صلہ رحمی ایک اعلیٰ انسانی قدر
صلہ رحمی کی تعلیم رسول اللہ ﷺ کے مشن کا اہم جزء ہے۔ حضرت ابو نجیح عمر وبن عبسہ سے روایت ہے کہ ایامِ جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر سن کر وہ ایک بار مکہ میں آپؐ سے ملے اور دریافت کیا کہ اللہ نے آپ کو کیا دے کر بھیجا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اس نے مجھے صلہ رحمی، بت شکنی اور شرک سے پاک، توحید کا حکم دے کر بھیجا ہے۔‘‘ پہلی وحی کے بعد جب آپؐ گھبرا کر گھر واپس ہوئے تو حضرت خدیجہؓ نے آپ کو اطمینان دلایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گاکیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے دربارِ نجاشی میں اور حضرت ابوسفیان نے ہرقل کے جواب میں خاص طور پر اس بات کا تذکرہ کیا کہ آپؐ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ گویا یہ ایک صفت تھی جس کا احترام اہلِ شرک کے یہاں بھی تھا۔ رسول کریم ﷺ نے دعوتِ توحید پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کیا مگر یہ ضرور فرمایا کہ قرابت داری کا تو خیال کرو:
قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المؤدۃ فی القربیٰ۔ (الشوری: ۲۳)
یعنی میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (اہلِ قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تل گئے ہو۔
اس طرح اسلام نے صلہ رحمی کے نام پر کسی بھی نا انصافی یا اقرباء پروری پر روک لگادی ہے۔ صلہ رحمی کا تقاضا یہ ہے کہ بغیر کسی کا حق مارے ہوئے اپنے اعزہ و اقرباء کے حقوق پورے کیے جائیں۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک رہیں۔ اور اپنی طرف سے جو ہوسکے ان کی مدد کی جائے۔ کسی کا حق مار کر ان کو دینے کو نا انصافی قرار دیا گیا ہے۔ اور اس سے منع کیا گیا ہے۔
صلہ رحمی کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی تدابیر
صلہ رحمی جو اس قدر بنیادی اور اہم تعلیم ہے اس کو فروغ دینے اور مضبوط کرنے کی تدابیر بھی ہمیں قرآن و سنت سے معلوم ہوتی ہیں، ذوی الارحام، رشتہ داروں اور قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا ایک صاحب اسلام سے مطالبہ بھی ہے اور صلہ رحمی کو پختہ تر کرنے کا کارگر نسخہ بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی ہے۔ اس کے بعد دوسرے اعزہ و اقرباء کا نمبر آتا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے کہ اس چیز کا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی عہد لیا تھا:
’’اوریاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم صرف اللہ کی بندگی کرنا اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اور قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی۔ اور لوگوں سے اچھی بات کہنا۔‘‘ (البقرۃ:۸۳)
قرآن پاک میں مختلف مقامات پر قرابت داروں پر خرچ کرنے اور ان کو داد و دہش سے نوازنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ:۱۷۷، ۲۱۵، سورۃ النحل :۹۰، الروم:۳۸ وغیرہ۔ سورۃ البقرۃ میں اس سوال کے جواب میں کہ کیا خرچ کریں ارشاد ہوا کہ جو بھی خرچ کرو وہ والدین کے لیے ہو اور قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہو، اور جو بھی تم بھلا کام کروگے اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔
یہی نہیں بلکہ وراثت میں جن اعزہ کا حصہ نہیں بنتا ہے وہ بھی اگر بوقت تقسیم حاضر ہوں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دینے کا حکم ہے۔ (النساء:۸)
ہوسکتا ہے کہ والدین اور اعزہ و اقرباء مالدار ہوں اور کسی انفاق کے مستحق نہ ہوں پھر بھی گاہے بگاہے انہیں تحفہ تحائف پیش کرنا اور دعوت ومدارات کرنا، ان کے یہاں آتے جاتے رہنا، بیماری میں ان کی خدمت و مزاج پرسی کرنا اور خوشی و مسرت کے موقعوں پر تبریک و تہنیت پیش کرنا باہمی رشتوں کو مضبوط کرنے کے ذرائع ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی قرآن و حدیث سے براہِ راست یا بالاستنباط تائید پیش کی جاسکتی ہے۔
صلہ رحمی کے روحانی و مادی فوائد
صلہ رحمی میں رحمان سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی، تقاضائے فطرت کی تکمیل، ذوی الارحام کی دعاؤں کے سبب موت کے بعد اجر و ثواب میں اضافہ کے علاوہ بہت سے روحانی و مادی فوائد بھی ہیں، جن کی طر ف احادیث میں اشارہ ہے۔ اس کا ایک فائدہ تو درازیِ عمر کا ہے اور اس کے بعد بری موت سے حفاظت ہوتی ہے۔ ناخوشگوار و ناپسندیدہ باتوں سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ صلہ رحمی کے نتیجے میں عمر میں اضافہ اور رزق میں کشادگی کا ذکر کئی احادیث میں آیا ہے۔ یہاں ہم چند احادیث پر اکتفاء کرتے ہیں:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی موت میں تاخیر اور عمر میںاضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔
حضرت ابنِ عباسؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا توریت میں بھی لکھا ہے کہ جو یہ چاہے کہ اس کی عمر میں اضافہ اور رزق میں کشادگی ہو تو صلہ رحمی کرے۔
ایک اور حدیث میں صلہ رحمی کے بعض معاشی فوائد کا تذکرہ ہے:
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوگوں کے دیار کو آباد فرماتا ہے۔ ان کے مالوں میں اضافہ فرماتا ہے اور ان کی پیدائش کے روز اول سے ان پر ناپسندیدگی کی نظر نہیں ڈالتا۔ دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول وہ کیسے؟ فرمایا ان کی صلہ رحمی کی وجہ سے۔
عمر میں اضافہ اور رزق میں کشادگی برکت اور روحانی سعادت کی وجہ سے حاصل ہونے میں تو کوئی کلام نہیں ہے، لیکن ان کی مادی توجیہ بھی کی جاسکتی ہے۔ صلہ رحمی اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جو پرسکون زیست کے لیے بڑا سازگار ہوتا ہے۔ ایسے میں عمر میں اضافہ عین ممکن ہے، اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو متفقہ طور پر زندگی کے ایام کم کردیتے ہیں قطع رحمی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور جس سے اعصابی بیماریاں پیدا ہوکر نقص عمر کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح صلہ رحمی کے نتیجے میں ایک ودسرے سے مختلف معاشی سرگرمیوں میں تعاون و تناصر کا حاصل ہونا اور پریشانیوں میں دست گیری کرنا اضافۂ رزق میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
صلہ رحمی کے اجتماعی فوائد
صلہ رحمی پر مبنی اسلامی خاندانی نظام ایک ایسا اجتماعی نظام ہے جو مغربی تہذیب کے صلہ رحمی سے خالی خاندانوں کے بہت سے مسائل سے نجات عطا کرتا ہے۔ بہت سی خرابیو ںسے بچاتا ہے اور کتنے ہی اجتماعی فوائد سے معاشرہ کوبہرور کرتا ہے جن کے حصول کے لیے مغربی تہذیب کے پروردہ صلہ رحمی سے بے بہرہ خاندانوں کو دوسرے بہت سے مصنوعی ادارے قائم کرنے پڑتے ہیں۔
