صداقتوں کے پاسبان

سلمیٰ نسرین، آکولہ

دونوں بھائی ہم عمر تھے۔ شکل و صورت، قدوقامت، رنگ و روپ میں کوئی فرق نہ تھا۔ مزاج بھی تقریباً ایک جیسا ہی تھا بس عمر تھوڑا سا ہٹ دھرمی کی طرف مائل تھا۔ جبکہ علی جلد ہی ضد چھوڑ کر بات مان لیتا تھا۔ ان کی پیدائش میں صرف دو گھنٹوں کا فرق تھا اور عمر کو اپنی اس دو گھنٹے کی بڑائی کا خوب احساس تھا اور ان کے درمیان اکثر و بیشتر اسی بات پر بحث بھی ہوجاتی تھی۔ ہم عمر ہونے کی وجہ سے علی اکثر اس کا نام لے کر پکار لیا کرتا تھا۔ اس دن بھی وہ سب ناشتہ کررہے تھے جب علی نے عمر کو مخاطب کیا:

’’عمر ذرا نمک ادھر سرکانا۔‘‘

’’تمیز سے بات کرو، دو گھنٹے بڑا ہوں تم سے۔‘‘ عمر اس کے طرزِ تخاطب پر تلملا جاتا۔

’’ہم دونوں ہم سن ہیں اور دو گھنٹے کی بڑائی چھوٹائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ علی دلیل دیتا۔

’’کیوں نہیں پڑتا؟ ایک منٹ میں دنیا میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ کتنے لوگ پیدا ہوتے ہیں، کتنے مرجاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، کروڑوں لوگ زلزلے کی زد میںآکر اپنا ہنستا کھیلتا گھر تباہ و برباد ہوتے دیکھ لیتے ہیں۔ ایک کمپنی سیکڑوں پراڈکٹس تیا رکرلیتی ہے۔ ہزاروں عدد سگریٹ پئے جاتے ہیں۔ اور کتنے ہی ملین شراب استعمال کی جاتی ہے۔ اور میں تو تم سے پورے دو گھنٹے بڑا ہوں پھر تم میری بڑائی مان کیوں نہیں لیتے؟‘‘ عمر آبجیکشن اٹھاتا۔

’’او کے بھائی آپ مجھ سے بڑے ہیں۔‘‘ علی اس کے سامنے ہاتھ جوڑ لیتا۔

’’تو اب تم مجھے کیا کہو گے؟‘‘

’’عمر بھائی۔‘‘ علی مسکراتے ہوئے کہتا تو عمر کاغصہ بھی کافور ہوجاتا کہ ان بہن بھائیوں میں محبت بھی انتہائی شدید تھی۔ ان دونو ںکی اس قسم کی معصوم جھڑپوں پر سب مسکراتے تھے۔

ہاجرہ بیگم اور ابراہیم عباس نے اپنی اولاد کی تربیت اسلامی خطوط پر کی تھی۔ ابراہیم عباس صاحب اس بات کے معترف تھے کہ نیک بیوی خدا کا بہترین عطیہ ہے۔ ہاجرہ بیگم نے زندگی کی ہر شکل میں ابراہیم صاحب کا ساتھ دیا تھا اور اولاد کی بہترین تربیت کا کریڈٹ تو وہ ہاجرہ بیگم کو ہی دیتے تھے۔ بارہ سال سعودی عرب میں گزارنے کی وجہ سے انھیں اولاد کے ساتھ رہنے کابہت کم موقع ملا تھا۔ مگر ہاجرہ بیگم نے شوہر کی غیر موجودگی میں بھی اولاد کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اس بات پرابراہیم صاحب اللہ کے بعد اپنی بیگم کے بہت شکر گزار تھے۔ نیک طینت، باکردار، صابر وشاکر بیوی پاکر وہ ہرلمحہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔

ان کی اولاد میں سب سے بڑے احمد عباس تھے۔ کمپیوٹر انجینئر اور اپنی فیلڈ میں مکمل انسان۔ پورا اسٹاف ان کے اخلاق و کردار کی وجہ سے ان کا گرویدہ تھا۔ گھر میں انھیں عباس کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔ عباس کے بعد حسن تھا۔ایم بی بی ایس ڈاکٹر، مین ہاسپٹل میں ہاؤس جاب کررہا تھا۔ اپنے ہاسپٹل کا وہ واحد جوان ڈاکٹر تھا جو کبھی نمازمیں کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ چاہے ہاسپٹل ہو یا کوئی اور جگہ… اللہ نے اس کے ہاتھوں میں شفا بھی بہت دی تھی۔ پھر ان کی اکلوتی بیٹی ضحی تھی۔ فرسٹ ایئر کی طالبہ، تھوڑی شوخ و چنچل و شرارتی اور تھوڑی سنجیدہ و بردبار۔ اسلام پسند و باپردہ لڑکی تھی۔ ا س کے بعد دونوں عمر و علی تھے جن کی چھوٹی چھوٹی پیار بھری لڑائیوں سے گھر میں زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ کبھی کبھی ضحی بھی ان کے ساتھ مل کر بچی بن جاتی اور ان کی شرارتوں میں ان کا پورا پورا ساتھ دیتی۔

٭٭

علی نے اپنا ہوم ورک ختم کرکے اطمینان سے ایک لمبی انگڑائی لی۔ عمر، جو بیڈ پر نیم دراز مطالعہ میں مصروف تھا، علی کی طرف متوجہ ہوا۔

’’علی ذرا میرا بھی ہوم ورک کردو تو، بڑی دلچسپ کہانی ہے اور خاصی طویل بھی …‘‘

اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی علی بول پڑا: ’’نہیں بھائی پلیز آپ کرلیں… میں بہت بور ہوچکا ہوں۔ اب رسالہ مجھے دیں۔‘‘

’’میں نے تمہیں کہا ناں، کہانی بہت طویل ہے اورتحیر سے بھر پور بھی میںمکمل کیے بغیر ہرگز نہیں چھوڑوں گا، تب تک تم میرا ہوم ورک کردو۔‘‘

’’مجھے نہیں کرنا آپ کا ہوم ورک۔‘‘ علی نے بیزار سی صورت بنائی۔ ’’امّی کو پتہ چلا تو الٹا مجھے ہی ڈانٹ پڑ جائے گی۔‘‘

’’تم میری نافرمانی کررہے ہو۔ میں تم سے بڑا ہوں ناں!‘‘ عمر کی تیوری پر بل پڑگئے۔

’’بڑے ہیں تو آپ کو میرا ہوم ورک کرکے دینا چاہیے تھا نہ کہ مجھے آپ کا۔‘‘

’’علی! میں کہتا ہوں ہوم ورک کردو، ورنہ… ‘‘ عمر نے کتاب سائیڈ میں رکھ کر اسے وارننگ دی۔

’’ورنہ کیا کرلو گے تم؟‘‘ علی نے ہاتھ نچا کر پوچھا۔

’’تمیز سے بات کرو دو گھنٹے بڑا ہوں تم سے۔‘‘ عمر چلا پڑا۔ علی نے سہمنے کی ایکٹنگ کی۔

’’رحم عالی جاہ! رحم۔‘‘ علی نے عمر کے حضور فریاد کی۔

’’ایک شرط پر، میرا ہوم ورک کردو ورنہ تمہیں گولی سے اڑا دیا جائے گا۔‘‘ اس نے شہادت اور درمیانی انگلی کی مصنوعی ریولوار بناکر علی کا نشانہ لیا۔

’’ہم مرجائیں گے مگر کوئی غیر قانونی کام نہیں کریں گے۔ ٹھیک ہے اے ظالم حکمراں! اگر موت ہی ہمارا مقدر ٹھہری تو ہم جامِ شہادت نوش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اڑادے ہمیں گولی سے… پھر ہم بھی اللہ کے حضور زندہ و جاوید ہوجائیں گے۔‘‘ علی نے چن چن کر ڈائیلاگ مارے۔

’’کیا مطلب؟ ہوم ورک نہ کرنے کی سزا میں تمھیں مار دیا گیا تو تم شہید کہاں سے ہوجاؤگے؟ کیا اللہ کی راہ میں مررہے ہو۔‘‘ عمر نے اسے گھوار۔

’’مظلومی کی موت تو مررہا ہوں۔‘‘

’’میں صرف تین گنوں گا علی، اگر تم نے ہامی نہیں بھری تو یہ دن تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔‘‘ عمر نے ’بندوق‘ تانی۔

’’نہیں نہیں…‘‘ علی نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر بھرپور ایکٹنگ کی۔

’’تین…‘‘ عمر نے ایک دو کہے بغیر تین کہا اور ’’ریوالور‘‘ سے گولی چلادی۔

’’ڈھچکائیں‘‘ نادیدہ گولی سیدھی علی کے سینے میں جا گھسی اور وہ ’’ہائے‘‘ کہہ کر گر پڑا۔

’’ڈھچکائیں‘‘ عمر صاحب بہت غصے میں دوسری گولی بھی چلاگئے۔ علی زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ کوئی اس وقت اگر انھیں دیکھ لیتا تو بیسٹ ایکٹر ایوارڈ سے نوازتا۔ مگر افسوس! اس وقت انھیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ عمر کے منہ سے نکلنے والی ’’ڈھچکائیں‘‘ کی آواز سن کر ضحی جو کہ اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی ، دوڑتی ہوئی ان کے کمرے میں آئی اور علی جو زمین پر گر کر ’تڑپ‘ رہا تھا، اس سے لپٹ گئی۔

’’ہائے میرا بھائی، میرا پیارا بھائی۔‘‘ ایکٹنگ میں تو وہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ آہ و بکا کرنے لگی۔ تڑپتے ہوئے علی کو جھنجھوڑتے ہوئے بولی: ’’علی تمہیں خدا کی قسم ابھی نہیں مرنا۔‘‘

اس کی اس بات پر علی سیدھا ہو کر اٹھ بیٹھا۔ ’’مرنے والے کو اس طرح commentsتھوڑی دیے جاتے ہیں آپی! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘

’’تم چپ کرو۔‘‘ ضحی نے اپنا ’کام‘ روک کر اسے گھورا ’’مرنے والے اس طرح اٹھ کر instructionsنہیں دیتے۔ مت بھولو کہ تم مررہے ہو۔‘‘ پھر عمر کی طرف متوجہ ہوئی۔

’’ہائے ظالم! میرے پیارے بھائی نے تمہارا کیا بگاڑا تھا جو اسے اتنی بے رحمی سے مار ڈالا۔ ہائے اب میرے نوٹس کے لیے کون خوار ہوا کرے گا … اف گھر کا سودا سلف کون لایا کرے گا۔‘‘

ضحی کی کامیاب ایکٹنگ پر عمر نے دل ہی دل میں اسے داد دی۔ جبکہ اس کی بات سن کر علی اسے گھورنے لگا تھا، پھر اپنا تڑپنا بھول کر پھر سے اٹھ بیٹھا اور خفگی بھرے لہجے میں ضحی کو کہا:

’’آپ کو اپنے سودا سلف کی پڑی ہے۔ میں مررہا ہوں اس کا کوئی غم نہیں۔‘‘

’’تو اتنی آہ و زاری کس لیے کررہی ہوں۔‘‘ ضحی نے حیرانی سے اسے دیکھا ’’میں تو …‘‘

’’رہنے دیجیے۔‘‘ علی کھڑا ہوتا ہوا بولا ’’یہ مرنے مرانے کا کام کبھی فرصت میں کریں گے ابھی شرٹ کی پریس خراب ہوئی جارہی ہے۔‘‘ اس نے اپنی قمیص سے نادیدہ جھریاں مٹانی چاہیں۔

’’خبردار۔‘‘ عمر نے پھر اپنا ریوالور تانا۔ ’’ابھی میری گولیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ میرا ہوم ورک کردو ورنہ …‘‘

’’ابھی میرا ایک گھنٹہ سونے کا ارادہ ہے بگ بی! جب سوجاؤں تو اپنا ریوالوار خالی کردیجیے گا میرے جوان سینے پر۔‘‘

اس کی بات پر ضحی اور عمر کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔

’’اونہہ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ‘‘ ضحی ہنسی چھپا کر علی کو چڑاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔

٭٭

لاؤنچ میں عباس اپنی بیوی کلثوم کے ساتھ بیٹھے تھے۔ عمر اور علی کے کمرے سے آوازوں کو وہ بخوبی سن رہے تھے اور محظوظ ہورہے تھے۔ ضحی ہنستی ہوئی ان کے کمرے سے باہر نکلی تو بھائی اور بھابی کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھا تو خود بھی وہیں آگئی۔

