صحت اور اسلامی تعلیمات

ڈاکٹر عطاء الرحمن

اعتدال صحت کی بنیاد ہے۔ بدن اور جسم میں پائے جانے والے عناصر دراصل خوراک میں جو اجزا نمکیات، لحمیات ، چکنائی اور نشاستہ شامل ہیں، ان کا اعتدال اور توازن صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے۔

ابن سینا فرماتے ہیں اعتدال انسان کی اس طبعی حالت کا نام ہے جو دوحدوں کے درمیان ہے۔ (افراط و تفریط) کا شکار نہ ہو (کتاب القانون،ص ۴)۔ حضوؐر نے قوی مومن کو ضعیف مومن سے افضل قرار دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے، حضوؐر نے فرمایاکہ اللہ سے عافیت مانگو کیونکہ ایمان کے بعد صحت اور عافیت سے بہتر کوئی چیز کسی کو نہیں ملی۔(ابن ماجہ)

نبی کریمؐ نے بعض بیماریوں کا علاج بھی تجویز کیا۔سنن ابوداؤد میں اسامہ بن شریکؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ علاج کرو۔ ترمذی میں روایت ہے کہ ہاں، اے اللہ کے بندو علاج کرایا کرو۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اْتاری مگر اس کی شفا ضرور نازل کردی۔ جاننے والا اسے جان لیتا ہے اور جاہل اس سے بے خبر رہتا ہے۔(مسند احمد)

اسلام کا بھی بنیادی اصول اعتدال اور توازن ہے۔ چناں چہ فرمایا گیا:جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ:۱۴۳) ’’اور ہم نے تم کو اْمت وسط بنایا۔‘‘ خرچ کرنے میں بھی حکم ہے:

’’اور جب (رحمن کے بندے ) خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی، ان کے درمیان رہتے ہیں۔‘‘ (الفرقان :۶۷) توازن اگر بگڑ جائے تو انسان بیمار ہوجاتا ہے۔ یہ بات قرآن بتاتا ہے کہ ایک فرد کی غیر متوازن زندگی پوری کائنات پر اثر انداز ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ انفرادی، خاندانی اور عائلی زندگی میں اس کے اثرات ہمیں نظر آتے ہیں لیکن بیمار شخص کے معاشرتی اور بین الاقوامی اثرات ہی نہیں بلکہ انسانی اور زمینی اثرات سے آگے بڑھ کر کائناتی اثرات ہیں۔ چناں چہ اسلام حفظان صحت اور علاج سے متعلق واضح ہدایات دیتا ہے۔

اگر پرہیز اور امراض سے بچاؤ کے علاوہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو عملی طورپر علاج کی نوبت ہی نہ آئے۔ حیرت ناک حد تک اسلامی تعلیمات واقعی زندگی بخش ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: دو ایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت ہے اور فرصت ہے (بخاری)۔کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی۔ (ابن ماجہ)

حفظانِ صحت کے اصول

حفظان صحت کے کچھ اصول ہیں: ۱۔ عادات ۲۔ جسمانی ساخت اور پرداخت ۳۔ذہنی صحت ۴۔ معاشرتی صحت ۵۔طبعی صحت ۶۔لباس اور ماحولیاتی صحت۔

عادات: دو چیزیں عادتاً بہت اہم ہیں: نیند اور خوراک۔ نیند کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتاً(النبا:۱۰) ’’ہم نے تمھاری نیند کو راحت بنایا‘‘۔ اور خوردونوش کے بارے میں فرمایا:کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ(البقرہ:۱۷۲) ’’ہم نے جو پاکیزہ چیزیں تمھیں بخشیں انھیں کھاؤ‘‘۔ سورۂ مائدہ میں فرمایا: ’’حلال کو حرام نہ کرو‘‘(۵:۸۷)

 جسمانی ساخت: جسمانی ساخت اور پرداخت کے لیے متوازن غذا کی ضرورت ہے۔ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا (اعراف ۷:۳۱) ’’کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو‘‘ (بسیار خوری اسراف ہے )۔ ذیابیطس ،ہائی بلڈ پریشر ،دل کی شریانوں کی بیماری ،درد سینہ ،انجمادِ خون، فالج صرف اور صرف بے ترتیب غذا کے سبب سے ہیں۔ یوں معدہ اور ہاضمہ دونوں کا صحت سے گہرا تعلق ہے۔ حضوؐرنے فرمایا: ’’کسی آدم زاد نے پیٹ سے زیادہ برا بر تن نہیں بھرا۔ انسان کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھیں‘‘۔ اندرونی جسمانی صحت کا گہرا تعلق خوراک سے ہے۔ مقدام بن سعدی کرب سے ترمذی میں روایت ہے: ’’ اگر نفس پرغلبہ پالے تو ایک تہائی کھانے کے لیے ایک تہائیپینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے چھوڑنا چاہیے ‘‘۔

 ذہنی صحت: انسان کے امراض کا۴۳فی صد ذہنی امراض ہیں۔ انسان کے پاس خوف اور غم کا علاج نہیں سوائے ایمان کے۔ خوف اور غم کیا ہیں؟ نعمتوں کے چھن جانے کا نام خوف ، اور جب چھین لی جائیں تو غم شروع ہوجاتا ہے۔

سکون اور طمانیت قلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد:۲۸) ’’دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے۔‘‘ نفسیاتی امراض سے نجات کا ایک بڑا ذریعہ معاملات میں اللہ تعالیٰ پر بھروسا ہے کہ مرض ، مالی یا جانی نقصان ،خوف ،بھوک میں انسان صبر کرے اور اللہ کا حکم اور اس کا فیصلہ قرار دے۔ لوگوں کے رویے انسان کو تکلیف دیتے ہیں۔ غلط رویوں کے لیے دین میں کوئی اجازت نہیں، مثلاً منافقت،تکبر، بے اعتنائی، نفرت، حسد، بْغض، تعصب،تمسخر، مخالفت، افتراق، ظلم، شک، بداخلاقی___ یہ تمام منفی رویے ہیں۔ سورۂ حجرات میں تمسخر، غیبت ،بدظنی ،تحقیر ،عیب جوئی کی حرمت کا حکم ہے۔ اسلام نظریاتی بھائی چارے کو قائم کرنے حکم دیتاہے اور تعصبات پر مبنی مملکتوں کے قیام کوانسانی حقوق کے خلاف قرار دیتا ہے۔

 معاشرتی صحت: انسان کی اپنی صحت اور ارد گرد کے ماحول میں خاندان اور اہلِ خانہ کی صحت بہت اہم ہے۔ حضرت عثمانؓ اپنی زوجہ کی علالت کے باعث غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ یہ بجاے خود ایک فقہی اصو ل کی نشان دہی کرتا ہے۔ قانون عملی اور حقیقی اصولوں پر ہی تشکیل دیا جاتا ہے۔ صحت خود ایک نعمت ہے۔ ہاتھ دھونا، غسل، وضو، مسواک، ناخن اور بالوں کا ترشوانا ،کنگھی اور انگلیوں میں خلال، نماز کے دوران قیام ،رکوع اور سجود نماز کے لیے آنا جانا عبادت بھی ہے اور صحت بھی۔

 جنسی صحت اور تعلقات: مخصوص اعضا کی صفائی دینی مسئلہ ہے۔ حضرت عائشہؓ خواتین سے فرماتی ہیں کہ تم اپنے شوہروں کو ہدایت کرو کہ پانی سے صفائی کریں کیونکہ مجھے ان سے شرم آتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ ایسا ہی کرتے تھے (ترمذی)۔

اسی طرح نشے سے بچنا ایک اہم دینی فریضہ ہے: ’’شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اْمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔‘‘ (المائدہ:۹۰) شراب کوحرام قرار دیا گیا۔ چودہ سو سال بعد بھی اْ مت ان لعنتوں سے محفوظ ہے اور ان بیماریوں سے جو شراب نوشی اور نشوں سے پیدا ہوتی ہیں۔

طبعی صحت: حفظان صحت کا طبعی پہلو سراسرذ اتی اور انفرادی ہے کہ انسان اپنے بدن کی صفائی کرے۔ بدن کی صفائی کے ضمن میں قرآن فرماتا ہے: وَ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْo(المدثر ۴۔۵) ’’اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دْور رہو‘‘۔ ہر قسم کی گندگی سے بچنے کے لیے آپؐ نے فرمایا: ’’صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ اسلام نے یہ ہدایات کیوں دی ہیں؟ یہ ہدایات اس لیے دی گئی ہیں تاکہ صحت اچھی رہے۔ غذا اور خوراک کا جسم کے صحت مند ہونے سے گہرا تعلق ہے۔ اُم ایمنؓ سے ابن ماجہ میں روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے چھنے ہوئے آٹے کو واپس کرکے بھْس میں ملانے کے لیے فرمایا اور پھر روٹی پکانے کے لیے فرمایا۔ کھانے سے پہلے ہاتھوں کے دھونے کا حکم دیا۔ ابن ماجہ میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھو۔ یہ سارے احکام صحت سے متعلق ہیں۔

 لباس اور ماحولیاتی صحت: حفظان صحت کے اصولوں میں ماحول کی صفائی اور پانی کی حفاظت کا حکم ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: تم میں سے کوئی ٹھیرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے (ابن ماجہ)۔ لعنت کی تین باتوں سے، پرہیز کی روایت ابوداؤد میں معاذ بن جبلؓ سے ہے کہ پانی کے مقامات، گزر گاہ کے درمیان اور سایے میں رفع حاجت نہ کرو۔

یہ تمام احکام علاج نہیں، مرض سے بچنے کی اعلیٰ ترین تدابیر ہیں۔ اس لیے کہ مرض سے بچنے کی تدابیر بھی دین کا حصہ ہیں بلکہ ترجیحاً بہت اہم ہیں۔ درخت اور پودے لگانے کو صدقہ قرار دیاگیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو بنجر زمین کو آباد کرے وہ اس کی ہے۔ ترمذی کی ر وایت حضرت جابرؓ سے اور ابوداؤد میں بھی ہے جس نے بیری کاٹی (بلاجواز) اللہ اس کے سر کو دوزخ میں نیچا کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو درخت لگارہا ہے اور دیکھے کہ قیامت آگئی ہے تو درخت لگادے۔ قرآن میں ہے کہ ماحول کو تباہ کرنے والا بڑا دشمن وہ ہے جو کھیتی اور جانوروں کو ہلاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو فساد پسند نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ’’جب اْسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۵)

اس طرح گھر کی صفائی، برتنوں کی صفائی اور گھر کے ماحول کی صفائی بھی فرض ہے۔ گھر کی تعمیر اور صفائی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس طرح کہ خانہ کعبہ کے لیے اللہ نے ابراہیم سے وعدہ لیا کہ ’’میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو‘‘۔(البقرہ۲:۱۲۵)

بدن، لباس، غذا اور ماحول کی صفائی کیوں ضروری ہے؟یہ واضح ہے کہ انسان کی کسی اہم ضرورت کی وجہ سے یہ احکام دیے گئے ہیں۔ اب ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب صحت کے لیے علمِ فقہ میں اس بنیاد پر ہیں اور اولیت رکھتے ہیں کہ انسانی صحت کا دارومدار ان اہم اصولوں پر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ صحت مقدم ہے، اور قیامت تک کے لیے صحت سے متعلق ایجادات، دوائیں، پرہیز یا شہروں کی منصوبہ بندی یا مملکتوں کے انتظامی ڈھانچوں کے جو بھی احکام ہوں گے، ان کو مقاصد الشریعہ کے زمرے میں شامل رکھا جائے گا۔ اس سے یہ بھی واضح ہواکہ پولیو کے قطرے بھی بیماری سے بچانے کے لیے ہیں۔ اس پر ان احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان سارے احکام سے جب پتا چل گیا کہ انسانی زندگی کا تحفظ ہرچیز پر دینی لحاظ سے مقدم ہے، اور پھر زندگی کا انحصار صحت پر ہے، اور اللہ کو بھی قوی مومن پسند ہے تو پھر وہ ساری کاوش جو اس مقصد کے لیے ہو وہ باعث اجر و ثواب ہے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں