یحییٰ کافی دیر سے حسن کو فون ملانے کی کوشش کررہاتھا مگر اس کاموبائل مسلسل بزی آرہاتھا۔ اس نے گہری سانس لے کر موبائل ایک طرف ڈال دیا۔ بیڈپرنیم دراز وہ کچھ پریشان سا تھا۔ ابھی اس کی امی نے اسے جو خبر دی تھی وہ اس سے حقیقتاً بوکھلاگیاتھا۔
ہاسٹل سے آنے کے بعد کھانے کے دوران اس کی امی اسے کچھ بتارہی تھیں۔
’’وہ پھول سی بچی رِل جائے گی… اگر مسیرہ کے ساتھ کچھ غلط ہوا ناں تو یاد رکھو میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروںگی۔‘‘ ان کی آنکھیں یکایک جھلملانے لگی تھیں۔
اور وہ جو ماتھے پر بل ڈالے، چہرے پر تنائو کی کیفیت لئے ان کی بات سن رہاتھا۔ پل بھر کے لئے بھونچکا رہ گیا۔
مسیرہ کے ساتھ کیا غلط ہوسکتا ہے اور کیوں…؟
وہ اس کی پریشان صورت دیکھ کہنے لگیں… ’’حمید بھائی اس کا رشتہ کویت والے لڑکے سے طے کررہے ہیں۔‘‘ انہوںنے اپنی بھیگی پلکیں صاف کیں۔
’’رشتہ طے کررہے ہیں…‘‘ اسے حیرت کازوردار جھٹکا لگاتھا۔
’’لیکن چچا جان نے مجھ سے تو کوئی تذکرہ نہیں کیا۔‘‘ وہ اب تک بے یقین تھا۔
’’کیوںکریں وہ تم سے تذکرہ…‘‘ وہ پھر چراغ پا ہوئیں۔ ’’ایک سے بڑھ کر ایک رشتے‘‘ اسے آئے اور ہر رشتے کو وہ تمھارے کہنے پر ٹھکراتے رہے۔…… فضول سب تمھیں اہمیت دیتے ہیں۔ سمجھدار اور ہونہار کہہ کہہ کر انہوںنے ہی تمھیں سر چڑھارکھا ہے۔ہنہ… تھوڑی بھی سمجھدار ہوتی تو آج مسیرہ شادی شدہ ہوتی۔ اب تو اسے ڈاکٹری مکمل کئے بھی ایک سال ہوچکا ہے۔ اب تک تم اس کی پڑھائی اور پریکٹس کابہانہ کرتے تھے مگر اب کیا ٹھوس وجہ ہے کوئی بھی پیغام رد کرنے کی…… حمید بھائی بالکل صحیح کررہے ہیں۔ آخر کیوں وہ اپنی بیٹی کو بٹھائے رکھیں۔ مسیرہ میں خدانخواستہ کوئی عیب تو نہیں ہے۔ لاکھوں کروڑوں میںایک ہے۔ جس گھر جائے گی اجالا پھیلائے گی…… اب تو بس اللہ سے یہی دعا ہے کہ جہاں بھی وہ جائے اسے شاد وآباد رکھے۔‘‘
امی بے حد جذباتی ہورہی تھیں۔ وہ انہیں بڑبڑاتے چھوڑکر پریشان کن سوچوں میںالجھتا اپنے کمرے میں آگیاتھا۔ چچا جان کو اس رشتے سے انکار پر راضی کرنے سے پہلے اس کا حسن سے بات کرنا ضروری تھا۔ مگر وہ مصروف بندہ ہاتھ ہی نہیں آرہاتھا۔ موبائل اٹھاکر اس نے ایک بار پھراسے فون ملایا لیکن جواب ندارد۔ اس نے تنگ آکر سیل کو پھینکنے والے انداز میں اچھال دیا…… اسے خود پر ہی جھنجھلاہٹ ہورہی تھی۔ آخر اس نے حسن سے بات کرنے میں اتنی دیرکیوں کردی۔ عمارہ بجو کے کئی بار فون آچکے تھے کہ اس نے مسیرہ سے متعلق حسن سے بات کی ہے یا نہیں اور اس کے انکار پر ہر بار خوب ناراض ہوتیں اور وہ جلد ہی اس معاملے کو نپٹانے کا وعدہ کرکے انہیں ٹھنڈاکرنے کی کوشش کرتا۔ مگر وہ اپنے ارادے کو اب تک عملی جامہ نہیں پہناسکاتھا…… لیکن امی کی دی ہوئی خبر کے بعد اب اس کا متحرک ہوجانا بہت ضروری ہوگیاتھا۔ اور آج اسے ہرحال میں حسن سے ملناتھا۔
’’کیا مصیبت ہے یار کبھی تو Available رہا کرو۔‘‘ تھوڑی دیر بعد حسن نے خود ہی اسے کال کی تھی، اس کی آواز سنتے ہی یحییٰ پھٹ پڑاتھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ حسن کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی جس پر وہ مزید تپ گیا۔
’’کبھی کبھار چھٹی لے لینا صحت کے لئے اچھا ہوتاہے۔ ہاسپٹل کو تو گویا تم نے اپنادھرم اور ایمان بنالیا ہے۔‘‘ ’’میں تھوڑا بزی تھا یار۔‘‘
’’ہاں- وہی تو میں پوچھ رہاہوں کہ شادی کے وقت ’قبول ہے‘، بولنے کی فرصت مل جائے گی آپ کو یا ہمیں ہی قاضی اور گواہوں کو لے کر ہاسپٹل پہنچنا ہوگا۔‘‘ طنزیہ بولتے ہوئے اس کی بیزاری عروج پر تھی۔
’’ہاہاہا… لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ کوئی دیکھ لی ہے کیا؟‘‘
دوسری طرف حسن یقینا اس کی چڑچڑاہٹ سے محظوظ ہواتھا۔
’’ہاں دیکھ لی ہے اور اسی کے متعلق تم سے بات کرنی ہے مگر تم ہو کہ مل کے نہیں دے رہے۔‘‘
’’کیا واقعی…… پھر تو میں آج ہی پہنچتا ہوں۔ وہ بھی سر کے بل…… بتائو کب ملنا ہے؟‘‘
یحییٰ نے اسے وقت اور جگہ بتاکر فون بند کیا…… جسم کو ڈھیلا چھوڑکر اطمینان کی گہری سانس لیتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔
٭٭
وہ ڈاکٹر خان کے کیبن سے ہاتھ میں فائل لئے باہر نکلی تو حسن کو استقبالیہ کا ئونٹرکے پاس کسی سے موبائل پر گفتگو کرتے پایا۔ مسیرہ تذبذب کے عالم میںوہیں کھڑی رہ گئی۔ آج اسے ہاسپٹل میںروزانہ سے زیادہ دیر ہوگئی تھی، ورنہ اس وقت تک وہ گھر پہنچ چکی ہوتی۔ ڈاکٹر خان سے کوئی کیس ڈسکس کرتے ہوئے اسے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ ان سے الوداعی کلمات کہہ رہی تھی جب انہوںنے ایک فائل تھماکر اسے ڈاکٹر حسن کو دینے کو کہا۔ اس نے وہ فائل ان سے لے تو لی تھی مگر حسن کا سامنا کرنا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا۔ اس نے گھنیری پلکیں اٹھاکر استقبالیہ کی طرف دیکھا۔ حسن بہت خوشگوار انداز میں کسی سے بات کرتے ہوئے مسلسل مسکرارہاتھا۔ پتہ نہیں مسیرہ سے ایسی غلطی کیسے ہوگئی تھی۔ اسے یاد آیا جب لالا نے اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ اس پر Commentڈاکٹر حسن نے نہیں سریش نے کیاتھا تو وہ کتنی شرمندہ ہوگئی تھی… اور اتنے دنوں کے مشاہدے و تجربے کے بعد بھی وہ اس بات سے متفق تھی کہ ڈاکٹر حسن جیسا شخص ایسی حرکت نہیں کرسکتا…… اس دن غلط فہمی کی بنا پر ا س نے ڈاکٹر حسن کوبھلا برا کہہ دیاتھا مگر اب معاملہ واضح ہوجانے کے بعد باوجود کوششوں کے وہ ان سے معافی مانگنے کی ہمت خود میں نہیں پارہی تھی بلکہ وہ تو ان کاسامنا کرنے سے بھی کترارہی تھی۔
حسن نے بات مکمل کرنے کے بعد فون بند کیا تو وہ ہولے ہولے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کی طرف چلی آئی۔ وہ اس سے معافی مانگنے کا پکا فولادی ارادہ کرچکی تھی لیکن اس کی بارعب اور باوقار شخصیت کے سامنے وہ بھربھری مٹی ہوگیاتھا۔ اضطراب کے عالم میںوہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ اپنے قریب آتے دیکھ کر حسن بھی اس کی طرف متوجہ ہوگیاتھا۔ اور تھوڑا الرٹ بھی۔ اس نے محتاط ہوکر کن انکھیوں سے دائیں بائیں دیکھاکہ محترمہ کا کچھ بھروسہ نہیں کہ کسی ناکردہ گناہ پر عزت افزائی کردیں۔
’’یہ فائل…‘‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے سبز فائل حسن کی طرف بڑھائی… حسن چند لمحے فائل کو دیکھتا رہا مسیرہ نے آگے کچھ نہیں کہاتھا۔ حسن نے خود ہی اس سے پوچھا۔ ’’ڈاکٹر خان سر نے دی ہے؟‘‘
’’جی…!‘‘ اس نے اثبات میں سرہلایا اور جتنے دھیمے قدموں سے اس کی طرف آئی تھی اس سے کہیں زیادہ تیزی سے پلٹ کرچلی گئی۔ حسن کچھ حیرانی سے اس کی پشت کو دیکھتارہا۔ وہ پچھلے کچھ دنوں سے محسوس کررہاتھا کہ اسے دیکھ کر اس لڑکی کے چہرے پر جو ناگواری اور بیزاری کے تاثرات ابھر آتے تھے، اب ان کی جگہ ایک عجیب سی شرمساری اور ندامت نے لے لی تھی۔ بلکہ بعض اوقات تو یوں لگتاکہ شاید وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پارہی۔ اس کے عجیب و غریب رویے کو سوچتے ہوئے اس نے اپنے شانے اچکادیئے… کہ اب خان سر کی اس دی ہوئی فائل پر مغز ماری کرنے کے بعد اسے یحییٰ سے ملنے بھی جاناتھا۔
٭٭
’’وہی میری چچازاد ہے۔‘‘ یحییٰ کے انکشاف پر وہ متحیر سا اسے دیکھتا رہ گیاتھا۔
وہ لوگ ہاسپٹل کے قریب بنے ایک چھوٹے سے پارک میں بیٹھے تھے۔ حسن حسب وعدہ مغرب کے بعد ہاسپٹل سے سیدھا وہیں چلاآیاتھا جہاں ایک نسبتاً سنسان گوشے میں بیٹھا یحییٰ اس کاانتظار کررہاتھا۔
’’لیکن کیوں؟ وہ تمھارے گھر کیو ں رہ رہی ہے؟‘‘ کافی دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہواتھا۔ جواباً یحییٰ نے اسے مختصراً گائوں والے گھر کے حالات بتادیئے۔
’’آئی سی…… لیکن یار ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ میں اسے زیادہ تو نہیں جانتا لیکن پھربھی وہ ایک اچھی و سلجھی ہوئی لڑکی دکھائی پڑتی ہے…… تم اس سے شادی کیوں نہیں کرلیتے؟
یحییٰ حسن سے اسی سوال کی توقع کررہاتھا۔ اس نے سمنٹ کے بنے بنچ سے پشت ٹکادی۔
’’تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ مسیرہ واقعی ایک سلجھے مزاج اور مثبت سوچ کی حامل لڑکی ہے جب کہ خوبصورتی اس کی ایک اضافی خوبی ہے۔‘‘ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہہ رہاتھا۔ حسن پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا۔
’’امی اور چاچی کی بچپن سے ہی آپس میںبہت محبت تھی وہ دونوں کزن ہیں اور شادی کے بعد اور بھی ان کی انڈر اسٹینڈنگ بڑھ گئی تھی اور شاید اسی وجہ سے وہ دونوں اپنی دیورانی اور جیٹھانیوں کے حسد کا شکار رہتی ہیں۔ میںدادا جان کی شدید علالت کے سبب کچھ دن گائوں ہی ٹھہرا رہاتھا۔ تبھی مجھے وہ بات پتہ چلی جو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔ میں دادا جان کے لئے دودھ گرم کرکے لے جارہاتھا کہ تائی جی کی آواز کانوں میں پڑی۔ وہ چاچی جی سے کہہ رہی تھی کہ شاہدہ (امّی) بہت چالاک ہے۔ اب بوڑھا مرنے کے قریب ہے تو بیٹے کو تیمارداری کے لئے بھیج دیاکہ دادا خوش ہوکر جائداد کا ایک بڑا حصہ ان کے نام کردے اور ساتھ ہی مسیرہ کو بھی بہو بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے ۔ اچھا ہی ہے ایک پنتھ دو کاج۔ ڈاکٹر بہو بھی گھرآجائے گی اور شعیب تو رہتا ہی ان کے ساتھ ہے۔ توزرین (مسیرہ کی والدہ) کا حصہ خود بخود ان کی جھولی میں آن گرے گا۔
یحییٰ نے انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے پیشانی کو دبایا۔ ’’مجھے یاد نہیں انہوںنے اور مزید کتنی ہی فتنہ انگیز باتیں کی تھیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ تبھی میں نے تہیہ کرلیاتھا کہ میں خاندان کی کسی لڑکی سے شادی نہیں کروںگا۔‘‘
حسن اس کے دل کی حالت سمجھ رہاتھا۔ اسے اندازہ تھاکہ یحییٰ اپنے والدین خصوصاً اپنی ماں سے کتنی محبت کرتاہے۔ اور ان پر اس طرح کی الزام تراشی سے وہ بہت دل برداشتہ ہواہوگا…… اس نے یحییٰ کی ران پر اپنا ہاتھ رکھا۔ یحییٰ بہت مضبوط اعصاب کا مالک تھا لیکن اس کے چہرے پر ضبط کی سرخی وہ صاف دیکھ سکتاتھا۔
’’اشمیرہ اور مسیرہ دونوں بہت اچھی لڑکیاں ہیں۔ ان فیکٹ میں مسیرہ کی بہت عزت کرتا ہوں…‘‘
’’اس نے میڈیکل کہاں سے کیا ہے؟‘‘
’’وردھا میں اس کی خالہ رہتی ہیں، اس نے میڈیکل وہیں سے کیا ہے…… وہ آگے مزید پڑھنا چاہتی تھی اور اس نے گائنا کالوجی کیلئے تیاری بھی شروع کردی تھی لیکن چچا جان نے اسے اجازت نہیں دی۔ ان فیکٹ میں خود اس بات کے حق میں نہیں تھا۔ اسی لئے جب اس نے مجھے چچا جان سے سفارش کے لئے کہا تو میں نے اس پر یہ واضح کردیاتھا۔ اب اس کی شادی ہونی ہے اگر اس کا شوہر اور حالات اجازت دیں تو بعد میں پڑھائی جاری رکھ سکتی ہے۔‘‘
’’ہوں‘‘… … حسن نے متفق انداز میں سرہلایا…
’’لیکن اگر اسے جاب کرنی ہی تھی تو اس نے لیڈی ہارڈنگ کوجوائن کیوں نہیں کیا۔‘‘
