صحت مند رہنے کا غذائی نسخہ

مرسلہ: حیدر جعفری کانپور

سچائی یہ ہے کہ صحت کا انحصار ہمارے طرز فکر اور طرز زندگی پر ہے۔ انسانیت سے محبت کرنے والے حضرات خواہ کتنے ہی مفلس و نادار کیوں نہ ہوں، صحت مند رہیں گے اور اپنی ذات کو سب کچھ سمجھ لینے والے مفاد پرست حضرات اپنی تمام آسائشوں کے باوجود اچھی صحت سے محروم رہیں گے۔

دینِ فطرت اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آدھا ایمان صبر میں اور آدھا ایمان شکر میں ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس ہدایت پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ جو چیز آسانی سے اور کسی قیمت کے بغیر ملے ہم اس کی قدر کرنے کے عادی نہیں۔ ہم اس ہدایت میں پوشیدہ حکمت سے لاعلم ہیں ورنہ آج ہر شخص ایسا ریڈیو اسٹیشن نہ بنا ہوتا جس سے فقط شکوے اور شکایتیں ہی نشر ہوتی رہتی ہیں۔ کیا ناشکری کرکے ہم خود اپنی ذات پر ظلم نہیں کرتے؟ کتاب الحکمت قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ شکر ادا کرتے ہیں ان کی نعمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔

ہم یہ اعلان تو بار بار کرتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، اسلام سب سے زیادہ سائنٹفک مذہب ہے، لیکن ہم خود اس سے وہ استفادہ نہیں کرتے جو کرنا چاہیے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہمارے لیے فیض ہی فیض ہے۔ نعمت ہی نعمت ہے۔ راحت ہی راحت ہے۔ اسلام صرف نماز، روزہ، قربانی، جہاد، حج، صدقات، خیرات، زکوٰۃ کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل اور انقلابی طرز حیات ہے۔

اسلام ہمیں افراط و تفریط سے دامن بچا کر اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اس کی تعلیمات سے غفلت برت رہے ہیں۔ یہ اسلام سے دوری ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے لیے دولت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ آج ہم زندگی کی ہر قدر دولت کے ترازو میں تولنے لگے ہیں۔ ہم حصول دولت کے لیے خود اپنے آپ سے دور ہوتے جارہے ہیں، بقول جگر مراد آبادی ؎

جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے

کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں مختلف لذیذ کھانوں پر منہ بسور کر ہم دوسروں کو مرعوب کرنے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن اپنا ہاضمہ ضرور خراب کرتے ہیں۔ اچھی سے اچھی چیز کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کی ہماری عادت یہ اعلان تو ضرور کرتی ہے کہ ہم بہت ’’ہائی کلاس‘‘ ہیں، ہم بہت باذوق ہیں، ہم کوئی ’’اونچی چیز ہیں‘‘ لیکن یہ عادت ہماری صحت بھی خراب کرتی ہے کیونکہ ناپسندیدگی سے کوفت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ کوفت خرابیٔ صحت کا سبب بن جاتی ہے۔

دوسری طرف ایک مفلس شخص ہر شئے میں حسن تلاش کرنے کا عادی بن کر دل کا غنی بن سکتا ہے، آدھا پیٹ کھا کر بھی صحت مند رہ سکتا ہے۔ دانشمند کہتے ہیں کہ ماصنع اللہ فہو خیر (جو اللہ نے بنایا ہے وہ خیر ہے) شاید ہم اس طرزِ حیات کی حکمت سے لاعلم ہیں۔

ہر ڈاکٹر اس بات کی تائید کرے گا کہ کھانے سے پہلے اللہ کو یاد کرنا اور کھانے کے بعد دل کی گہرائی سے اللہ کا شکر ادا کرنا ایک قیمتی ٹانک سے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔

اچھی صحت کے لیے غذا کی اہمیت سے انکار کرنا دانشمندی نہیں، لیکن مرغ، مچھلی، مکھن، بادام، پستہ، انگور، سیب اور ٹانک وغیرہ کے بغیر بھی صحت مند رہنا ممکن ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم سستی اور متوازن غذاؤں کا استعمال کرکے بھی صحت مند رہ سکتے ہیں۔ یہ قطعاً ضروری نہیں کہ جو غذا جتنی زیادہ نایاب اور مہنگی ہوگی وہ اسی قدر مفید اور صحت بخش بھی ہوگی۔ خالق کائنات ہر موسم میں وہی پھل سب سے زیادہ پیدا کرتا ہے جو اس موسم میں سب سے زیادہ مفید ہوتا ہے، لہٰذا کیا یہ ہمارے لیے بہتر نہیں کہ ہم وہی پھل استعمال کریں جو نسبتاً سستے ہوں۔ ہمارے ملک میں انگریزی کا یہ مقولہ بہت مقبول ہے کہ ہر دن ایک سیب کھائیے اور ڈاکٹر کو دور بھگائیے۔ لیکن اس گرانی کے دور میں کتنے لوگ روزانہ ایک سیب کھاسکتے ہیں۔ کیا سیب کا کوئی سستا نعم البدل نہیں ہے؟ کیا سیب واقعی اتنا ہی صحت بخش ہے جتنا کہ مشہور ہے؟