’’السلام علیکم ‘‘ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے انھیں سلام کیا۔

’’وعلیکم السلام‘‘ دونوں نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا۔

’’کیا بات ہے اندر سے گولیاں چلنے کی بہت آوازیں آرہی تھیں۔‘‘ عباس نے شگفتہ لہجے میں اس سے پوچھا تو وہ ہنس پڑی۔

’’وہی دونوں پاگل ہیں۔ عمر علی سے اپنا ہوم ورک کروانا چاہ رہا تھا، علی کے انکار پر اس کی دو گھنٹوں ’بڑی‘ والی غیرت جاگ اٹھی اور وارننگ دینے کے بعد دھڑا دھڑ گولیاں چلادیں…‘‘

’’پتہ نہیں علی کو یہ دو گھنٹے چھوٹا ہونے کی سزا کب تک ملے گی؟‘‘

’’آف کورس زندگی بھر۔‘‘ ضحی مسکرائی۔

’’ریوالور تو پورا خالی ہوگیا ہوگا۔‘‘ کلثوم بھابی نے محظوظ ہوکر کہا۔

’’یہ ریوالور خالی ہونے والا نہیں بھابی! جتنا جی چاہے گولیاں چلادو پھر بھی کافی اسٹاک رہے گا۔‘‘

’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ حسن ابھی ابھی ہاسپٹل سے لوٹا تھا، چائے پینے کی غرض سے ادھر آیا تھا۔ سب کو یہاں بیٹھے دیکھا تو خود بھی وہیں آگیا اور ضحی کی بازو والی کرسی پر براجمان ہوگیا۔

’’کس کی بات چل رہی ہے؟‘‘ اس نے گفتگو میں حصہ لیا۔

’ ان بہادروں کی جو اپنی ساری قوتیں اپنے کمرے میں بند ہوکر اپنے ہی بھائیوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔‘‘ عباس بھائی نے عمر و علی کے مشترکہ کمرے کی طرف اشارہ کرکے کہا۔

’’کیا ہوا ہمارے بہادروں کو۔‘‘ حسن کے لہجے میں بھائیوں کے لیے محبت تھی۔

’’ہوم ورک نہ کرنے کی پاداش میں علی پر گولیاں چل رہی تھیں۔‘‘ کلثوم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’پتہ نہیں کب بڑے ہوں گے دونوں۔‘‘ حسن نے ٹھنڈی سانس لی۔ پھر ایک دم ہی ضحی کی طرف مڑا۔

’’کالج کھلے پندرہ دن سے زیادہ ہوگئے ہیں اور تم نے اب تک کلاسز جوائن نہیں کیں۔‘‘

ضحی جو آرام دہ حالت میں بیٹھی تھی، اس کی بات پر سیدھی ہو بیٹھی۔ پھر تھوڑا گربڑا کر جواب دیا ’’بھیا وہ … ایکچوئلی ابتدائی دنوں میں کچھ خاص پڑھائی نہیں ہوتی۔ لیکچرز بھی پابندی سے نہیں لیے جاتے اس لیے میں نے اب تک … ‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑا ۔

’’پھر بھی، ابتدائی دن تو گزرچکے اب تو پابندی سے پیریڈ ہورہے ہوں گے، تم خوامخواہ کیوں اپنی پڑھائی کا نقصان کررہی ہو؟ بس اب فوراً کلاسز اٹینڈ کرو، اوکے۔‘‘

’’جی۔‘‘ وہ دھیمے سے بولی پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’میں چائے لاتی ہوں آپ کے لیے۔‘‘

’’آپا جان، حسن نے ضحی کے جانے کے بعد کلثوم کی طرف دیکھا۔ کلثوم ان کی خالہ زاد تھی، اس لیے عباس سے نکاح ہونے کے باوجود وہ اسے ’بھابی‘ کے بجائے ہمیشہ کی عادت کی وجہ سے ’’آپا جان‘‘ ہی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ ضحی ، عمر اور علی تو عباس سے اس کی نسبت طے ہونے کے بعد سے ہی بھابی کہنے لگے تھے مگر وہ اسے آپا جان ہی کہا کرتا تھا۔ اس کے مخاطب کرنے پر کلثوم اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’ہوں‘‘

’’آپا جان، کیا یہ ضحی ایک بھی دن کالج نہیں گئی؟‘‘

’’گئی تھی ایک دن۔‘‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’لیکن پھر الٹے پاؤں واپس چلی آئی۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ حسن نے استعجابیہ کہا۔ عباس نے بھی سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔

’’وہاں ریگنگ ہورہی تھی فریشرز کی۔ اتفاق سے اس نے وہ منظر دیکھ لیا اور ایسی گھبرائی کہ دوبارہ جانے کا نام نہیں لیا۔ میں نے اس سے کہا بھی تھا کہ ایسی سچوئیشن سے سبھی کا پالا پڑتا ہے اور اب اتنے دن ہوچکے ہیں کہ ریگنگ کا معاملہ بھی پس پشت چلا گیا ہوگا، مگر وہ مانی نہیں اب تم نے کہا ہے تو وہ ضرور ہوجائے گی۔‘‘

’’اوہ‘‘ حسن چپ ہوگیا پھر عباس بھائی کو مخاطب کیا۔

’’بھائی ! کیا خیال ہے ریگنگ کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا جائے۔‘‘

’’مطلب‘‘ کلثوم بھابی نے اسے ناسمجھی کے عالم میں دیکھا۔

’’مطلب، تحریک کی جانب سے کوئی مہم یاہفتہ مناکر۔‘‘ کلثوم کو جواب دے کر اس نے عباس بھائی کو دیکھا۔

’’کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ کلثوم بولیں: ’’فریشرز تو اس کی خوب زور و شور سے حمایت کرتے ہیں، بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ مگر یہی لوگ جب سینئر ہوجاتے ہیں تو بے چینی سے اپنے جونیئرز کی آمد کا انتظار کرتے ہیں کہ کب وہ آئیں اور کب یہ ان کی ریگنگ لے سکیں۔ ضحی کا کالج تو تینوں faculties کے لیے ہے میڈیکل کالجز میں ریگنگ کا کیا حال ہے تم سے بہتر کون جان سکتا ہے؟‘‘

ان کی بات پر حسن نے متفق انداز میں سرہلادیا۔

’’لیکن پھر بھی ہمیں اس کے خلاف کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ ورنہ یہ خرابی تو بڑھتی چلے جائے گی۔ پھر تدارک مشکل ہوگا، آپ کیا کہتے ہیں بھائی؟‘‘

’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو سوچتے ہیں اس سلسلے میں۔‘‘ عباس بھائی نے متفق ہوکر ہامی بھری۔

’’بھیا یہ آپ کی چائے۔‘‘ ضحی نے کپ اس کے سامنے رکھا۔ عمر اور علی زور سے باتیں کرتے ہوئے اپنے کمرے سے نکلے۔ ان کی ٹیوشن کا وقت ہوچکا تھا۔

’’سنا ہے ہمارے نوجوان آج آپس ہی میں دھڑا دھڑ گولیاں چلا بیٹھے تھے؟‘‘ حسن نے شگفتگی سے کہا۔ دونوں کھسیانے لگے۔

’’مگر یہ تو اپنی طاقت کا غلط جگہ استعمال ہوا…‘‘ عباس بھائی کی بات پر دونوں شرمندہ شرمندہ کھڑے تھے۔ پھر عمر بولا :

’’بھائی ہم لوگ سیریس نہیں تھے۔ اِٹ واز جسٹ فار انجوائے۔‘‘

’’اوکے‘‘ وہ مسکرائے ’’چلو ٹیوشن کے لیے نکلو وقت ہورہا ہے۔‘‘

’’چلو علی۔‘‘ عمر نے اسے کہا اور پلٹ پڑا مگر علی تو عباس بھائی کی باتوں میں گم ہوگیا تھا۔ اس نے عمر کی بات نہیں سنی۔

’’علی‘‘ عمر نے دانت پیسے۔ علی چونک پڑا

چلتے ہو یا …‘‘ اس نے پھر مصنوعی ریوالور بناکر علی کو ڈرایا۔ پھر دھیان آنے پر گھبرا کر ہاتھ پیچھے کرلیا اور سراسیمہ نگاہوں سے عباس بھائی کی طرف دیکھا تو وہ سب ہنس پڑے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں