صلہ

ترجمہ: ثروت صولت

فرخندہ قلفہ، چھوٹی خانم کے ساتھ پلی بڑھی تھی۔ اس کی وجہ سے فرخندہ کو گھر کے اندر ایک امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ وہ گھر کے دوسرے ملازموں سے الگ مقام رکھتی تھی۔ اس نے بارہا اپنے مالک کی زبان سے سنا تھا کہ فرخندہ ہمارے گھر میں بیٹی کی طرح ہے، چنانچہ چھوٹی خانم یعنی حسنہ کے ساتھ جیسا سلوک ہوتا تھا، ویسا ہی فرخندہ کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ حسنہ کے لیے جس رنگ کا کپڑا خریدا جاتا تھا، فرخندہ کے لیے بھی اسی رنگ کا خریدا جاتا۔ عید، بقرعید کے موقع پر اگر حسنہ کے لیے سرخ ریشمی جوڑا آتا تو فرخندہ کے لیے بھی ویسا ہی جوڑا لیا جاتا۔ بس فرق اتنا تھا کہ فرخندہ کے کپڑے اونی ہوتے تھے یا سرخ چھینٹ کے۔ یہ بات فرخندہ کے لیے باعثِ اطمینان تھی۔

جب رشتے کے سلسلے میں عورتیں حسنہ کو دیکھنے آتیں تو فرخندہ دل ہی دل میں خوش ہوتی۔ وہ سوچتی ایک دن اسے دیکھنے بھی اسی طرح عورتیں آئیں گی۔ ایسے موقعوں پر وہ چھوٹی خانم سے کبھی جدا نہیں ہوتی تھی۔ وہ خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ اڑی اڑی پھرتی، وہ سیڑھیاں تیزی سے چڑھتی اور تیزی سے اترتی۔ ہانپتی کانپتی، چھوٹی خانم کے پاس پہنچ کر اطلاع دیتی۔ مہمانداری کے تقاضے سے کیسا لباس پہنا جائے، اس پر حسنہ سے خوب خوب بحث کرتی اور پھر خود بھی کپڑے بدل کر آجاتی۔ ایسے موقع پر سب اہم کام فرخندہ ہی کے سپرد ہوتے۔ خاص طور پر مہمانوں کی خاطر تواضع اور انھیں قہوہ وغیرہ پیش کرنے کی خدمت اسی کے ذمے ہوتی۔

دیکھنے والی عورتوں کے سامنے چھوٹی خانم آتی تو فرخندہ بھی اس کے ساتھ ہوتی۔ مہمانوں کو قہوہ پیش کرنے کے بعد وہ چھوٹی خانم کے برابر میں بیٹھ جاتی۔ کبھی کبھی تو اس کا انداز ایسا ہوتا جیسے حسنہ خانم کے ساتھ عورتیں اس کو بھی پسند کرنے آئی ہوں۔ اور جب اسے یہ خیال آتا تو اس کے چہرے پر شرم سے سرخی پھیل جاتی۔

جب عورتیں حسنہ کو دیکھ لیتیں اور وہ اپنے کمرے کی طرف لوٹتی تو فرخندہ بھی اس کے پیچھے آتی اور اس کے ساتھ کمرے میں بند ہوجاتی۔ اس کی خوشی کا یہ عالم ہوتا کہ وہ بلا تکلف چھوٹی خانم سے لپٹ جاتی اور ناقابلِ بیان مسرت اور جوش کے ساتھ اسے پیار کرنے لگتی یہاں تک کہ حسنہ تنگ آکر کہتی: ’’پاگل ہوگئی ہو! تمہیں کیا ہوا ہے؟ ہوش میں آؤ فرخندہ!‘‘

لیکن وہ اس جھڑکی کے باوجود چھوٹی خانم کو پے بہ پے پیار کرتی رہتی۔ ایک دفعہ اس کے منہ سے ایسا جملہ بھی نکل گیا جو اس کی دلی آرزو کا ترجمان تھا۔ اس نے ایسے ہی ایک موقع پر کہہ دیا تھا: ’’آہ چھوٹی خانم! کاش تم جانتیں کہ میں بھی اس دن کے لیے کتنی تڑپ رہی ہوں۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ فرخندہ قلفہ کو اس بات کا قطعی یقین تھا کہ ایک دن اسے دیکھنے کے لیے بھی عورتیں آئیں گی اوراس گھر میں اس کی شادی کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آئے گا۔ وہ ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی کہ یہ بات وہ اپنے منہ سے کہے۔ وہ خود کو گھر کا ایک فرد سمجھتی تھی اور گھر والے بھی یہی کہتے تھے اور ظاہری طور پر اس میںاور چھوٹی خانم میں کبھی فرق نہیں کیا جاتاتھا۔

فرخندہ کو اپنے حسن پر بھی اعتماد تھا۔ جب سے عورتیں رشتے کی تلاش میں گھر آنا شروع ہوئی تھیں، اس وقت سے وہ اپنی شکل و صورت کا دل ہی دل میں چھوٹی خانم سے موازنہ کرتی رہتی۔ وہ خود کو اس سے کم تصور نہیں کرتی تھی۔ اس کی بھویں مختصر اور سیاہ تھیں، آنکھوں میں نرمی تھی اور ان کا رنگ سیاہ تھا۔ جلد کا رنگ کھلتا ہوا لیکن گلابی آمیزش کے ساتھ، شانے کشادہ اور ان کے نیچے بتدریج تنگ ہوتا ہوا جسم، گویا اسے خوش اندام کہا جاسکتا تھا۔ اس کے کمرے میں ہاتھ بھر کا ایک آئینہ تھا جو ایک قد آدم آئینے کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا تھا اور جس کی وہ بڑی حفاظت کرتی تھی۔ اپنے بارے میں اس نے جو رائے قائم کی تھی، وہ اسی آئینے میں عرصے تک خود کو دیکھنے کے بعد قائم کی تھی اور وہ بجا طور پر سمجھتی تھی کہ فرخندہ قلفہ کوئی ایسی لڑکی نہیں جسے کسی اجنبی اجڈ مرد کے سپرد کردیا جائے۔

فرخندہ، چھوٹی خانم کی بھووں، آنکھوں اور جسم کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھی لیکن اسے حسنہ کے بالوں کا سنہری رنگ بہت پسند تھا۔ وہ اس کے بالوں پر رشک کرتی۔ خود سے موازنہ کرتے وقت اگر کوئی چیز چھوٹی خانم کے حق میں جاتی تھی تو وہ صرف اس کے سنہری بال تھے۔ وہ کہا کرتی تھی کاش میرے لیے ممکن ہوتا کہ میں اپنے کالے بالوں کو سنہری بناسکتی۔

چھوٹی خانم کی شادی کا دن مقرر ہوجانے کے بعد اس کا دل کسی قدر دھڑکا، پھر بھی وہ خوش تھی۔ لیکن جب شادی میں ایک دن رہ گیا تو اس کے اندیشے کچھ زیادہ ہوگئے، تاہم وہ جلد ہی سنبھل گئی اور تفکرات میں مبتلا ہونے کے بجائے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔

’’پاگل لڑکی! دو شادیاں ایک وقت میں کیسے ہوں گی؟ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔

فرخندہ کو چھوٹی خانم کی شادی پر حسد نہیں تھا۔ وہ تو خود چاہتی تھی کہ شادی کا یہ دن جلد از جلد آجائے شادی کی تیاریوں میں وہ آگے آگے رہتی۔ صبح ہوتے ہی چھوٹی خانم کو یاد دلاتی کہ اب بازار جانے کا وقت آگیا۔ خریداری کے لیے وہ دیگر عورتوں کے ساتھ جاتی۔ خریداری کے بعد جوتوں اور چپلوں کے ڈبے، ملبوسات کے پیکٹ اور دوسرا سامان کسی دوسرے کو نہ اٹھانے دیتی۔ یہ ساری اشیا خود ہی اپنے بازوؤں میں سمیٹے وہ عورتوں کے پیچھے پیچھے بھاگی چلی جاتی۔ وہ جب ان چیزوں کو اپنے سینے سے لگائے چلتی تو یہ محسوس کرتی کہ خود اس کی شادی کادن قریب آگیا ہے۔

وہ ان تیاریوں کو خود اپنے دلہن بننے کا مژدہ تصور کرتی تھی۔ بازار میں، سامان اٹھائے وہ ایک دکان سے دوسری میں جاتی تو پسینہ پسینہ ہو جاتی اور اس کے برقع کا نقاب بھیگ کر اس کے رخساروں سے چپک جاتا۔ وہ استنبول کے ایک ایک کونے میں سامان لیے پھرتی اور خوش ہوتی کہ ایک دن اسی طرح اس کی شادی بھی ہوگی۔ اسے یقین تھا کہ اسی قسم کی تمام چیزیں جو چھوٹی خانم کو جہیز میں دی جارہی ہیں اس کو بھی، تھوڑی مقدار میں اور کم قیمت کی سہی، ضروری ملیں گی۔ آخر وہ چھوٹی خانم کے ساتھ پلی بڑھی ہے اور آفندی اور بڑی خانم اس کو اولاد کی طرح سمجھتے ہیں۔

فرخندہ جب سامان سے لدی پھندی گھر پہنچتی تو دوسرے ملازم اس کے چاروں طرف جمع ہوجاتے مگر وہ کسی کو سامان چھونے نہیں دیتی تھی بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا وہ کسی کو دکھاتی بھی نہیں تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ جہیز کا سامان دیکھنے اور چھونے کا حق صرف چھوٹی خانم کو ہے یا اسے۔

جس طرح فرخندہ بازار جانے کا حق کسی اور کو دینا نہیں چاہتی تھی اسی طرح گھر میں شادی کے ملبوسات کی سلائی اور دیگر فرائض میں بھی وہ دوسروں کی شرکت پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک دن بڑی خانم نے اس سے کہہ دیا کہ اب تم تھک گئی ہو، بس کرو، جاکر سوجاؤ تو اسے بہت ناگوار گزرا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کئی گھنٹے اس نے کسی سے بات نہیں کی۔

ایک دن آفندی اور بڑی خانم کے درمیان دسترخوان پر کچھ کانا پھوسی ہوئی۔ اس کے بعد دونوں نے فرخندہ کو دیکھا اور مسکرادیے۔ فرخندہ کا دل دھڑکنے لگا اور اس نے اپنی آنکھیں شرم کے مارے نیچی کرلیں۔ اس دن وہ مختلف حیلے بہانے سے بار بار بڑی خانم کے پاس آتی جاتی رہی۔ وہ ان کے مسکرانے کا سبب جاننا چاہتی تھی۔ ’’معلوم نہیں،کیا بات ہے۔‘‘ وہ دل میں سوچتی۔ اسے یہ تو یقین تھا کہ بات اس کی شادی کی ہے لیکن وہ جاننا چاہتی تھی کہ کس سے شادی ہورہی ہے۔ اگلے روز صبح بڑی خانم نے آواز دی:

’’فرخندہ! تم کو آفندی بلا رہے ہیں۔‘‘

آواز سن کر وہ گم صم ہوگئی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا، کوئی حرکت نہ کی۔ اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ اندیشوں اور امیدوں سے بھری وہ آفندی کے سامنے گئی اور نگاہیں نیچی کرکے کھڑی ہوگئی۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ خوشی اور مسرت کا وہ لمحہ، جس کا اسے انتظار تھا، آہی گیا۔ آفندی نے آہستہ آہستہ اور رک رک کر کہنا شروع کیا:

’’فرخندہ ! تمہاری پرورش حسنہ کے ساتھ ہوئی ہے۔ ہم نے تمہارے اور حسنہ کے درمیان کبھی فرق نہیں کیا۔ تم نے بھی سب کو خوش رکھا۔‘‘

فرخندہ کی سانس جیسے رک گئی ہو۔ وہ سننے کے لیے بے چین تھی کہ آفندی اب کیا کہتے ہیں۔ چند لمحے بعد آفندی نے پھر کہا:

’’اب حسنہ ایک اجنبی گھر میں جارہی ہے۔ اگر وہاں اسے کوئی ایسی عورت نہ ملی جس سے وہ بے تکلف ہو تو وہ بہت گھبرائے گی۔ اس مسئلے پر ہم نے بہت غورکیا اور یہ فیصلہ کیا کہ تمہیں حسنہ کے ساتھ بھیج دیا جائے… سن رہی ہو فرخندہ؟ تم حسنہ کے ساتھ جاؤگی! ہم تم سے مطمئن ہیں اور جانتے ہیں کہ تم خلوص اور محبت کے ساتھ اس کی خدمت کرو گی۔ پھر ایک دو سال بعد کسی مبارک موقع پر تمہیں اس کا صلہ دیا جائے گا۔‘‘

فرخندہ نے آگے بڑھ کر آفندی کے دامن کو بوسہ دیا اورواپس ہوگئی۔ وہ خوش تھی۔ اس کا خیال تھا کہ گومگو میں پڑے رہنے سے بہتر تھا ایک واضح بات کہی جاتی اور آفندی نے بات واضح کردی تھی۔ ایک دو سال ہی کی تو بات ہے۔ آنکھ جھپکتے ہی یہ مدت گزرجائے گی اور وہ مبارک موقع آجائے گا جس کا آفندی نے اس سے وعدہ کیا ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ مبارک موقع سے آفندی کی مراد چھوٹی خانم کے ہاں بچے کی پیدائش ہے۔

اس واقعے کے بعد فرخندہ نے ایک نئے جوش و خروش سے کام کرنا شروع کردیا۔ اب اسے مستقبل کے بارے میں کوئی خوف اور اندیشہ نہ رہا۔ اس کی آرزوؤں کے افق پر امید کی ایک واضح کرن نظر آرہی تھی، چنانچہ چھوٹی خانم کی شادی کے دن فرخندہ کی شخصیت نے کئی شخصیتوں کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ایک فرخندہ سے کئی فرخندہ پیدا ہوگئی تھیں اور ہر کام میں اسے اسی کا ہاتھ نظر آتا تھا۔ یہ شادی ایک طرح سے فرخندہ کی شادی کا پیش خیمہ تھی اور وہ اپنے ہر کام کو ایک ہونے والی دلہن سمجھ کر ا نجام دے رہی تھی۔ اس کو اب سب لوگ فرخندہ قلفہ کہہ کر پکارتے تھے یعنی ایک ایسی خدمت گار ملازمہ جو گھر کے تمام کاموں کی ذمہ دار ہو۔ یہ ایک واجب الاحترام خطاب تھا اور وہ اس پر بہت خوش تھی۔

٭٭٭

اب فرخندہ کے لیے انتظار کا دور شروع ہوچکا تھا۔ دن پر دن اور مہینے پر مہینے گزرتے گئے لیکن جس دن کا اسے انتظار تھا، اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی۔وہ براہِ راست چھوٹی خانم سے پوچھنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتی تھی۔ وہ سوچتی جب وقت آئے گا تو بات آشکارا ہوجائے گی۔ اس لیے خاموشی کے ساتھ انتظار بہتر ہے۔ آخر ایک دن اس سے صبر نہیں ہوا اور چھوٹی خانم سے جس سے وہ ہر وقت ہر چیز کے بارے میں بلا تکلف باتیں کرتی تھی، اس نے جھجکتے اور شرماتے ہوئے پوچھنے کی جرأت کرلی: ’’چھوٹی خانم جی! ہم تنہا رہ گئے ہیں۔ ہمارے لیے خوشی کا وقت کب آئے گا؟‘‘

اسے جو جواب ملا وہ کچھ خوشگوار نہیں تھا۔ ’’میں ابھی نئی نویلی دلہن ہوں، اس لیے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ چھوٹی خانم نے کہا۔

اس جواب نے فرخندہ کو افسردہ کردیا۔ اس کے سر میں درد شروع ہوگیا۔ اس نے قہوے میں لیموں نچوڑ کرپیا، سر پرپٹی باندھ لی اور شام تک گھر کا کام اسی حالت میں کرتی رہی۔ اب اس کا دل بغاوت پر آمادہ ہورہا تھا۔

’’پہلے چھوٹی خانم پرانی ہوں گی، پھر ان کے بچے ہوں گے۔ اس کے بعد کہیں وہ بیچاری فرخندہ کے بارے میں سوچیں گی۔‘‘ اس نے دل میں کہا۔

اس واقعے کے بعد فرخندہ چڑچڑی ہوتی گئی۔ اس نے بہانے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لڑائی جھگڑے شروع کردیے۔ اگر کبھی حسنہ کا شوہر ذرا اونچی آواز سے کچھ کہہ دیتا تو فرخندہ اپنے کمرے میں جاکر دیر تک روتی رہتی۔ اب اس کا معمول بن گیا تھا کہ صبح آنکھ کھلنے پر چارپائی پر بیٹھ جاتی اور شادی کے وقت سے اب تک جو واقعات پیش آئے تھے، ان کا تفصیل سے شمار کرتی۔ دل میں سوچتی: ’’شادی کے بعد ہم لوگ گرمیوں میں قاضی کوئے (استنبول کا ایک محلہ، ایشیائی ساحل پر) گئے تھے اور ایک سال چا ملیجہ میں قیام کیا تھا یہاں تک کہ دوسرا موسم بہار شروع ہوگیا۔‘‘ اس طرح ہر سال کے واقعات کا شمار کرنے کے بعد کہتی اب تین سال ہوچکے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اتنی مدت گزرگئی… ایک سال گرمیوں کا موسم ہم نے یہاں گزارا تھا۔ اس طرح کل چار سال ہوچکے ہیں۔ لیکن چھوٹی خانم کہتی ہے کہ میں ابھی تک نئی نویلی دلہن ہوں۔

اس نے اب چھوٹی خانم کے ساتھ ایک طرح کا معاندانہ طرز عمل اختیار کرلیا تھا۔ اس کی پیشانی پر اکثر بل پڑے رہتے اور وہ کوئی کام خوشی خوش نہیں کرتی تھی۔

ایک دن فرخندہ نے خبر سنی کہ دلہن بی بی حاملہ ہوگئی ہیں اور ان کے بچہ ہونے والا ہے۔ یہ اچھی خبر تھی لیکن وہ اس کی تصدیق کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنی بے رخی کا انداز بدلا اور دوڑی دوڑی چھوٹی خانم کے پاس گئی اور اس سے تصدیق چاہی۔

’’غالباً‘‘ چھوٹی خانم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

اس مبہم جواب سے فرخندہ کو بہت رنج ہوا۔ وہ حوصلہ افزا انداز میں اپنے اس سوال کا جواب چاہتی تھی۔ اس کے بعد کئی دن اس کی نیند غائب رہی اور وہ سو نہیں سکی۔ پھر جب خبر کی تصدیق ہوگئی تو اسے اطمینان ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی پرانی خوشی بحال ہوگئی اور وہ پھر حسبِ سابق جوش و خروش کے ساتھ کام کرنے لگی۔ اب وہ چھوٹی خانم کے ساتھ لگی رہتی، کسی وقت بھی اس سے جدا نہ ہوتی حتی کہ جب دلہن بیگم سیڑھیوں سے نیچے اترتی تھیں تو ان کو سہارا دینے کی کوشش کرتی۔ ہر تھوڑی مدت کے بعد وہ چھوٹی بیگم سے پوچھتی کہ بچہ ہونے اور مبارک ساعت آنے میں کتنے دن باقی ہیں۔ ایک روز جب اس نے یہی سوال کیا تو چھوٹی خانم نے جواب دیا: ’’ابھی آٹھ ماہ مکمل ہوئے ہیں، ایک ماہ باقی ہے یعنی پورے تیس دن۔‘‘

آخر مبارک دن بھی آگیا اور بچہ پیدا ہوگیا۔ فرخندہ نے بچے کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ وہ روتا تو اسے بہلاتی، لوریاں دیتی، اس کے کپڑے دھوتی اور بدلتی۔کپڑا نچوڑنے سے جو آواز نکلتی ہے وہ اسے اچھی لگتی لیکن اس تمام خدمت او رلگن کے باوجود بچہ فرخندہ کے لیے ابھی تک وہ خوشخبری نہیں لایا تھا جس کا اسے انتظار تھا۔ اس دوران اس کا خطاب بھی بدل گیا۔ اب اسے فرخندہ قلفہ نہیں بلکہ ثابت بے کی انا کہا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ یہ نام اتنا عام ہوگیا کہ گھر کے سب لوگ اسے انا فرخندہ کہہ کر پکارنے لگے۔ قلفہ کے لقب سے وہ جتنی خوش ہوتی تھی، انا کا لقب اس کے لیے اتنی ہی تکلیف کا باعث بنا۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ بیس بائیس برس کی عمر میں بوڑھی ہوگئی ہے۔ وہ خود کو تھکی تھکی محسوس کرنے لگی۔ کام کرنے کو اس کا جی نہ چاہتا اور پاؤں مشکل سے اٹھتے۔

عید کے موقع پر بچے کو اس کی انا کے ساتھ نانا کے پاس بھیج دیا گیا۔ جب وہ واپس آنے لگی تو آفندی نے کہا: ’’فرخندہ! ذرا ٹھہرو۔ تم نے جو خدمت کی ہے، اب اس کا صلہ دینے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ اس کے بعد آفندی نے الماری کھولی اور شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی چٹکی سے ایک کاغذ نکالا اور قلم کو دوات میں چار پانچ بار ڈبویا اور سوچ کر کچھ لکھا۔ پھر اس کو ایک بار پڑھا۔ آخر میں جیب سے مہر نکال کر کاغذ پر لگائی اور کاغذ کو اہتمام کے ساتھ لپیٹ کر بچے کی طرف یہ کہہ کر بڑھایا: ’’لو ثابت، یہ اپنی انا کو دے دو۔‘‘

فرخندہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ معاملہ کیا ہے۔ مالک کے یہ الفاظ تشریح کے محتاج تھے۔ پریشانی اور خوشی کے ملے جلے احساسات کی وجہ سے قریب تھا کہ فرخندہ غش کھاکر گرپڑتی، لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور بچے کے ہاتھ سے کاغذ لینے کے بعد آفندی کے پاؤں چھوئے۔

فرخندہ شام کو گھر واپس آئی تو بہت خوش تھی۔ اس کے خیال میں وہ وقت جس کا طویل مدت سے انتظار تھا، آگیا تھا اور اب اسے بھی کسی وقت دلہن بنایا جائے گا۔ اس کے سیاہ بالوں میں جو چند سفید بال آگئے ہیں، انھیں رنگنا ممکن ہوگا۔ گھر پہنچنے کے بعد داماد بے نے اس کی خوشی میں اور اضافہ کیا۔ اس نے کہا: ’’فرخندہ دادی! جس طرح ثابت بے کو مدرسے میں داخل کرانا ہمارا فرض ہے بالکل اسی طرح تم کو دلہن بنانا بھی ہمارا فرض ہے۔‘‘

آرزوؤں کی جو آگ فرخندہ کے قلب میں بجھتی جارہی تھی، اس کے لیے کاغذ کے پرزے اور داماد بے کے الفاظ نے ہوا کا کام کیا۔ آرزوؤں کے شعلے پھر روشن ہوگئے اور فرخندہ اپنے اندر ایک نئی قوت محسوس کرنے لگی۔ اس نے اپنے کمرے میں جاکر کاغذ کا پرزہ لفافے میں سے نکال کر چوما اوردیر تک اسے دیکھتی رہی، جیسے وہ اس تحریر کے پراسرار معنی سمجھنے کی کوشش کررہی ہو۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھی، آئینہ اٹھایا اور اپنے سر کے بال غور سے دیکھے …’’وہ ایک، دو، تین…ارے نہیں! اب تو بہت سے بال سفید ہوگئے ہیں… خیر کوئی بات نہیں۔ انھیںخضاب سے کالا کیا جاسکتا ہے۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں کہا۔

ثابت بے کو مدرسے میں داخل ہونے کے بعد گھر میں دو بڑے حادثے پیش آئے۔ آفندی حضرت اور ان کی اہلیہ ، یعنی حسنہ کے والد اور والدہ دنوں یکے بعد دیگرے وفات پاگئے۔ ان حادثات نے اہلِ خاندان کو رنج و غم میں مبتلا کردیا۔ فرخندہ کی شادی کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا۔ یوں اس کی رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی۔ اب اس کے لیے ساری دنیا حتی کہ کاغذ کا یہ ٹکڑا جو آفندی بے نے دیا تھا، بے معنیٰ ہوکر رہ گیا۔ وہ رات کو بستر پر لیٹتی تو طرح طرح کے خواب دیکھتی۔ رنج و غم سے اس کے ہاتھوں میں طاقت نہ رہی اور پاؤں مشکل سے اٹھنے لگے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کے بال اور زیادہ سفید ہوگئے۔ ایک رات حسنہ خانم کا قہقہہ بلند ہوا، پھر اس نے کمرے سے نکل کر فرخندہ کو آواز دی: ’’دادی! دادی!‘‘

اب حسنہ بھی اسے دادی کہہ کر پکار رہی تھی۔ اب وہ انا سے دادی ہوگئی تھی۔ جب فرخندہ اس کے پاس پہنچی تو اس کا شوہر اس کے ساتھ تھا اور دونوں ہنس رہے تھے۔ حسنہ نے کہا: ’’دادی! تمھیں کچھ خبر بھی ہے؛ تمہاری قسمت جاگ اٹھی ہے۔‘‘

فرخندہ حیرت اورتعجب سے کھڑی دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کی قسمت کس طرح جاگ اٹھی ہے۔ ’’ارے دادی! کھڑی منہ کیا تک رہی ہو۔ کیا تمہیں میری بات پر یقین نہیں آیا؟ دیکھو صاحب کہہ رہے ہیں کہ اب تم ثابت کی لالہ (اتالیق)ہوگئی ہو۔‘‘

فرخندہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ منہ پھیر کر بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔ حسنہ اور اس کے شوہر نے سنا، وہ کہہ رہی تھی:

’’ٹھیک ہے، انتظار کراتے کراتے فرخندہ سے قلفہ، قلفہ سے انا اور اب لالہ بنادیا۔‘‘

دن ہفتوں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ پھر ایک دن آیا کہ حسنہ خانم نے فرخندہ سے کہا:

’’دادی! معلوم ہے کہ ہم آج تمہارے ساتھ کہاں جارہے ہیں؟ ثابت کے لیے لڑکی ڈھونڈنے۔‘‘ فرخندہ یہ سن کر حیران ہوگئی۔ ’’کیا ثابت اتنا بڑا ہوگیا ہے!‘‘ اس نے سوچا۔ پھر دل ہی دل میں حساب لگانے لگی کہ جب ثابت، شادی کے لائق ہوگیا تو خود وہ کتنی بڑی ہوچکی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ ثابت اب بائیسویں برس میں ہے۔ وہ حسنہ کی شادی کے چار سال بعد پیدا ہوا تھا۔ شادی کے وقت حسنہ کی عمر بیس سال تھی اور اسے حسنہ سے دو سال بڑی بتایا جاتا ہے۔ فرخندہ نے برسوں کو جوڑنے اور اپنی عمر معلوم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ حساب نہ لگاسکی۔ اس کا دل بیٹھنے لگا اور طاقت جواب دے گئی۔

جب ثابت کی شادی کا دن آیا تو فرخندہ حسب معمول تیاریوں میں مصروف ہوگئی۔ تقریب کے دوران اس نے دیکھا کہ عورتیں اس کی طرف اشارہ کرکے کانا پھوسی کرتی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ یہ دولہا کی دادی ہے۔ رات کو جب اپنے کمرے میں آئی تو اس نے دروازہ بند کردیا اور وعدے کا وہ کاغذ نکالا جو حسنہ کے باپ نے اسے دیا تھا۔ کاغذ خستہ ہوکر زرد پڑچکا تھا اور اس کی تحریر دھندلی ہوگئی تھی۔ فرخندہ نے کاغذ غور سے دیکھا اور پھر اسے اپنے منہ پر رکھ کر رونے لگی۔

پھر ایک دن جبکہ فرخندہ کے سر کے بالوں میں ایک سفید لچھے کا اور اضافہ ہوگیا تھا، ثابت اور اس کی بیوی نے اسے بلایا۔ انھوں نے خوشخبری دیتے ہوئے کہا:’’فرخندہ باجی! خوشی منانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ لیکن جب انھوں نے اسے خاموش پایا تو اس کی منت سماجت کرنے لگے۔ ثابت کی بیوی اس سے لپٹ گئی اور اس کے سفید بال چومتے ہوئے کہا کہ فرخندہ باجی! ہمارے ہونے والے بچے کی خاطر مان بھی جاؤ۔ فرخندہ بے چاری کیا کرتی، اسے باقی زندگی اسی گھر کے سائے میں گزارنی تھی۔ وہ راضی ہوگئی لیکن وہ جانتی تھی کہ ’’باجی‘‘ کا یہ خطاب بھی عارضی ہے۔ اسے اب ثابت کے بچے کی انا بن کر خدمت انجام دینی ہوگی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146