قرآن مجید کا خطاب مومن مردوں اور مومن عورتوں دونوں سے ہے۔ اگرچہ اس میں صیغہ مردوں کا استعمال کیا گیا ہے ، لیکن مفسرین نے صراحت کی ہے کہ ایسا صرف اسلوب ِ بیان کی وجہ سے ہے، ورنہ اس میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں ان پر عمل کا تقاضا مردوں اور عورتوں دونوں سے ہے۔
قرآن مجید میں جنت اور جہنم کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ جنت کی نعمتیں بیان کی گئی ہیں اور جہنم کی اذیتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ صحابۂ کرام جب قرآن کی تلاوت کے دوران جنت کی آیتوں سے گزرتے تو ان پربشاشت طاری ہوجاتی تھی۔ وہ کچھ دیر ٹھہر کر اللہ تعالی سے دعا کرتے کہ وہ انہیں جنت کا مستحق بنا دے۔ اسی طرح جب وہ جہنم کی آیات سے گزرتے تو ان پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا ۔ وہ رک کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ وہ انہیں جہنم سے بچا لے ۔ یہی معاملہ صحابیات کا بھی تھا۔
حضرت عباد بن حمزہؒ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اسماءؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں۔جب سورۂ طور کی اس آیت پر پہنچیں:فَمَنَّ اللّٰہ عَلَینَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ (آیت ۲۷) ’’آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔‘‘ تو اس پر ٹھہر کر بار بار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذاب ِ جہنم سے بچانے کی دعا کرنے لگیں۔ میںنے دیکھا کہ وہ میری طرف متوجہ نہیںہیں تو وہاں سے نکل کر بازار چلا گیا۔ وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ اسی آیت پر ٹھہری ہوئی تھیں اور بار بار اسی کو پڑھ رہی ہیں اور دعا کر رہی ہیں۔
قرآن مجید میں جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے احکام دیے جاتے ، کوئی کام کرنے کو کہا جاتا، یا کسی کام سے روکا جاتا تو صحابہ فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاتے تھے ۔وہ بے چوں و چرا اطاعت کرتے تھے اور لیت و لعل سے ہرگز کام نہیں لیتے تھے۔ صحابیات کا بھی یہی حال تھا۔جب قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی : وَ لیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ (النور: ۳۱)’’ عورتیں اپنے سینوں پر اپنی چادریں ڈال لیا کریں۔‘‘ تو تمام صحابیات کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے اپنی اپنی چادریں لیں اور انہیں دوپٹّے کی طرح استعمال کرنے لگیں۔( ابو داؤد:۴۱۰۲)
قرآن مجیدکے فہم اور اس سے استنباط و استخراج کے معاملے میںام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا مقام بہت بلند تھا۔رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آنے کے بعد انہیں آپؐسے استفادہ کے بھرپور مواقع حاصل تھے۔ جب بھی انہیں کسی آیت کا مطلب سمجھنے میں دشواری ہوتی وہ آپؐ سے دریافت کرلیتیں۔اس بنا پرانہیں آیات کے طرز ِ قرأت، مواقع استدلال، اور طریقۂ استنباط پر پورا عبور ہوگیا تھا۔وہ ہر مسئلے کے جواب کے لیے عموماً قرآن مجید کی طرف رجوع کرتی تھیں۔ عقائد اورفقہ کے علاوہ رسول اللہﷺ کے اخلاق و سوانح کو بھی وہ قرآن میں تلاش کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ کچھ لوگ ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا:ام المؤمنین :حضور کے کچھ اخلاق بیان فرمائیے ۔ بولیں: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ آپ کا اخلاق سر تا پا قرآن تھا۔ پھر ان لوگوں نے سوال کیا:آپؐ کی عبادات کے بارے میں بتائیے ۔ فرمایا: کیا تم نے سورۂ مزمل نہیں پڑھی ؟(ابو داؤد)
حضرت عائشہؓ کے فہم قرآن کی چند مثالیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:
قرآن مجید کی ایک آیت ہے:إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا (البقرۃ:۱۵۸) ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی کرلے۔ حضرت عائشہؓ کے بھتیجے عروہ نے سوال کیا: خالہ جان! اس کا تو یہ مطلب ہواکہ اگر کوئی طواف نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں۔ فرمایا: بھانجے !تم نہیں سمجھے ۔ اگر آیت کا یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: فلا جناح علیہ أن لا یطّوّف بھما(اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی نہ کرے۔)اصل میں یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اوس و خزرج اسلام سے پہلے’ مناۃ‘ کو پوجتے تھے،اس لیے صفا اور مروہ کے طواف کو برا سمجھتے تھے۔ اسلام لائے تو آں حضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے ۔ اب کیا حکم ہے؟اس پر اللہ نے فرمایا کہ صفا و مروہ کا طواف کرو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قرآن مجید کی ایک آیت ہے: وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِہَا نُشُوزاً أَوْ إِعْرَاضاً فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْہِمَا أَن یُصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَیْرٌ (النساء:۱۲۸)’’ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر دونوں( کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں۔ صلح بہر حال بہتر ہے۔‘‘ ناراضی دوٗر کرنے کے لیے صلح کرلینا بالکل کھلی ہوئی بات ہے۔اس کے لیے خاص آیت نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آیت اس عورت کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا شوہر اس کے پاس زیادہ نہ آتا جاتا ہو ،یا وہ زیادہ عمر کی ہو گئی ہو اور شوہر کی خدمت کے قابل نہ رہ گئی ہو ، وہ اگر طلاق لینا پسند نہ کرے اور بیوی رہ کر شوہر کو اپنے حق سے سبک دوش کردے تو باہمی مصالحت بری نہیں ، بلکہ علیٰحدگی سے بہتر ہے۔
حضرت عائشہؓ نے قرآن مجید میں غور و خوض اور استنباط کے ذریعے بہت سے صحابہ کی غلط فہمیوں کی اصلاح کی ہے۔ اس کے لیے ’استدراک‘ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ متعدد مصنفین نے استدراکات عائشہؓ کے نام سے کتابیں لکھی ہیں، جن میں بدر الدین زرکشیؒ کی ’الاجابۃ‘ اور ابن حجر عسقلانی کی ’الاصابۃ‘ شہرت رکھتی ہیں۔
قرآن مجید سے استنباط کے معاملے میں صحابیات پیش پیش رہتی تھیں۔مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے خطبہ دیا تو اس میں فرمایا: لوگو! بہت زیادہ مہر نہ باندھا کرو۔ اگر یہ اعزاز اور تقویٰ کی بات ہوتی تو اللہ کے رسولﷺ ایسا کرتے۔ آئندہ کوئی شخص چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کرے ۔ یہ سن کر عورتوں کی صف سے ایک عورت اٹھی اور اس نے کہا:اے امیر المؤمنین ! آپ کو اس کا حق نہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْئاً ( النساء:۲۰)’’اور تم نے اسے ڈھیر سا مال دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے مہر کی کچھ حد بندی نہیں کی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں۔یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی بات سے رجوع کرلیا اور فرمایا: امرأۃ أصابت و رجل أخطأ۔ ’’ عورت نے درست بات کہی اور مرد نے غلطی کی ۔‘‘
عبید اللہ بن زیاد بیان کرتے ہیں: میں بسر سلمی کے دو بیٹوں کے پاس گیا۔ میں نے دریافت کیا: ایک شخص سواری پر سوار ہو،وہ اسے کوڑا مارے اور اس کی لگام کَس لے۔ کیا اس سے متعلق تم نے رسول اللہﷺ سے کچھ سنا ہے؟انھوں نے جواب دیا : نہیں ۔ اسی وقت گھر کے اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی۔ اس نے قرآن کی یہ آیت پڑھی:وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُم (الانعام:۳۸) ’’زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اُڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو۔ یہ سب تمہاری ہی طرح انواع ہیں۔‘‘ ان دونوں نے کہا : یہ ہماری بہن ہیں، جو ہم سے بڑی ہیں۔انھوں نے رسول اللہﷺ کا زمانہ پایا ہے۔ (احمد: ۱۷۲۳۲)
صحابیات کے بعدکے زمانوں میں بھی مسلمان خواتین کا قرآن مجید سے شغف جاری رہا ہے۔ انھوں نے اس میں غور و تدبر کیا ہے، اس کے درس کی مجلسیں آراستہ کی ہیں،قرآن کے ترجمے کیے ہیں اور تفسیریں لکھی ہیں اورقرآنی تعلیم عام کرنے کے لیے ادارے قائم کیے ہیں ۔آخری زمانے میں جب انہیں دینی اور عصری جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع حاصل ہوئے ہیں تو اس میدان میں بھی وہ مردوں سے پیچھے نہیں رہی ہیں اور انھوں نے قرآنی موضوعات پر معیاری تحقیقات پیش کی ہیں۔l