یہ واقعہ ایسے نوجوان کا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل سے خوب نوازا تھا۔ دولت وثروت کے آثار اس کی زندگی سے بھی نمایاں تھے۔ محل کی مانند گھر تھا، دو دو گاڑیاں ، دو نوکرانیاں تھیں اور آمدنی کا تو کوئی شمار ہی نہیں تھا۔ دولت کی اس ریل پیل سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اسے اپنے باپ کی وراثت سے زبردست مال ودولت اور پراپرٹی حاصل ہوئی ہے۔
لیکن دولت کی اس قدر فراوانی کے باوجود وہ انتہائی شکر گزار اور اللہ کی راہ میںخرچ کیا کرتا تھا۔ نماز روزے کا بھی پابند تھا اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر گھمنڈ بھی اس کی زندگی سے معلوم نہیں ہوتا تھا۔
تقریباً دس برس قبل اس کی شادی ہوئی تھی لیکن جیسا کہ مجھے معلوم تھا وہ اپنی شادی شدہ زندگی سے بہت زیادہ خوش نہیں تھا۔ایک روز اس نے مجھے فون کرکے کہا کہ وہ مجھ سے ایک معاملے میں مشورہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے عالی شان محل میں جانے سے بچنے کے لیے میں نے کہا کہ وہ میرے غریب خانے پر ہی آجائے یہیں بات ہوجائی گی۔
طے شدہ وقت سے کچھ پہلے ہی وہ نوجوان میرے گھر پہنچ گیا۔ جس وقت میں اسے اپنے مختصر سے گھر میں خوش آمدید کہہ رہا تھا میرے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا تھا کہ وہ مجھ سے کس معاملے میںمشورہ چاہتا ہے۔اگرچہ میرا اندازہ یہی تھا کہ وہ شادی کے معاملے میں ہی مجھ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔
حال چال معلوم کرنے اور خیریت دریافت کرنے کے بعد اس نے کہا کہ ’’ میں آپ سے ایک ایسے معاملے میں مشورہ طلب کرنے آیا ہوں جس کے سلسلے میں آپ کو کافی تجربہ بھی ہے اور آپ نے خواتین اور شادی شدہ زندگی سے متعلق اپنی کتابوں کے توسط سے اس پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ ‘‘
میںنے کہا کہ برادرم یہ تمھارا حسن ظن ہے ، خیر کہو کیا بات ہے میں تمھاری بات سننے کے لیے تیار ہوں۔
اس نے کہا: ’’یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ دس برس قبل میری شادی ہوئی تھی اور بیوی کے ساتھ جو میرے اختلافات چلے آرہے ہیں شاید ان سے بھی آپ اچھی طرح واقف ہیں۔‘‘ میں نے کہا : ’’ہاں ، مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میری زندگی اس کے ساتھ نہ صرف یہ کہ نبھ نہیں رہی ہے بلکہ بالکل اجیرن ہو کر رہ گئی ہے جس میں ذرا بھی…‘‘ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا: ’’اس کی ایسی کون سی بات ہے جوتمھیں ناپسند ہے؟
اس نے کہا: ’’ دیکھیے میں آپ سے بالکل کھل کربات کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ مجھے آپ پر بھروسا ہے کہ آپ مجھے بہتر مشورہ ہی دیں گے۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا:’’میری شادی ایک ایسی عورت سے ہوئی ہے جو بدصورت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی لڑاکااور بداخلاق بھی ہے۔ ہر وقت میری نگرانی کرتی رہتی ہے۔ اسے ہمیشہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں میں کسی دوسری عورت سے شادی نہ کرلوں… حالانکہ اسے کسی قسم کی کوئی دشواری نہیں ہے، روپے پیسوں کا ڈھیر ہمیشہ اس کے سامنے لگا رہتا ہے۔‘‘
کیا تم نے کبھی اس کے بداخلاق رویے اور جھگڑالو پن کو نرمی سے سلجھانے کی کوشش بھی کی ہے؟ میں نے اس سے پوچھاتو اس نے کہا : ’’کوئی فائدہ نہیں ہوا میں نے یہ کوشش بھی کر کے دیکھ لی ہے۔‘‘
کیا تم نے اللہ تعالی کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق بھی اسے نصیحت کرنے کی کوشش کی؟ اس نے کہا : ’’ میں نے اسے اپنے بستر سے الگ بھی کیا ، اسے مارا بھی لیکن ان ساری چیزوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔‘‘
تو اب کیا ارادہ ہے؟
’’ میں اسے طلاق دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘ اس نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس سے تمھیں اولاد بھی ہوئی ہے؟ اس نے کہا کہ چار بچے ہیں ، تین لڑکیاںاور ایک لڑکی۔میں نے پھر پوچھا : کیا تم نے ان کے مستقبل کے متعلق بھی غور کرلیا ہے؟
’’بڑے ہونے تک اپنی ماں کے ساتھ رہیں گے اور اس کے بعد میں انھیں اپنے ساتھ رکھوں گا۔‘‘ اس نے کہا۔
کیا تمھیں پورا بھروسا ہے کہ طلاق ہو جانے کے بعد وہ تمھاری عدم موجودگی میں بچوں کی دیکھ بھال کر سکے گی؟
’’بچوں کے تعلق سے اس کا رویہ بہت اچھا ہے اور ان کی تربیت وپرورش کے متعلق مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہے۔مجھے تو اس سے صرف اس رویے سے شکایت ہے جو اس نے میرے متعلق اختیار کررکھا ہے۔اس کا جو بھی حق نفقہ بنتا ہے میں وہ دینے کو تیار ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ دینے کو تیار ہوں۔‘‘
میں نے پھر پوچھا کہ تم تمام چیزیں خود طے کر ہی چکے ہو تو پھر مجھ سے کیا مشورہ چاہتے ہو؟
’’ آپ مجھے مشورہ دیں کہ اگر میں اسے طلاق دے دوں تو یہ اس پر ظلم تو نہیں ہوگا؟‘‘
میںنے کہا: تمھارا یہ مشورہ طلب کرنا ہی اس بات کا غماز ہے کہ تمھارا ارادہ نیک ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ تمھارے اندر اللہ کی خشیت اور اس کا ڈر موجود ہے۔اور یہ اللہ کا ڈر بھی اس بات پر نہیں کہ تم کوئی حرام کام کرنے جارہے ہو کیوں کہ طلاق ایک جائز کام ہے بلکہ تمھیں اللہ کا ڈر اس بات پر ہے کہ کہیں تم طلاق دے کر اپنی بیوی پر ظلم تو نہیں کررہے ہو۔ اور کیوں کہ یہ خوف تمھارے اندر موجود ہے اس لیے میں تمھارے اس سوال کا جواب نہ تو ’ہاں‘ میں دوں گا اور نہ ہی ’ناں‘ میں، بلکہ میں تم سے مزیدکچھ گفتگو کروں گاتاکہ تم خود ہی یہ فیصلہ کرسکو کہ تمھیں اپنی بیوی کو طلاق دے دینی چاہیے یا اسے اپنی بیوی بنا کر رکھنا چاہیے۔
اس نے کہا:’’ فرمایئے محترم ! میں آپ کے پاس آیا ہی اس لیے ہوں۔ تفصیل سے گفتگو ہوگی تو مجھے سکون حاصل ہوگا اور میرا دل کسی ایک بات پر مطمئن ہوجائے گا۔‘‘
میں نے کہا: تمھاری رہائش کیسی ہے؟
’’ آپ کا مطلب میرا گھر ؟‘‘ اس نے پوچھا تو میں نے کہا: ہاں۔ اس کے بعد اس نے کہا: ’’ محترم آپ تو جانتے ہیں میرے گھر (ویلا) میں زندگی کا ہر سامان آسائش مہیا ہے۔ میں نے اپنے گھر میں ہر چیز مہیا کر رکھی ہے… دو دو نوکرانیاں ہیں اور میری ذاتی کار کے علاوہ دو کاریں مزید ہیں۔‘‘
میں نے پوچھا: کھانا کس معیار کا کھایا جاتا ہے؟
بولا: ’’بہتر سے بہتر کھانا میسر ہے، ہم سارا کاسارا کھا بھی نہیں پاتے بہت سا کھانا کوڑے کی نذر کرنا پڑتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: برادرم شاید یہ بات تمھیں بھی معلوم ہو کہ لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جو چھت سے محروم ہیں اور وہ اسی پر صبر کرنے پر مجبور ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھیں بہترین گھر میسر نہیں ہے بلکہ ایک معمولی درجے کا صحت مند گھر بھی انھیں میسر نہیں ہے۔ان میں سے لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو مہاجر بن کر مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنھیں کیمپ کی زندگی بھی میسر نہیں ہے، ان کی استطاعت اتنی بھی نہیں ہے کہ کرایے کامکان ہی لے کر رہ سکیں، ان کے پاس اپنا گھر نہیں ہے کہ اس میں رہتے ہوئے شادی کرسکیں۔ نوجوان کا سر ذرا نیچے جھک گیا لیکن میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: لاکھوں مسلمان ایسے بھی ہیں جن کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ اپنی من مراد کی چیزیں خرید سکیں، یا اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی انھیں ہر قسم کے کھانے میسر نہیں ہیں، یا ان کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ انھیں محرومی ہی پر صبر کرنا پڑتا ہے۔‘‘ میں اتنا کہہ کر رکا تو نوجوان نے کہا: ’’ آپ کہتے رہیں میں آپ کی بات پوری توجہ سے سن رہا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: تمھارا کیا خیال ہے دعوت الی اللہ کے جس مشن سے تم وابستہ ہو اس کے لیے تمھیں پوری آزادی حاصل ہے؟
’’بے شک اور اس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہماری حکومت خود اسی کی بات کرتی ہے اور داعیان اسلام کو کام کرنے کی پوری پوری آزادی فراہم کرتی ہے۔ ‘‘
میں نے کہا: ’’دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں مسلمان اس آزادی سے محروم ہیں یہ بھی شاید تمھیں معلوم ہی ہوگااور جو آزادی اور سہولتیں ہمیں حاصل ہیں انہیں حاصل نہیں ہیں۔
اس نے کہا: ’’بالکل یہی بات ہے۔‘‘
میں نے کہا:وہ اپنی اس حالت پر صابر وشاکر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہے ۔
میری یہ باتیں سن کر اس نے پوچھا: ’’لیکن آپ کی اس بات کا میرے معاملے سے کیا تعلق ہے؟‘‘
میں نے کہا: لاکھو ںکروڑوں مسلمان نامناسب گھروں میں صبر کے ساتھ رہ رہے ہیںیا اس سے بھی محروم رہنے کے باوجود صبر کا دامن پکڑے ہوئے ہیں، قلت مال ، غربت وافلاس، ظالم حکمرانوں کے غلبے ، اپنے وطن سے نکال دیے جانے کے بعد اس سے محرومی پر صبر کیے بیٹھے ہیں۔اربوں نہ سہی لیکن کروڑوں مسلمان ان میں سے ایسے ہیں جو اپنے اس صبر وشکر پر اللہ تعالی سے اس اجر کے امیدوار ہیںجس کا وعدہ اللہ تعالی نے اپنے صابر بندوں کے لیے کر رکھا ہے۔لیکن تمھیں تو اللہ نے ہر چیز اور سامان آسائش مہیا کر رکھا ہے ۔تمھارے لیے ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جس پرتمھیںصبر کرنا پڑے اورصبر کے نتیجے میں اللہ سے اجر کی امید رکھ سکو؟
