صحافت اور سیاست

شمشاد حسین فلاحی

 

ریٹائرڈ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے جو پریس کونسل آف انڈیا کے صدر ہیں، میڈیا کے غیرذمہ دارانہ طرزِ عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میڈیا بے جا سنسنی پھیلانے سے اجتناب کرے، اپنا احتساب کرے اور ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرے۔
جسٹس کاٹجو نے اخبارات اور نیوز چینلوں کے مدیران سے ایک غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ میڈیا کو حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی روش سے باز آنا چاہیے اور غیر ضروری مسائل مثلاً: فیشن پریڈ، کرکٹ اور علمِ نجوم جیسی غیر مفید چیزوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کے بجائے عوام کے بنیادی مسائل کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں غربت، بے روزگاری، صحت اور گھر جیسی بنیادی سہولیات کی کمی ہے مگر میڈیا اس پر کم ہی توجہ دیتا ہے۔ انھوں نے واضح الفاظ میںمیڈیا کے رویہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ہونے والے بم دھماکوں کے فوراً بعد بغیر ٹھوس ثبوت کے مسلم تنظیموں کانام لے کر خبریں عوام تک پہنچانے کا رجحان غلط ہے اور کسی ایک فرقہ کو نشانہ بنانا ٹھیک نہیں۔ انھوں نے حال ہی میں ہوئے دہلی ہائی کورٹ بم دھماکے کے سیاق وسباق میں کہا کہ جب کہیں کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو اس کے محض چند گھنٹوں کے اندر ہی ٹی وی چینل کسی مسلم تنظیم کا نام لے کر کہنے لگتے ہیںکہ اس نے دھماکہ کی ذمہ داری قبول کی ہے، جبکہ اس طرح کے ای میل کوئی شرپسند بھی بھیج سکتا ہے۔ انھوں نے میڈیا کے افراد سے سوال کیا کہ کیا ایسے میں کسی ایک فرقہ کو موردِ الزام ٹھہرانا درست ہوسکتا ہے۔
جسٹس کاٹجو کی گفتگو ہندوستان کے ہر باشعور اور انصاف پسند شہری کے جذبات و احساسات کی نمائندگی کرتی ہے اور ان کا یہ احساس کہ میڈیا کے افراد کو اپنا احتساب کرنا چاہیے اور اپنے طرزِ عمل کو ذمہ دارانہ بنانا چاہیے، وہ احساس ہے جو ہر شہری رکھتا ہے۔
جمہوریت کے اس دور میں جہاں کرپشن اور فساد نے سیاست کو اپنی گرفت میں لیا ہے وہیں اس کا کچھ نہ کچھ اثر صحافت پر بھی پڑا ہے بلکہ کافی پڑا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر یہ کہا جائے کہ سیاست ہی کی طرح صحافت بھی کرپشن کا شکار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس لیے کہ سیاست دانوں کی مجبوری صحافی ہیں اور صحافتی اداروں کی مجبوری سیاست داں۔ دونوں ایک دوسرے کی مجبوریوں اور ضرورتوں کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اور محض اشاروں ہی کی زبان میں بہت سے معاملات طے ہوجاتے ہیں۔ واقف کار لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے مقامات پر چھوٹے چھوٹے رپورٹنگ کرنے والے صحافی عام افراد میں سے ’’کچھ خاص کو‘‘ کس طرح بلیک میل کرکے خاطر خواہ رقمیں حاصل کرتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اس طرح کے مقامی لوگ اچھی خاصی سطح کے سرکاری افسران تک کو بلیک میل کرکے اپنے مفادات کو بہ آسانی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ بات بھی اہلِ نظر جانتے ہیںکہ اس وقت نئے نئے ٹی وی چینلوں کی بھر مار ہوتی جارہی ہے۔ ان میں سے جہاں کچھ ٹی وی چینل با اثر سیاست دانوں، کارپوریٹ گروپوں اور سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں وہیں کئی ایک چینل ایسے معروف صحافیوں کی بھی ملکیت ہیں جو ابھی چند سالوں تک کسی سرکاری یا پرائیویٹ ٹی وی چینل میں نوکریاں کرتے تھے اور اب انھوں نے محض اپنے صحافتی اثرورسوخ کی بنیاد پر سیکڑوں کروڑ روپے کی مالیت کے اپنے اپنے ٹی وی چینل شروع کردیے۔ ایسا کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے اس کا اندازہ عوام بھلے ہی نہ کرسکیں مگر عوام کے ’’خواص‘‘ ضرور کرسکتے ہیں۔
میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ اور سنسنی خیز طرزِ عمل میں جہاں اس بات کا بڑا دخل ہے کہ میڈیا سے متعلق ادارے اخبارات اور ٹی وی چینل بڑے بڑے سیاست دانوں کی ملکیت ہونے کے سبب سیاسی گروپوں کی نمائندگی کرتے ہیں، وہیں اس بات کا بھی اہم رول ہے کہ میڈیا کو جو جمہوریت کے محل میں تیسرا ستون تصور کیا جاتا ہے، اسے کارپوریٹ تجارت کی صورت دے دی گئی ہے۔ اب خبریں، واقعات اور حوادث کی ترجمان نہیں بلکہ سیاسی گروپوں کی ترجمانی کرنے لگیں اور ان پر واقعات کے بجائے سیاست کا رنگ چڑھ گیا اور سیاست داں اسے اپنے سیاسی مفادات کے لیے بھرپور پر استعمال کرنے لگے۔ ایک ہی واقعے یا خبر کو مختلف سیاسی گروپوں نے اپنے اپنے زنگ میں پیش کیا۔ اس طرح خبر گم ہوگئی اور سیاست باقی رہ گئی۔اور جب یہ کارپوریٹ گروپوں کی تجارت بن گیا تو پھر منافع کمانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کی ایسی دوڑ شروع ہوئی پڑی کہ ہر گروپ مشاہدین اور قارئین کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے نئے نئے حربے اور طریقے ڈھونڈنے لگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ اب ٹی وی چینلوں پر خبریں نشر کرنے کا انداز تبدیل ہوکر کمنٹری کی طرح ہوگیا ہے جہاں سنسنی، سسپنس اور ذہنوں کو گرفت میں رکھنے کے لیے جارحانہ انداز اختیار کیا جانے لگا۔ عریانیت و بے حیائی کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، کیونکہ sex salesکا تجربہ یورپ سے حاصل ہوچکا تھا۔
اس پوری صورتِ حال کی تبدیلی کا ملک کے عوام، نوجوانوں اور خاص طور پر نوعمر بچوں پر بڑا خراب اثر پڑا ہے اور پڑ رہاہے۔ ان کے رویہ میں بھی غیر ذمہ داری،تشدد اور جارحیت اور جذباتیت پروان چڑھ رہی ہے۔ عریانیت و فحاشی کے نتیجہ میں جنسی جرائم خاص طور پر خواتین کے خلاف جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بڑے شہروں جنہیں ’’میٹرو سیٹیز‘‘ کہا جاتا ہے اور جہاں میڈیا کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے وہاں اس کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ ملک کی راجدھانی تو خواتین کے لیے جہنم بن گئی ہے۔
صورتِ حال کے یہاں تک پہنچنے میں کس کا رول ہے اس بات پر بھی ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میڈیا کو غیرذمہ دار بنانے میں سیاست کی ’’مجبوریوں‘‘ کا بڑا دخل ہے مگر اس کے باوجود عوام بھی اس ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔
یوروپ کے ایک بڑے دانشور نے کہیں کہا تھا کہ ’’ہندوستانی میڈیا ابھی تک Immature (نابالغ) ہے۔‘‘ اس نے درست کہا تھا کہ جس طرح نابالغ بچے اپنے طرزِ عمل میں غیر ذمہ دار ہوتے ہیں اسی طرح ہمارا میڈیا بھی لا پرواہ ہے۔ مگر یہ نابالغ میڈیا دراصل اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ ہندوستان کے عوام کی عقل و فہم آزادی کے ساٹھ سالوں سے زیادہ مدت گزارنے کے باوجود ابھی تک نابالغ ہے اور وہ ان حقائق کا ادراک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جو ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی عوام کے حافظہ کو سیاست دانوں نے اتنا کمزور کردیا ہے کہ ہر نئے دن آنے والا واقعہ ان سے گزشتہ دن کی یاد کو بھلا دیتا ہے۔ اس طرح خبروں کی سیاسی رنگت ہر روز نئے رنگ میں ان کے سامنے آتی ہے اور گزشتہ دن کے رنگ پر چھا جاتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستانی عوام اپنی سماجی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں غیر ذمہ دار واقع ہوئی ہے وہ محض اپنی ذات اور اپنے گروپ کے مفادات کو ہی جانتی ہے۔ خواہ اس کے بعد ملک اور ملکی عوام کو کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ یہ مفاد پرستانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ فکر و عمل ظاہر ہے غیر ذمہ دارانہ میڈیا کو ہی پروان چڑھانے کا ذریعہ بنے گا اور سیاسی گروپوں کے سیاسی مفادات کے متوالے کامیاب ہوتے جائیں گے۔
میڈیا ہاؤس خواہ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل جہاں عوام کی رائے بناتے ہیں وہیں اپنے عوام کی رائے کا احترام بھی کرنے پر مجبور ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملکی عوام ایسی کم فہم اور نابالغ فکر کی ہے وہ ان اداروں کو متاثر کرنے اور انھیں اپنی ضروریات کے مطابق چلانے کے بجائے ان کے رنگ میں رنگی جارہی ہے، حالانکہ یہ بالکل ممکن تھا اور آج بھی ہے کہ وہ ان اداروں کو اس بات کے لیے مجبور کرے کہ وہ ایسااور ایسا… طریقہ اختیار کریں، مگر اس کی کسے فکر ہے۔
مسلم عوام اس سلسلہ میں کسی مثبت طرزِ عمل کے قابل ہوسکتے ہیں مگر وہ تو خود ہی ’’میڈیا گزیدہ‘‘ ہیں، ایسے میں ان سے کیا توقع کی جائے۔ مگر اتنا ضرور ہم کہنا چاہیں گے کہ ان کے اندر اتنا شعور تو ضرور ہونا چاہیے کہ وہ میڈیا کے سیاسی رنگوں کو پہچان سکیں اور اخلاق و بداخلاقی کی واضح حدود کی شناخت کرکے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اس کے برے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرسکیں۔
شمشاد حسین فلاحی

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146