اسلام نے علم کی غیر معمولی فضیلت بیان کی ہے اور تحصیلِ علم پر بہت زور دیا ہے۔ اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے اس کی تاکید کی ہے۔ اس ترغیب و تشویق کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کی قوم، جس کی شانِ امتیاز ’ امّیت‘ تھی،جو علم و ثقافت سے کوسوں دور تھی اور جس میں پڑھنالکھنا جاننے والے افراد انگلیوں پر گنے جاتے تھے،اس میں علم کا زبردست چرچا ہونے لگا،مختلف علوم و فنون کی سرپرستی کی گئی اور بہت سے نئے علوم و فنون وجود میں آئے۔تعلیم کا زبردست فروغ ہوا، یہاں تک کہ غلام اور باندیاں بھی زیورِ علم سے آراستہ ہونے لگے۔
اسلام پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس نے عورتوں کو میدانِ علم سے دور رکھا ہے۔ وہ انھیں گھر کی چار دیواری میں محبوس رکھتا اور سماج میں سرگرم کردار ادا کرنے سے روکتا ہے۔وہ مردوں اور عورتوں کو اختلاط سے سختی سے منع کرتا ہے، جس کی بنا پرعورتیں علمی میدان میں مردوں سے استفادہ کرنے سے محروم اور انھیں علمی فیض پہنچانے سے قاصر رہتی ہیں۔مسلمانوں کے دور ِ زوال میں ان کی عورتوں کی حالت ِ زار خواہ اس اعتراض کو حق بہ جانب قرار دیتی ہو، لیکن قرونِ اولیٰ میں مسلم سماج میں عورتوں کوجو مقام و مرتبہ حاصل تھا اس سے اس اعتراض کی کلّی تردید ہوتی ہے۔ عہدِ نبوی میں مرد حضرات اور خواتین دونوں تحصیلِ علم اور استفادہ و افادہ کے میدان سر گرم نظر آتے ہیں۔
علم حاصل کرنے کا شوق
صحابۂ کرام کی طرح صحابیات بھی تحصیلِ علم کا بہت شوق رکھتی تھیں۔ اس کا اندازہ حضرت عائشہؓ کے اس بیان سے بہ خوبی ہوتا ہے:’’رسول اللہ ﷺ کے عہد میں کوئی آیت نازل ہوتی تو ہم اس میں بتائے ہوئے حلال و حرام اور امر و نہی کو حفظ کر لیتے، گواس کے الفاظ کو ازبر نہ کریں‘‘(العقد الفرید:۲؍۲۳۹)
تحصیلِ علم کی نبوی ترغیب
علم کا حصول صرف زبانی طور پر کافی نہیں ہے، بلکہ کتابی علم یعنی پڑھنا لکھنا جاننا بھی ضروری ہے۔اللہ کے رسول ﷺ خواتین کو اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ حضرت شفاء بنت عبد اللہ ؓ مشہور صحابیہ ہیں۔وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ بیان کرتی ہیںکہ میں حضرت حفصہ ؓ کے پاس تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ کیا تم ان کو مرض ’ نملہ‘ کے علاج کا طریقہ نہیں سکھاؤ گی، جیسے تم نے انھیں لکھنا سکھا دیا ہے۔‘‘(ابو داؤد:۳۸۸۷)
رسول اللہ ﷺ سے بہ راہ راست استفادہ
صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ سے دینی مسائل معلوم کرنے کے بہت شائق رہتے تھے۔انھوں نے آپ ؐ سے جو رہ نمائی حاصل کی اسے دوسروں تک پہنچایا۔صحابیات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں تھیں۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عورتوں نے رسول اللہﷺ تک اپنی یہ شکایت پہنچائی کہ مرد حضرات آپؐ کو ہر وقت گھیرے رہتے ہیں ، جس کی بنا پر ہم عورتوں کو آپ سے ٹھیک سے استفادہ کا موقع نہیں مل پاتا ۔آپ ہمارے لیے ایک دن خاص کر دیجیے۔آپ نے اس کا وعدہ کرلیا ۔ان کے لیے دن اور مقام طے کردیا ۔ اس دن متعین مقام پرعورتیں اکٹھا ہوئیں ۔ آپ وہاں تشریف لے گئے اور ان کو دین کی باتیں بتائیں۔( بخاری: ۱۰۱)
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات کے ذہن میں جب بھی کوئی اشکال پیدا ہوتا وہ فوراً آپ سے اس کی وضاحت کر والیتی تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سُلَیم ؓ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا: اگر عورت خواب میں جنسی لذّت محسوس کرے تو کیا اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ہاں، بشرطے کہ اس کو احتلام ہو۔ اس پرام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے پوچھا: کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟آپؐ نے فرمایا:’’ ہاں! پھر کیسے بچہ اس سے مشابہ ہوتا ہے؟‘‘(بخاری: ۱۳۰،مسلم:۳۱۳)
رسول اللہ ﷺ سے استفادہ کے معاملے میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سب سے آگے تھیں۔ ان کے ذہن میں جو بھی اشکال پیدا ہوتا وہ فوراً آپ ؐ کے سامنے اس کا اظہار کرتیں اور آپؐ اس کی وضاحت فرمادیتے۔ کتب احادیث سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:مَن حُوسِبَ عُذِّبَ( روزِ قیامت جس کا حساب لیا گیا وہ گرفتارِ عذاب ہوگا۔) اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! قرآن میں تو کہا گیا ہے: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا۸ۙ ( اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔)اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد اعمال کی پیشی ہے۔جس کے اعمال میں جرح شروع ہو گئی وہ توہلاک ہوگیا۔‘‘ (بخاری:۱۰۳)
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے قرآن کی ایک آیت پڑھی:يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ۴۸ (ابراہیم:۴۸)[ڈراؤ انھیں اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔]پھر دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ!جب روزِ قیامت آسمان و زمین کچھ نہ ہوں گے تو لوگ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: پلِ صراط پر( ترمذی:۳۱۲۱)
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے قرآن کی ایک آیت پڑھی:وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰى رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ۶۰ۙ (المومنون:۶۰) [اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے] پھر اللہ کے رسولﷺ سے دریافت کیا: کیا اس سے مراد وہ چور، بدکار اور شرابی ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: نہیں، اے عائشہ! اس سے مراد وہ نماز پڑھنے والا، روزہ رکھنے والا اور زکوٰۃ دینے والا ہے، جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ (ترمذی:۳۱۷۵)
علم کی اشاعت
تبلیغ ِ دین اور اشاعتِ قرآن و سنت کی قرآنی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے صحابیات نے علمِ حدیث کی اشاعت کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا۔تاریخِ تدوین حدیث کے ماہرین نے روایت ِ حدیث کے اعتبار سے صحابہ کے پانچ طبقات قرار دیے ہیں:طبقۂ اول میں وہ صحابہ ہیں جنھوں نے ایک ہزار سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔طبقۂ دوم میں ان صحابہ کا شمار ہوتا ہے جنھوں نے پانچ سوسے زائد احادیث روایت کی ہیں۔ طبقۂ سوم میں وہ صحابہ ہیں جنھوں نے سو سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔طبقۂ چہارم میںان صحابہ کو رکھا گیا ہے جن کی روایات چالیس سے زائد، لیکن سو سے کم ہیں۔طبقۂ پنجم میں وہ صحابہ ہیں جن کی روایات چالیس سے کم ہیں۔امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ کا شمار طبقۂ اول میں،حضرت ام سلمہؓ کا شمار طبقۂ سوم میں اورحضرت حفصہ ؓ، حضرت ام حبیبہ ؓ ،حضرت جویریہؓاور حضرت میمونہ ؓکا شمار طبقۂ چہارم میں کیا گیا ہے۔ امہات المومنین کے علاوہ حضرت لبابہ بنت الحارثؓ، حضرت ام ہانی بنت ابی طالب ؓ، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ،حضرت خولہ بنت حکیم ؓ اورحضرت ام عطیہ نُسیبہ بنت کعبؓ سے بھی بہت سی احادیث مروی ہیں،جنھیں ان سے روایت کرنے والے بہت سے مرد ہیں اور خواتین بھی۔
فقہ و فتاویٰ کے میدان میں بھی متعدد صحابیات ممتاز تھیں۔ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے:’’رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں جن لوگوں کے فتاویٰ محفوظ ہیں ان کی تعداد ایک سو تیس(۱۳۰) سے کچھ زائد ہے۔ ان میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ ان میں سات ایسے ہیں جن کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ ان میں حضرت عائشہؓ بھی شامل ہیں۔ دوسرے طبقے میں حضرت ام سلمہؓ ہیں۔ تیسرے طبقے میںحضرت حفصہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت میمونہؓ،حضرت ام عطیہؓ، حضرت اسماءؓ، حضرت لیلیٰ بنت قاسمؓ، حضرت ام شریک خولاءؓ بنت تویت، حضرت عاتکہ بنت زیدؓ، حضرت ام درداءؓ، حضرت سہلہ بنت سہلؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت زینب بنت ابی سلمہؓ،حضرت فاطمہ بنت قیسؓاور حضرت ام ایمن ؓ کا شمار ہوتا ہے۔(اعلام الموقّعین:۱؍۱۰۔۱۲)
علم و فضل کے معاملے میں بعض صحابیات اونچے مقام پر فائز تھیں۔خاص طور پر امہات المؤمنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کا علمی مقام بہت بلند تھا۔حضرت عائشہ ؓ کی حساب دانی کا یہ حال تھا کہ اکابرِ صحابہ ان سے میراث کے مسائل دریافت کرتے تھے۔ ( مستدرک حاکم:۴؍۳۵، حدیث:۲۳۳۵)حضرت ام سلمہ ؓ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ وہ انتہائی حسن کے ساتھ پختہ عقل اور اصابتِ رائے سے بھی متصف تھیں۔(الاصابۃ:۸؍۴۰۶)ان دونوں کے ذریعے امت کو بڑے پیمانے پر علمی فیض پہنچا۔علمی مسائل میں صحابۂ کرام کے درمیان اختلاف ہوتا یا انھیں کوئی الجھن درپیش ہوتی تو وہ ان کی طرف رجوع کرتے اور وہ اس سلسلے میں جو کچھ بیان کرتیں اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتے۔اس سلسلے کی چند مثالیں سطورِ ذیل میں پیشِ خدمت ہیں:
سعی بین الصفا و المروۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۰ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِہِمَا۰ۭ (البقرۃ:۱۵۸)[یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرلے۔]اس کے بارے میں حضرت عائشہؓ کے بھانجے عروہؒ نے ان سے سوال کیا: خالہ جان! اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص طواف نہ کرے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ انھوں نے جواب دیا: بھانجے! تم نے ٹھیک نہیں سمجھا۔ اگر مطلب وہ ہوتا جو تم سمجھے ہو تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ لَا يَّطَّوَّفَ بِہِمَا۰ۭ (اگر ان کا طواف نہ کرو تو کچھ حرج نہیں) اس کی شانِ نزول یہ ہے کہ اسلام سے پہلے اوس و خزرج مناۃ کی پوجا کرتے تھے، جو مشلّل میں نصب تھا، اس لیے وہ صفا و مروہ کے طواف کو برا جانتے تھے۔ وہ اسلام لائے تو رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے، اب کیا حکم ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتایا کہ صفا و مروہ کے درمیان طواف میں کوئی حرج نہیں۔(بخاری، کتاب الحج،باب وجوب الصفا و المروۃ،۱۶۴۳)سفر میں قصر نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی جن نمازوں میں چار رکعتیں ہیںان کے بجائے صرف دو رکعتیں ادا کی جائیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سہولت کی خاطر دو رکعتیں ساقط کر دی گئیں، لیکن حضرت عائشہؓ اس کی وجہ یہ بتاتی ہیں کہ نماز ابتدا میں دو دو رکعت فرض کی گئی تھیں، پھر نبی ﷺ نے(مدینہ) ہجرت کی تو بعض نمازیں چار رکعت کر دی گئیں، البتہ نماز قصر کو پہلی حالت پر ہی رہنے دیا گیا۔( بخاری: ۳۹۳۵، مسلم،۶۸۵) رسول اللہ ﷺ نے ایک زمانے میں حکم دیا تھا کہ قربانی کے گوشت کو تین دنوں سے زیادہ ذخیرہ نہ کیا جائے۔ یہ آپ کادائمی حکم نہیں تھا، بلکہ وقتی مصلحت تھی۔ حضرت عائشہؓ اس پر یوں روشنی ڈالتی ہیں:’’یہ دائمی حکم نہیں تھا۔ اس زمانے میں کم لوگ قربانی کرتے تھے۔اس لیے آپؐ نے حکم دیا کہ جن لوگوں نے قربانی کی ہے وہ قربانی نہ کر سکنے والوں کو گوشت کھلائیں۔‘‘(مسند احمد:۶؍۱۰۲)
فہم و فراست کے معاملے میںبعض صحابیات صحابہ سے بڑھ کر تھیں ،اس کا اندازہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے استدراکات سے ہوتا ہے جو انھوں نے بعض صحابہ پر کیے تھے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
حضرت عائشہ ؓ کے سامنے یہ روایت پیش کی گئی کہ میت پر اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے تو انھوں نے درایتاً اس کو قبول کرنے سے انکار کیا اور بہ طور دلیل قرآن کی یہ آیت پیش کی: وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰ (الانعام:۱۶۴)[کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا] (بخاری، کتاب الجنائز،۱۲۸۸،مسلم، ۹۲۹)کیا رسول اللہ ﷺ نے سفرِ معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا؟ اس معاملے میں صحابۂ کرام مختلف الرائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ رؤیت کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرتی تھیں:لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ۰ۡوَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ۰ۚ وَہُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۱۰۳ ( الانعام:۱۰۳)[نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ وہ نہایت باریک بیں اور اور باخبر ہے] (بخاری: ۴۸۵۵، مسلم، ۱۷۷) حضرت عائشہ ؓ سے ایسے استدراکات بڑی تعداد میں مروی ہیں۔ متعدد علماء نے ان کو اپنی کتابوں میں جمع کر دیا ہے۔ (ملاحظہ کیجیے علامہ سیوطی کی کتاب عین الاصابۃ اور علامہ زرکشی کی کتاب الاجابۃ)
خلاصہ یہ کہ صحابیات نے فروغ ِعلم کے میدان میں جو زرّیں خدمات انجام دیں، وہ انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ انھوں نے دینی علوم(قرآن، حدیث، فقہ) کو بہ راہ راست رسول اللہ ﷺ سے اخذ کیا، پھر انھیں پوری حفاظت کے ساتھ دوسروں تک پہنچایا۔ یہ ان کا اتنا بڑا احسان ہے، جس سے پوری امت تا قیامت عہدہ برا نہیں ہو سکتی۔