مغربی معاشرے میں خاندان کے عمر دراز افراد ایک بوجھ اور ایک مسئلہ ہوتے ہیں، جن کا حل ’’بوڑھوں کا گھر‘‘ (Old Age Home)قائم کرکے اور وہاں ان کو کسمپرسی کی حالت میں رکھ دینے کے ذریعے نکالا گیا ہے۔ جہاں وہ اپنی خوشیوں بھری زندگی سے محروم ہوکر بوڑھوں کے گھر میں رہ کر طرح طرح کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیںاور ’’ارذل العمر‘‘ کو پہنچ کر زندگی سے بیزار موت کی گھڑیاں گنتے ہیں۔ صلہ رحمی سے عاری اولاد سال میں ایک بار یومِ مادر (Mother Day)یا یوم والدین (Parents Day)مناکر اور چند رسمی ہدایا بھیج کر اپنے آپ کو اس بے پایاں قرض سے سبک دوش سمجھتے ہیں۔ جو ’’وہنا علی وہن‘‘ جھیل کر ان کی والدہ نے اور پھر ان کی پرورش و پرداخت کرکے والدین نے انجام دیے۔ صلہ رحمی پر قائم اسلامی نظام خاندان میں بوڑھے والدین بوجھ نہیں سمجھے جاتے، بلکہ ایک آزمائش اور ایک نعمت ہوتے ہیں، جن کی نازبرداری اور خدمت میں دنیا و جہان کی سعادت و کامرانی مضمر ہوتی ہے۔
ضعیف والدین کے بعد یتیموں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت بھی بڑا سماجی مسئلہ ہوتی ہے۔ مغربی معاشرہ میں ان کا ٹھکانہ یتیم خانے Orphanagesہوتے ہیں۔ اسلام میں یوں بھی عام یتیموں کی دیکھ بھال اور ان کی کفالت پر بے حد زور دیا گیا ہے، لیکن خاص طور پر صلہ رحمی پر قائم اسلامی معاشرہ میں یتیم خود خاندان کے اندر جذب کیے جائیں گے اور ان کے ساتھ اپنے بچوں کا سا معاملہ کیا جائے گا، جہاں وہ خودداری اور عزتِ نفس کے ساتھ پرورش پائیں گے۔
اسی طرح صلہ رحمی بیواؤں کے مسائل کو سماج میں خاندانی سطح پر حل کرنے میں ممد ومعاون ہے۔ ان کے نکاح ثانی یا ان کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز و قریب رشتہ داروں پر ہوتی ہے۔ ان کو خیراتی اداروں اور Widow Housesکے حوالے کرکے حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیا جاتا۔ البتہ جہاں صلہ رحمی کا جذبہ ماند پڑجاتا ہے وہاں اس طرح کے مسائل کثرت سے ابھرتے ہیں۔
دورِ حاضر کے معاشرتی مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ خاندانی تشدد یا فیملی وائلینس کا ہے۔ یہ تشدد عام طور پر شوہر بیوی، والدین اور ان کی اولاد، بھائی بھائی یا بھائی بہنوں کے درمیان ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پورا گھرانہ تباہ ہوجاتا ہے۔ عام تشدد جو افراد کے درمیان ہے اس کے اثرات عموماً فریقین تک محدود ہوتے ہیں، لیکن خاندانی تشدد اس اعتبار سے نہایت سنگین قسم کا تشدد ہے کہ اس کے مرتکب اور اس کے شکار ہونے والے ایک دوسرے کے عزیز و اقارب ہوتے ہیں، ان کے درمیان محبت والفت کا رشتہ ہونا چاہیے، لیکن باہم رحمت و شفقت اور غم گساری کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف ظلم و زیادتی اور تشدد سے کام لیا جاتا ہے۔ خاندانی تشدد صرف اس کے مرتکب اور اس کے شکار ہونے والے تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات خاندان سے جڑے سبھی افراد تک پہنچتے ہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ برباد کردیتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے اندر طرح طرح کی اخلاقی و نفسیاتی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور امن و سکون غارت ہوجاتا ہے۔ صلہ رحمی اس سماجی مسئلہ کاواحد مؤثر علاج ہے۔ مسلم خاندانوں میں جہاں یہ مسائل پائے گئے ہیں وہاں کے جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ خاندانی تشدد کا بڑا سبب یہ ہے کہ خاندان کے افراد صلہ رحمی، خاندانی روابط کی اہمیت اور اس سلسلہ میں وارد حقوق و فرائض سے عموماً نابلد ہیں۔ اسلام کی ان تعلیمات سے جہاں جتنی ناواقفیت ہے وہاں اتنا ہی ان واقعات کا ظہور عام ہے۔
——