صداقتوں کے پاسبان (قسط: ۱۸)

سلمیٰ نسرین

کولر سے پانی پینے کے بعد مریم تیز قدموں سے لیکچر ہال کی طرف جارہی تھی ، تبھی اسے ٹھٹک جانا پڑا۔ لان میں کنارے والے درخت کے نیچے سبزہ پر سرجھکائے وجود نے اسے چونکا دیا تھا۔
’’ضحی! کیا یہ تم ہو؟‘‘ وہ اس کی طرف آتی ہوئی بولی۔ ضحی نے ہولے سے سراٹھایا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ ’’تم کب آئیں…؟ مجھے بتادیا ہوتا میں لینے آجاتی … حسن بھیا کے ساتھ آئی ہو؟‘‘
’’نام مت لو ان کا۔‘‘ وہ پھٹ پڑی۔
’’اچھا نہیں لیتی … لیکن تم نے تو مجھے فون پر انکار کہلایا تھا پھر تم کیسے آگئیں؟‘‘
’’آئی نہیں ہوں… زبردستی لائی گئی ہوں۔‘‘ وہ اسی اکھڑے انداز میں بولی۔
مریم اسے دیکھ کر رہ گئی۔
’’مریم!‘‘ ضحی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور گداز لہجہ میں بولی: ’’کیا میرا کوئی وجود نہیں؟ کوئی حقیقت نہیں … کیا میری اپنی مرضی و پسند ناپسند نہیں ہونی چاہیے… پھر سب مجھ پر اپنی مرضی کیوں تھوپ رہے ہیں…‘‘ اس کے آنسو بہنے لگے تھے۔ ’’ایسا لگتا ہے جیسے ہر کوئی مجھ پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔‘‘
’’ضحی! وہی تو میں تم سے کہنا چاہ رہی ہوں… کہ کہاں گیا تمہارا وجود، تمھاری خودی، تمہارا اعتماد… تمہاری ایک حقیقت ہے لیکن تم نے اسے فراموش کردیا۔ تم نے خود ہی اپنے وجود کو بھلادیا … ہم سب تو تمہارے لیے پریشان ہیں۔ ہم میں سے کوئی نہیں بدلا مگر یہ سچ ہے کہ تم بدل گئی ہو ضحی… ‘‘ اس کے لہجے میں اداسی اتر آئی تھی۔
٭٭
ایک کے بعد ایک مسلسل پانچ لیکچرز لینے کے بعد بھی وہ فریش لگ رہا تھا۔ آج اسے دو تین اہم کام نبٹانے تھے۔ وہ بائک اڑا کر کالج سے فراغت کے بعد سب سے پہلے ہاسپٹل آیا تھا۔ اسے حسن سے بہت ضروری بات کرنی تھی۔ سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ اوپر پہنچا تو سامنے ہی مسیرہ سے ملاقات ہوگئی۔
’’آپ یہاں؟‘‘ وہ تھوڑی حیران ہوئی۔
’’تم گھر جارہی ہو؟‘‘ اس کا سوال نظر انداز کرکے یحییٰ نے الٹا اس سے پوچھ لیا۔ پھر اس کے سرہلانے پر کہنے لگا۔
’’میں نے گھرکال کیا تھا، لیکن گھر کا موبائل شعیب اپنے ساتھ لے گیا ہے۔‘‘
’’اسکول لے گیا؟‘‘ اسے تعجب ہوا۔
’’ہاں…… آجکل اس ٹاٹا برلا کا بزنس بہت اوپر جارہا ہے اسے پل پل اہم کالز آتی رہتی ہیں اس لیے موبائل توساتھ میں ہونا ہی چاہیے۔‘‘ وہ بہت ہلکے پھلکے انداز میں مسکراکر کہہ رہا تھا۔ مسیرہ ہنس پڑی۔
’’لگتا ہے اسے ایک موبائل خرید کر دینا ہی پڑے گا۔‘‘ پھر وہ تلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

’’اہم کالز آتی رہتی ہیں اس لیے موبائل تو ساتھ میں ہونا ہی چاہیے۔‘‘ وہ بہت ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ مسیرہ ہنس پڑی۔

’’لگتا ہے اسے ایک موبائل خرید کر دینا ہی پڑے گا۔‘‘ پھر وہ متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

اپنے کیبن میں جاتا حسن یحییٰ کو دیکھ کر رک گیا وہ بہت حیرانی سے سامنے والے منظر کو دیکھ رہا تھا۔ یحییٰ کی تو خیر بات کیا! وہ زندہ دل بندہ تھا، جس سے گزرتا مسکراہٹیں بکھیرتا جاتا، لیکن حیرانی تو اسے اس اللہ کی بندی پر تھی جسے اس نے ہنستے ہوئے تو درکنار مسکراتے بھی نہ دیکھا تھا، آج وہ کھلکھلا رہی تھی۔ … وہ لڑکی کچھ کہتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئی جبکہ یحییٰ اس کی طرف آگیا۔

’’ہاں ہاں… دے دے گا میں تمہارا پیسہ … کائے کو ہمیں خالی خولی پریشان کرتا ہے۔‘‘ سسٹر روزی ان کے قریب سے موبائل پر زور زور سے بولتے ہوئے گزری۔ ’’ہم ابھی ہاسپٹل میں ہے گھر آنے کے بعد تم سے بات کرے گا۔‘‘

’’سسٹر روزی کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔‘‘ یحییٰ نے سسٹر روزی کی پشت کی طرف دیکھتے ہوئے حسن سے کہا۔

’’ہاں… انھوں نے ایک نیا گھر لیا ہے ہاسپٹل کے قریب… مالک مکان پیسوں کا تقاضا کررہا ہے اور جتنی مہلت سسٹر روزی مانگ رہی ہیں وہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘

’’تم نے ان کی مدد کی کوشش نہیں کی…‘‘

’’سسٹر روزی نے پتہ نہیں کیوں، مجھے اس معاملے میں پڑنے سے سختی سے منع کیا ہے۔‘‘

حسن نے کندھے اچکائے… ’’اچھا تم ہو کہاں… صبح سے کال پر کال کیے جارہا ہوں مگر جواب ندارد…‘‘

’’ہاں یار یہ موبائل کی بیٹری بہت پریشان کررہی ہے۔ یہاں سے جانے کے بعد اسے چیک کراتا ہوں شاید اسے بدلنا پڑے… ہاں مگر تم مجھے کال کیوں کررہے تھے کچھ خاص…؟‘‘

’’ہاں مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘

’’میں بھی یہی سوچ کر آیا ہو۔ ابھی تو تم مصروف رہوگے۔ مغرب میں ملتے ہیں پھر۔‘‘

’’مغرب تم مسجد مومن پورہ میں ہی پڑھنا۔‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن کیا تم تب تک فارغ ہوجاؤگے؟‘‘

’’پتہ نہیں… ‘‘ حسن مسکرادیا۔ ’’اگر کوئی ایمرجنسی کیس آگیا تو ہوسکتا ہے رکنا پڑے ورنہ میں وقت پر مسجد پہنچ جاؤں گا۔‘‘

ہاسپٹل سے نکل کر وہ سیدھا موبائل کی دوکان پر آیا تھا۔ دوکاندار کو موبائل کی بیٹری چیک کرنے کو دے کر وہ کاؤنٹر سے پشت لگا کر کھڑا ہوگیا۔ آج روزانہ سے زیادہ گرمی تھی۔ شاید اسی لیے سامنے والے آئس کریم پارلر میں خاصی بھیڑ تھی۔ آئس کریم پارلر کو دیکھ کر اسے وہ گرم سی دوپہر یاد آئی، جب وہ یہاں سے گزر رہا تھا۔ اس کی ملاقات اسی جگہ عمرو علی سے ہوگئی تھی۔ یہ ان کا اسکول کا راستہ تھا۔ اور وہ دونوں اپنے اسکول سے واپس لوٹ رہے تھے۔ علیک سلیک اور سرسری سی گفتگو کے بعد یحییٰ جانے لگا تو علی جلدی سے بول پڑا:

’’یحییٰ بھائی! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کوئی فریضہ بھول رہے ہیں؟‘‘

’’فریضہ؟‘‘ یحییٰ سوچ میں پڑگیا۔ پھر آس پاس نگاہیں دوڑانے کے باوجود اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ علی کس فریضے کے بارے میں بات کررہا ہے۔ جب کہ عمر بھر پور انداز میں مسکرا رہا تھا۔

’’گرم دوپہر ہے… سامنے آئس کریم پارلر بھی ہے… اور …… یعنی کہ …… اس نے معنی خیز نگاہوں سے یحییٰ کو دیکھا۔ ’’رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔‘‘

’’اوہ!‘‘ یحییٰ اس کے انداز پر خوش دلی سے ہنس پڑا تھا۔ پھر اس نے انھیں دو دو کپ آئس کریم کھلائی تھی۔ جسے انھوں نے خوب مزے لے لے کر کھایا تھا۔ اور جب اس نے انھیں تیسرے کپ کی پیش کش کی تو انھوں نے شکریہ کہہ کر منع کردیا تھا۔ یہ واقعہ یاد کرکے وہ دل ہی دل میں کہنے لگا:

عمر اور علی دونوں بہت پیارے بچے تھے۔ لڑتے جھگڑتے، روٹھتے منتے، ہنستے بولتے، لیکن ہمیشہ ساتھ ساتھ ان سے اُس کی پہلی ملاقات بھی بہت دلچسپ رہی تھی۔ جب کالج کے ابتدائی زمانہ میں اس کی حسن سے دوستی ہوئی تھی، تو وہ دونوں بہت چھوٹے تھے۔

’’میرا نام عمر ہے۔‘‘ پہلے عمر نے اپنا تعارف کرایا تھا۔ ’’اور میں علی ہوں۔‘‘ علی نے جھٹ اسے اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ مبادہ عمر مزید تفصیلات نہ بتانے لگے۔

’’میں اس سے دوگھنٹے بڑا ہوں۔‘‘ عمر نے وقت بتانا ضروری سمجھا۔ یحییٰ بہت دلچسپی سے انھیں دیکھ رہا تھا۔

’’آپ دونوں سے مل کر دو خوشیاں ہوئیں۔‘‘

’’آپ کو تو عمر بھائی سے مل کر دو گھنٹے زیادہ خوشی ہوئی ہوں گی۔‘‘ علی نے منہ پھلا لیا تھا۔

’’بری بات ہے علی ’بڑوں’ سے جلنا نہیں چاہیے۔‘‘ عمر اسے بزرگانہ نصیحت کررہا تھا۔

یحییٰ نے وہ سارا وقت ہنستے ہوئے گزارا تھا۔ ابھی بھی وہ زیرِ لب مسکرارہا تھا۔

’’ایکس کیوز می سر!‘‘ دوکاندار نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ بیٹری خراب ہوچکی ہے۔ آپ کو اسے بدلنا پڑے گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے مجھے نئی دے دو۔‘‘

پیسے ادا کرنے کے بعد وہ پارکنگ ایریا سے بائیک باہر نکال رہا تھا تبھی اس کی نظر سامنے سے آتے ہوئے عمر پر پڑی۔ چہرے پر حد درجہ تھکن کے آثار، نڈھال قدموں سے ڈھیلی چال چلتے ہوئے وہ بہت غمگین اور گم صم سا لگ رہا تھا۔ اسے آج پہلی بار اس طرح اکیلے آتے دیکھ کر یحییٰ کو کچھ عجیب سا لگا۔ ’’ارے عمر! آج تم……‘‘ باقی الفاظ اس نے زبان پر آنے سے روک لیے۔

عمر خاموش کھڑا اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگا۔ یحییٰ سنبھل گیا۔

’’آج تم……پیدل کیوں جارہے ہو؟ تمہاری بائیک کو کیا ہوا؟‘‘

’’اب بائیک چلانے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ وہ مدھم لہجے میں دھیمے سے بولا۔

یحییٰ نے اسے بغور دیکھا۔ آنکھوں سے جھانکتی اداسی لبوں پر مہر سکوت اور معصوم چہرے پر گویا سب کچھ لٹ جانے کا دکھ رقم تھا۔ یہ سب کچھ یہ اداس اور غمگین منظر اس کے لیے بھی کتنا اجنبی تھا۔ اس نے تو ان دونوں بچوں کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہی دیکھا تھا۔ لیکن اب … یحییٰ گہری سانس لے کر رہ گیا۔ عمر بہت پژمردہ لگ رہا تھا، گویا ساری جان اور سارا خون کسی نے نچوڑ لیا ہو۔ چہرے کی شگفتگی غائب ہوچکی تھی۔ اس کی ویران آنکھوں میں رنج کے گہرے بادل چھائے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا گویا وہ بہت روچکا ہو۔ کیونکہ آنکھیں لہو رنگ ہورہی تھیں۔ ’’عمر! کیا خیال ہے‘‘ یحییٰ نے لہجے کو شگفتہ بنایا۔ ’’گرم دوپہر ہے سامنے آئس کریم پارلر بھی ہے اور تم اور میں ساتھ ہیں… آئس کریم کھانے کے لیے تو ماحول کافی سازگار ہے۔‘‘ وہ زبردستی مسکرایا۔

’’سب ہیں…‘‘ عمر نے آنسو پینے کی کوشش کی ’’بس وہی نہیں ہے۔‘‘

اس کی سوجی سوجی آنکھیں لبالب پانیوں سے بھری اور چھلک جانے کو بے تاب تھیں۔ لیکن عمر نے بہت محنتوں اور ہمتوں سے خود کو سنبھالا اور آنکھیں بھینچ کر اس نے سارے آنسو اپنے چشمے کے اندر ہی اتار لیے۔ اس کا صبر دیکھ کر یحییٰ مبہوت رہ گیا۔ ورنہ اس کا اپنا یہ حال تھا کہ عمر کی بات پر اس کا دل تڑپ اٹھا تھا۔

’’دھوپ بہت تیز ہے، آؤ میں تمھیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اس سے نظریں چرا کے اس نے بائیک اسٹارٹ کردی عمر بغیر چوں چرا کے چپ چاپ اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔ سارے راستے ان دونوں کے درمیان مکمل خاموشی رہی۔ یحییٰ نے بھی کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

گھر کے سامنے بائیک رکنے پر عمر اسی خاموشی کے ساتھ اترا اور شکستہ قدموں سے اندر چلا گیا۔ یحییٰ بہت دکھ سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ علی، عمر کی کل کائنات تھا اور اس کی اس طرح اچانک موت اس پر بری طرح اثر انداز ہوئی ہوگی۔ عمر کے صدمے اور دل گرفتگی کا تو اندازہ تھا مگر وہ اس قدر ٹوٹ جائے گا یہ اس نے نہیں سوچا تھا۔ اس نے بہت ملول انداز میں سر جھٹکا اور بائیک آگے بڑھا لے گیا۔

٭٭

مسیرہ اور اشمیرہ کے آنے سے گھر میں بہت رونق ہوگئی تھی۔ شعیب بھی دونوں بہنوں کے ساتھ بہت خوش رہتا۔ لیکن انھیں ستانے میں بھی اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ مسیرہ کا تو پھر بھی لحاظ کرلیتا مگر اشمیرہ کا اس نے ناک میں دم کررکھا تھا۔ اس وقت بھی وہ اس کے پیچھے ’’چائے، چائے‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے تھا۔

’’چائے پی پی کر سارا خون سوکھ گیا ہے۔ صورت دیکھو اپنی آئینے میں کالے کوئلے جیسی ہوگئی ہے۔‘‘

’’کالے کوئلے جیسی ہو یا سفیدچو نے جیسی مجھے چائے پینی ہے تو بس پینی ہے۔ آپ دیکھ نہیں رہیں میں پڑھائی کررہا ہوں۔ اور پڑھائی کرتے وقت چائے ایک لازمی چیز ہے۔‘‘

اس نے اپنے انداز میں چائے کے لیے گویا دلیل دی تھی۔

’’تو ہم پڑھائی نہیں کررہے ؟‘‘ اشمیرہ نے اس کی منطق پر آنکھیں پھاڑیں۔

’’گیارہویں کا سال کوئی اہم نہیں ہوتا۔‘‘

’’تو نویں کا کون سا ہوتا ہے۔‘‘ اشمیرہ کو غصہ آگیا’’اگلے سال دونگی چائے بناکر۔‘‘ وہ بڑبڑاتی کمرے سے نکل گئی، جبکہ شعیب منہ بنانے لگا۔

’’کیا بات ہے منہ کیوں لٹکا ہے؟‘‘ مسیرہ دھلے ہوئے کپڑے لے کر آئی تھی۔ شعیب کی صورت اتری دیکھی تو کپڑے صوفے پر ڈال کر اس کے اسٹڈی ٹیبل کے قریب آگئی۔

’’بجو آپ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں؟‘‘ اس کے عجیب و غریب سوال پر مسیرہ نے نہ سمجھنے والے انداز میں سرہلایا۔ اگرچہ صورتحال بڑی نازک تھی، لیکن پھر بھی اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا:’’کچھ پتہ نہیں… آج تک ناپنے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘‘

’’کیا آپ مجھ سے اتنی محبت کرتی ہیں کہ ایک کپ چائے بناسکیں؟‘‘ وہ ملتجی لہجے میں بولا تھا۔

’’اوہ تو یہ بات ہے۔‘‘ مسیرہ نے بھنویں اچکائیں۔ ’’نہیں، اتنا تو نہیں کرتی… ہاں البتہ اپنی محبت اپنے چھوٹے سے بھائی سے ضرور ہے کہ شام کو اس کے لیے راجما پلاؤ بنادوں۔‘‘

’’راجما پلاؤ۔‘‘ شعیب کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

’’کیسا لگا آئیڈیا؟‘‘ مسیرہ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے سائیکولاجی بخوبی جانتی تھی۔ اس کی بات پر شعیب بہت خوش ہوگیا تھا۔ ’’بہت اچھا۔‘‘

’’چلو اسی خوشی میں تمہارے لیے الائچی والا دودھ لاتی ہوں۔‘‘ وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

’’بجو! دودھ میں آپ شکر اور الائچی تو ڈالیں گی ہی، اگر آدھ چمچ پتی بھی ڈال دیں تو مزہ دوبالا ہوجائے گا۔‘‘

’’تم سدھروگے نہیں۔‘‘ اس کے شرارتی انداز پر وہ سر جھٹکتی باہر نکل گئی۔

اشمیرہ پر آج کل مہندی سیکھنے کا بھوت سوار تھا۔ پینسل سے ڈیزائن بنابنا کر اس نے پوری ڈرائنگ بک بھردی تھی۔ جب تک گاؤں میں تھی امی اور مسیرہ کے ہاتھوں کو خوب تختۂ مشق بنایا، لیکن اس دن جب اس نے مسیرہ کے ہاتھوں پر مہندی لگانی چاہی تو اس نے صاف منع کردیا۔

’’مجھے ہاسپٹل جانا ہوتا ہے، تم تائی جان کے ہاتھوں پر طبع آزمائی کرو۔‘‘

اسے مہندی کا کون منگانا تھا، لیکن شعیب اب تک اسکول سے لوٹا نہیں تھا۔ دس منٹ بعد جب وہ کمرے سے باہر آئی تو لاؤنچ میں صوفے پر نیم دراز شعیب کو دیکھ کر یک دم خوش ہوگئی۔ ’’ارے تم آگئے۔‘‘

’’جی نہیں، اب تک وہیں ہوں اسکول میں۔‘‘ اس نے حسبِ عادت ٹیڑھا جواب دیا۔

اشمیرہ بری طرح کلس گئی۔ ’’تو جلدی آؤنا گھر پر وہاں کیا کررہے ہو؟‘‘

’’چپراسی میرے لیے رات کا کھانا تیار کررہا ہے۔‘‘ اس نے پیر پسارے۔

’’جب اچھی طرح ٹھونس چکو تو اسکول سے واپسی پر شاہی دلہن کون لیتے آنا۔‘‘

وہ دونوں کافی دیر تک اسی طرح لڑتے رہے۔ اگر ایک ٹیڑھی بات کرے تو دوسرے کے پاس اس سے زیادہ ٹیڑھا جواب ہوتا۔ اور شعیب نے تو گویا اس سبجیکٹ میں ماسٹرز کررکھا تھا۔

’’سیدھا جواب دینا تو تم نے سیکھا ہی نہیں۔‘‘ اشمیرہ جو ابی کارروائی کرتے کرتے زچ ہوگئی تھی۔

’’تو آپ نے سیدھا سوال کرنا کونسا سیکھ لیا۔‘‘ شعیب نے لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچانے کی کوشش کی۔ مگر کامیاب نہیں ہوا۔

’’جب دیکھو تب عجیب و غریب سوالات کرتی ہیں۔ کل رات ہی کی بات لیجیے۔ آپ اچھی طرح دیکھ سکتی تھیں کہ میں کھانا کھا رہا ہوں، تب بھی پوچھاکہ کھانا کھا رہے ہو؟‘‘

(’’نہیں انگارے چبا رہا ہوں۔‘‘) اشمیرہ کواس کا جواب یاد آیا۔

’’اور آج بھی جبکہ آپ اپنی روشن آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں کہ میں شعیب خان بنفس نفیس یہاں اس صوفے پر موجود ہوں تو پھر بھی سوال کررہی ہیں کہ ’’ارے تم آگئے‘‘ شعیب نے اس کی نقل اتاری۔

’’پورے احمق ہو تم! تمہاری کھوپڑی میں اتنا مغز ہی نہیں ہے کہ سمجھ سکو کہ وہ سوال نہیں تھا استعجاب تھا، بے یقینی اور مسرت کا ملا جلا تاثر تھا۔ تم نے میرے لہجے پر غور نہیں کیا… اس میں خوشیوں کی کھنک تھی، خوشگواریت کی لہر تھی، … مسرتوں کی چہکار تھی۔‘‘ رومانی و تاریخی نالوں کے گہرے مطالعے نے اشمیرہ کی زبان و بیان پر کافی اثر ڈالا تھا۔ ’’جو کہ سماعتوں میں……‘‘

’’زہر انڈیل رہی تھی…‘‘ شعیب نے جل کر اس کا جملہ مکمل کیا۔

اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کا اس طرح جلنا کلسنا اشمیرہ کو مزہ دے گیا تھا۔ وہ اطمینان سے بولی:

’’میں پھر کہوں گی کہ تمہاری کھوپڑی میں اتنا مغز… ‘‘ وہ غالبا پوری بات دہرانے کا ارادہ رکھتی تھی… تبھی تو شعیب نے گھبرا کر اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا

’’اپنی اس گاڑھی اردو کا رعب مسیرہ بجو پر ہی ڈالیے گا۔ اگر ہم نے اپنی اردو استعمال کی تو جناب آپ کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔‘‘

’’کس قدر فضول گوئی کرتے ہیں یہ دونوں۔‘‘ باہر سے آتی ان دونوں کی آوازوں سے مسیرہ کو حقیقتاً بہت کوفت ہورہی تھی۔ وہ اندر کمرے میں تائی جان کے ساتھ بیٹھی کپڑے تہہ کررہی تھی۔

’’جانے دو۔ بہن بھائی کی پیار بھری نوک جھونک سے ہی تو زندگی کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ (ہائے یہ سادہ لوحی! تائی جان کو یہ پیاربھری نوک جھونک لگ رہی ہے۔)

اور اس ’’زندگی‘‘ کا احساس تو شعیب کے اسکول سے لوٹنے سے ہی شروع ہوجاتا تھا۔ مگر آج شاید کچھ عجیب بات ہوگئی تھی۔

آج مسیرہ جب ہاسپٹل سے گھر آئی تو اس نے تہیہ کررکھا تھا کہ شعیب کو موبائل اسکول لے جانے پر ضرور ڈانٹے گی۔ لیکن جب وہ اسکول سے لوٹا تو نہ صرف یہ کہ خلافِ معمول چپ چاپ سا تھا بلکہ بے حد اداس بھی نظر آرہا تھا۔

غور کرنے والی بات تھی سبھی نے اس کا نوٹس لیا۔ مسیرہ بھی اسے ڈانٹنے کا ارادہ ملتوی کرکے اس کے قریب ہی بیٹھ گئی۔

’’کیا بات ہے؟ اداس کیوں لگ رہے ہو؟‘‘

پتہ نہیں کیا بات تھی ورنہ پرسوں تو بہت خوش تھا جب انھوں نے 10thکے طلبا کو الوداعیہ دیا تھا۔

’’آج 10thوالوں کو ان کے ٹیسٹ ایگزام کے رزلٹ سنائے گئے تھے۔ علی بھائی نے پورے اسکول میں سب سے زیادہ نمبرات حاصل کیے ہیں۔ ۹۸ فیصد۔‘‘

نائنٹی ایٹتھ پرسنٹ‘‘ اشمیرہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’ان کا رزلٹ سن کر عمر بھائی اتنا روئے کے آدھے گھنٹے تک چپ نہیں ہوئے۔ ان کے کلاس ٹیچر ریحان سر بھی رو دیے تھے کہہ رہے تھے کہ علی اسکول کا نام روشن کرنے والا طالب علم تھا۔ پرنسپل سر سمیت پورا اسٹاف بہت دکھی تھا۔ لیکن عمر بھائی کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔‘‘ وہ بہت غمگین ہوگیا تھا۔

٭٭

اب تک عمر نے حیرت انگیز طور پر خود کو سنبھال رکھا تھا، مگر گھر میں داخل ہوتے ہی اس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ سامنے ہی ہاجرہ بیگم سارہ خالہ کے ساتھ محو گفتگو تھیں۔ ان پر نظر پڑتے ہی نہ جانے اسے کیا ہوا ’’امی‘‘ کہہ کر وہ زور زور سے روتے ہوئے ان کی گود میں گرپڑا۔ وہ دونوں بوکھلاگئیں۔

’’عمر! کیا ہوا بیٹے؟‘‘ لیکن جواباً وہ بس روئے جارہا تھا، گویا آج وہ تمام آنسوؤں کا خزانہ لٹا دینا چاہتا ہو۔ انھوں نے اس کا سر اٹھانے کی کوشش کی۔

’’عمر کچھ تو بتاؤ۔‘‘ وہ گھبرا اٹھیں۔’’باہر کسی نے کچھ کہہ دیا ہے کیا؟‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا۔

اس کے رونے کی آواز سن کر عباس بھائی، جو ابھی آفس سے لوٹنے کے بعد لیٹے تھے، اور کلثوم بھابی تیزی سے ادھر چلے آئے۔

’’پھر کیا بات ہے؟‘‘ وہ پریشان ہونے لگیں۔

’’ام…می…‘‘ وہ سسکیاں لینے لگا۔

’’علی نے ٹاپ کیا ہے۔‘‘

’’ٹاپ کیا ہے…‘‘ ان کے ہونٹ لرزے۔

’’ہاں۔‘‘ وہ سسکا ’’اس کے اٹھانوے فیصد آئے ہیں۔‘‘

وہ بمشکل جملہ پورا کرسکا تھا۔ ہاجرہ بیگم کے دل کا درد آنکھوں سے امڈ پڑا۔ وہاں موجود تمام لوگوں کا دل تڑپ اٹھا تھا۔ سارہ خالہ چہرہ دوپٹے میں چھپائے رونے لگی تھیں۔

’’اور تم… تمہارا رزلٹ کیا رہا؟‘‘ اپنے اتھل پتھل ہوتے دل کو سنبھال کر انھوں نے مچلتے سسکتے عمر کا چہرہ تھاما۔

’’چھیانوے فیصد…‘‘ وہ کانپتے لبوں سے بولا تھا۔

’’امی… وہ کیوں چلا گیا…… مجھے اس کے بغیر رہنے کی عادت نہیں تھی… میں تو … میں تو اب ہر طرح سے اکیلا تنہا رہ گیا ہوں۔‘‘

عباس بھائی جھکے اور آہستگی سے اسے اٹھایا۔ اس کا پورا جسم ہچکیوں سے لرز رہا تھا۔

’’بھائی!‘‘ وہ ان کے مضبوط چوڑے سینے سے لپٹ گیا۔ ’’آئی ایم سوری بھائی، میں اپنا وعدہ پورا نہیں کرپایا… میں ہر روز اس کی یاد میں تڑپتا ہوں… میں کیا کروں مجھ سے اس کے بنا جیا نہیں جاتا…‘‘

عباس بھائی کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گرے اور اس کے بالوں میں جذب ہوگئے۔ بھابی کا ننھا سا دل پھٹنے لگا تھا۔ انھوں نے بہت مشکل سے اپنی چیخوں کا گلا گھونٹا تھا۔

منہ پر ہاتھ رکھے وہ بری طرح رو رہی تھیں۔ عمر کو ایسے تڑپتے دیکھ کر ان سے وہاں مزید رکا نہ گیا۔ گھر کے بچوں کو روتے دیکھنا بھی ایک امتحان ہوتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جبکہ ان کے غم کا کوئی مداوا نہ ہو۔

وہ روتے ہوئے باہر جانے کے لیے پلٹیں لیکن اگلے ہی قدم پر ساکت رہ گئیں۔ دروازے میں ضحی بت بنی کھڑی تھی۔ اس کی سفید پڑتی رنگت نے ان کے خدشے کو سچ ثابت کردیا کہ اس نے سب سن لیا ہے۔ وہ دروازے کی چوکھٹ سے اپنا نحیف وجود ٹکائے ہوئے تھی۔ اس کا متغیر ہوتا چہرہ بھابی کو خوف میں مبتلا کرگیا۔

’’ضحی!‘‘ وہ اس تھامنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھیں مگر تب تک اس کے پیروں نے اس کا بوجھ مزید سہارنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ غش کھاکر گر پڑی تھی۔ (جاری)

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146