صداقتوں کے پاسبان (قسط: ۱۷)

سلمیٰ نسرین

فجر کی نماز کے بعد وہ مصلے پر ہی بیٹھی کچھ دیر ذکر کرتی رہی۔ امی نے کھڑکی کھول دی تھی پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں کانوں کو بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ ضحی اٹھ کر کھڑکی کے قریب آگئی۔ اسے سارے دن اور رات کے اوقات میں صرف یہی وقت سب سے زیادہ اچھا لگتا تھا۔ نسیم سحر کے خوشبودار جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ خود کو قدرت کے بے حد قریب محسوس کرتی تھی۔ علی الصبح چھت پر جاکر وہ اس فرحت بخش ماحول میں اس وقت تک ٹہلتی رہی جب تک سورج اپنی چمکیلی کرنیں ارسال نہ کردیتا۔ چند دنوں سے اس معمول میں تبدیلی آگئی تھی۔ اب وہ فجر کے بعد دوبارہ گہری نیند میں چلی جاتی۔ جتنی دیر نیند میں ہوتی اتنی دیر افسردہ اور دکھی ہونے سے بج جاتی ورنہ جہاںآنکھ کھلی ہر طرف ایک نامانوس سی اداسی اور خالی پن نظر آتا اور ایسے بور و تکلیف دہ ماحول میں دل چاہتا کہ دوبارہ لمبی تان کر سوجائے۔ اور جب آنکھ کھلے تو اس اداسی کے بجائے گھر میں قہقہے اور کھلکھلاہٹیں بکھری ہوں۔ اس نے گہری سانس اندر کھینچی اور کھڑکی سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی، نظر پھر جوہی کی بیل پر جا اٹکی تھی۔ انتہائی تکلیف دہ احساس کے ساتھ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں۔
’’ضحی اگر اٹھ ہی گئی ہو تو کچن میں جاکر ناشتہ بنالو میں نے کلثوم کو واپس اس کے کمرے میں بھیج دیا ہے اس حالت میں اس کا کام کرنا ٹھیک نہیں، جاؤ تم۔‘‘
وہ خاموشی سے کچن میں آگئی۔ کچن میں پھیلی بے ترتیبی نے اسے احساس دلایا کہ وہ کتنے دنوں سے کچن میں نہیں آئی۔ کپڑے برتن اور جھاڑو پونچھا تو ماسی کرجاتی تھی باقی کا کام وہ اور کلثوم کرلیا کرتے تھے۔ مگر چند دنوں سے وہ دنیا و مافیہا سے تو کیا خود سے بھی بے خبر تھی۔ بھابی ننھے ابوبکر کو لے کر میکہ کی بجائے ہاسپٹل سے سیدھا گھر واپس آگئی تھیں، گو امی اور خالہ نے انھیں بہت منع کیا تھا مگر وہ راضی نہیں ہوئیں کہ پہلے ہی گھر کا ایک فر دکم ہوچکا ہے۔ سب اداس ہیں اب اگر میں بھی نہ رہوں ہو تو گھر مزید ویران لگے گا اور ہوسکتا ہے کہ ننھے ابوبکر کو دیکھ کر عمر و ضحی اپنا دکھ بھولنے لگیں۔
ان کی بات میں دم تھا اس لیے سب رضا مند ہوگئے، آٹھ دس دن کے لیے سارہ خالہ بھی آگئی تھیں، مگر گھر کی ویرانیاں پھر بھی کم نہ ہوئیں، یوں لگ رہا تھا گویا علی ساری رونقیں اپنے ساتھ ہی لے گیا ہو۔
’’امی! چائے…‘‘ حسن کچن میں ضحی کو دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ آج کل کچن امّی و خالہ نے ہی سنبھال رکھا تھا۔
’’تم… تم یہاں کیوں آگئیں؟ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ تمھیں ابھی آرام کرنا چاہیے تھا۔‘‘ وہ فکرمندی سے کہہ رہا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ مدھم آواز میں کہہ کر اس نے حسن کے لیے چائے چولہے پر رکھ دی اور گم سم انداز میں سلیب پر انگلی سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے لگی۔
’’چائے ابل رہی ہے۔‘‘ حسن کی آواز پر اس نے چونک کر سراٹھایا، چائے ابل ابل کر باہرگرنے لگی تھی، اس نے پتیلی جلدی سے نیچے اتاری اور چائے کپ میں ڈال کر کپ حسن کی طرف بڑھایا۔
’’کچن میں کھڑی ہو… دماغ کو حاضر رکھ کر کام کرو۔‘‘ خشک لہجہ میں کہہ کر اس کے ہاتھ سے کپ لیتا ہوا وہ باہر نکل گیا۔
’’تمہارا سائنس IIکا اعادہ مکمل ہوگیا؟‘‘ ناشتہ کی ٹیبل پر حسن نے عمر سے پوچھا۔
’’جی ؟‘‘ عمر نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’وہاٹ جی! دھیان کہا ںہے تمہارا؟ تم ہی سے بات کررہا ہوں۔‘‘ حسن یک دم تپ گیا۔ عمر کوئی جواب نہیں دے پایا، اب انھیں کیا بتاتا کہ وہ ابھی تک آٹھویں Chapterپر ہی اٹکا ہے۔
’’اس میں بارہ یا تیرہ اسباق ہیں، غالباً آج شام کو تمہارا ٹیسٹ ہے اور اس میں تمہارے آؤٹ آف مارکس آنے چاہئیں۔‘‘
’’جی!‘‘ ٹیسٹ کا نام سن کر عمر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ حسن بہت کم سختی کرتا تھا مگر جب وہ سختی کرتا تو بالکل اجنبی بن جاتا اور کسی کی خاص طور پر عمر و علی کی تو اس سے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔
’’پھر جی!‘‘ حسن کی پیشانی پر بل آگئے۔ ’’چند دن بعد بورڈ کے examہیں کچھ فکر ہے کہ نہیں۔ دن بھر بیٹھے لڑکیوں کی طرح آنسو بہاتے رہتے ہو۔ ایک بات کان کھول کر سن لو اگر آج کے ٹیسٹ میں کچھ گڑ بڑ ہوئی تو پھرتمہاری خیر نہیں۔ بہت ہوگیا تمہارا لاڈ پیار۔‘‘
ناشتہ ختم کرکے اس نے پانی پیا۔ رومال سے لب صا ف کرتے ہوئے ضحی پر اس کی نگاہ گئی تو اسے پورے اطمینان سے ناشتہ کرتے دیکھ کر وہ چڑ گیا۔
’’یہ کیا! تم اس طرح کیوں بیٹھی ہو؟‘‘ ضحی نے گڑ بڑا کر اسے دیکھا۔ اس کی سمجھ میں بالکل نہیں آیا کہ اسے اور کس طرح بیٹھنا چاہیے۔
’’تمہیں کالج کے لیے دیر نہیں ہورہی ہے؟‘‘
’’میں آج نہیں جارہی۔‘‘ وہ دھیمے سے بولی
’’وہ کیوں؟‘‘
’’بس…!!‘‘ اسے کوئی مناسب بہانہ نہیں سوجھا۔
’’کیا بس! سیدھی طرح بتاؤ کالج کیوں نہیں جارہی ہو؟‘‘
’’بس ایسے ہی دل نہیں چاہ رہا ہے!‘‘
’’کیوں، دل کو کیا ہوا ہے؟‘‘
’’بھیا پلیز! مجھے کالج نہیں جانا۔‘‘ وہ اس کی کیوں کیوں کی رٹ سے تنگ آکر بولی۔
’’دس منٹ دے رہا ہوں تمھیں، جلدی تیار ہوکر آجاؤڈ تم، ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘
قطعیت سے کہہ کر اس نے والٹ جیب میں ڈالا۔ ضحی نے چائے کی پیالی پٹخی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ارے ناشتہ تو ٹھیک سے کرلو۔‘‘ کلثوم بھابھی اسے اس طرح ادھورا ناشتہ چھوڑتے دیکھ کر بولیں۔
’’نہیں کرنا مجھے ناشتہ۔‘‘ انتہائی خفگی سے کہا گیا۔
’’افوہ آپا جان! بے چاری کوکوئی کام تواپنی مرضی سے کرنے دیں۔‘‘
’’بہت احسان آپ کا۔‘‘ اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے پلٹ کر اس نے جلتے بھنتے لہجے میں کہا تھا۔
کلثوم بھابی بے ساختہ ہنس دیں۔ انھوں نے بہت دنوں بعد ضحی کو ایسے جواب دیتے ہوئے سنا تھا۔ جب اس کا پارہ چڑھ جاتا وہ ایسے ہی حرکت کرتی۔
’’یہ کوئی نئی اسٹریٹجی ہے کیا؟‘‘ عباس بھائی نے مسکرا کر حسن سے پوچھا وہ ابھی ابھی ٹیبل پر پہنچے تھے۔
’’آپ بالکل ٹھیک سمجھے۔‘‘ وہ بھی مسکرادیا۔
’’یہ کچھ زیادہ نہیں ہوگیا؟‘‘ کلثوم نے عمر وضحی کی طرف اشارہ کیا جو اداس اداس اپنے کمروں کی جانب گئے تھے۔
’’میں ازالہ کردوں گا۔‘‘ حسن نے انھیں یقین دلایا۔
گاڑی میں بھی وہ خاموش بیٹھی تھی۔
’’پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟‘‘
’’کچھ خاص نہیں۔‘‘ اس نے روکھے لہجے میں جواب دیا تھا۔
’’یہ کیا بات ہوئی examتو سر پر کھڑے ہیں۔‘‘ حسن نے موڑ کاٹا۔
’’بس studyمیں دل نہیں لگتا۔‘‘
’’تو گروپ اسٹڈی کرلیا کرو۔‘‘ حسن نے اسے آئیڈیا دیا۔
’’نہیں، اس کا بھی دل نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے دھیمے اور بیزار کن لہجے میں کہا۔
’’اچھا!!‘‘ حسن نے کار روک دی اور پھر یو ٹرن لیتے ہوئے بائیں طرف مڑگیا۔
’’یہ ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘ گاڑی اب کالج کے روٹ پر نہیں جارہی تھی۔
’’ہاسپٹل‘‘ حسن نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’ہاسپٹل!‘‘ ضحی نے دہرایا۔ ’’مگر کیوں؟‘‘ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔
’’بھئی میں ایک چھوٹا موٹا ڈاکٹر ہوں، تمہاری یہ دل کی بیماری میری سمجھ میں تو نہیں آرہی۔ اینگلے سر کے دوسر سرجن حامد آجکل یہا ںآئے ہوئے ہیں، ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں، وہ ہی تمہارا چیک اپ کرکے کوئی نتیجہ اخذ کریں گے کہ آخر تمہارے دل کو ہوا کیا ہے نہ کسی کام میں دل لگتا ہے نہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے ڈرائیو کررہا تھا۔
اس کی بات سن کر ضحی نے بہت دکھ کے ساتھ اسے دیکھا …… پھر یکدم وہ غصے سے چیخ اٹھی۔ ’’گاڑی روکیں۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ حسن نے رفتار دھیمی کردی۔
’’کیا آپ مجھے پریشان کرنے کے لیے ساتھ لائے ہیں؟…… اگر کالج نہیں لے جانا توگھر چھوڑدیجیے …… رہنے دیجیے میں خود ہی رکشا سے چلی جاؤں گی… گاڑی روکیں… گاڑی روکیں پلیز!‘‘ وہ بری طرح زچ ہوگئی تھی۔
’’کیا مسئلہ ہے ضحی! علاج کرانا تو اچھی بات ہے۔‘‘ غم وغصہ کی شدت کی وجہ سے اس سے کچھ نہیں کہا گیا۔’’ٹھیک ہے اگر تم نہیں چاہتیں تو ہم کسی اور دن چلیں گے اب خوش!‘‘ حسن نے گاڑی کالج کے روٹ پر ڈال دی۔
’’اگر آپ مجھے نارمل کرنے کے لیے میرے ساتھ ایسا کررہے ہیں تو پلیز مت کریے۔‘‘ کالج کے سامنے جب گاڑی رکی تو ضحی ملتجی لہجے میں اس سے بولی’’اس طرح کی حرکتیں تو مجھے مزید توڑ پھوڑ دیں گی۔ میں اب ٹوٹ کر بکھرنا نہیں چاہتی بھیّا۔‘‘ آنکھوں کے لبریز پیمانے چھلک پڑے تھے۔ حسن کا دل غم کی اتھاہ گہرائی میں ڈوب گیا۔ ضحی کے آنسو کسی طور نہیں رک رہے تھے۔
’’مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجیے خدارا… میرے حال پر چھوڑدیجیے۔‘‘ سسکیاں لیتے ہوئے وہ بھاگتی گیٹ کے اندر داخل ہوگئی۔ حسن دکھ سے اسے جاتا دیکھنے لگا۔ رنج اندر بہت دور تک پھیل گیا تھا۔
’’تمھیں اب تک تمہارے حال پر ہی تو چھوڑا تھا۔‘‘ گہری سانس خارج کرکے اس نے گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کردی، اب اس کا رخ ہاسپٹل کی طرف تھا۔
٭٭
میسرہ نے آٹو رکشہ سے اتر کر اسے پیسے دیے۔ بارہ روپئے کرایہ ہوا تھا، اس نے رکشہ والے کو پندرہ روپئے دیے۔
’’تین روپے توچلّر نہیں ہیں جی۔‘‘ رکشہ والا پریشان ہوکر بولا۔
میسرہ نے ایک نظر اس کے پسینے سے شرابور پریشان چہرے پر ڈالی پھر ’’کوئی بات نہیں پورے رکھ لو۔‘‘ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
’’ارے لکشمی موسی۔‘‘ انھیں پکار کر وہ ان کے پاس ہی چلی آئی۔
’’آپ کے پوتے کی ٹیوشن فیس بھرنی تھی نا۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے پرس میں ہاتھ ڈالا۔
’’وہ تو اسی دن بھردی تھی۔‘‘
’’لیکن آپ کے پاس تو پیسے نہیں تھے۔‘‘ مسیرہ نے حیران ہوکر ان کی صورت دیکھی۔
’’ہاں نہیں تھے مگر ڈاکٹر حسن نے دے دیے تھے۔‘‘
’’ڈاکٹر حسن نے …!! وہ ہاسپٹل آئے تھے؟؟
’’وہ تو روز ہی آرہے ہیں…‘‘ لکشمی موسی نے اسے اطلاع دی۔ مسیرہ ان کے چہرے کو تکنے لگی جو بڑی عقیدت سے کہہ رہی تھیں ’’وہ انسان نہیں ساکشات بھگوان ہے۔ جہاں کوئی مصیبت میں پڑتا ہے فوراً اس کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ میں کتنے دنوں سے پریشان تھی کہ آپ سے بھی اپنی پریشانی چھپا نہ پائی مگر انھوں نے بغیر کچھ کہے ہی میری اِچھّا پوری کردی۔‘‘
’’ہم سب انسان ہی ہیں موسی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اپنا فرض پہچان کر اسے پورا کرتا ہے اور کوئی نہیں پہچان پاتا۔‘‘
ڈاکٹر صاحبہ آپ بھی توبہت اچھی ہیں۔ کتنی فکر سے مجھ سے پوچھا ہے ورنہ … وہ کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔
’’موسی جی! یہ آپ مجھے آپ کہہ کر کیوں مخاطب کرتی ہیں۔ آپ مجھ سے بڑی ہیں۔ تم کہہ کر پکارسکتی ہو۔‘‘
’’ڈاکٹر حسن بھی یہی کہتے ہیں۔‘‘ لکشمی موسی اپنے دو ٹوٹے دانتوں کے ساتھ مسکرائیں۔ ’’لیکن ایک دن اینگلے سر نے سن لیا تھا تو مجھے بہت ڈانٹا تھا۔‘‘ ان کی مسکراہٹ یکسر کافور ہوگئی۔
’’تب سے میں احتیاط کرتی ہوں کہ کسی کے سامنے انھیں ’تم‘ نہیں کہتی۔‘‘
’’میرے سامنے کہہ سکتی ہیں۔‘‘ مسیرہ نے لبوں پر دلفریب مسکراہٹ بکھر گئی۔ اپنے شعبہ کی طرف جاتے ہوئے وہ مسلسل ڈاکٹر حسن کے متعلق سو چ رہی تھی۔ کیسا ہوگا وہ شخص جو ہر وقت لوگوں کی دعائیں سمیٹتا ہے۔ ان کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ لکشمی موسی اور سسٹر روزی کے علاوہ اسپتال کے دیگر اراکین سے بھی اس نے ان کی بہت تعریف سنی تھی۔ او رکچھ مریض تو ان کے اس قدر فین تھے کہ یوں محسوس ہوتا گویا وہ دوائیوں سے نہیں بلکہ ڈاکٹر حسن کی صورت دیکھ کر صحت یاب ہورہے ہوں۔ اور لالہ… وہ تو ان کے سب سے بڑے مدّاح ہیں۔ کتنے اعتماد کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ حسن ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ وہ اپنے دل میں ڈاکٹر حسن کے لیے بہت زیادہ عزت واحترام محسوس کررہی تھی۔ ایسا بندہ تو ہے ہی لائقِ تکریم۔ اس نے اعتراف کیا۔ اچانک ہی اسے ایسا لگا کہ خیالات کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی لگام یک لخت کسی نے کھینچ دی ہو… کوریڈور میں حسن ڈاکٹر ساؤڑے کے ساتھ کھڑا تھا… اس پر نظر پڑتے ہی اس دن والا واقعہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ ناگواری اس کے اندر باہر تک پھیل گئی۔
’’یہ آج بھی یہاں موجود ہے؟‘‘ اس نے کڑھ کر سوچا ’’پتہ نہیں آج کس کس کا مذاق اڑا کر ثواب حاصل کریں گے۔‘‘
کیا صورت سے شریف النفس اور اچھے مسلمان نظر آنے والے لوگ اندر سے اتنے کریہہ بھی ہوسکتے ہیں۔!! وہ حیرانی اور دکھ سے سوچ رہی تھی۔
(ڈاکٹر ساؤڑان کا دوست ہے شاید) اس نے اندازہ لگایا۔ اونہہ جیسے ڈاکٹر ساؤڑے ویسے ہی ان کے دوست، غیر سنجیدہ اور غیر مہذب۔
ان چاہی سوچوں کو ذہن سے جھٹک کر وہ تیز سے وہاں سے گزرنے لگی۔ حسن اور ساؤڑے کسی کیس پرڈسکس کررہے تھے۔ دونوں نے بیک وقت اس کی طر ف دیکھا۔ اسے ادھر آتے دیکھ کر حسن نے ساؤڑے کی سائڈ ہوکر راستہ کشادہ کیا۔ مسیرہ ایک سرسری سی نگاہ ان پر ڈال کر آگے بڑھ گئی۔ اس کے چہرے پر پھیلے بیزاری اور ناگواری کے رنگ حسن صاف طور پر دیکھ چکا تھا۔
(تو اس کی غلط فہمی ابھی تک دور نہیں ہوئی…)
’’کھڑوس لڑکی… بقول سریش تیز مرچی‘‘ ساؤڑے مسیرہ کے کچھ دور جانے کے بعد ہلکے سے بڑبڑایا۔
’’ساؤڑے…!!‘‘ حسن نے بہت کوفت کے ساتھ اسے دیکھا۔ ’’ایک ڈاکٹر ہوکر تمھیں دوسرے ڈاکٹر کے متعلق اس طرح نہیں کہنا چاہیے۔‘‘
’’اس دن تم کہہ رہے تھے کہ مجھے لیڈی patientکے بارے میں اس طرح کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے اور اب کہہ رہے ہو کہ ڈاکٹر ہوکر کسی دوسرے ڈاکٹر کے متعلق اس طرح نہیں کہنا چاہیے۔ تو تم مجھے صرف یہ بتادو کہ اس طرح کی باتیں مجھے کس کے متعلق کرنی چاہئیں…؟‘‘
’’کسی کے بھی متعلق نہیں…، غیبت اسلام میں حرام ہے۔ کہنا بھی اور سننا بھی…‘‘
’’شیرنی کی طرح گھور کر گئی ہے ہمیں۔‘‘
’’ہم نے اس کے ساتھ حرکت ہی ایسی کی تھی۔‘‘
’’مگر اس حرکت میں تم تو شامل نہیں تھے۔‘‘
’’شیطان کا ساتھی بھی شیطان ہی کہلاتا ہے۔‘‘
’’یہ شیطان تم کس کو کہہ رہے ہو؟‘‘ ساؤڑے نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
’’ڈاکٹر سریش کو۔‘‘ حسن نے ساؤڑے کی عقل کا ماتم منایا۔ اب یہ تو ظاہر تھا کہ بات اس کے اپنے متعلق ہورہی تھی۔
’’ہاں، تب تو بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ ساؤڑے نے اس کی زور و شور سے تائید کی۔ ’’لیکن یہ لڑکی…‘‘
’’ہم غالباً مسٹر مہتا کا کیس ڈسکس کررہے تھے۔‘‘ حسن ان بے جا باتوں سے اکتا گیا تھا۔
مسیرہ ابھی پہلا patientہی چیک کررہی تھی کہ اس کا موبائل بج اٹھا۔ ’’جی لالہ… السلام علیکم۔‘‘
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ، تم ابھی کہاں ہو؟‘‘ یحییٰ نے نرم لہجے میں پوچھا۔
’’میں ہاسپٹل آچکی ہوں… کیوں؟‘‘
’’اوہ… وہ امی کو ایک میسج دینا تھا۔ خیرمیں بات کرلوںگا، لیکن اگر تم گھر مجھ سے پہلے پہنچو تو امی کو بتا دینا میں تھوڑا لیٹ ہوجاؤں گا۔‘‘
’’میں بتادوں گی…‘‘ اس نے اثبات میں سرہلایا… پھر سلام کرکے فون کاٹ دیا۔
پورے دو گھنٹے مریضوں کو بھگتانے کے بعد وہ جنرل وارڈ کی طرف چل پڑی۔ اس نے کل ہی ملیریا میں مبتلا ایک بچے کو ایڈمٹ کیا تھا۔ اس ہاسپٹل میں تین بڑے بڑے بڑے جنرل وارڈ تھے تاہم کبھی کبھی وہ ناکافی ہوتے، اسی میں بچوں کے لیے ایک مخصوص گوشہ تھا۔ جب وہ وہاں پہنچی تو اس بچے کو روتا پایا۔ اس کی ماں اسے دوائی کھلانے کی کوشش کررہی تھی مگر وہ بار بار اس کا ہاتھ جھٹک دیتا۔ وہ بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ مجھے کڑوی دوائی نہیں کھانی، مجھے چندا کے پاس جانا ہے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ مسیرہ نے اس کی ماں سے نرمی سے پوچھا۔ وہ مسیرہ کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی۔
’’میں کب سے کوشش کررہی ہوں مگر یہ دوائی نہیں کھا رہا ہے، جی بس چندا کے پاس جانے کی ضد کررہا ہے۔‘‘
’’چندا کون ہے؟‘‘
’’میر ی بہن ہے۔‘‘ وہ بچہ اس کی ماں سے پہلے بول پڑا۔ ’’ہم دونوں ساتھ کھیلتے ہیں اور اب وہ گھر پر اکیلی رو رہی ہوگی۔‘‘ اس کا لہجہ اداس ہوگیا۔
’’چند ا آپ کی بہن ہے!‘‘ مسیرہ اسٹول کھینچ کر بیٹھ گئی۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے چھوٹی بہنوں کے ساتھ تو کھیلنا چاہیے۔‘‘
’’مگر میری ماں مجھے گھر نہیں لے جارہی ہے وہ کہتی ہے پہلے یہ کڑوی دوائی کھاؤ۔‘‘
’’چہ چہ یہ تو برا ہوا۔‘‘ مسیرہ نے افسوس سے سرہلایا۔ پھر چٹکی بجاکر اس بچے کو آئڈیا دیا: ’’اگر چندا کو یہاں بلالیا جائے تمہارے ساتھ کھیلنے کے لیے۔‘‘
’’یہاں؟‘‘ اس نے حیران نظروں سے اسپتال کے بورنگ اور گھبرا دینے والے ماحول کو دیکھا
’’وہ ہم تو گاؤں میں رہتے ہیں جی۔‘‘ اس کی ماں جھجک کر بولی۔ ’’چندا یہاں کیسے آسکتی ہے؟‘‘
’’کیوں، کیا گاؤں سے یہاں کوئی نہیں آنے والا؟‘‘
’’اس کا باپ آنے والا ہے۔‘‘
’’تو ان سے کہو کہ چندا کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں لے آئے جاتے ہوئے واپس لے جائے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے جی مگر… ‘‘ وہ جھجکی ’’چندا صرف تین سال کی ہے اگر حمیدے کی بیماری اسے بھی لگ گئی تو …‘‘
’’نہیں لگے گی۔‘‘ مسیرہ نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔ حمیدے ان کی بات بہت غور سے سن رہا تھا۔ ’’اور حمیدے تو یوں بھی بہت سمجھدار بچہ ہے اسے معلوم ہے کہ چندا کے ساتھ زیادہ دیر رہے گا تو جلدی ٹھیک نہیں ہوسکے گا اور پھر اسے کئی دن یہیں رہنا پڑے گا۔ اس لیے حمیدے چندا کے ساتھ زیادہ وقت تک نہیں کھیلے گا۔ اور پھر کل رات تک ہم اسے چھٹی دے دیں گے۔‘‘
’’کل چھٹی دے دیں گے؟؟‘‘ وہ کھنکتے لہجے میں بولا۔
’’ہاں، لیکن اگر یہ دوائی نہیں کھائی تو بہت دن لگ سکتے ہیں۔‘‘ چھ سالہ حمیدے سوچ میں پڑگیا۔
’’میں یہ دوائی کھالوں گا۔‘‘
’’اور اگریہ بھی لگا لیا تو اور جلدی ٹھیک ہوسکتے ہو۔‘‘ مسیرہ نے سرنج بھرتے ہوئے کہا۔
’’سوئی…‘‘ اس کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔
’’یہ… یہ… اس سے بہت انگار ہوتی ہے۔‘‘ دل کا خدشہ زبان پر آہی گیا۔
’’ارے کوئی جلن نہیں مطلب انگار نہیں ہوتی… تم نے کبھی میرے ہاتھ سے انجکشن نہیں لیا ہے نا…‘‘ مسیرہ نے اس کے بازو پر اسپرٹ لگاتے ہوئے کہا ’’اچھا یہ بتاؤ اس تصویر میں کونسا پرندہ ہے؟‘‘ بچہ بغور سامنے والی دیوار پر آویزاں تصویر کو بغور دیکھنے لگا۔
’’کوّا ہے شاید۔‘‘
’’ٹھیک سے دیکھو۔‘‘ بچہ پھر سے اسے دیکھنے لگا۔ مسیرہ نے انجکشن لگادیا۔
’’یہ تو طوطا …‘‘ تبھی بچے کو اپنے بازو پر ہلکی سی چبھن کا احساس ہوا اور ’سی‘ کرکے بے ساختہ چہرہ موڑا۔ مسیرہ اب اس کے بازو پر کاٹن رگڑ رہی تھی۔ ’’تم نے بالکل ٹھیک پہچانا۔ یہ طوطا ہی ہے اور شاید چندا کو بھی پسند ہے۔‘‘ اس نے جان بوجھ کر چندا کا نام لیا۔ اور نتیجہ حسبِ توقع نکلا۔ کیونکہ چندا کا نام سنتے ہی وہ بہت پرجوش لہجے میں بولا۔
’’اس کو تو طوطا بہت اچھا لگتا ہے۔ ہمارے پاس بھی ایک طوطا ہے ہم اسے روز مرچی کھلاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا اب دیکھو ہمارے انجکشن لگانے سے تمھیں کچھ تکلیف نہیں ہوئی نا… ہم جانتے ہیں تم بہت بہادر بچے ہو۔ اور بہادروں کو تو ’انگار‘ نہیں ہوتی… کیا تمھیں ہوئی؟؟‘‘
اس نے نفی میں سر ہلادیا حالانکہ بازو تو اب بھی جل رہا تھا۔
اس کی ماں کو دوائی کھلانے کی ہدایت دیتے ہوئے وہ واپسی کے لیے پلٹی تو سامنے کا منظر دیکھ کر جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی……
چند بیڈ چھوڑ کر حسن کسی patientپر جھکا ہوا تھا…
(’’یہ … ڈاکٹر ساؤڑے کا دوست!… ڈاکٹر ہے …؟؟؟) یقینا اس کی بصارتیں دھوکہ کھا رہی تھیں… یہ بھلا کیسے ممکن تھا؟… لیکن یہ ناممکن بھی کیوں تھا؟ اس کا اندرون سوال جواب میں مصروف تھا، جبکہ آنکھوں میں بے یقینی کا سمندر موجزن تھا۔… وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی جو اپنے مریض کے بازو پر بیلٹ لپیٹ کر اس کا بی پی چیک کررہا تھا۔ پروقار اور پراعتماد انداز میں… مسیرہ کی آنکھوں سے استعجاب جھلکنے لگا۔ سوکھی پنکھڑیوں سے لب اظہارِ حیرت کی کوشش میں پھڑپھڑا کر رہ گئے تھے۔
patientکو انجکشن لگاتے ہوئے نہ جانے اس جوکر ڈاکٹر نے کیا کہا کہ وہ مسکرانے لگا۔
(بات بات پہ ٹھٹے لگانے کا تو لگتا ہے جنون کی حد تک شوق ہے۔) حیرت کے سمندرمیں سے کہیں ناگواری کی لہر اٹھی تھی۔
اپنی بات کے اختتام پر حسن نے بھی ہنستے ہوئے سراٹھایا۔ اور مسیرہ پر نگاہ پڑتے ہی اس کے لب واپس اپنی اصل پوزیشن پر آگئے۔ وہ اسے اگنور کردینا چاہتا تھا۔ مگر مسیرہ کی مسلسل نگاہوں نے اسے ٹھٹک جانے پر مجبور کردیا۔ وہ حیرتوں کی دنیا میں گم لب وا کیے اس طرح کھڑی تھی گویا کچھ کہنا چاہ رہی ہو۔ اور نگاہوں کا مرکز چونکہ وہ ہی تھا اس لیے وہ اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگا۔ لیکن مسیرہ عالمِ وجود میں ہوتی تو اس کی نگاہوں کا مطلب سمجھتی۔ حسن جزبز ہونے لگا اور اپنی آنکھوں میں سارے کوئسچن مارکس بھر کر مسیرہ کی طرف داغتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
مسیرہ یکدم ہی ہوش میں آگئی تھی… حسن کے وجود پر سے نظریں ہٹا کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی… حسن کچھ نہ سمجھتے ہوئے واپس چل دیا۔ اور وہ …… اب بھی حیرت و استعجاب میں ڈبکیاں لگارہی تھی۔
(جاری)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146