صداقتوںکے پاسباں (چودھویں قسط)

سلمیٰ نسرین

وہ اسٹاف روم میں بیٹھا دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو سر میں پھنسائے کچھ سوچ رہا تھا۔ مسلسل ایک روتا ہوا چہرہ اور ایک خوشی و حیرت سے جگمگ جگمگ کرتا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گردش کررہا تھا۔ دونوں چہرے آپس میں گڈمڈ ہورہے تھے۔
’’تو کیا یہ وہی ہے ؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
کچھ دن قبل ان کے بھائی کی deathہوئی ہے سر! اس کے کانوں میں مریم کی آواز گونجی۔
’’علی کے انتقال کو بھی تو زیادہ دن نہیں ہوئے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں سوچ کی گہری پرچھائیاں تھیں۔
’’یحییٰ! ڈونٹ یو ہیو اینی لیکچر؟‘‘ وہ ایک اندازہ لگانے والا تھا کہ HODترپاٹھی سر نے اسے مخاطب کیا جو دروازے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ یحییٰ چونک پڑا پھر نرمی سے ’’نوسر‘‘ کہہ کر اٹھ گیا۔ اب اس کا کوئی لیکچر نہیں تھا۔ وہ گھر جانے کے لیے ڈپارٹمنٹ سے باہر نکل آیا۔
اپنی بائیک نکالنے کے لیے جب وہ پارکنگ کی طرف بڑھ رہا تھا اسے اپنے پیچھے ایک پرجوش پکار سنائی دی۔
’’یحییٰ!‘‘ وہ ایک دم پلٹا۔ حسن اپنی کار لاک کرکے اس کی طرف آرہا تھا۔
’’ارے حسن السلام علیکم!‘‘ خوشگوار حیرت کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔
’’تم گاؤں سے کب لوٹے؟‘‘ حسن نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’کل رات کو۔‘‘
’’ہم آج کتنے دنوں بعد مل رہے ہیں؟‘‘
’’پورے پورے تین دن بعد۔‘‘ یحییٰ نے ہنس کر کہا پھر کسی خیال کے آتے ہی پوچھنے لگا ’’لیکن تم یہاں کالج میں کیسے؟ کیا تمہیں پتہ چل گیا تھا کہ میں آگیا ہوں؟‘‘
’’نہیں، میں ضحی کو لینے آیا تھا۔ علی کی شہادت کے بعد آج وہ پہلی بار کالج آئی ہے۔ اس کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیںتھی۔ بہت بری طرح ڈسٹرب ہوگئی ہے وہ۔‘‘ اس کے لہجے میں درد بول رہا تھا۔
’’ڈسٹرب تو مجھے تم بھی کچھ کم نہیں لگ رہے۔‘‘ یحییٰ نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔ حسن ایک بھر پور مضبوط و بہادر مرد، کتنا کمھلایا لگ رہا تھا۔
’’نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ایک دم نارمل۔‘‘
’’تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں… آؤ کینٹین میں چائے پیتے ہیں۔‘‘
’’تم دو منٹ میرا ویٹ کرو میں ضحی کو مطلع کردیتا ہوں۔‘‘ حسن اسے رکنے کے لیے کہہ کر ضحی کے ڈپارٹمنٹ کی طرف چل پڑا۔ وہ اسی کی طرف آرہی تھی۔ یحییٰ وہیں کھڑا انھیں دیکھ رہا تھا اس نے حسن کو اس لڑکی سے بات کرتے دیکھا تو اس کے شک پر یقین کی مہر لگ گئی۔
’’تو یہ لڑکی حسن کی بہن ضحی ہی ہے ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ …‘‘ اس کی سوچیں پھر پرواز کرنے لگی تھیں۔
’’میں نے کہا کہاں گم ہوگئے جناب؟‘‘ حسن اس کا شانہ ہلاکر دریافت کررہا تھا۔ وہ چونک گیا۔
’’ارے تم واپس آگئے؟‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ پھر حسن کو کوئی بات کرنے کا موقع دیے بغیر اسے ساتھ لے کر کینٹین کی طرف قدم بڑھادیے۔
’’اب بتاؤ مجھے تفصیل سے گھر پر سب کیسے چل رہا ہے؟‘‘ اساتذہ کے لیے مختص کیے گئے ٹیبل پر بیٹھ کر وہ اس سے دریافت کررہا تھا۔ دونوں میں بہت گہری دوستی تھی۔ کالج کے زمانے سے دونوں ساتھ تھے۔ خوشی سے زیادہ دکھ کے ساتھی۔ حسن کے گھر پر دکھ کا اتنا بڑا پہاڑ ٹوٹا تھا اور اگر اسے دادا کی شدید علالت کی خبر نہ ملتی اور جائیداد کی تقسیم کی بات اتنی اہم نہ ہوتی تو وہ حسن کو اس حالت میں چھوڑ کر گاؤں بالکل نہ جاتا۔ کل عشاء میں عباس بھائی بھی اس سے مخصوص شفقت کے ساتھ ملے، مگر ان کی آنکھوں سے جھانکتی اداسی اس کے لیے بالکل اجنبی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ان کے گھر کا ہر فرد دوسرے افرادِ خانہ کے لیے کتنا قیمتی و عزیز ہے۔ اور علی کی شہادت پر تو خود اس کا اپنا دل بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا، وہ بھی اسے اپنے بھائی کی طرح عزیز تھا۔ ان کے دل کی کیفیت کا اندازہ کرنا اس کے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔
’’بس چل رہا ہے کسی طرح۔‘‘ حسن نے گہری سانس لی ’’ابھی تک کوئی اس صدمے سے باہر نہیں نکل پایا ہے۔‘‘
’’عمر؟‘‘ یحییٰ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’عمر اور ضحی کی حالت سب سے ابتر ہے۔ عمر تو گویا سنبھل ہی نہیں رہا ہے۔ راتوں کو علی علی چلا کر جاگنا اس کا معمول بن گیا ہے۔ دن میں بھی کھویا کھویا رہتا ہے۔ ضحی کی طرح ۔ ضحی نے لب اس طرح سی لیے ہیں جیسے اب بولنے کو اس کے پاس کچھ رہ ہی نہیں گیا ہو۔ ‘‘
’’میں اندازہ کرسکتا ہوں۔‘‘ یحییٰ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’وہ دونوں تو چھوٹے ہیں انھیں ابھی سنبھلنے میں وقت لگے گا۔ بہتر ہوگا کہ انھیں کسی سرگرمی میں مشغول کردیا جائے۔‘‘
’’فی الحال ایگزامز سر پر کھڑے ہیں۔ اس کی تیاری سے بڑی مصروفیت اور کیا ہوسکتی ہے؟ مگر مجال ہے جو عمر و ضحی بکس کو ہاتھ بھی لگالیں۔ ہم سب ان کا ذہن بٹانے کی کوشش کررہے ہیں مگر سب لاحاصل۔‘‘
’’تمہارے منہ سے لفظ ’لاحاصل‘ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔‘‘
’’تم نہیں سمجھ رہے یحییٰ‘‘
’’میں سب سمجھ رہا ہوں۔‘‘
’’عمر کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے، کتابوں پر نظریں گاڑے غائب دماغی سے اسے دیکھتا رہتا ہے۔ جب اسے پکارو تو اتنی بری طرح چونکتا ہے جیسے کسی نے نیند کی حالت میںاس کے چہرے پر پانی انڈیل دیا ہو۔ اسے مخاطب کیا جائے تو ایسی سہمی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے جیسے سخت ڈانٹ پڑنے کا خوف ہو۔ اور ضحی کی تو بات ہی مت کرو جہاں موقع ملے رونا شروع کردیتی ہے اور اس کے آنسو ہمیشہ سے ہی ہماری کمزوری رہے ہیں۔ میں ہمیشہ ہی عباس بھائی پر رشک کرتا تھا وہ ان تینوں کو بہت اچھی طرح ٹریٹ کرتے تھے کبھی محبت سے کبھی خفگی سے اور کبھی ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے۔ مگر اس معاملے میں وہ بھی کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں۔ وہ بہت پریشان نظر آرہا تھا۔
’’اور اگر تمہاری بات کی جائے تو…‘‘
’’میری حالت بھی کچھ مختلف نہیں ہے انھیں محبت سے ٹریٹ کرتے کرتے کبھی کبھی انھیں سنبھالنے کی کوشش میں، میں خود ٹوٹنے لگتا ہوں…‘‘
اس کی آواز مدھم پڑگئی آنکھیں بھی سرخ ہونے لگی تھیں۔
’’تم جیسا شخص اگر ٹوٹنے اور بکھرنے کی باتیں کرنے لگے تو ان دونوں معصوم و نازک احساسات رکھنے والے بہن اور بھائی کے سنبھلنے کی امید بھی نہیں کرنی چاہیے۔…‘‘
یحییٰ نے گہری سانس لی۔ ’’میرا خیال تھا میت کے دوسرے دن تم میرے پاس جی بھر کر روچکے ہو۔‘‘
حسن نے جیب سے رومال نکالا اور آنکھیں خشک کیں۔
’’میں روتو نہیں رہا۔‘‘ اس نے بھیگے لہجہ میں کہا۔
’’میں یہ بھی مان لیتا ہوں۔‘‘ یحییٰ نے اثبات میں سرہلایا۔ پھر کرسی کی بیک سے ٹیک لگا کر کہا ’’الحمدللہ میں نے سچویشن کو صحیح طور پر سمجھا تھا۔‘‘
حسن نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ یحییٰ کے روشن چہرے پر خلوص سے پر ہلکی سے مسکراہٹ تھی۔ حسن ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھنے لگا۔
’’کیا مطلب؟؟؟‘‘
’’دراصل حسن ہر معاملہ محبت سے نہیں ہینڈل نہیں کیا جاسکتا مگر تمہارے ساتھ فی الحال مسئلہ یہ ہے کہ تم سختی نہیں کرسکتے… ہے نا!‘‘
حسن نے ہولے سے سرہلایا۔
’’مگر مجھے نرمی و محبت سے بات بنتی نظر نہیں آتی۔ تم حقیقتاً بہت ڈسٹرب ہو، ورنہ اس معاملے کو تم بآسانی ہینڈل کرسکتے تھے۔ جہاں کام خراب ہورہا ہو وہاں جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ بیوقوفی ہے اور چھوٹا نقصان ہمیشہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں مگر …‘‘ حسن نے پریشانی سے بالوں میں انگلیاں پھنسالیں۔
’’مگر…؟؟‘‘ یحییٰ نے سوالیہ نظر سے اسے دیکھا۔ حسن اتنا بے بس نظر آرہا تھا کہ یحییٰ کو بھی حیرانی ہونے لگی۔ اس نے اپنی زندگی میں حسن سے زیادہ بہادر، معاملہ فہم، زیرک کسی کو نہیں پایا تھا۔ وہ تو خود پر ہی رشک کرتا تھا کہ قدرت نے اسے کتنا بہترین دوست عطا کیا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا اس بات کے لیے شکر گزار بھی تھا۔ اور حسن جیسا بہادر مرد جو کبھی مشکلات کو خاطر میں نہیں لایا تھا آج بے بس نظر آرہاتھا تو یحییٰ کا حیران ہونا لازمی تھا۔
’’عمر کو تو خیر پھر بھی میں سنبھال لوں گا مگر ضحی…‘‘ اس نے پریشانی سے کہا۔
’’ضحی کا معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘
آسمان بھی گرپڑتا تو حسن کو شاید اتنی حیرت نہ ہوتی جتنی یحییٰ کی اس بات پر ہوئی۔ اس کے دل کی بات یحییٰ خود اپنے منہ سے کہہ دے گا، یہ اس نے نہیں سوچا تھا۔ وہ حیرت زدہ سا اسے دیکھے جارہا تھا، جبکہ یحییٰ پورے اطمینان کے ساتھ بیٹھا تھا۔
’’کیا تم سنجیدہ ہو؟‘‘ حسن نے بے یقینی کی کیفیت سے نکل کر پوچھا۔ اسے اب بھی اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
’’مرنے کی حدتک ۔‘‘ یحییٰ اسی اطمینان و سنجیدگی کے ساتھ بولا۔
’’لیکن کیسے؟‘‘
’’میں ضحی کی ELTکی کلاس لے رہا ہوں۔‘‘ یحییٰ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’اوہ!‘‘ حسن نے پر سوچ نظروں سے اسے دیکھا پھر بولا: ’’پھر تو واقعی مجھے بے فکر ہوجانا چاہیے‘‘
’’تو پھر چلیں۔‘‘ یحییٰ نے کرسی پیچھے کھسکا کر اٹھتے ہوئے کہا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں