صفائی اور صحت پر توجہ کی ضرورت

مریم جمال

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہرسال دو کروڑ ساٹھ لاکھ افراد گندگی اور اس کے سبب ہونے والی بیماریوں سے مرجاتے ہیں۔ ان مرنے والوں میں اٹھارہ لاکھ افراد ہر سال ڈائریا سے مرتے ہیں جن میں ۹۰ فیصد پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ دنیا کی نصف آبادی کو صفائی ستھرائی سے متعلق بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور اگر سو کروڑ ڈالر خرچ کیے جائیں تو ۲۰۱۵ء تک پوری دنیا سے گندگی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ صفائی پر خرچ کی جانے والی یہ رقم اس رقم کا ایک فیصد بھی نہیں ہوتی جو پوری دنیا ڈفنس پر خرچ کرتی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں جتنا خرچ بوتل بند پانی پر کیا جاتا ہے اسے اگر صفائی ستھرائی کے حصول پر لگا دیا جائے تو عالمی سطح پر گندگی کی اس صورت حال میں واضح بہتری لائی جاسکتی ہے اور جتنا پیسہ لوگ آئس کریم کھانے پر خرچ کرتے ہیں اگر اتنا پیسہ صفائی پر خرچ کیا جانے لگے تو گندگی کا خاتمہ ممکن ہے۔

اقوامِ متحدہ نے ہندوستانی حکومت کو بھی آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ ملک میں صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنالے اور گندگی کا خاتمہ ہوجائے تو نہ صرف صحت عامہ کے نظام اور معیار میں بہتری لائی جاسکتی ہے بلکہ صحت پر ہونے والے اخراجات میں کافی کمی کی جاسکتی ہے۔ خود ہندوستان کے ماہرین صحت کا خیال ہے کہ اگر ہماری حکومت ایک پنچ سالہ منصوبہ کے بجٹ کے برابر رقم صفائی ستھرائی کے ہدف کو حاصل کرنے پر صرف کردے تو ملک سے ستر سے اسی فیصد بیماریاں ختم ہوسکتی ہیں۔

یہ اقوام متحدہ اور ہمارے ملک کے ماہرین صحت عامہ کی رائے ہے جو انھوں نے اعداد و شمار اور اپنے ماہرانہ نقطۂ نظر سے پیش کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مشورروں اور خود اپنے ملک کے ماہرین صحت کے اندازوں پر حکومت کس قدر توجہ دیتی ہے اور وہ ملک سے گندگی اور اس کے سبب ہونے والی بیماریوں کے خاتمہ کے لیے کیا کرسکتی ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے یہ سوال تو اہم ہے ہی، لیکن ہمارے نزدیک حکومت کے رول سے قطع نظر یہ سوال زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ہم خود ملک کے شہری اور گندگی کے اس ماحول میں رہنے والے لوگ جو اس کے سبب بے شمار امراض کا شکار ہوتے ہیں خود اپنی صحت کی حفاظت اور اپنے ماحول کو گندگی سے بچانے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں۔

یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ گندگی ہم شہریوںہی کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور ہماری بے احتیاطی اور بے توجہی ہی اس صورت حال کو مزید ابتر بنانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ چنانچہ ہم شہریوں کی توجہ اور حساس توجہ اگر اس اہم مسئلہ کی طرف نہ ہو تو حکومت خواہ کیسا ہی صفائی ستھرائی کا نظام وضع کرلے ہم صاف ستھرے ملک اور بیماریوں سے محفوظ سماج کا تصور نہیں کرسکتے۔

یہ حقیقت ہے اور فطری حقیقت ہے کہ جہاں کہیں بھی انسان رہتے اور بستے ہیں وہاں گندگی ہونا لازمی ہے کیونکہ یہ انسانی زندگی کے نظام کا حصہ ہے مگر خالق انسان نے انسانو ںکو صفائی ستھرائی اور اس گندگی کے ازالہ کی تدبیریں بھی فطری طور پر سکھائی ہیں اور ہر انسان اپنی فطری گندگی کو صاف کرنے کا طریقہ جانتا ہے۔ مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں اجتماعی صفائی ستھرائی کا سوال ہو۔ ہر انسان اپنی ذات کو تو صاف ستھرا رکھنے پر توجہ دیتا ہے مگر اپنے آس پاس اور اپنے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے میں اپنا اجتماعی رول ادا کرے یہاں آکر کوتاہی اور بے توجہی ہوتی ہے اور اپنے گھر اور اپنی ذات کو صاف ستھرا رکھنے کی فکر میں وہ ماحول اور دوسروں کی فکر نہیں کرتا۔ یہی دراصل سارے مسائل کی جڑ ہے۔ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ عام راستوں پر پھینک دینا، اپنے گھر کے اندر جھاڑو لگاکر کوڑا کرکٹ کا گھر کے باہر ڈھیر لگادینا، گھر کی گندگی پلاسٹک میں بھر کر کھڑکی سے باہر پھینک دینا یہ ہمارے سماج کی عام روایات ہیں جنھیں کسی بھی طرح درست نہیں کہا جاسکتا اور نہ اس کے لیے حکومت کے صفائی نظام کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے اس بنیادی شعور کی کمزوری کا مظہر ہیں جو بہ حیثیت انسان اور بہ حیثیت سماج کے ایک فرد کے ہمارے اندر ہونی چاہیے۔

ایسا کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ براہِ راست یا بالواسطہ ماحول میں گندگی پھیلا کر اپنے آس پاس کو گندا کررہے ہیں جو خود ہماری اور ہمارے اہلِ خانہ کی صحت کے لیے زہر ہے۔ اجتماعی صفائی ستھرائی کے سلسلہ میں اس طرز عمل سے ہٹ کر اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے گھر اور ذات کی سطح پر بھی قدم قدم پر بے توجہی برتنے والے ہم خود ہی ہیں۔اور صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہم اور ہمارے اہلِ خانہ مختلف قسم کی ایسی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن میںاکثرسبب ہمارے اپنے اندرونِ خانہ برتی جانے والی بے احتیاطیاں ہیں۔ بچوں کا ڈائریا سے متاثر ہونا، پیٹ کے کیڑے، ٹی بی، خارش اور جلدی امراض ایسی بیماریاں ہیں جن پر ہم اگر خود توجہ دیں اور اپنے گھر کو صاف ستھرا، ہوا دار اور روشن بنائیں تو ان سے چھٹکارا ممکن ہے۔ جسم کو صاف ستھرا رکھنا اور اندرونِ خانہ گندگی نہ ہونے دنیا ایسی عام چیزیں ہیں جن پر کسی بیرونی عنصر کو خاطر میں لائے بناہم عمل کرسکتے ہیں مگر نہیں کرتے۔

ایک عام تاثر مسلم آبادی والے علاقوں اور بستیوں کے بارے میں یہ ہے کہ وہ بہت گندی آبادیاں ہوتی ہیں۔ اس میں کچھ الزام اور کچھ مبالغہ بھی اگر تصور کرلیا جائے اور حکومتی اداروں کی ’خاص بے توجہی‘ کی بات بھی مان لی جائے تب بھی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم لوگ کسی نہ کسی حد تک اس الزام کے لیے درست ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ’’الطہور نصف الایمان‘‘( یعنی صفائی ستھرائی آدھا ایمان ہے-) کی تعلیمِ نبوی کو یا تو بھلا دیا ہے یا اس کا تصور ہمارے ذہن و دماغ میں دھندلا گیا ہے۔

’صفائی آدھا ایمان ہے‘ کہہ کر ہمارے رہنما اور ہمارے ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ نے ہمیں صفائی ستھرائی کا جو ہمہ گیر درس دیا اور اسے ایمان کا آدھا حصہ قرار دے کر جس طرح طہارت کے تصور کو ہماری زندگی کی بساط پر پھیلادیا اس تصور کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہماری ذات، ہمارے سماج اور ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو طہارت و صفائی سے ہم کنارکرنے والا ہے۔ طہارت و صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا اور باقی آدھا ایمان ہماری تمام عبادات: روزہ، نماز، حج و زکوٰۃ اور دیگر نیک اعمال میں بتایا گیا۔ اس سے اہلِ ایمان کو اندازہ لگانا چاہیے کہ حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی نے طہارت و پاکیزگی اور پاکی و صفائی کے تصور کو کس طرح ہمارے ذہن و فکر کی بساط پر پھیلا تھا۔ مگر افسوس کہ امت نے نہ صرف اس تصور کی ہمہ گیری کو فراموش کردیا بلکہ اس کے ایک معمولی سے حصہ سے بھی غافل ہوگئے جو ظاہری طہارت و صفائی پر مبنی ہے۔ ایسے میں ذہن و فکر، طرز عمل اور قلب و نظر کی پاکیزگی و صفائی کا خیال کہا ںسے ہوگا۔ جبکہ یہ تمام چیزیں ہمارے رسول کی اس تعلیم کا جزو ہیں جس میں طہارت و پاکیزگی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا ہے۔

اب جبکہ ہم ربیع الاول کے اس مہینے میں داخل ہورہے ہیں جو سیرت نبوی اور تعلیمات رسول کے احیا کے لیے خاص طور پر منایا جاتا ہے، ضروری ہے کہ آپ ﷺ کی دیگر تعلیمات کو حرزِ جان بنانے کے ساتھ ساتھ آپ کی طہارت و صفائی ستھرائی سے متعلق تعلیمات کی ہمہ گیری اور اہمیت کو بھی خاص طور پر سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے توجہ دلانے کے سبب حکومت ہند ۲۰۰۸ء کو صفائی ستھرائی کے سال کے طور پر منا رہی ہے۔ ایسے میں سول سوسائٹی کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے بنیادی اصولوں پر کار بند ہوںاور سماج و معاشرے اور ملک میں اس موضوع پر بیداری لانے کی بھی اپنی حد تک کوشش کریں تاکہ ہندوستان کو ایک صاف ستھرا ملک اور اپنے سماج کو ’نیٹ اینڈ کلین‘ اور بیماریوں سے پاک سماج بنایا جاسکے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں