صداقتوں کے پاسبان (قسط:۱۹)

سلمیٰ نسرین

ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی ، وحشت زدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ’’اف‘‘ اس کا سارا وجود پسینے میں شرابور ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ اس بھیانک خواب سے اس کا دل دہل اٹھا تھا۔ اللہ، علی کی خوب لمبی عمر کرے۔ اس نے علی کے بارے میں یہ کیسا خواب دیکھ لیا تھا۔ اتنا طویل اور دل خون کردینے والا خواب۔ وہ پریشان ہو اٹھی تھی۔
’’ہاہا ہا‘‘ سامنے ہی صوفے پر بیٹھے علی و عمر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کھلکھلا رہے تھے۔
انھیں ہنستا دیکھ کر ایک اطمینان بھری سانس اس کے سینے سے خارج ہوئی۔ علی کے کھلے کھلے چہرے کو دیکھ کر اسے پھر وہ تکلیف دہ خواب یاد آگیا کہ علی اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا اور وہ اس کے غم میں حواس کھوبیٹھی تھی۔ اس نے جھرجھری لی۔ لیکن وہ اب بھی اس خواب کے زیرِ اثر تھی۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ عمر نے اسے اس طرح جھٹکے سے اٹھتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔ وہ بڑھ کر اس کے بیڈ کے قریب چلا آیا۔
’’کیا بات ہے آپی؟ کوئی برا خواب کیا؟‘‘
ضحی نے کوئی جواب نہیں دیا وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے علی کو دیکھ رہی تھی۔
’’کمال ہے آپی… آپ دوپہر میں بھی خواب دیکھتی ہیں؟‘‘
علی اس کی طرف آتے ہوئے حیرت کا اظہار کررہا تھا۔ ضحی کو یاد آیا وہ ظہر پڑھ کر لیٹی تھی اسے نیند نے کب آلیا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔
’’توکیاخواب دیکھنے کا بھی کوئی وقت مقرر ہوتا ہے۔‘‘ عمرنے حسبِ معمول علی کو گھورا۔
’’وہ تو کبھی بھی کہیں بھی، کسی بھی وقت دیکھا جاسکتا ہے ۔ کچھ خوابوں پر تو انسان کی ساری زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ کبھی کوئی برا خواب کسی انسان کی ساری زندگی پر محیط ہوجاتا ہے۔‘‘ عمر وجد کے عالم میں کسی فلسفی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بڑے خاص لہجے میں سر دھنتے ہوئے بولا’’میں ان خوابوں کی بات نہیں کررہا ، جو آپ سوتے میں دیکھتے ہیں بلکہ ان خوابوں کا ذکر کررہا ہوں جو آپ کو سونے نہیں دیتے… تالیاں۔‘‘
اپنی بات کے اختتام پر اس نے خود ہی تالی بجائی تھی۔ علی کے پلّے تو اس کی ’’تقریر‘‘ کا ایک لفظ بھی نہیں پڑا تھا۔ تالی کس بات پر بجاتا۔ بہرحال وہ تحمل سے بولا: ’’اگر آنجناب کا ’خواب نامہ‘ ختم ہوگیا ہو تو کچھ آپی کے خواب کے بارے میں دریافت کرلیں؟‘‘
’’اجازت ہے۔‘‘ شاہانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ قریب پڑے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ ’’تو آپی آپ بتائیے آپ نے کیا دیکھا؟‘‘
علی نے اپنی مٹھی کا ’’مائک‘‘ بناکر ضحی کے منہ کے سامنے کیا۔
حسن ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھا اخبار کی سرخیوں پر نظر دوڑا رہا تھا۔ اس نے ایک اچٹتی سی نگاہ ان لوگوں پر ڈالی۔ عمر و علی کے درمیان میں آجانے کی وجہ سے وہ ضحی کو نہیں دیکھ پایا ورنہ اس کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں اس کی نظر سے پوشیدہ نہ رہتیں۔ علی کسی جرنلسٹ کی طرح اس سے سوال کررہا تھا۔اوریہ تو ان تینوں کا تقریباً روز مرّہ کا معمول تھا۔کبھی کرپٹ نیتا کی طرح تقریریں کرتے تو کبھی پریس رپورٹر بن جاتے۔ اور کبھی کبھی تو کسی بادشاہ کا نقارچی بن کر بآواز بلند یوں اعلان کیا جاتا…
’’ڈھم ڈھم ڈھم ڈھم … سنو سنو سنو… تمام لوگوں کے لیے امی صاحبہ‘‘ کا یہ پیغام ہے کہ اگلے پانچ منٹ کے اندر اندر گھر کے سب لوگ کھانے کی ٹیبل پر پہنچ جائیں جو بھی شخص دیر کرے گا اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی او روہ سزا یہ ہوگی کہ مجرم کو آپی کے ہاتھ کا بنایا ہوا لذیذ و مزیدار گاجر کا حلوہ نہیں ملے گا کیونکہ اگلے چند لمحوں میں علی و عمر اسے چٹ کرچکے ہوں گے۔ ڈھم ڈھم ڈھم…‘‘
بات چاہے چھوٹی ہو یا بڑی کبھی اسے بہت پر اسرار بناکر پیش کیا جاتا۔ علی جرنلسٹ بننا چاہتا تھا سو کبھی کرائم رپورٹر بن جاتا تو کبھی لیگل رپورٹر تو کبھی سپورٹس رپورٹر بن کر سامنے آتا۔
’’معمولی بات کو بھی بہت سنسنی خیز انداز میں ’’ناظرین‘‘ کے سامنے اپنے نیوز چینل پر نشر کرتا۔
’’سلام در شکو! میں ہوں علی عباس نیوز رپورٹر فرام…… سے۔ آج کی گرما گرم اور تازہ ترین بلکہ انتہائی دل دہلا دینے والی خبر یہ ہے کہ ہمارے انتہائی معزز شہری مسٹر عمر عباس کو آج ہوم ورک نہ کرنے کی پاداش میں ان کے کلاس ٹیچر ریحان نے انھیں ایک گھونسے سے نوازا… خبرتو واقعی تہلکہ مچادینے والی ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر وہ کون اسباب تھے، جن کی وجہ سے مسٹر عمر عباس اپنا ہوم ورک نہ کرسکے۔
کیا ایسا موسم کی خرابی کی وجہ سے ہوا تھا؟
یا اس کے پیچھے کسی دشمن ملک کا ہاتھ ہوسکتا ہے؟
اس کی اس قسم کی نشریات سن کر بھابی کو ہنسی آنے لگتی۔ اور عمر اسے مسلسل گھورتا رہتا کہ جو بات سات پردوں میں چھپائے جانے لائق ہے وہ اسے یوں سرِ عام ’’الم نشرح‘‘ کررہا تھا۔
مگر علی ساری باتوں سے بے نیاز اپنا کیمرہ اور مائک آن کیے رکھتا۔
’’کہیں اس کا سبب ان کے گھر پکنے والی چنے کی دال تو نہیں؟ جو عمر عباس کو بالکل پسند نہیں۔‘‘
آئیے ان کی بہن ضحی عباس سے بات کرتے ہیں۔
اب وہ مائک کا رخ ضحی کی طرف کردیتا۔ اور ایسے مواقع پر تو اسے گویا اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جاتا۔
’’آپ نیوز چینل والوں نے سمجھ کیا رکھا ہے جب چاہیں کسی بھی باعزت شہری کو یوں رسوا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ آخر میرے معصوم بھائی نے صرف ہوم ورک ہی تو نہیں کیا کسی کا قتل تھوڑا ہی کرڈالا ہے۔ آپ نے کیا مسلمانوں کو تر نوالہ سمجھ لیا ہے کہ جب چاہیں مزے سے نگل جائیں۔ الیکٹرانک میڈیا اپنی حدوں کو پار کررہا ہے۔ یوں کسی کی عزت کو پبلک میں اچھالنے کا کیا مطلب ہے؟ ریحان سر اس کے استاد ہیں صرف گھونسا کیا وہ تو اسے مارنے کا بھی حق رکھتے ہیں۔ لیکن آپ نیوز والوں کی تو عادت ہے نا سڑی سی بات کا ایشو بنادینے کی…
ان پر سے نظریں ہٹا کر حسن مطالعہ میں غرق ہوگیا۔ عمر وعلی، ضحی کو منتظر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
’’میں …‘‘ اس نے تھوک نگلا۔
’’میں نے ایک بہت ہی طویل اور ڈراؤنا خواب دیکھا۔‘‘
’’طویل تو ہوگا ہی آپ پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے سو رہی ہیں۔‘‘ عمر نے گھڑی کو دیکھا۔
’’لیکن آپ نے خواب کس کے بارے میں دیکھا ہے؟‘‘
’’علی کے بارے میں۔‘‘
’’اوہ! تب تو ضرور ڈراؤنا ہوگا۔‘‘ عمر نے آہ بھری اور کن انکھیوں سے علی کو دیکھا۔
’’علی پلیز ذرا یہ سودا تو لادو۔‘‘ بھابی ہاتھ میں تھیلی اور فہرست لے کر آئیں۔
’’میں؟‘‘ اس نے منہ بنایا۔
’’عمر کا نام مت لینا۔ اس کے لیے میرے پاس دوسرا کام ہے۔‘‘ علی کو لب وا کرتے دیکھ کر بھابی پہلے ہی بول اٹھیں۔ ان کی بات پر عمر کے کان کھڑے ہوگئے مگر وہ خاموش رہا۔
’’عزیز چچا کی دکان دوپہر میں بند ہوتی ہے۔‘‘ علی کو بروقت یاد آیا۔
’’جی نہیں سنا ہے، آج کل اس وقت وہاں ان کا بیٹا بیٹھنے لگا ہے۔‘‘
اُف!! بھابی کی معلومات۔
’’کون ناظم… وہ تھوڑا بیمار ہے۔‘‘
’’تمھیں کیسے پتہ؟‘‘ انھوں نے اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔
’’ہماری ہی کلاس میں تو ہے وہ ۔ کل آپی نے سلاد کے نام پر جو ککڑی کے چار قتلے دیے تھے، ٹفن میں ان میں سے ایک ٹکڑا مارے شوق کے اس نے بھی کھالیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کے گلے میں سخت خراش ہوگئی تھی۔ اس پر مستزاد کل اسکول کی بورنگ خراب ہونے کی وجہ سے بحالتِ مجبوری اس نے سمیر کی باٹل سے فرج والا پانی بھی پی لیا۔ بس پھر کیا تھا، اسے نزلہ زکام ، سردی اور پتہ نہیں کیا کیا ہوگیا تھا۔ اس کا نام محمد ناظم نہیں محمد نازک ہونا چاہیے تھا۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146