گھر سے نکلا تو یہ خیال ستائے جارہا تھا کہ آج پھر کام پر لیٹ ہونے کی صورت میں سیٹھ سے طے شدہ معاہدہ کے مطابق بلا معاوضہ اوورٹائم لگانا پڑے گا۔ تاخیر سے پہنچنے کا سبب بیگم کی علالت تھی۔ وہ اس قابل بھی نہیں تھی کہ بچوں کو تیار کرکے اسکول ہی روانہ کرسکے۔ لہٰذا صبح کے تمام کام کرنا میری مجبوری تھی۔ جہاں میں کام کرتا تھا وہاں پہنچنے کے لیے مجھے سواری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ پیدل ایک کم چوڑی فٹ پاتھ پر سے گزرنا پڑتا تھا۔ اسی فٹ پاتھ کے اگلے سرے پر ۲۰ منٹ کے فاصلے پر ایک اونچی بلڈنگ کی آخری منزل پر میرا دفتر تھا۔ معمول کی صورتحال میں تو ہمیشہ وقت پر ہی دفتر پہنچ جاتا تھا لیکن دیر ہونے کی صورت میں فٹ پاتھ پر بھیڑ اتنی ہوجاتی تھی کہ مجھے لوگوں کے ایک جم غفیر سے راستہ بنانا پڑتا تھا جو میرے لیے ایک تکلیف دہ امر تھا۔
اس وقت بھی میں ایسی ہی صورتحال سے دوچار لوگوں کے ایک ہجوم سے راستہ بناتا ہوا دفتر کی جانب تیز تیز جارہا تھا کہ ایک لمحہ کو میری نظر بریانی والے کی دکان پر پڑی جہاں بریانی کی دیگ کے تھڑے کے ایک کونے پر ایک دراز قد منحنی سا شخص جو صورت سے پاگل لگ رہا تھا، اپنی دائیں ٹانگ کے سہارے بیٹھا، کبھی دیگ میں جھانکتا پھر منھ اٹھا کر بریانی والے کو دیکھتا۔ بریانی والا اس سے بالکل لاپرواہ ہوکر جلدی جلدی ایک مشین کی طرح بریانی کی پلیٹیں بھر بھر کر ایک طرف رکھتا جارہا تھا۔ میں یہ منظر دیکھ کر کچھ آگے نکل گیا لیکن اس بھوکے شخص کے اندازنے مجھے کچھ ایسا متاثر کیا کہ میں یکایک الٹے پاؤں مڑا۔ دکان پر پہنچ کر میں نے جیب سے ۲۰ روپئے کا نوٹ نکالا اور بریانی والے کو دیا۔ ساتھ ہی میں اشارے سے سمجھایا کہ وہ ایک پلیٹ میں اس کو بھی دے دے۔ بریانی والے نے نگاہ اٹھا کر ہم دونوں کو دیکھا اور مثبت انداز میں گردن کو اوپر نیچے کیا اور اپنے کام میں جُت گیا۔ دفتر سے اوورٹائم لگا کر رات آٹھ بجے جب گھر کی طرف آرہا تھا تو مجھے پھر وہ صبح والا منظر یاد آگیا۔ اس وقت مجھے بھوک لگی ہوئی تھی سوچا چلو بریانی والے سے پارسل بنواکر گھر لے جاؤں گا اور ساتھ ہی صبح والے واقعے کی خبر بھی لے لوں گا۔ جب میںبریانی والے کی دکان پر پہنچا تو اس وقت وہاں رش زیادہ نہیں تھا۔ میں نے اسے بریانی کا پارسل بنانے کے لیے کہہ کر صبح والے واقعے کی یاددلائی تو وہ مجھے پہچان گیا۔ اس نے بریانی کا پارسل بناتے ہوئے کہا : ’’صاحب! یہ نشہ باز لوگ ہیں، سارا دن لوگوں سے پیسے مانگتے ہیں اور شام کو نشہ کرکے کسی فٹ پاتھ یا نالے کے کنارے پڑے رہتے ہیں۔ ان پر رحم کھانا فضول ہے۔ صفائی تو رہی ایک طرف یہ تو منہ بھی نہیں دھوتے۔ میں ان غلیظ لوگوں کی پلیٹ بھی دیگر لوگوں کے استعمال میں آنے والے لوگوں سے الگ رکھتا ہوں۔‘‘اس نے نیچے سے ایک پلیٹ نکال کر دکھائی جس کے درمیان میں سرخ پینٹ کا نشان تھا۔ پلیٹ نیچے رکھ کر وہ پھر گویا ہوا: ’’آپ نے پیسے دیے تھے تو میں نے اسے چاول دے دئیے تھے ورنہ میں تو انہیں منہ تک نہیں لگاتا۔‘‘
ابھی اس نے بات ختم کی ہی تھی کہ دکان سے دو پولیس والے نکلے ان میں سے ایک نے بریانی والے کے کندھے کو تھپتھپا کر ہاتھ سے اشارہ کیا۔ بریانی والا ان کو دیکھ کر مسکرایا اور وہ دونوں دکان سے دانتوں میں ماچس کی تیلیاں مارتے ہاتھ میں اپنی ٹوپیاں پکڑے نکل گئے۔ میں نے کہا: ’’اچھا یہ بتاؤ، تمہیں یہ پولیس والے بھی پیسے دیتے ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’کہاں صاحب! یہ بادشاہ لوگ ہیں مرضی آئی تو دے دیتے ہیں۔ بس گزارا چلتا رہتا ہے۔ ان ہی کی مہربانی سے تو یہ ٹھیکہ قائم ہے۔‘‘
دکاندار سے بات چیت کے دوران مجھے اپنے گھر کا خیال آیا جہاں میری بیوی بچے انتظار میں تھے۔ میں نے بریانی والے سے بریانی کا پیکٹ پکڑا اور سلام کرکے تیز تیز قدم بڑھاتا گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ میری بیوی بچوں کو ہوم ورک کروا رہی تھی۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا: ’’یا الٰہی ! یہ کیسا معجزہ ہے۔‘‘
میرے اس جملے پر بیگم مسکرائی اور بتایا کہ دن کے دس بجے کے بعد اچانک اس کی طبیعت سنبھلنا شروع ہوگئی تھی۔ اب وہ گھر کا سارا کام ختم کرکے بچوں کو ہوم ورک کرارہی ہے۔ رات مجھے بڑے چین کی نیند آئی۔ سونے سے پہلے میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اگلی صبح میں اس بریانی والے کو ضرور اس ’’نشہ باز‘‘ کو چاول کھلانے کے لیے پیسے دوں گا۔ میرے دل میں یہی خیال تھا کہ اگرچہ دکاندار کے کہنے کے مطابق وہ ایک نشہ باز تھا لیکن تھا تو بھوکا اور ضرورت مند، شاید اس کو کھانا کھلانا ہی نیکی تھی جس کے بدلے میں قدرت نے مجھے یہ خوشی دکھائی ہے۔ دوسری صبح میں ٹھیک سات بجے گھر سے نکلا جب بریانی والے کی دکان پر پہنچا تو وہ دکان پر کام کرنے والے چھوٹے کو کچھ ہدایات دے رہا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا اور ۲۰ روپئے دے کر تاکید کی کہ آج بھی میری طرف سے اس ’’نشہ باز‘‘ کو چاول کھلا دے۔بریانی والے نے مجھے پھر کچھ ہدایات دینی شروع کیں لیکن میں ان سنی کرکے چل دیا۔ راستے میں مٹھائی کی دکان سے مٹھائی لے کر دفتر پہنچا۔ تمام اسٹاف کو بیگم کی صحت یابی پر مٹھائی کھلائی۔ سب نے مجھے مبارک باد دی اور میں خوشی خوشی کا م میں مصروف ہوگیا۔ میں کام میں مصروف تھا کہ اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ ایک لمحہ میں، میںخود لرز کر رہ گیا۔ مجھے لگا کہ پوری عمارت زلزلے کے جھٹکے کی مانند ہل گئی ہے۔ اس وقت میں نے کچھ دیر کے لیے خود کو سنبھالا اور پھر اوپر کی کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا۔ فٹ پاتھ اور سڑک کے دونوں جانب لوگ سراسیمگی کے عالم میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ دکاندار اپنی دکانیں بند کررہے تھے۔
میں خود گھبرایا ہوا نیچے اتر آیا۔ پتہ چلا کہ بریانی والے کی دکان میں اس وقت خود کش دھماکہ ہوا ہے جب وہاں کچھ پولیس والے چاول کھا رہے تھے۔ لوگوں کی زبان پر یہی تھا کہ بریانی والے سمیت دکان کے اندر تمام کھانے والوں کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ جبکہ کئی راہ گیر بھی اس خود کش حملہ میں ہلاک و زخمی ہوگئے تھے۔
یہ ہمارے علاقے کے لیے ایک دردناک سانحہ تھا۔ لہٰذا سب نے اپنا کام بند کردیا۔ پولیس والوں نے تمام علاقوں کی ناکہ بندی کردی۔ باقی لوگوں کی طرح میں بھی پولیس والوں کو اپنی شناخت کروا کر متبادل راستے سے گھر پہنچ گیا۔
وہ رات پورے علاقہ کے رہنے والوں کے لیے بڑی کرب ناک تھی۔ مجھے تمام رات نیند نہیں آئی۔ میں بار بار بریانی والے سے اپنی تازہ ملاقاتوں اور اس ’’نشہ باز‘‘ کے بارے میں سوچتا رہا۔ اگلی صبح میں کام پر نکلا تو بریانی والے کی دکان سے چند دکانیں پہلے ایک دکان والے سے کل والے سانحے کی صورتحال معلوم کی اور یہ بھی پوچھا کہ ان ہلاک ہونے والوں میں کوئی ’’نشہ باز‘‘ بھی شامل تھا تو اس نے بتایا کہ ’’جی! وہ بریانی والے سے بریانی کی پلیٹ لے کر ابھی اس کی دکان سے کچھ فاصلے پر بیٹھا ہی تھا کہ دھماکا ہوگیا۔اس بے چارے کی تو دھماکے کی آواز سے ہی جان نکل گئی تھی، اسے کوئی زخم وغیرہ نہیں آیا تھا۔‘‘ پھر وہ دکان کے اندر گیا اور ایک خالی پلیٹ لے کر آیا جس پروہی سرخ رنگ کا نشان تھا جو بریانی والے نے مجھے یہ کہہ کر دکھائی تھی کہ میں ان غلیظ لوگوں کی پلیٹ بھی دیگر لوگوں کے استعمال میں آنے والے برتنوں سے الگ رکھتا ہوں۔ میں سوچ رہا تھا اس فانی دنیا کا وہ غلیظ اور بھوکا مسافر دیگر لوگوں کے ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔
(ایک پاکستانی ویب سائٹ سے ماخوذ)