صلہ رحمی

ریحان اختر

قرآن میں رشتہ داری کا مقام
صلہ رحمی کا مطلب ہے رشتوں کو جوڑنا، اسلام نے رشتوں کو وہ بلند مقام دیا ہے جو پوری انسانی تاریخ میں کسی مذہب، کسی نظریے اور کسی تہذیب نے نہیں دیا۔ اس نے رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جو اسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی پرابھارتی ہیں۔ اور انھیں پامال کرنے اور ان پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘
(النساء:۱)
اللہ تعالیٰ نے سورئہ نحل میں جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان میں عدل اور احسان کے بعد تیسری چیز اہلِ قرابت کے حقوق کی ادائیگی ہے:
’’اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل: ۹۰)
صلۂ رحمی کا حکم احادیث میں
اللہ کے رسول ﷺ منصبِ نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیرا تھے۔ اس کا ثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گواہی ہے کہ غارِ حرا میں جبرئیل ؑ نے آکر آپ ﷺ کو پہلی وحی سنائی اور نبوت کا بار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ گھر تشریف لائے، اور جو واقعہ پیش آیا تھا اس سے ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ کو آگاہ کیا اورکہا کہ مجھ کو اپنی جان کا خوف ہے۔ اس وقت آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو باتیں کہیں وہ یہ تھیں: ’’ہرگز نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ (بخاری، باب بداء الوحی:۳)
صلۂ رحمی، شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِ اول ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔
سیدناعمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول و آداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
’’میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کا زمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ کیا ہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کیا چیز دے کر بھیجا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کو جوڑنے اور بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔‘‘ (مسلم)
یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول ﷺ نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول و مبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کو مقدم رکھا ہے۔ اس سے دین میں صلہ رحمی کے مقام و مرتبہ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سیدنا ابوایوب انصاری ؓ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘ (بخاری)
قطع رحمی کی مذمت
حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری) قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔
صلہ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کا تعلق مضبوط ہوتا ہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جو تجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔‘‘ (بخاری)
قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل ہی دنیا میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق : ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ ان کے ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دتیا ہے آخرت میں ان پر جو سزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی۔‘‘ (ترمذی: ۲۵۱۱)
صلہ رحمی کے درجات
ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذاتِ باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔ چنانچہ پہلا درجہ والدین کا قرار دیا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کو مستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:
’’اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۳)
’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ (العنکبوت: ۸)
سورہ لقمان میں ارشادِ باری ہے:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔‘‘ (لقمان:۱۴)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: تمہاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارا باپ۔ ایک دوسری روایت میںباپ کے بعد قریبی رشتہ دار کا بھی تذکرہ ہے۔‘‘ (مسلم)
صلۂ رحمی میں کوئی تفریق نہیں
دینِ اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جو ان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اسلام اس سے آگے بڑھ کر ان رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کا حکم دیتا ہے، جو ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے، بلکہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری: ۵۹۹۱)
اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
’’اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مانناہاں دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کر۔‘‘
(لقمان: ۱۵)
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگر وہ غریب ہوں تو انھیں مال دیا جائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے۔ انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے۔
حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہدِ نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، تو کیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو۔‘‘ (مسلم: ۲۳۲۵)
صلۂ رحمی کا مطلب بے جاطرف داری نہیں
شریعت میں صلۂ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرفد اری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے، اگرچہ وہ حق پر نہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دینِ اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں خاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘
(المائدۃ: ۲)
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔‘’ (النساء: ۱۳۵)
سورہ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:
’’جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اور اللہ سے جو عہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘ (الانعام:۱۵۲)
اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر نا انصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔ صلۂ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کا حق تلف کیے ہوئے ان کے دکھ درد میں شریک رہا جائے۔ اور اپنی طرف سے ہوسکے تو ان کی مدد کی جائے۔
صلۂ رحمی کی صورتیں
صلۂ رحمی کا مفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیا جائے۔ سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’آپ کہیے فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو تو وہ ماں باپ رشتہ داروں کے لیے۔‘‘ (البقرہ: ۲۱۵)
دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضرورت اور خواہش کے باوجود صرف خدا کی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھا کر اپنے قرابت مندوں کی امداد اور حاجت روائی اصل نیکی ہے۔ ’’جس نے اللہ کی محبت میںاپنا دل پسند مال رشتہ داروں کو دیا۔( البقرۃ:۱۷۷)
صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پائیدار ہوتے ہیں اور باہم رحم و ہمدردی اور مؤدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔ گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے، دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اور مزاج پرسی کرنے اورخندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے، جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اور رشتہ داروں کے درمیان الفت و محبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور ﷺ نے اپنے ارشادات میں صلۂ رحمی پر زور دیا ہے اور اس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی اور تکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کو تازہ رکھو خواہ سلام ہی کے ذریعے سے۔‘‘ (الموسوعہ الفقہ، بحوالے مجمع الزوائد: ۸/۱۵۲)
صلۂ رحمی کے دینی و دنیوی فوائد
رشتہ داری کا پاس و لحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجا آوری کے علاوہ بہت سے روحانی و مادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پر خرچ کرنے میں زیادہ اجر وثواب ملتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پر کرنے کی وجہ سے دہرا اجر ملتا ہے، ایک صدقہ کرنے کا، دوسرے صلۂ رحمی کا۔‘‘ (ترمذی: ۶۵۸)
اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اور رزق میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی موت میں تاخیر اور عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (مسلم:۶۵۲۳)
اس حدیث کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جو پرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑا سازگار ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتا ہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ صلہ رحمی سے بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جو آج کے مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes) کے حوالے کردیا جاتا ہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالتِ زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے سال میں ایک بار’یومِ مادر‘ (mother day) ’یوم والدین‘(parents day)مناکر اور چند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جو ان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے۔ صلۂ رحمی سے آشنا اسلامی معاشرہ ان کو بوجھ سمجھنے کے بجائے ان کی خدمت کو جنت کے حصول اور ان کی رضا کو خدا کی رضا کے حصول کا سبب سمجھتا ہے۔
اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اور کفالت پر بڑا زور دیا گیا ہے اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاندان کے افراد میں شامل کرلیں اور ان کے ساتھ اپنے بچوں جیسا معاملہ کریں۔
بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیواؤں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اور ان کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز و قریب رشتہ داروں پر عائد کی گئی ہے۔ ان کو اس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاتا ہے۔
جس اسلام نے صلہ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسا نفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار وافتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود کشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں