ضحی کو کمپیوٹر پر کچھ کام تھا۔ ایک کمپیوٹر حسن کے کمرے میں تھاجسے وہ اورعباس بھائی اِستعمال کرتے تھے۔دوسراکمپیوٹر عمروعلی کے کمرے میں تھا۔ ضحی سیدھی عمروعلی کے کمرے میںآگئی جو علی کی شہادت کے بعد اب صرف عمر کے تصرف میںتھا۔کمرے میںقدم رکھتے ہی اسے ہرسوگویا علی کے وجود کا اِحساس ہوتاتھایوں لگتاجیسے ابھی علی کہیں سے نکل کر آجائے گا اور’’بھائوں‘‘کی آواز سے اُسے ڈرا کر ہنسنے لگے گا۔ اس احساس سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے ان کے کمرے میںجانا بندکردیاتھا۔ مگرعلی کی یادیں،اس کی باتیں توگویاقدم قدم پر بکھری ہوئی تھیں۔وہ کہاں تک نظریں چراتی۔
ضحی کمرے میںداخل ہوکر بغیرکسی طرف دیکھے سیدھی کمپیوٹر ٹیلی پر آگئی۔جیسے ہی اس نے کمپیوٹر آن کیا۔’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘کی آواز پورے کمرے میںگونج گئی اوراسی آواز کے ساتھ ضحی کو بہت کچھ یادآگیا۔
٭٭
اس دن اسے کوئی اہم پرنٹ آئوٹ نکالنی تھی۔وہ حسن کے کمرے میںگئی تو اُسے کمپیوٹر پر بیٹھا پایا۔
’’بھیامجھے یہ پرنٹ آئوٹ نکالنی ہے۔‘‘
’’دوسراکمپیوٹر اِستعمال کرلو۔میںابھی بہت اہم کام کررہاہوں۔‘‘اس نے کمپیوٹر اِسکرین پر سے نظرہٹائے بغیر جواب دیا۔
وہ پلٹ گئی۔
’’پرنٹر یہاں سے لے جائو ضحی۔‘‘حسن نے اسے پکار کہا۔
وہ پرنٹرلے کر علی و عمر کے کمرے میں آگئی۔ وہاں علی کمپیوٹر پر مصروف تھا۔
’’علی مجھے کمپیوٹر پر کام ہے۔‘‘
’’ابھی معذرت ہے آپی۔مجھے صرف ایک ڈیڑھ گھنٹے میں یہ پریکٹیکل مکمل کرکے دینا ہے۔‘‘اس نے بھی اسے دیکھے بغیر جواب دیا۔
’’مگر مجھے بھی توجلدی ہے۔‘‘وہ چڑگئی۔ ’’مجھے اپنے یہ نوٹس کل چیک کرانے ہیںاورجس سے مانگ کر لائی ہوںاسے جلدی لوٹانا بھی ہے۔‘‘
’’تھوڑی دیررک جائیں میں تیزی سے اپناکام نمٹالیتاہوں۔‘‘
علی کی ٹائپنگ اِسپیڈ بہت زیادہ تھی۔اس کی اُنگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر متحرک تھیں۔اچانک ہی اسے کچھ احساس ہواتو اس نے پلٹ کر دیکھا۔ضحی بیڈ پر بیٹھی اسے گھوررہی تھی۔
’’آپی پلیز ناراض نہ ہوں۔میں آپ کو ایک آئیڈیا دیتاہوں ابھی ظہرکی جماعت کو آدھاگھنٹہ باقی ہے تب تک آپ نماز پڑھ لیںپھر میں نماز کے لیے چلاجائوںگا۔تواپناکام کرلیجیے گاتب تک میںبھی فارغ ہوجاتاہوں۔‘‘
’’اتنی جلدی کیسے فارغ ہوجائوگے ابھی توکہہ رہے تھے کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کرناہے۔‘‘
’’ارے آپی جان ہماراکمپیوٹر بسم اللہ سے شروع ہوتاہے اس لیے بس ہرکام منٹوں میں اوربخوبی ہوجاتاہے یہ دیکھئے آپ نے سنا؟میں نے کل ہی اُسے ڈالاہے۔‘‘
علی نے کمپیوٹر بند کرکے ری اِسٹارٹ کیا تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کی کھنکی آوازسے کمپیوٹر آن ہوگیا۔ آواز بالکل ایسی تھی جیسے چاندی کی پلیٹ پر موتیوں کی لڑی ٹوٹ رہی ہو۔
’’ارے واہ۔‘‘ضحی نے اُسے خوش گوار حیرت سے دیکھا۔’’یہ آواز کس کی ہے؟‘‘
’’مابدولت کی۔‘‘علی نے گردن اکڑائی۔
گویہ کوئی بہت بڑی بات نہیںتھی مگر ضحی نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اوریوں ظاہرکیاگویاعلی نے کوئی بہت بڑاکام کیاہو۔علی کو خوشی ہوئی تھی۔
’’آپ کی اِسپیڈ بہت کم ہے اگرمیں آپ کا کام کرسکتاہوں توبتادیں۔‘‘
’’نہیںتم نہیںکرسکوگے۔‘‘ضحی نے نوٹس کا رول سی پی یو اورمانیٹر کے درمیان گھسا دیا۔’’اسے یہیںرکھتی ہوں۔‘‘
علی نے رولر کو کھول کر بغوردیکھا۔ ’’میں کر دوں گا آپی۔صرف اسی کی پرنٹ آئوٹ نکالنی ہے؟‘‘
’’ہاں ان سب کی…تم کرسکوگے؟‘‘
’’ضرور،آپ بے فکر ہوکر جائیں۔‘‘
’’جزاک اللہ…پھرتب تک میںدوسراکام کرلیتی ہوں۔پرنٹ آئوٹ نکالنے سے پہلے مجھے پروف دے دینا۔‘‘نوٹس کے متعلق اسے مزید ہدایات دے کر وہ چلی گئی۔اسے ایسالگ رہاتھاگویاذہن سے ایک بڑابوجھ اُترگیاہو۔اِطمینان سے نماز پڑھی۔پھر اپنے نوٹس کا باقی کام مکمل کیا۔کالج میںپریکٹیکل چل رہے تھے اسی لیے بہت مصروفیت تھی۔گھڑیال نے تین بجنے کی اِطلاع دی تو چونک پڑی۔ٹھیک تین بجے اُس کی سہیلی اپنے نوٹس واپس لینے کے لیے آنے والی تھی۔وہ علی کے کمرے میںآگئی۔کمرہ خالی پڑاتھا اور نوٹس کا رول جوں کا توں سی پی یواورمانیٹر کے درمیان گھسا ہواتھا۔وہ بے قراری سے آگے بڑھی اوررول کھول کر دیکھاکہ شاید علی نے اس میںپرنٹ آئوٹ رکھ دی ہو۔پرنٹ آئوٹ وہاں نہیںتھی۔اس نے اِسٹڈی ٹیبل پر اس کے بیڈ پر ہر جگہ دیکھ لیا۔اس کا مطلب علی نے پرنٹ آئوٹ نہیںنکالی تھی۔اس وقت ضحی کی ٹائپنگ اِسپیڈ اِتنی کم تھی کہ اس کام کو کرنے کے لیے اسے کم ازکم ڈیڑھ گھنٹہ درکارتھا۔ اورتین بھی بج چکے تھے۔’’اُف‘‘اس نے پریشانی سے گھڑی کو دیکھا۔ اچانک ہی اُسے باہر علی اورعمر کے ہنسنے کی آوازآئی تووہ بھاگ کر کمرے سے باہر نکلی۔دونوں صوفے پر بیٹھے پتہ نہیں کس بات پر ٹھٹھے کررہے تھے۔
’’علی!تم نے پرنٹ آئوٹ نکالی نہیں کیا؟‘‘ اس کی آواز پر دونوں چونک کرمڑے۔
’’اوہ شٹ!‘‘علی نے زورسے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔گویاوہ بات اس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔
ضحی کو جو موہوم سی اُمیدتھی وہ بھی بجھ گئی۔
’’تم نے ایسی غیرذمہ دارانہ حرکت کیسے کی؟‘‘اسے غصہ آنے لگاتھا۔
’’سوری آپی‘‘وہ سرجھکاکربولا۔
’’سوری کے بچے،میںاپنی سہیلی کو کیاجواب دوںگی۔ابھی مزہ چکھاتی ہوںتمھیں۔‘‘
وہ فلورکشن اُٹھاکر اس پر جھپٹی۔
’’ارے رے آپی یہ کیاکررہی ہیں۔ ‘‘علی بوکھلاکر اُٹھا۔’’اتنے سے قصورکی اِتنی بڑی سزا۔‘‘ اس نے صوفے کی دوسری جانب چھلانگ لگائی۔
’’اِسے تم اِتنا ساقصورکہہ رہے ہو۔‘‘وہ بھی بھاگتی ہوئی صوفے کی جانب آگئی اورفلور،کشن علی کی طرف اُچھال دیا۔علی پھرتی سے وہاں سے ہٹ گیا اور عمر نے کمالِ مہارت سے کشن کیچ کرلیا۔ضحی نے دوسرا کشن اُٹھاکر علی کو دے مارا۔اب کے علی بچ نہیںسکاتھا کشن اس کی ناک پر لگاتھا وہ ناک سہلانے لگا۔
’’یہ میرے بھائی پرآپ کس خوشی میںبم باری کررہی ہیں؟‘‘عمر، ضحی کے سامنے رُکاوٹ بن کر کھڑاہوگیا۔
’’ہٹوتم۔‘‘اسے ایک طرف دھکیل کرضحی ،علی کی طرف بڑھی۔عمر پھر ان دونوں کے درمیان آگیا۔
’’عمر!بیچ میںمت آئو ورنہ تم بھی پٹ جائو گے۔‘‘وہ تنبیہابولی۔اسے عمر کی مداخلت سخت ناگوار گزررہی تھی۔اورعلی پراتنا غصہ تھا کہ دل چاہ رہا تھا اس کی چٹنی بنادے۔
’’میں اس کا بڑابھائی ہوں۔آپ اُس کی ایسے سرعام پٹائی نہیں کرسکتیں۔‘‘
’’بڑے بھائی کے بچے،ہٹوتم۔‘‘
ضحی نے ایک تھپڑاس کے بازو پر جڑدیا۔
’’آہ!‘‘عمر نے اپنابازوسہلایااورپھر اپنے دونوں بازوپھیلاکر علی اورضحی کے درمیان گویا دیواربن کر کھڑاہوگیا۔
’’علی پرہاتھ اُٹھانے کے لیے آپ کو میری لاش پر سے گزرناہوگا۔‘‘
اس نے اتنابھاری ڈائیلاگ ماراکہ علی کو کھانسی آنے لگی۔
’’بند کرویہ ڈائیلاگ بازی۔‘‘ضحی نے ایک فلورکشن اسے بھی کھینچ مارا۔
پھرایک کے بعد دوسرا کشن اُٹھااُٹھاکر اُنھیں مارنے لگی۔جس سے بچنے کی کوشش میںوہ پورے کمرے میںناچنے لگے تھے۔
’’ہائیں یہ کیا مہا بھارت چھڑی ہے یہاں؟‘‘
کلثوم بھابی ان لوگوںکوایک دوسرے سے نبردآزمادیکھ کر حیران رہ گئیں۔
’’جی کچھ نہیں،بس ذراساقصور ہوگیا ہے۔‘‘ علی سرکھجانے لگا۔
’’یہ دیکھئے آپی نے ذراسی بات پر کتناہنگامہ کھڑاکردیا۔‘‘
اس نے کمرے میں پھیلی ابتری کی طرف اِشارہ کیا۔
بھابی نے پریشان ہوکر ضحی کو دیکھا۔
شدتِ غم سے اُس سے کچھ کہا نہیں گیا۔ گلا بھی رُندھ گیاتھا۔
ہائے میںاپنی دوست کو اب کیاجواب دونگی۔
’’ارے دیکھو۔‘‘بھابی نے اپنے سرپرہاتھ مارا۔’’میںیہ کہنے آئی تھی کہ تمہاری دوست آئی ہے۔اس نے غالباًتمھیں کوئی نوٹس دئیے تھے۔‘‘
اُن کی بات سن کر ضحی رونے کے لیے اِسٹارٹ لینے لگی۔
’’علی آپ کی پرنٹ آئوٹ دو۔‘‘عمر،ضحی کی محدوش حالت دیکھ کر علی پربرس پڑا۔
’’اوہ ہاں ضحی تمہارے نوٹس کی پرنٹ آئوٹ علی ایک گھنٹہ قبل مجھے دے گیاتھا۔ٹیلی فون کے پاس رکھی تھی میں نے یہ لو…‘‘بھابی نے پرنٹ آئوٹ اُٹھا کر ضحی کو تھمائی۔ایک لمحے کے لیے توضحی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیںآیا۔پھر وہ پرنٹ آئوٹ کا رولر لے کر علی پر بری طرح جھپٹی۔
’’علی کے بچے مجھے اِتنا تنگ کیا۔‘‘علی ہنستا ہوا اندربھاگ گیاتھا۔
’’اللہ نے تمھیں کتنے پیارے بھائی دئیے ہیں۔‘‘بھابی کے لہجے میںمحبت تھی۔
’’ہاں،اتناتنگ کرنے والے۔‘‘ضحی کو کچھ دیرپہلے کی اذیت یادآئی۔
’’نہیں،اِتناخیال کرنے والے۔‘‘
بھابی نے اُس کے ہاتھ میں موجود نوٹس کی طرف اِشارہ کیاتھا……
٭٭
ضحی کمپیوٹرٹیبل پر سرٹکاکرروپڑی—عمر باتھ روم سے چہرے کو تولیے سے تھپتھپاتے ہوئے باہر نکلاتوضحی کو روتے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
’’آپی‘‘وہ بے قراری سے اُس کی طرف بڑھا۔ پھرکمپیوٹر پرنظرپڑتے ہی گویااُس کے رونے کی وجہ سمجھ گیا۔
’’پلیز روئیںمت آپی۔‘‘ضحی کو سیدھا کرکے اس نے اس کے آنسو صاف کیے۔ضحی کے آنسو گالوں پر ڈھلکے پڑرہے تھے۔عمر نے تاسف سے اسے دیکھا۔’’آپ کوپتہ ہے جب علی کے لیے کوئی روتاہے تومجھے یوں محسوس ہوتاہے گویااسے علی کی شہادت پر خوشی نہیں ہوئی۔‘‘
ضحی نے سراُٹھاکر بھیگی پلکیں جھپکاتے ہوئے اُسے دیکھا۔
’’مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ پلیز نہ روئیں۔‘‘وہ سنجیدگی سے کہہ رہاتھا اورآنکھیں بھی بدستورخشک تھیں۔
(اتنا بڑاجگرمیںکہاں سے لائوں))اُس نے بے بسی سے سوچا۔
’’یہ دیکھئے میںآپ کو بتاتاہوںعلی نے ہمارے کمپیوٹر میںکتنے اچھے اچھے پروگرامز ڈالے ہیں۔‘‘وہ اسے ایک ایک کرکے سارے پروگرام بتانے لگاجو شہادت سے کچھ دن قبل علی نے اس میں ڈالے تھے۔
——