اچھی صحت قدرت کا انمول عطیہ ہے۔ جس کی حفاظت و نگہداشت بنی نوع انسان کا اولین فریضہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ہزار نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر نہ کرنا اللہ کی ناشکری کرنے کے برابر ہے۔ صحت انسان کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے۔
حضورﷺ نے دعا فرمائی:
اللّٰہم انی اسئلک الصحۃ والعفاف والغنی۔
’’اے اللہ! میں تیرے دربار سے تندرستی اور پاکدامنی اور خوشحالی طلب کرتا ہوں۔‘‘
تندرستی کی دعا اس لیے کہ ہم جسمانی طور پر اللہ کے سوا کسی کے محتاج نہ ہوجائیں اور دنیا میں جس مقصد کے تحت بھیجے گئے ہیں اسے کماحقہ پورا کریں اور پاکدامنی کی دعا اس لیے کہ دل و دماغ پراگندہ اور بوجھل نہ رہیں اور تندرستی قائم رہے۔ کیونکہ جب آدمی پاکدامن اور راست باز رہتا ہے تو دل و دماغ صاف ستھرے، فریش رہتے ہیں اور دل و دماغ صاف ستھرے رہیں تو صحت مندی و تندرستی قائم رہے گی۔
اچھی صحت اچھی زندگی گزارنے او رکامیاب انسان بننے کے لیے ضروری ہے۔ بہتر صحت ہی سے آپ اپنے تمام فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرسکتے ہیں۔
حضورؐ نے فرمایا:
’’اچھا آدمی وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو۔‘‘
نیک آدمی کو لمبی عمر کا یہ فائدہ ہے کہ وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرسکتا ہے اور پھر انہی نیکیوں کی کثرت کے باعث آخرت میں نیکی کے بلند درجات پاتا ہے۔ لیکن طویل العمری کے ساتھ صحت ہو تبھی آدمی چابکدستی کے ساتھ اللہ کے احکام بجالاتا ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی پوری طرح ادا کرپاتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص ہر وقت بیمار رہتا ہے۔ کمزوری و نقاہت ہمہ وقت اس پر طاری رہتی ہے، تو ایسا شخص نہ خوش دلی سے روزہ رکھ سکتا ہے، نہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ نہ حج اور جہاد کرسکتا ہے اور نہ ہی نیکی کے چھوٹے بڑے کام کرسکتا ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے ہمیں یہ دعا سکھائی : ’’اے اللہ! ہمیں اپنے سوا کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا۔‘‘ اور ’’اے اللہ! میں تجھ سے صحت طلب کرتا ہوں۔‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ اسلام کی تعلیمات اور صحت دونوں میں گہرا واسطہ ہے۔ بنیادی طور پر اسلام نے جس مومن کو مطلوب کررکھا ہے وہ اپنے عقیدئہ توحید کی مضبوطی اور شعائر اسلامی کی پابندی کے ساتھ ساتھ ایک چاق و چوبند اور صحت مند انسان ہی ہوسکتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’قوی مومن اللہ تعالیٰ کو کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہے، حالانکہ دونوں ہی میں خیر ہے۔‘‘
حضورﷺ نے دعا فرمائی:
’’اے اللہ! میں تجھ سے عاجزی، کمزوری اور سستی سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
اور کمزوری اور سستی کا جال صرف ورزش کرنے سے ہی ٹوٹتا ہے۔ اگر غور کریں تو اندازہ ہوگا فجر کی بیداری اور عشا کے بعد سوجانا صحت کے لیے کتنا اہم ہے۔ اگر ہم پنج وقتہ نظامِ نماز کو بغور دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ انسانی زندگی کو ڈسپلن کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ وہ ورزش بھی فراہم کرتی ہے جو انسانی صحت کے لیے کم از کم درجہ میں ضروری ہے۔
صحت مند رہنے کے لیے متوازن غذا بھی ضروری ہے۔ کسی بھی چیز کا زیادہ استعمال چاہے وہ غذا ہی کیوں نہ ہو، نقصان پہنچاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی پیٹ بھرنے سے دو لقمے کم کھانا اسلامی ہدایات میںسے ہے۔ پیٹ بھر کھانے سے آدمی میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ روزانہ صبح غسل کرنا پانچ مرتبہ وضو کرنا، مسواک کرنا، سر میں تیل لگانا، پاکی کا خیال رکھنا، یہ باتیں ایسی ہیں جن کی اسلام میں اہمیت ہے۔اور سنت کی پیروی بھی ہے۔ اور یہ تمام باتیں بھر پور صحت مندی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے برخلاف نشیلی چیزوں کا استعمال، سنیما بینی، راتوں کو جاگنا، صبح دیر تک سونا، مرغن غذاؤں کا زیادہ استعمال، صاف ستھری تازہ ہوا سے محروم رہنا، کھانے پینے میں صفائی کا خیال نہ رکھنا، بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔ یہ ایک طرف تو انسان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایات سے بھی میل نہیں کھاتا جوآپؐ نے اسلامی زندگی گزارنے کے لیے ہمیں فراہم کی ہیں۔