’’اس نے سب سے پہلے وہیں اپلائی کیاتھا لیکن سرکاری اسپتالوں کاحال تو تم جانتے ہی ہو، اسے وہاں سے جواب ملاکہ فی الحال کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیںجب ہوگی تو اسے کال کیاجائے گا۔‘‘
پارک اب تقریباً خالی ہوچلاتھا۔ اس پرسکون ماحول میں صرف درختوں کے پتوں کے آپس میں ٹکرانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ٹھنڈی ہوا جسم و جان کو فرحت بخش رہی تھی۔ یحییٰ اسے کافی دیر تک مسیرہ کے متعلق تفصیلی معلومات دیتا رہا۔ اور حسن ہمہ تن گوش سنتا رہا۔
’’وہ بچپن سے ہی مذہبی ہے اس نے نوعمری کے زمانے میں ہی ترجمہ و تفسیر کے علاوہ کتب احادیث کا بھی مطالعہ شروع کردیاتھا۔ وہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب سے بہت متاثر ہے۔ ان کاکوئی لیکچر ایسا نہیں جو اس نے نہیں سنا۔ ان کے تمام پروگرامز کی CDکا سیٹ اس کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ بلال فلپس Philipsاور یوسف ایسٹس بھی اسے پسند ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں اس نے دعوتی کام بہت کیا ہے اور آج بھی اس کی یہی خواہش ہے کہ اس کاشوہر نہ صرف اسے دین کا کام کرنے کی اجازت دے بلکہ اس سلسلے میں اس کی بھرپور مدد بھی کرے۔ اس کی اسی خواہش کے پیش نظر میں نے اس کے لئے آئے کئی اچھے پروپوزلز کو چچا جان سے کہہ کر منع کردیا…… میں نے اس تعلق سے تم سے کئی بار بات کرنی چاہی مگر حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ میں چاہ کر بھی تم سے یہ سب کہہ نہ سکا۔ لیکن آج جب امی نے بتایاکہ چچا جان کسی رشتے کے بارے میں سنجیدہ ہورہے ہیں تو مجھے بھی عجلت میں تم سے ملناپڑاکہ مجھے وہ بھی اتنی ہی عزیز ہے جتنے تم ہو…‘‘
حسن کو یحییٰ کی کہی بات پر یقین تھا ۔ اس کے خلوص اورمحبت کی وہ دل سے بہت قدر کرتاتھا… یحییٰ کہتاجارہاتھا جب کہ وہ اتنے مخلص دوست کے بے پناہ پیار سے چمکتے چہرے کو تکتے ہوئے اپنے رب کے حضور کلمۂ شکر ادا کرنے میں مصروف تھا۔ ’’تم ہاسپٹل میں اسے دیکھتے ہوگے تم نے اسے کیسا پایا؟‘‘ یحییٰ نے اس کی رائے جاننی چاہی۔ ’ہوں… تمھاری ساری بات سننے کے بعد اور اپنے مختصر مشاہدے کی بناء پر میںاس نتیجے پر پہنچاہوں کہ لڑکی اچھی ہے اور بھابھی بننے کے لائق ہے۔‘‘
اس نے ایک مبہم سی بات کہی۔ یحییٰ نے رخ موڑکر اس کاچہرہ دیکھا پھر اس کے چہرے پر لکھی تحریر دیکھ کر شوخی سے بولا…’’کس کی…؟‘‘
حسن نے فلک شگاف قہقہہ لگایا… ’’آف کورس، تیری یار۔‘‘
اب اس کی ہنسی میں یحییٰ بھی شامل ہوگیا تھاکہ سرکا بوجھ ٹلنے کے بعد وہ طمانیت محسوس کررہاتھا۔ لیکن پھر ایک سوچ نے اس کے پھیلے لبوں کو سکڑجانے پر مجبور کردیا۔ابھی اس کا کام پورا کہاں ہواتھاابھی تو ایک مشکل اور سخت مرحلہ اسے عبور کرناتھا۔ اس نے ایک نظر حسن کے خوشیوں سے سجے چہرے پر ڈالی اور پہلی بار اسے حسن سے کوئی بات کرنا مشکل نظر آیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسے یہ بات حسن سے خود ہی کہنی تھی۔ امی اور عمارہ بجو تو اس کے سر پر اس بھاری ذمہ داری کا بوجھ ڈال کر بے فکر ہوگئی تھیں۔ لیکن وہ حسن سے یہ کہہ پائے گا…؟ اس نے مضطرب ہوکر پہلو بدلا۔ حسن اس سے کیا کیاکہہ رہاتھا وہ سن نہیں رہاتھا… ایک بار تو جی میں آئی کہ حسن سے یہ ’معاملہ‘ ڈسکس کئے بغیر ہی چلا جائے۔ وہ اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کاارادہ کرہی رہاتھا کہ عمار بجو کالال بھبھوکا چہرہ تصور میں آگیا۔ انہوںنے آج صبح ہی اسے وارننگ دی تھی کہ آج ہرحال میں اسے اس ’نیک‘ کام کو تکمیل تک پہنچانا ہے۔
اپنے گھنے بالوں میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاںپھنسائے وہ متذبذب تھا۔
’’کیا ہوا؟ تم اچانک پریشان کیوں ہوگئے…؟‘‘ حسن کو کچھ دیر بعد احساس ہواکہ یحییٰ اچانک خاموش ہوگیاتھا اور کافی دیر سے کچھ بول نہیں رہاتھا۔ ’’یحییٰ گہری سانس لے کر سیدھا ہوبیٹھا۔ اس نے اب بھی کچھ نہیں کہاتھا۔
’’کمال ہے میرا عندیہ جاننے کے بعد تمھیں نہ صرف ریلیکس بلکہ خوش و خرم نظرآنا چاہئے تھا۔‘‘
’’ہاں،… لیکن مجھے تو تم سے ایک اہم بات اور کہنی ہے…‘‘ وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
’’ہاں تو کہو… مجھے ابھی کسی کام کے لئے دوڑنا نہیں ہے۔‘‘ حسن ہلکے پھلکے لہجے میں سرشاری سے بولا۔ چند ہی منٹوں میں اس کے دل کا موسم یک دم خوش گوار ہوگیاتھا جب کہ اس سے متضاد کیفیت اس وقت یحییٰ کی ہورہی تھی۔ وہ خود کو نارمل کرنے کی سعی کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’اتنی‘ بڑی بات کہنے کے لئے تیار کررہاتھا۔
اس کی طویل خاموشی پر حسن نے قدرے حیران ہوکر اس کی صورت دیکھی تھی۔ پھر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پوری طرح اس کی سمت گھوم گیا تھا۔ ’’مسئلہ کیاہے؟‘‘
’’بات دراصل یہ ہے کہ …… امی اور بجو میری شادی کرانے پر مصر ہیں۔‘‘ اصل بات کہتے ہوئے وہ اس کا تمہیدی رخ اختیار کرگیا۔
’’تو ، اس میں پریشانی کاکون سا پہلو نکلتاہے؟‘‘ گوکہ حسن جانتاتھا کہ یحییٰ گائوں کی زمینوں سے متعلق چل رہے کیس اور جاب کے مستقل (Permanent)نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال شادی نہیں کرناچاہتا، پھر بھی اس بات کے لئے یحییٰ کا اس طرح پریشان ہونا اسے حیران کررہاتھا۔‘‘ لڑکیاں دیکھنے کے لئے دقت اور ہماری خواتین کو تو ایک عرصہ بہرحال درکار ہوتا ہے…‘‘
’’تم پرابلم نہیں سمجھ رہے۔‘‘ یحییٰ جھنجھلاگیا۔ ’’اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ ایک لڑکی پسند کرچکی ہیں۔‘‘
’’حسن بھونچکا سا اسے دیکھتا رہ گیا…’’تو … کیا پروپوزل دے دیاگیاہے؟‘‘ اس نے خدشے کے زیراثر اس سے پوچھا۔ یحییٰ نے نفی میں سرہلایاتھا۔
’’تم راضی ہو؟‘‘ جواباً وہ کچھ دیر چپ رہاتھا۔ ایک طویل وقفے کے بعد وہ مجرموں کی طرح گویا ہوا۔
’’ہاں وہ لڑکی اور اس کی فیملی مجھے پسند ہے۔ ان فیکٹ میری خواہش بھی یہی ہے۔‘‘
اب چپ ہونے کی باری حسن کی تھی۔ کچھ دیر پہلے ملی نئی نئی خوشی اچانک بھاپ بن کر اڑ گئی تھی۔
یحییٰ کی شادی کا اب تک کوئی تذکرہ نہیں تھا اس لئے وہ بھی مطمئن تھا کہ جیسے ہی یہ ذکر چھڑے گا وہ فوراً ضحیٰ کا نام لے گا۔ بھلا اس کی بہن کو یحییٰ سے اچھا لڑکا اور کہاں مل سکتاتھا بلکہ اپنی اس دیرینہ خواہش کا اظہار وہ امی کے سامنے بھی کرچکاتھا لیکن قسمت اچانک اس طرح دغا دے جائے گی اس نے سوچا بھی نہیں تھا…… پل بھر میں ہی اس کاچمکتاچہرہ تاریک ہوگیاتھا… اگر مذکورہ رشتے میںیحییٰ کی رضانہ ہوتی تو شاید وہ ضحی کی بابت اس سے بات کربھی لیتالیکن یحییٰ نے لفظ ’خواہش‘ کا استعمال کیاتھا جو اس کے لب سی گیاتھا۔ اندر ایک تلخی سی اترنے لگی تھی۔ یحییٰ اپنی بات کا ردعمل جاننے کے لئے اسے بغور دیکھ رہاتھا اور اس کا پھیکا پڑتا چہرہ اس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکاتھا۔
’’جب تمھاری ’خواہش‘ بھی یہی ہے تو رشتہ کیوں نہیں دے دیتے؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی طنز لہجے میں شامل ہوگیاتھا۔
’’ایکچوئیلی، بجو چاہتی ہیں کہ اس سلسلے میں پہلے اس کے بھائی سے بات کروں۔‘‘
’’تو اور کب کروگے؟ یا اس کے لئے کسی شبھ مہورت کا انتظار ہے تمہیں…؟‘‘
حسن کے لہجے میں ناگواری اور تلخی کی آمیزش تھی۔ یحییٰ نے حیران ہوکر اسے دیکھا اور کچھ سوچ کر مسکرادیا۔
حسن کے چہرے پر پھیلی برہمی اور لہجے کی تلخی نے اسے نہ صرف بہت کچھ سمجھادیاتھا بلکہ اب اس کے ادراک آگاہی نے اس سے بات کرنے میں آسانی بھی پیداکردی تھی۔
’’وہ شبھ مہورت تو ابھی ابھی گزرا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس لڑکی کابھائی عجیب گھامڑ انسان ہے میں اس سے اتنی دیر سے بات کررہاہوں اور وہ سمجھ ہی نہیں رہا۔‘‘
حسن نے بری طرح چونک کر سراٹھایا یحییٰ دانتوں میں لب دبائے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کررہاتھا جب کہ حسن ہونقوں کی طرح کی صورت تک رہاتھا۔
کچھ ہی دیر بعد پُرسکون فضا میں ان دو زبردست بندوں کے بے فکرے قہقہے گونج رہے تھے۔
(ختم شد)
——