عورت انسانی تاریخ کی ابتداء بھی ہے اورمضبوط ستون بھی ہے۔ اسلام کے سوا تمام تہذیبوں نے عورتوں کو معاشرے میں کمتر درجہ دے رکھا تھا۔انہوں نے دنیا میں برائی اور موت کی ذمہ دار عورت کو ٹھہرایا۔مگر اسلام نے عورت کا درجہ بلند کیا اور ایک اعلی مقام عطا کیا۔اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیااوراس کو ذلت و پستی کے گڑھوں سے نکالا۔
اگر امہات المؤمنات، صحابیات اور دیگر خواتین کی سیرت کا مطالعہ کریں گے تو اندازہ لگے گا کہ عقل، بہادری،دینداری، دیانت داری وغیرہ میں وہ مردوں سے پیچھے نہیں رہتیں مگرصد افسوس ہے کہ نہ صرف غیر مسلم بلکہ ہمار ے مسلم لوگ بھی عورت کی اہمیت کو نہیںسمجھ سکے۔
موجودہ دور میں جہاں انسان نے ترقی کے زینے طے کئے ہیں اور ہر شئے میں تغیر آیا ہے، عورت کے اندر بھی سوچ و فکر میں تبدیلیاں رونماہوئی ہیں۔پہلے وہ چار دیواری کی زینت تھی پھر علم کے میدان میں اس نے ترقی کی اور اب کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصارعورت کی خواندگی سے منسوب کیا جانے لگا۔
ذیل میں ہم چند صحابیات کے ہمہ جہت رول کا ذکر کریں گے تاکہ اس کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لے سکیں۔
حضرت عمار بن یاسر ؓکی والدہ اور حضرت یاسر ؓ کی زوجہ محترمہ حضرت سمیہؓاسلام کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اللہ کی خاطر ابوجہل کے ظلم تشدد سے جام شہادت نوش فرمایا۔ابوجہل نے آپ پر اور آپ کے شوہر اوربیٹے پر کوڑے برسائے، ان کو آگ پر تپایااورپانی میں ڈبکیاں دیں۔جب انھوں نے اللہ کا ذکر کرنا نہیں چھوڑا توابوجہل نے نیزہ ان کے جسم میں ڈال دیا۔
ام عمارہؓ نسیبہ بنت کعب بن عوف انصاریہ نے جنگ احد، صلح حدیبیہ، خیبر، جنگ حنین، عمرۃ القضاء اورجنگ یمامہ میں شرکت کی۔انھوں نے رسولؐ اللہ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓکے عہد خلافت میں فتنہ ارتداد کی لڑی ہوئی جنگوں میں بھی شرکت کی۔
جنگ احد میں جب مسلمان بکھرگئے تو اس وقت حضرت ام عمارہ ؓاپنے شوہراور دو بیٹوں کے ساتھ آپ ؐ کادفاع کرنے لگیں۔آپ کے پاس ڈھال نہیں تھی۔ایک میدان چھوڑ کربھاگنے والے سے کہا تووہ ڈھال پھینک کر بھاگ گیا اور آپ نے اس سے نبیؐ کا دفاع کرنے لگیں۔رسولؐ اللہ نے اللہ سے دعا کی: اے اللہ! ان کوجنت میں میرا ساتھی بنا۔ان کے بیٹے عبداللہ بن زید زخمی ہوئے تو ام عمارہ ؓ نے ان کی مرہم پٹی کی۔یہ دیکھ کر رسولؐ اللہ فرمائے: ام عمارہ! جو تم کام کرسکتی ہو وہ کام کون کرسکتاہے؟ اس وقت وہ آدمی آیا جس نے ان کے بیٹے کو زخمی کیا۔آپؐ نے ان کوبتایا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے تمہارے بیٹے کو زخمی کردیا۔ام عمارہ اس شخص کے سامنے آئیںاور اس کی پنڈلی پر مارا جس سے وہ زخمی ہوکر بیٹھ گیا۔رسولؐ اللہ یہ دیکھ کر مسکرائے اورفرمایا تم نے اپنا بدلہ لے لیا۔پھر فرمایا: اللہ ہی کی تعریف ہے جس نے تم کو کامیاب بنادیا (ابن سعد)
مسیلمہ بن کذاب نے ا م عمارہؓکے بیٹے حبیب بن عاصمؓکو قتل کرکے اس کا مثلہ بنادیاتھا۔حضرت ابوبکرؓ نے اس کے پاس سفیر بھیجا کہ اس کو سمجھا کر دعوائے نبوت سے باز آجائے مگر مسیلمہ نے سفیر کو بھی قتل کردیا۔ امیر المؤمنین نے اس کے خلاف جنگ میںمسلمانوں کی فوج روانہ کی جس میں ام عمارہؓ بھی اپنے بیٹے عبداللہ بن زید ؓ کے ساتھ شامل تھیں۔اس جنگ میں ام عمار ہ ؓ کے یہ بیٹے بھی شہید ہوگئے۔البتہ اللہ نے مسلمانوں کو فتح سے نوازا۔ام عمارہ ؓ بیعت عقبہ ثانیہ میںانصار کے وفد کے ساتھ شریک تھیں۔
ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ اپنے چند اصحاب کے ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں ایک بوڑھی خاتون ملیں۔انہوں نے امیرالمؤمنین کو روکا اور باتیں کرنے لگیں۔حضرت عمرؓ سر جھکا کر دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے او رجب تک وہ خاموش نہ ہوئیں آپ کھڑے رہے۔ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا: یاامیرالمؤمنین! آپ نے اس بڑھیا کی باتیں سننے میں اتنا وقت گزارااور اپنے ساتھیوں کو اتنے دیر تک روکے رکھا۔حضرت عمر ؓنے فرمایا: جانتے بھی ہو یہ عورت کون ہے؟ یہ وہ عورت ہے جس کی بات سات آسمانوں پر سنی گئی۔واللہ ! اگر یہ رات بھر ٹھہری رہتی تو بھی میں سوائے نماز کے کوئی اورکام نہ کرتااور اس کی باتیں سنتا۔سورہ المجادلہ کی پہلی آیت حضرت خولہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی: قَدْ سَمِعَ اللہْ قَولَ الَّتِی تْجَادِلْکَ فِی زَوجِھَا وَتَشْتَکِٓی اِلَی اللہِ وَاللّٰہْ یَسْمَعْ تَحَاوْرَکْمَا اِنَّ اللہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ ۔’’اللہ نے سن لی اس عورت کی با ت جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کررہی ہے اوراللہ سے فریاد کئے جارہی ہے۔اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہاہے۔ بے شک اللہ سمیع اور بصیر ہے۔‘‘
حضرت خالد بن ولیدؓ کوجب حضرت ضرارؓکی گرفتاری کا علم ہوا تو بے حد ملال ہوا۔اسی وقت میسرہ بن مسرو قؓ کو ایک ہزار جوان دے کر دمشق کے محاصرے کے لئے مقرر کیا۔اورخود باقی فوج لے کر رومی لشکر کے تعاقب میںروانہ ہوئے۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ لشکر اسلام کے آگے آگے ایک نقاب پوش سرخ رنگ کے گھوڑے پر سوار بڑی تیزی سے میدان جنگ کی طرف لپک رہاہے۔وہ بے حد حیران ہوئے۔ رومی لشکرکی مسلمانوںسے مڈبھیڑ ہوئی تو حضرت خالدؓ نے دیکھا کہ وہ نقاب پوش بڑے بے جگری سے لڑرہاہے۔انہوں نے اپنے ساتھیوں سے اس نقاب پوش کے بار ے میں دریافت کیا تو لاعلمی کا اظہار کیا۔آپؓ نقاب پوش کے قریب پہنچے اور اصرار کیا کہ اپنا نقاب ہٹائے۔جب اس نے نقاب ہٹایا تو ضرار بن ازورؓکی بہن خولہ ؓ بنت ازور تھیں جنہوں نے قسم کھارکھی تھی کہ اپنے بھائی کو دشمن کے پنجوں سے نجات دلاکر رہیں گی۔حضرت خالد بن ولیدؓ خولہ بنت ازور ؓ کے ساتھ لڑکر ان کے بھائی کو آزاد کروایا۔
حضرت ربیع بنت معوذ ؓان خوش قسمت خواتین میں تھیں جنہیں رحمت عالمؐ غزوات میں لشکر اسلام کے ساتھ رکھتے تھے۔انہوں نے کئی غزوات میں شرکت کی اوربڑی تن دہی سے زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنے اورمجاہدین کو پانی پلانے کے علاوہ کئی دوسری خدمات انجام دیں۔
یہ تو خواتین کی بہادری اور جنگوں میں شرکت کے چند واقعات ہیں اس کے علاوہ علم وفقہ، ادب، حدیث، تجارت اور علم طب کے میدان میں بھی صحابیات خاصی دسترس رکھتی تھیں۔ مثال کے طور پرحضرت زینب بنت ابوسلمہؓ کو اپنے زمانے کی فقیہ ترین خاتون ہونے کا شرف حاصل ہے۔ارباب سیر نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے ذی علم لوگ آپؓ سے مسائل پوچھتے تھے۔آپؓسے چند احادیث بھی منقول ہیں۔
حضرت خنساء ؓبنت عمرو جنگ قادسیہ کے دوران جذبہ جہاد سے سرشاراپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ جہاد کے لئے آئیں۔اپنے بیٹوں کو میدان جنگ میں بھیج کر تسلیم و رضا اورصبروتحمل کے ساتھ اپنے جگر گوشوں کی شہادت کی خبر سنتی ر ہیں۔بیٹوں کی شہادت کی خبر سن کر نالہ و فریادکی بجائے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئیں اور فرمایا: باری تعالی سے امید ہے کہ قیامت کے دن مجھے ان بچوں کے ساتھاپنے سایہ رحمت میں جگہ دے۔ وہ ایک شہرہ آفا ق مرثیہ گو شاعرکے مرتبے پر فائز ہوئیں اور ’ارثی العرب‘ کا خطاب پایا
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ گشت پر نکلے تو ایک گھر سے آوازآئی: اماں دودھ میں پانی نہ ملائیں۔ماں نے پوچھا کیوں بیٹی! بیٹی نے جواب دیا کہ امیر امؤمنین نے منع فرمایا ہے۔ماں نے کہا: وہ کونساہمیں دیکھ رہاہے؟ بیٹی نے جواب دیا: وہ نہیں تو کم از کم اللہ تو دیکھ رہاہے۔پھر آپ ؓنے دیکھا کہ انہی کی اولاد میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ پیدا ہوئے جو عمر ثانی ؒکے نام سے مشہور ہوئے۔اس کے علاوہ دعوت و تبلیغ، سماجی خدمت اور علم قرآن و حدیث میں خواتین نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