ماہرینِ غذا کی تحقیق یہ ہے کہ ایک سیب میں ۳ء گرام پروٹین اور ۱۳ گرام کاربوہائیڈریٹ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم ایک کیلا کھا کر ۸ء۱ گرام پروٹین اور ۵ء ۳۴ گرام کاربوہائیڈریٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایک کیلے سے ۱۳۲ کلوریز ملتی ہیں اور سیب سے فقط ۶۶ کلوریز۔ پھر سیب میں ۱۴ ملی گرام سوڈیم ہے اور کیلے میں صرف ایک ملی گرام، ہائی بلڈ پریشر کے مریض جانتے ہیں کہ سوڈیم ان کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں آپ آسانی سے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ محدود آمدنی والوں کے لیے کیلا بہتر ہے یا سیب۔ کیلے اور سیب کی قیمتوں میں کیا فرق ہے اس سے تو ہر ایک واقف ہے۔

اسی طرح سنگترے، موسمی، کینو کا شمار مہنگے پھلوں میں ہے لیکن امرود ہر شخص نسبتاً آسانی سے خرید سکتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ۱۰۰ گرام کے درمیانے امرود میں تقریباً ۲۱۲ ملی گرام وٹامن سی ملتا ہے لیکن درمیانے سائز (تقریباً ۱۵۰ گرام) کے سنگترے میں صرف ۷۴ ملی گرام وٹامن سی حاصل ہوتا ہے اور ۱۵۰ گرام کی موسمی سے آپ صرف ۶۰ ملی گرام وٹامن سی حاصل کرسکتے ہیں۔ امرود میں ایک خوبی اور ہے کہ اس میں آئرن بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر سنگترے میں ۵ء ملی گرام آئرن ہے تو امرود میں ۴ء۱ ملی گرام۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوب نوازا ہے تو سنگتروں کو اور موسمیوں کو اپنے دستر خوان کی زینت ضرور بنائیے لیکن بیچارے امرود نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ کیا اس کا یہی قصور ہے کہ وہ کم قیمت ہے؟

وٹامن سی حاصل کرنے کا ایک کم قیمت طریقہ اور بھی ہے اور وہ ہے آنولہ۔ ۱۰۰ گرام آنولے سے آپ ۶۰۰ ملی گرام یہ وٹامن حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر اس کی ترشی پسند نہ آئے تو آنولے کا اچار یا مربہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

میووں میں بادام کی بادشاہت ایک عرصہ سے قائم ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ کمیاب ہے اور گراں ہے۔ مونگ پھلی بیچاری اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ بادام کے مقابلے میں خاصی سستی ہے۔ کاش ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ جتنے وزن کے بادام سے ۸ء۲ گرام پروٹین ملتا ہے اتنے ہی وزن کی مونگ پھلیوں سے چار گرام پروٹین حاصل کیا جاسکتا ہے اور اتنے ہی وزن کے اخروٹ سے ۳ گرام۔ تینوں میں کاربوہائیڈریٹ تقریباً برابر ہیں لیکن حرارے مونگ پھلی میں زیادہ ہیں۔

ہمارے ملک کی مقبول ترین غذا گوشت اور مچھلی ہے اسی لیے ان کے نرخ بھی محدود آمدنی والوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ان کی غذائیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن باعث تعجب یہ حقیقت ہے کہ سویا بین کے مقابلے میں گوشت اور مچھلی میں پروٹین خاصی کم ہیں یعنی سویابین میں ۴۳ فیصد پروٹین ہے اور گوشت و مچھلی میں صرف ۲۰ فیصد۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ سویا بین کولسٹرول سے بھی مبرا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے کولسٹرول کی زیادتی کتنی مہلک ہے اس سے وہی بخوبی واقف ہیں۔ مغربی ممالک میں سویا بین بہت مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ لیکن ہمارے مغرب پرست حضرات ابھی تک سویا بین کی جانب راغب نہیں ہوئے۔ حالانکہ بازار میں سویا بین کا آٹا، دودھ، بڑیاں (منگوچھیاں) تیل اور پنیر دستیاب ہے۔

فیشن ایبل حلقے میں بتھوے کا ساگ بھی راندہ درگاہ ہے کیونکہ اسے مویشیوں اور دیہاتیوں کی غذا سمجھا جاتا ہے۔ اس کا قصور صرف یہی ہے کہ سستا ہے۔ اس ٹھکرائے ہوئے بتھوے کی پتیوں (۱۰۰ گرام) میں ۷ء۶ گرام پروٹین، ۵ء۱۲ گرام کاربوہائیڈریٹ ۲۲۹ گرام وٹامن سی اور ۱۱۳۰۰ آئی یو کروٹین پایا جاتا ہے۔ گاجر بھی ارزاں ہونے کے باوجود غذائیت کا خزانہ ہے۔ صرف ۱۰۰ گرام گاجروں سے ہمیں ۱۲۰۰۰ آئی یو کروٹین حاصل ہوتے ہیں۔ (آئی یو سے مراد ہے انٹرنیشنل یونٹ جو غذائیت ناپنے کی ایک بین الاقوامی اکائی ہے)۔

مذکورہ بالا چند مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھر پور غذائیت صرف قیمتی غذاؤں تک محدود نہیں، بلکہ نسبتاً کم غذاؤں سے بھی تمام جسمانی ضروریات کی تکمیل کی جاسکتی ہے اور محدود آمدنی کے باوجود ہم مثالی صحت کے مالک بن سکتے ہیں اور صحت کا دولت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146