نوجوان خاموشی سے مجھے تکتا رہا جیسے وہ میری بات پر غور کر رہا ہو پھر اس طرح مسکرایا جیسے میری بات کا مطلب سمجھ گیا ہو: ’’میں اپنی بیوی کے رویے پر صبر کروں!‘‘ اس نے کہا۔
میں نے کہا اگر تم یہ سمجھو کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے تو اس صبر پر تمھیں ان شاء اللہ بہت اجر ملے گا۔میں تمھیں ایک قصہ سناتا ہوں جسے امام ابن قیم الجوزی نے اپنی کتاب صید الخاطر (اردو ترجمہ نفیس پھول) میں ذکر کیا ہے۔
’’جی سنائیے۔‘‘
میں نے قصہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک بار ابو عثمان نیساپوری سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک آپ کا سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: ’’میری جوانی کے دنوں میں میرے گھر کے لوگ میری شادی کردینا چاہتے تھے لیکن میں انکار کردیا کرتا تھا۔ایک روز ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ابو عثمان میں تمھیں چاہنے لگی ہوں اور اللہ کا واسطہ دے کر میں تم سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھ سے شادی کرلو۔ میں اس کے والد کے پاس گیا۔ اس کے والد ایک غریب آدمی تھے۔ انھوں نے خوشی خوشی اس کی شادی مجھ سے کردی۔شادی کے بعد جب میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ بھینگی اور لنگڑی ہونے کے ساتھ ساتھ بدصورت بھی ہے۔اس کی مجھ سے محبت کا یہ حال تھا کہ مجھے گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتی تھی۔ میں اس کا دل رکھنے کے لیے گھر میں ہی بیٹھا رہتا۔لیکن کبھی بھی میں نے اس کے تعلق سے نفرت یا بغض کا اظہار نہیں کیا۔پندرہ سال تک میرا رویہ اس کے تعلق سے ایسا ہی رہا یہاں تک کہ پندرہ سال بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ میرا یہ عمل کہ میں نے زندگی بھر اس کا دل رکھا میرے نزدیک میرا سب سے پسندیدہ عمل ہے۔
اس نے پوچھا: ’’ ابو عثمان نیساپوری کے اس صبر کو امام ابن قیم نے کس انداز سے بیان کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا: یہ کہ’’ یہ مردوں کی شان ہے۔‘‘
نوجوان نے کہا: سبحان اللہ۔ اس کے بعد میںنے اس کو مزید نصیحت کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے صبر پربہت اچھے اجر کا وعدہ کیا ہے۔یہاں تک کہ صبر پر ابھارنے والی آیات اور صابروں کی تعریف کرنے والی آیات کی تعداد ۹۰ سے بھی زیادہ ہے۔ کہو تو کچھ آیتیں پڑھ کر سنائوں؟ ’’جی ضرور ۔‘‘اس نے کہا۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار(الرعد: ۲۴)ولئن صبرتم لہو خیر للصابرین(النحل: ۱۲۶) الا الذین صبروا وعملوا الصالحات اولئک لہم مغفرۃ واجر کبیر(ہود: ۱۱) ولنجزین الذین صبروا اجرہم باحسن ما کانوا یعملون(النحل: ۹۶)انی جزیتم الیوم بما صبروا انہم ہم الفائزون(المومنون: ۱۱۱)
صبر سے متعلق اس طرح کی بے شمارآیتیں سننے کے بعد اس نے کہا: ’’ اگر چہ میں پابندی سے قرآن کی تلاوت کرتا ہوں ، اسے پڑھتا ہوںلیکن آپ نے جس طرح صبر سے متعلق تمام آیتیں یکجا کرکے سنائی ہیںاس سے صبر کی اہمیت اور اس کا مقام مجھ پر واضح ہوگیا اور یہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کا اجر بہت زیادہ رکھا ہے۔‘‘
میں نے کہا: کیا اب بھی تمھاری یہ آرزو نہیں ہے کہ صبر کرنے والوں کو جو اجر ملنا ہے اس میں سے تمھیں بھی کچھ حصہ ملے۔
اس نے کہا: ‘‘کیوں نہیں۔‘‘
میں نے کہا: تو پھر اللہ کا شکر اداکرو۔ اللہ تعالی نے تمھیں بہت اچھے گھر سے نوازا ہے اس لیے تمھیں اس سے محرومی پر صبر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے اس لیے غربت وافلاس پر صبر کی نعمت سے بھی تم محروم ہو۔دعوتی مشن پر عمل کرنے کی تمھیں پوری آزادی حاصل ہے اس لیے کسی ظالم حکمراں کے ظلم پر صبر کرنے کا موقع بھی تمھارے پاس نہیں ہے۔اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمھیں ایک عورت کے رویے پر صبر کرنے اور صبر کا اجرحاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔
اس نے کہا: ’’آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔‘‘
میں نے مزید کہا: اگر تم اپنی بیوی کو اس نظر سے دیکھوگے کہ وہ تمھارے لیے اجر کمانے کا ذریعہ بن رہی ہے کیوں کہ تمھیں اس کے رویے پر صبر کرنا پڑرہا ہے تو تم اس سے نفرت کرنے کے بجائے اسے چاہنے لگو گے، اس کی بداخلاقی سے تمھارا دل کبیدہ نہیں ہوگابلکہ ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات تم یہ چاہوکہ وہ تم سے جھگڑے۔
میری نصیحتیں سننے کے بعد اس نے کہا: ’’آپ نے میرے غموں کے بادل چھانٹ دیے اور میرے دل کو سکون فراہم کردیا ہے۔آج کے بعد سے میں اپنے دل سے اسے طلاق دینے کا خیال تک نکال دوں گا اور اللہ سے دعا کروں گا کہ اس معاملے میں میری مدد فرمائے۔‘‘
میں نے کہا: ایک بات اور خود کو اچھے کاموں میں ،رفاہی سرگرمیوں میں مصروف رکھو، اور بیوی سے جھگڑے کی نوبت کم سے کم آنے دو، کبھی بھی اسے طلاق کی دھمکی مت دینا، اور اسے بلا واسطہ طور پر یہ احساس دلاتے رہو کہ تم نے اپنے ہر کام کو آخرت پرچھوڑ دیا ہے اور تمھاری پوری زندگی آخرت سے وابستہ ہے۔ اس طرح وہ بھی تمھارے تعلق سے مطمئن ہوجائے گی اور اسے تم سے کسی قسم کا اندیشہ نہیں رہے گا۔
’’ اور یہ میرے بچوں کے لیے بھی بہتر رہے گا۔‘‘ اس نے کہا تو میں نے جواب دیا کہ اب تم پوری بات سمجھ گئے ہو۔خاص طور سے اس لیے بھی کہ اس کا رویہ بچوں کے تعلق سے بہت اچھا اورمثالی ہے اس لیے نہ تو بچوں کو اس سے دور کرنا مناسب ہے اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ بچے تم سے دور رہیں۔
آخر میں اس نے کہا :’’کیا میں آپ کے پاس آنے اور آپ سے مشورہ کرنے میں حق بہ جانب نہیں تھا؟ در اصل میں بھی یہی چاہتا تھاکہ کوئی ایسی ہی صورت نکل آئے۔ اللہ کے رسولﷺ نے سچ فرمایا ہے کہ ’’استخارہ کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا اور مشورہ کرنے والا کبھی نادم نہیں ہوتا۔‘‘
میںنے کہا: کاش تمام شوہر تمھاری طرح ہی ہوتے اور اتنی جلدی نصیحت قبول کرلیاکرتے ۔اس کے بعد اس نے کہا کہ غائبانے میں آپ مجھے اپنی دعائوں میں نہ بھولیںاور میرے لیے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالی مجھے اس فیصلے پر شرح صدر عطا کرے اور اس کو میری بیوی کے حق میں بھی بہتر فیصلہ بنائے۔
میں نے کہا: ان شاء اللہ۔
٭٭
شادی شدہ بہنوں سے!
’’مرد ہو تودے دو طلاق‘‘
بیوی نے اپنی طرف سے ایک ایسا میزائیل داغا جس نے شوہر کے پیمانۂ صبر کے پرخچے اڑا دیے اور اس کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔شوہر کے اندراب تک جو برداشت اور تحمل کا مادہ تھا وہ بالکل ختم ہوچکا تھا۔ بیوی کے میزائیل کے جواب میں اس نے بھی اپنا آخری میزائیل داغ دیا اور پوری قوت سے چیختے ہوئے کہا: ’’طلاق‘‘۔
اچانک میدان جنگ کا سارا شور تھم گیا۔ دونوں فریق کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور بیچاری بیوی پرتو جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ اگرچہ طلاق کا مطالبہ اس نے ہی کیا تھا لیکن شوہر کے اس طرح طلاق دے دینے پر وہ ایک دم بھونچکی رہ گئی۔اب اسے اپنے کیے پر ندامت کا احساس ہوا لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔
شادی شدہ بہنو! اس جملے سے پرہیز کیجیے بلکہ اسے اپنی ڈکشنری سے نکال دیجیے، مٹا ڈالیے اس جملے کو ، اسے کبھی بھی اپنی زبان پر مت آنے دیجیے۔ اس جملے یا اس طرح کے جملوں کو اپنے اوپرحرام کر لیجیے۔کیوں؟ اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے آج سے چودہ سوبرس پہلے ہی ان جملوں کو عورت کے لیے حرام قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’جو عورت بلا خوف اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس کے لیے جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔‘‘(احمد ، ابو دائود، ابن ماجہ، ترمذی، ابن حبان اور حاکم)۔آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ یہ عبارت آپ کو جنت کی خوشبو سے بھی محروم کردے گی۔ کیا یہ جملہ واقعی ایسا نہیں ہے کہ اس کے استعمال سے آپ پرہیز کریں۔
اور شادی شدہ بھائیو! جب آپ کی بیوی آپ کے سامنے چیخ کر یہ کہے کہ ’’مرد ہو تو دے دو طلاق‘‘ یا ’’ہمت ہے تو طلاق کیوں نہیں دے دیتے ‘‘تو آپ مسکرا دیجیے خواہ آپ کتنے ہی غصے میں ہوں اور اپنی بیوی سے کہیے کہ ’’میں مرد ہوں اس لیے تمھیں طلاق نہیں دوں گا۔‘‘
کیوں کہ طاقت ور مرد وہ ہے جسے غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو ہو، اور جب اس کی بیوی غصے میں ہو تو حلم وبردباری سے کام لے، وہ غضب ناک ہو جائے تو جواب میں غصہ دکھانے کے بجائے اس پر صبر کرے۔ اس سلسلے میں اسے اللہ کے رسول ﷺ کے اسوہ سے مدد لینی چاہیے۔
اب میں اپنی شادی شدہ بہنو ں سے ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں۔یہ ایک عورت کا واقعہ ہے جس نے تقریبا سات برس پہلے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ اسی عورت نے مجھے یہ بتایا کہ اب وہ دونوں اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ دوبارہ ایک دوسرے کے ہوجائیں۔ میں اس کوشش میں ہوں کہ اپنے شوہر کے پاس چلی جائوں اور میرے شوہر بھی یہ چاہتے ہیں کہ مجھے اپنے پاس بلا لیں۔میں نے اس عورت سے علیحدگی کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا: ’’میں خود ہی علیحدگی کا سبب تھی۔میں بات بات پر اس سے طلاق کا مطالبہ کرتی تھی۔ لیکن اب مجھے اپنے اس رویے پر سخت ندامت ہوتی ہے۔ کاش میں نے ان سے طلاق کا مطالبہ نہ کیا ہوتاتو میری زندگی کے سات برس ضائع نہ ہوتے۔‘‘ جس وقت یہ عورت اپنی بات مجھے بتا رہی تھی اس کی آواز رندھی ہوئی تھی اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ کاش ہر عورت اس کی اس بات کو سن سکتی اور اس سے سبق لینے کی کوشش کرتی۔