صداقتوں کے پاسبان (قسط:۲۱)

سلمیٰ نسرین

حسبِ معمول صبح فجر کے بعد وہ سونے کا ارادہ کرہی رہی تھی کہ حسن کا حکم جاری ہوا ’’چلو ہم واک پر چل رہے ہیں۔‘‘ اس کا قطعی موڈ نہ تھا مگر انکار کرکے بھی فائدہ نہ تھا، اس لیے وہ راضی ہوگئی۔ چند دنوں سے حسن اسے روزانہ ٹہلنے کے لیے لے جارہا تھا۔ راستے بھروہ اس سے ہلکی پھلکی گفتگو کرتا اور وہ ہوں ہاں کرتی رہتی۔
رات میں ہلکی بوندا باندی ہونے کی وجہ سے آج کی صبح نسبتاً زیادہ خوشگوار تھی۔ مٹی کی خوشبو فضا میں رچ بس گئی تھی۔ نسیم سحر کے خوشبودار اور سرد جھونکوں کی چھیڑ چھاڑ سے ضحی کا موڈ اور طبیعت دونوں بہتر ہوگئے۔ وہ اب گورنمنٹ گرلس اسکول کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ سڑک کی دوسری جانب ایک پلے گراؤنڈتھا۔
’’ضحی تمہیں یاد ہے جب میں یہاں تمھیں سائیکل سکھا رہا تھا تم ادھر مجھ پر گر پڑی تھیں۔‘‘
ضحی نے پلے گراؤنڈ کی طرف دیکھا جہاں سائیکل سے گرنے کی وجہ سے حسن کو بہت چوٹیں آئی تھیں۔ کیونکہ وہ سائیکل سمیت اس پر گری تھی۔ ’’اور گھر جانے کے بعد ابو کے گلے لگ کر بھوں بھوں کرکے ایسے رو رہی تھی جیسے تم نے مجھے نہیں بلکہ میں نے تمہیں گرایا ہو۔ ایک نمبر کی ڈرامہ باز تھیں تم۔‘‘
ضحی ہنس دی، اسے یاد آیا کہ اس واقعے کے بعد اسے سائیکل سکھانے کی ذمہ داری ابو نے عباس بھائی پر ڈال دی تھی۔
بچپن کی باتیں اور یادیں کتنی حسین ہوتی ہیں۔ اس نے معطر فضا سے ایک گہری سانس اندر کھینچی۔ ایک خوبصورت سردار بچہ اسکول جلدی پہنچنے کی خواہش میں تیز تیز پیڈل چلائے جا رہا تھا۔
’’بھیا! اسکول میں اور اب کالج میں بھی اور دیگر جگہوں پر کتنے ہی غیر مسلموں سے ملاقات اور دعوتی گفتگو ہوتی ہے، لیکن آج تک کسی سکھ لڑکی سے واسطہ نہیں پڑا۔ فی الحال ہماری کلاس میں ہندو، بدھ اور مارواڑی لڑکیاں ہیں، لیکن ایک بھی سکھ نہیں ہے۔‘‘
’’ہوں! ہمارے ساتھ میڈیکل کالج میں ایک سکھ لڑکا تھا ویر سنگھ۔ لیکن وہ خود کو پنجاب کا پتر شیرسنگھ کہلانا زیادہ پسند کرتا تھا۔ اور وہ تھا بھی ویسا ہی بے خوف و نڈر، مست اور بے تکلف۔ سرداروں پر بنائے گئے لطیفوں کی وجہ سے جب کوئی ساتھی student اسے چھیڑتا ، وہ کبھی برا نہیں مانتا تھا۔ زندہ دل انسان تھا ہر وقت ہنستا ہنساتا رہتا۔‘‘
ضحی بہت غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔
’’کالج کی ساری لڑکیوں کو اپنی بہنیں مانتا تھا، اور ان کے لیے مرنے مارنے پر اترآتا تھا۔ بہت صاف دل اور اچھا لڑکا تھا۔‘‘
’’آپ کی اس سے دعوتی گفتگو تو ہوئی ہوگی…؟‘‘
’’ہاں کئی مرتبہ… لیکن وہ زیادہ سنجیدہ نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندومسلم سکھ عیسائی یعنی سارے بھائی ہندوستانی آپس میں بھائی بھائی ہیں لیکن سکھ اور مسلمان بالکل سگے بھائی ہیں، کیونکہ دونوں کے مذاہب کافی حد تک یکساں ہیں۔‘‘ حسن اپنی بات پوری نہیں کرپایا تھا کیونکہ اچانک ہی ضحی ایک طرف دوڑ پڑی تھی… اس پلے گراؤنڈ سے نکل کر دو لڑکیاں سڑک پر اسکوٹی چلانے لگی تھیں اور چند سیکنڈ لہرانے کے بعد دھڑام سے پکی سڑک پر آگریں تھیں، ضحی اب انھیں سہارا دے کر اٹھا رہی تھی۔
’’ہائے میری کمر…‘‘ ایک لڑکی بری طرح کراہ رہی تھی۔ جبکہ دوسری نے غصے سے اس پر برسنا شروع کردیا تھا۔ ڈرائیو کرنے والی لڑکی! بھی اسکوٹی چلانا سیکھ رہی تھی۔ اس کی بڑی بہن نے اسے گراؤنڈ سے باہر نکلنے کو منع کیا تھا لیکن وہ سڑک پر گاڑی چلانے کے شوق میں بہن کے انکار کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑک پر نکل آئی تھی… وہ پندرہ سولہ سالہ نوعمر لڑکی سرجھکائے اب بڑی بہن کی صلواتیں سن رہی تھی، جس کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
’’تم تو ابھی چھوٹی ہو… ایک دو سال اور رک جاؤ تب اپنا یہ شوق پورا کرلینا۔‘‘ ضحی نے اس شرمندہ شرمندہ کھڑی لڑکی سے نرمی سے کہا،وہ دونوں کالے برقعوں میں ملبوس تھیں، اور اب ان پر لگی گرد جھاڑ رہی تھیں۔
’’اسے میں بہت سمجھاتی ہوں مگر یہ مانتی ہی نہیں۔ اب آپ ہی اسے کہیے شاید آپ کی بات اس کی سمجھ میں آجائے۔‘‘
ضحی ان دونوں کو جانتی تھی، وہ اکثر اجتماعات میں ان سے مل چکی تھی۔ وہ اس لڑکی سے باتیں کرنے لگی تبھی بڑی لڑکی کی نظر حسن پر پڑی جو انہی کی طرف دیکھتا ہوا ضحی کی واپسی کا انتظار کررہا تھا۔
’’یہ ڈاکٹر حسن ہیں ناں!‘‘ اس نے ضحی سے تصدیق چاہی اور اس کے اثبات میں سر ہلانے پر بہت پرجوش لہجے میں بولی:
’’کل سینٹر پر انھوں نے اتنی زبردست تقریر کی کہ سب عش عش کراٹھے… دیکھو ارم ! تم ڈاکٹر حسن کو دیکھنا چاہ رہی تھی ناں وہ رہے۔ ضحی باجی کے بھائی ہیں وہ۔‘‘ چھوٹی لڑکی بھی اشتیاق سے اسے دیکھنے لگی۔
حسن ہاتھ ہلا کر ضحی کو بلا رہا تھا۔ وہ ان لڑکیوں کو سلام کرکے اس کی طرف چلی آئی۔
’’کل سینٹر پر پروگرام تھا آپ نے بتایا نہیں…‘‘
حسن نے ٹھٹک کر اسے دیکھا،ضحی کے لہجے میں شکوہ نہیں خفگی تھی۔ وہ ٹھنڈی سانس بھرکر رہ گیا اب اسے کیا بتاتا کہ اس وقت وہ بے ہوش تھی۔
’’بائی دا وے ٹاپک کیا تھا؟‘‘
اب کے اس نے نارمل لہجے میں پوچھا تو حسن بھی پرسکون ہوکر اسے گزشتہ کل کے پروگرام کے بارے میں بتانے لگا۔
٭٭
مسیرہ بہت اضطراب کے عالم میں موبائل کھنگال رہی تھی۔ مگر کومل کا نمبر ندارد تھا۔ مسیرہ کو یاد آیا کہ کل جب وہ اشمیرہ کے سر میں مالش کررہی تھی تب وہ اس کے موبائل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی رہی تھی۔ تبھی تو ڈائل کیے گئے نمبر والی میموری پوری خالی تھی۔ آج جب مسیرہ کو کومل کا خیال آیا تو اس نے موبائل نکال کر نمبر محفوظ کرنا چاہا مگر ڈائیل کیے گئے نمبر شاید ڈیلیٹ ہوگئے تھے۔ اسے اشمیرہ پرجی بھر کے غصہ آیا۔
اپنے کیبن میں گھومنے والی کرسی پر بیٹھی وہ ٹیبل پر پڑے موبائل کو بہت بے بسی سے تک رہی تھی۔ اللہ نے ایک موقع دیا تھا دعوت کا اسے بھی وہ اپنی حماقت کے باعث کھوچکی تھی۔ کیا تھا اگر وہ کل ہی اس کا نمبر محفوظ کرلیتی۔ وہ لڑکی کتنی ایماندار اور خوددار تھی۔ بار بار پیسے لوٹانے کی بات کررہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کتنی سچائی تھی۔ ممکن تھا کہ وہ اسلام کی صداقت پر ایمان لے آتی۔
مسیرہ بہت پشیمانی سے سوچ رہی تھی۔
(’’یا رب! تو ہی اس لڑکی کو کہیں مجھ سے ملادے…‘‘) اس نے دل کی گہرائیوں سے دعا مانگی۔ پھر اچانک ہی ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا۔ اور وہ اپنا موبائل اور پرس اٹھا کر ہاسپٹل سے باہر نکل آئی۔
کل ٹھیک اسی وقت وہ لڑکی کومل اسے بس اسٹینڈ پر ملی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آج بھی اس سے ملاقات ہوجائے۔وہ تیز تر قدموں سے چلتی بلکہ بھاگتی اسٹینڈ تک پہنچی تھی۔ دل ہی دل میں دعا کرتی، بے چین اور مشتاق نظریں ادھر ادھر دوڑا کر وہ مسافروں کے ہجوم میں کومل کو تلاش کررہی تھی۔
پتہ نہیں دل کیوں بار بار اس پیاری سی لڑکی کے لیے ہمک رہا تھا۔ وہ یقینا اپنی شخصیت میں غیر معمولی کشش لیے ہوئے تھی، تبھی تو مسیرہ کا دل اس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ مگر وہ تھی کہاں… مزید ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بھی وہ اسے دکھائی نہ دی تو مسیرہ کی آنکھوں میں نمی در آئی۔
آخر اپنی غفلت اور کاہلی کی سزا بھی تو مجھے ملنے چاہیے، بھیگی پلکیں آنسو جذب کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔
دانتوں سے اپنے نازک لبوں کو کچلتی وہ تھکے قدموں سے واپس پلٹی تھی۔
٭٭
ضحی اپنے کمرے میں ایسے بیٹھی تھی جیسے اسے کوئی شاک لگ گیا ہو۔ یہ آج حسن بھیا نے اس کی آنکھوں سے کیسے پردے ہٹائے تھے… بیڈ پر بیٹھی وہ حیران و پریشان تھی … کیا حقیقتاً وہ اپنی لاپرواہی کے سبب ایک بار پھر کچھ کھونے جارہی تھی…
’’یا اللہ!‘‘ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ اس کے کانوں میں رہ رہ کر حسن کی آواز گونج رہی تھی… اور وہ شرمندہ اور مزید شرمندہ ہوتی جارہی تھی۔
آج جب وہ چہل قدمی سے واپس لوٹ رہے تھے، حسن اس سے عمر کے متعلق استفسار کررہا تھا۔
’’عمر تو اب اسکول جاچکا ہوگا! اس نے ناشتہ کیا تھا؟‘‘
’’پتہ نہیں…‘‘ وہ کچھ بے دھیانی میں بولی تھی۔
’’کل رات اس نے کھانا کھایا تھا؟‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’اور کل صبح …؟‘‘ حسن نے سوالیہ نظریں اس پر گاڑدی تھیں۔ضحی زچ سی ہوگئی اور ذہن پر بھرپور ز ور ڈالنے کے باوجود یاد کرنے میں ناکام رہی۔
’’جی… وہ…‘‘ پھنسی پھنسی آواز میں صرف دو لفظ لبوں سے ادا ہوئے تھے۔ مارے خجالت و شرمندگی کے وہ کچھ کہہ نہ پائی تھی۔
’’وہ بھی نہیں پتہ… ہے نا…‘‘ حسن کا سخت لہجہ سن کر وہ سہم سی گئی تھی مگر اگلے چند لمحوں میں حسن نے جو کچھ کہا تھا وہ اسے ندامت کے سمندر میں ڈبونے کے لیے کافی تھا۔
آج اسے پتہ چلا کہ وہ کتنا ایب نارمل رویہ اختیار کیے ہوئے تھی۔
(’’ایک بھائی کھوچکی ہو… اب کیا دوسرا بھی کھونا چاہتی ہو…‘‘) حسن بھیا کے اس جملے پر وہ تڑپ اٹھی تھی۔
اور انھوں نے آج جو کچھ کہا تھا اس میں غلط کیا تھا…؟؟ لفظ لفظ سچ تھا… چاہے جتنا کڑوا تھا مگر تھا سچ ہی۔
(’’اللہ نے تمھیں چارپائی دیے تھے، میزان بھی برابر… دو بڑے اور دو چھوٹے… دو چھوٹے بھائیوں میں سے بھی صرف ایک کو واپس لیا… لیکن تم نے عمر کے بارے میں بھی سوچا ہے… ؟ علی تو اس کی کل کائنات تھا… اس کا ساتھی اس کا دوست اس کا ہم راز و ہم ساز… اس کے پاس تو صرف علی ہی تھا ضحی!… اور تمہارے پاس علی و عمر دونوں تھے… نقصان اس کا زیادہ ہوا ہے… کیونکہ اب اس سے اس کی اکلوتی بہن بھی چھن گئی ہے…‘‘)
حسن بھیا کے جملے اس کے ذہن کی دیواروں سے ٹکرا رہ تھے۔
’’تو کیا تمہارا پیار صرف علی کے لیے تھا؟‘‘
’’کہ اس کے انتقال کے بعد بھی تمھیں اسی کا خیال ہے اور زندوں کی کوئی پرواہ نہیں۔‘‘
’’کیا تم عمر کو سوتیلا تصور کرتی ہو۔؟‘‘
ضحی ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو پڑی… حسن بھیا نے کتنے سخت الفاظ کا استعمال کیا تھا…
’’کیا داعی اتنے کمزور ہوتے ہیں… کہ روزمرہ کے واقعات ان پر اتنے اثر انداز ہوتے ہیں کہ ساری تنظیمی و تحریکی سرگرمیاں ٹھپ ہوجائیں…؟‘‘
اللہ سے محبت کرنے والے اللہ پر بھروسہ رکھنے والے اور اس کے دین کا کام کرنے والوں کا رویہ ایسا تو نہیں ہوتا ضحی…!!
حسن بھیا افسوس سے سرہلارہے تھے…
ہمیں تم سے ایسی امید نہیں تھی … اگر اب بھی تم نے اپنے رویے میں تبدیلی نہ پیدا کی تو تم ہمیں مایوس کروگی…
دکھ، پچھتاوا، شرمندگی، ندامت … اس کے آنسوؤں میں کتنے ہی جذبات کے آمیزش تھی۔
کچھ دیر بعد اس نے ہتھیلیوں سے آنسو رگڑ کر صاف کیے اور مضبوط قدموں سے کچن کی طرف گئی۔ وہاں کلثوم و ہاجرہ بیگم مصروف تھیں۔
’’امی! عمر کہاں ہے؟‘‘
’’وہ اسکول چلا گیا ہے… یہ لڑکا بھی خوب تنگ کررہا ہے بغیر ناشتہ کے ہی چلا گیا…‘‘
ان کے لہجے میں بیزاری و فکر مندی تھی۔
’’لیکن اس کے تو کامن ٹیسٹ ختم ہوچکے… اور مارکس بھی بتائے جاچکے ہیں تو آج وہ اسکول کیوں گیا ہے گھر بیٹھ کر پڑھتا۔ اگلے ہفتے سے تو امتحانات شروع ہوجائیں گے۔‘‘
’’وہ آیڈمٹ کارڈ لانے گیا ہے۔‘‘
’’جانے اسے کون سا سینٹر ملے…‘‘ وہ خود سے الجھتی کالج کے لیے تیار ہونے لگی… ’’وہ اپنی پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دے رہا۔‘‘ وہ مسلسل عمر کے متعلق سوچ رہی تھی… اسے پتہ نہیں تھا اگلے چند گھنٹوں میں اسے بھی پتہ چلنے والا تھا کہ وہ خود کتنے پانی میں ہے۔
دورانِ لیکچر بھی وہ غیر حاضر دماغ ہی رہی تھی۔ یحییٰ نے کلاس میں داخل ہوتے ہی اس کی موجودگی کو نوٹس کرلیا تھا۔
’’آپ کی تعریف؟‘‘ وہ سرجھکائے اپنی کتاب پر نظریں گاڑے ہوئے تھی۔
’’ضحی…‘‘ مریم نے کہنی سے اسے ٹھوکا مارا ’’سر تم سے نام پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’آں…‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے مریم کو دیکھا پھر اس کے گھور کر اشارہ کرنے پر سر اٹھا کر نئے اجنبی ٹیچر کو دیکھنے لگی۔
