میں کچھ کہہ رہا تھا۔ لیکن ظالموں نے اس معصوم پر ذرا بھی رحم نہ کیا اور اسے کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا۔
چند لمحوں میں وہ بھی اپنے بھائیوں سے جا ملا۔ ثابت قدم ماں ہڈیوں کو دیکھتی رہی اور صبر و عزیمت کا پیکر بنی رہی۔ کتنا زیادہ اس نے انھیں اپنے سینے سے لگائے رکھا تھا، کتنا زیادہ ان کے جاگنے پر جاگی، اور ان کے رونے پر روئی تھی، کتنی راتیں انھوں نے اپنی ماں کی آغوش میں بسر کی تھیں۔
آہ! اس وقت اس غم نصیب ماں کی کیا کیفیت رہی ہوگی، اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟
سپاہی اس پر پھر جھپٹے اور اس کے ہاتھوں سے پانچویں شیر خوار بچے کو بھی چھین لیا۔ بچہ چیخنے لگا، بے چاری ماں نے اب بھی اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔ وہ صبر وعزیمت کا پیکر بنی رہی۔ جب اللہ نے اس کی بے بسی اور بچے کے لیے اس کی تڑپ دیکھی، تو بچہ کو گویائی عطا کی، اور بچہ بول پڑا ’’اے ماں صبر کر، یقینا تو حق پر ہے۔‘‘ پھر اس کی آواز دورہوگئی، اور وہ اپنے بھائیوں سے جاملا۔ پانچوں بچے جا چکے تھے، اور ان کی ہڈیوں سے کڑھاؤ جوش ماررہا تھا۔ او ربیچاری ماں ان ہڈیوں کو دیکھ رہی تھی۔ اللہ اللہ کس کی ہڈیاں ہیں؟ یہ اس کے جگر کے ٹکڑے تھے، جو ایک مدت تک اس کے ساتھ گھر میں خوش اور مسرور تھے، جو اس کے کلیجے کی ٹھنڈک تھے، جو اس کی آنکھوں کا نور اور اس کے دل کا سرور تھے، وہ جب جب اس سے چھوٹے تو گویا اس کے سینے سے اس کا دل نکل نکل گیا۔
اس نے انھیں اپنے سینے سے لگایا تھا، اپنے ہاتھوں سے نہلا کر کپڑا پہنایا تھا، اپنی انگلیوں سے ان کے آنسو پونچھے تھے، اب انھیں اس کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا، اور اس کی نظروں کے سامنے کھولتے ہوئے کڑھاؤ میں ڈال دیا گیا۔
وہ فرعون سامنے شرک کے دو بول بول کرکے اس آزمائش سے چھٹکارا پاسکتی تھی، لیکن وہ جانتی تھی کہ جو اللہ کے پا س ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے۔
جب پانچوں بچے ٹھکانے لگ گئے تو وہ ظالم و جابر سپاہی خونخوار کتوں کی طرح اس مومن اور قانت ماں پر چھپٹ پڑے اور اسے بھی کڑھاؤ کے پاس لے گئے اس صابر خاتون نے فرعون کو مخاطب کیا، میری تم سے ایک درخواست ہے۔ فرعون نے پاگلوں کی طرح چیخ کر پوچھا: تمہاری کیا درخواست ہے؟
اس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیوں کو اکٹھا کرکے ایک ہی قبر میں دفن کردینا، پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، اب دوسرے ہی لمحے وہ کھولتے ہوئے تیل میں غوطے لگا رہی تھی۔
کتنا عظیم اس کا ثبات ہے، اور کتنا زیادہ اس کا ثواب ہے۔
نبی کریمﷺ نے معراج کی رات کچھ نعمتیں دیکھیں تو آپ ؐ نے اس کا ذکر صحابہ کرام سے کیا۔ اس سلسلے میں بیہقی نے آپؐ کی روایت کی ہے:
’’جب مجھے معراج کی سیر کرائی گئی تو میرے پاس نہایت عمدہ ہوا کا جھونکا آیا، میں نے پوچھا یہ خوشبو کیسی ہے، مجھے بتایا گیا: یہ فرعون کی بیٹی کے بالوں میں کنگھا کرنے والی خاتون اور اس کے بیٹوں کی خوشبو ہے۔