اسلام کے عائلی نظام میں کمانے اور گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری شوہروں پر ڈالی گئی ہے اور بیویوں کو حکم دیاگیاہے کہ وہ گھروں میں ٹِک کر رہیں اور شوہروں کی خدمت اور بچوں کی پرورش وپرداخت میں مصروف رہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَآء بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ (النساء:۳۴)
’’مرد (یعنی شوہر)عورتوں (یعنی بیویوں)پر نگراں ہیں۔اس بناپر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناپر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘
چنانچہ اگر بیوی مال دار ہو اور شوہر غریب، پھر بھی بیوی پرلازم نہیں کیاگیاہے کہ وہ اپنے غریب شوہر اور بچوں پرا پنے مال میں سے خرچ کرے، بلکہ غریب شوہر کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ کمائے اور اپنے بیوی بچوں کا خرچ اٹھائے۔لیکن اگر بیوی اپنے مال سے اپنے شوہر اور بچوں کی ضروریات پوری کرتی ہے، وہ تجارت یا صنعت وحرفت کے ذریعہ مال کماتی ہے اور اسے اپنے اوپر اور اپنے گھروالوں پر خرچ کرتی ہے اور صدقہ وخیرات کرتی ہے تواسے اجر کا مستحق قرار دیاگیاہے۔
عورت کا اصل مقام تویہی ہے کہ خود کو گھر تک محدود رکھے اور اندرونِ خانہ اپنی مشن پر پوری توجہ دے، لیکن وقتِ ضرورت اسے گھر سے باہر نکلنے اور اپنی ضروریات، جن میں معاشی ضروریات بھی شامل ہیں، پوری کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔ بہت سی خواتین گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں اور بعض صحابہ بھی اپنی عورتوں کاگھر سے باہر نکلناپسندنہیں کرتے تھے۔اس سلسلے میں بعض خواتین کی طرف سے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیاگیاتوآپ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:
إنَّہ قَدْ أَذِنَ لَکُنَّ أنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِکُنَّ۔ (بخاری:۴۷۹۵،مسلم:۲۱۷۰)
’’اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ اپنی ضرورتوں کے لیے گھر سے باہر جاسکتی ہو۔‘‘
امہات المومنین اور صحابیات کی زندگیوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ اپنے گھروں پر پوری توجہ دینے، شوہروں کی خدمت اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ وہ وقت ِ ضرورت زراعت،صنعت وحرفت اور تجارت کے کام بھی کرتی تھیں اور اس سے اچھا خاصا کمالیتی تھیں، جس سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کرتی تھیں اور بڑھ چڑھ کر صدقہ وخیرات بھی کرتی تھیں۔
سوانح نگاروں نے ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہؓ کے بارے میں لکھاہے کہ وہ طائف سے آنے والے چمڑوں کی دباغت کا کام کرتی تھیں۔اس سے جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اسے پوری آزادی سے نیک کاموں میں صرف کردیتی تھیں۔( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، ابن حجر عسقلانی ،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ابن الاثیر)
اسی طرح ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ وہ دباغت اور دیگر کاموں سے کچھ کمائی کرلیتی تھیں اور اسے نہایت فیّاضی سے اللہ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں۔
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ اپناحال بیان کرتی ہیں: ’’میرا(حضرت)زبیر بن العوامؓ سے نکاح ہوا۔ان کے پاس پانی لانے والے ایک اونٹ اور ایک گھوڑے کے سواکچھ نہ تھا۔نہ کھیتی کی زمین،نہ غلام وغیرہ۔میں خود ہی ان کے گھوڑے اور اونٹ کو چارہ دیتی،کنویں سے پانی لاکر پلاتی، ڈول تیار کرتی،خود ہی آٹا گوندھتی اور روٹی پکاتی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے میرے شوہر کو مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر ایک زمین دے دی تھی،جس میں کھجور کے چند درخت تھے۔میں وہاں تک پیدل آتی جاتی اور وہاں سے کھجور کی گٹھلیوں کی ٹوکری سرپررکھ کرلاتی تھی۔‘‘(بخاری:۵۲۲۴)
حضرت سہل بن سعد الانصاریؓ ایک بوڑھی خاتون کا تذکرہ کرتے ہیں،جن کا ایک کھیت تھا۔و ہ اس میں سبزیاں اگاتی تھیں۔ وہ پانی کی نالیوں کے کنارے چقندر کے بیج ڈال دیتی تھیں، جس سے اس کی خوب پیداوار ہوتی تھی۔ہرجمعہ کو وہ کچھ چوقندرنکالتیں،اسے ہانڈی میں ڈالتیں، اس میں جَو بھی شامل کرتیں اور اسے خوب پکاتیں، یہاں تک کہ اس کا گاڑھا شوربا تیار ہوجاتاتھا۔جمعہ کی نماز کے بعد جو صحابۂ کرام اُدھر سے گزرتے انہیں وہ یہ لذیذ شوربا پیش کرتی تھیں۔حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ سالن اتنامزے دارہوتاتھا کہ صحابہ جمعہ کا انتظار کیاکرتے تھے۔(بخاری:۹۳۸)
حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؓ کی خالہ (اسماءؓ) کو ان کے شوہر نے طلاق ِبائن دے دی۔یہ وہ زمانہ تھا جب کھجور کے درختوں پر پھل آگئے تھے اور انہیں توڑنے کاوقت ہوگیاتھا۔انہوں نے ارادہ کیاکہ باغ جائیں اور پھل توڑوائیں، لیکن خاندان کے ایک شخص نے انہیں ایساکرنے سے سختی سے منع کیاکہ عدّت کے دوران میں عورت کاگھر سے باہر نکلناجائز نہیں ہے۔وہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس سلسلے میں مسئلہ دریافت کیا۔آپؐ نے ارشاد فرمایا:
بَلیٰ،فَجُدِّیْ نَخْلَکِ، فَإنَّکِ عَسٰی أنْ تَصَدَّقِیْ أوْ تَفْعَلِیْ مَعْرُوْفًا۔(مسلم:۱۴۸۳)
’’ہاں،کیوں نہیں،تم اپنے کھجور کے باغ میں جاکر پھل توڑواسکتی ہو۔اس طرح اس سے حاصل ہونے والے مال میں سے صدقہ کرسکتی ہو اور دوسرے نیک کام بھی کرسکتی ہو۔‘‘
ابوجہل کی ماں حضرت اسماء بنت مُخَرَّبہؓکو اسلام قبول کرنے کی توفیق ہوئی ۔انہوں نے مدینہ ہجرت کی، حضرت عمر بن الخطابؓ کے عہدِ خلافت یااس کے کچھ دنوں بعد تک وہ زندہ رہی تھیں۔سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ ان کے بیٹے عبداللہ بن ابی ربیعہؓ،جو یمن میں رہتے تھے،ان کے پاس عطر بھیجاکرتے تھے،جسے وہ فروخت کیاکرتی تھیں۔حضرت رُبیّع بنت مُعوّذؓ بیان کرتی ہیں کہ ان کا عطربہت عمدہ اور بہت زیادہ خوش بوٗدار ہوتاتھا۔(الطبقات الکبریٰ،ابن سعد)
قبیلۂ بنی انمار کی ایک خاتون اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:إنِّیْ إمْرَأَۃٌ أبِیْعُ وَأشْتَرِیْ۔ (میں ایک تجارت پیشہ عورت ہوں) انہوں نے آپؐ سے خرید وفروخت کے سلسلے میں بعض مسائل دریافت کیے، جن کے آپؐ نے جوابات مرحمت فرمائے۔(اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،ابن الاثیر)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اہلیہ رائطہ کچھ گھریلوچیزیں تیار کرکے فروخت کرتی تھیں،جس سے اچھاخاصا کمالیتی تھیں۔ان کے شوہر تنگ دست تھے، جس کی بناپران کی کمائی شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی تھی۔انہیں اشکال ہواکہ اس سے انہیں صدقہ کا ثواب ملے گا، یا اس کے لیے اجنبی غریبوں پر خرچ کرناضروری ہے۔وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس سے متعلق سوال کیا۔آپؐ نے جواب دیاکہ شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کی صورت میں بھی اجر ملے گا۔اس موقع پر حضرت رائطہؓ نے اپناتعارف ان الفاظ میں کرایاتھا: إنِّیْ إمْرَأَۃٌ ذَاتَ صَنْعَۃٍ أَبِیْعُ مِنْھَا۔(مسند احمد:۱۶۰۸۶)’’میں ایک کاری گرعورت ہوں۔چیزیں تیار کرکے فروخت کرتی ہوں۔‘‘
حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے شوہر نے’ظہار‘کیا۔(یعنی غیر ارادی طورپر ان سے کہہ دیا:تم میرے لیے میری ماں کی طرح ہو۔)دونوں اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ دریافت کیا۔اس وقت تک ظہار کا حکم نازل نہیں ہواتھا۔آپؐ نے ان کے شوہر سے فرمایا:حکم نازل ہونے تک بیوی سے الگ رہو۔اس پر حضرت خولہؓ نے عرض کیا: یاَ رَسُوْلَ اللّٰہِ!مَالَہ مِنْ شَیْئٍ،وَمَا یُنْفِقُ عَلَیْہِ اِلَّا اَنَا۔(الطبقات الکبریٰ،ابن سعد)’’اے اللہ کے رسول!ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں ہی ان پرخرچ کرتی ہوں۔‘‘اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت خولہؓ کے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ تھا،جس سے ان کی اچھی آمدنی ہوجاتی تھی۔
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ صحابیات اسلام کی اس اجازت سے کہ عورتیں وقت ِ ضرورت گھر سے باہر جا سکتی ہیںاور اپنے لیے معاش پیدا کرسکتی ہیں ، فائدہ اٹھاتی تھیں۔ چنانچہ وہ تجارتی مشغولیات رکھتی تھیں اور صنعت و حرفت کے کام بھی انجام دیتی تھیں۔ موجودہ دور میں مسلم خواتین ان کے اسوہ پر عمل کرسکتی ہیں۔