’’سر… یہ ضحی ہے۔ ضحی عباس۔‘‘ ضحی کے کافی دیر تک جواب نہ دینے پر بالآخر مریم کو بولنا پڑا۔
’’آریو نیو کامر…؟‘‘ ضحی نے کھڑے ہوکر نفی میں سر ہلا دیا۔
’’اگر نیو کامر نہیں ہیں تو پچھلے ایک ماہ سے کہاں تھیں … میں نے تو آپ کو کلاس میں کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ وہ جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’سر یہ پچھلے دنوں …‘‘
اس نے ہاتھ اٹھا کر مریم کو بولنے سے روک دیا۔’’یہ اپنی زبان گھر بھول آئی ہیں کیا؟‘‘
سر کے طنزاً کہنے پر ضحی نے الرٹ ہوکر دھیمی آواز میں کہا: ’’میں… پچھلے دنوں بیمار رہی تھی سر…‘‘
’’پچھلے ایک ماہ تک مسلسل بستر پرتو نہیں پڑی ہوں گی… میں اس سے قبل آپ کو کالج میں دیکھ چکا ہوں مس مریم کے ساتھ… پھر کیا کلاس میں آتے ہوئے آپ کی طبیعت خراب ہونے لگتی تھی…؟ یا ELT سے ہی کچھ الرجی ہے؟‘‘
انداز تضحیک آمیز تھا۔ احساسِ توہین سے ضحی کی رنگت تمتما اٹھی۔
’’میں اس کلاس کے اب تک تین ٹسٹ لے چکا ہوں… اب تو کورس تقریباً مکمل ہونے کو آیا ہے… سارے طلبہ اسائنمنٹ تیار کرکے چیک کراچکے ہیں … مگر ضحی عباس کا نام تو میری نظروں سے نہ کسی ٹسٹ پیپر پر گزرا اور نہ اسائنمنٹ پر۔‘‘
وہ سرجھکائے ضبط کی کوشش میں لب بھینچے کھڑی تھی۔ سب کی نگاہوں کو خود پر محسوس کرکے وہ شرمندہ سی ہوگئی۔ سر کے کھری کھری سنانے کا مطلب کیا تھا، اب وہ بتا تو چکی تھی کہ وہ بیمار تھی۔اسے سر کی نگاہوں اور باتوں سے بہت کوفت ہورہی تھی۔
’’سر یہ کوئی ٹسٹ نہیں دے پائی تھیں اور وجہ ان کی خرابیٔ طبیعت ہی تھی۔‘‘ اب کی بار جویریہ اس کی مدد کو کودی تھی۔
’’چہ خوب… آپ لوگوں کا اتحاد قابلِ تعریف ہے… اپنی دوست کی بے چارگی دیکھی نہیں جارہی ہے آپ سے…‘‘ اس نے طنزیہ نظر سے انھیں دیکھا تو وہ لوگ نگاہ جھکا گئے۔
’’بہرحال‘‘ وہ خشک لہجے میں ضحی سے مخاطب ہوا ’’مس ضحی دو دن کے اندر مجھے آپ کے اسائمنٹ کمپلیٹ چاہئیں … اوکے…‘‘
ایک تنبیہی نظر اس پر ڈالتا وہ کلاس روم سے باہر نکل گیا۔ (جاری)
بیوٹی ٹپس
خشکی (ڈینڈرف) : گھریلو علاج
موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی بہت سی پریشانیاں بھی آتی ہیں۔ ایک پریشانی سر میں خشکی کا ہونا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے کچھ گھریلو نسخے آزمائیں۔
٭ نیبو کے رس اور سر کے کو برابر مقدار میں ملا کر سر کی جلد پر مالش کریں بعد میں شیمپو سے دھولیں۔
٭ میتھی کے دانوں کو رات بھر پانی میں بھیگنے دیں، اگلے روز ان کا پیسٹ بناکر سر کی جلد پر ۳۰ سے ۴۰ منٹ تک لگائے رکھیں۔ بعد میں شیمپو سے دھولیں۔
٭ ہفتے میں دو بار نایل کے گرم تیل، بادام اور زیتون کے تیل سے مالش کریں۔
٭ تلسی کے پتوں اور آنولے کے سفوف کو پانی میں ملا کر پیسٹ بنالیں۔ اس پیسٹ کو ایک یا آدھے گھنٹے تک لگانے کے بعد پانی سے دھولیں ۔
٭ سر کے کے پانی سے بالوں کو دھوئیں۔
٭ ناریل کے تیل میں کپور ملا کر لگائیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146