اسلم ۷۰ کے دہے میں ہے۔ اخبارات کے مطالعہ کا پابند، زندگی کے نشیب و فراز سے واقف، حالاتِ حاضرہ کا گہرا مطالعہ رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں الیکشن کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ ہی دو الفاظ کا بہت زیادہ استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ ’ضابطہ اخلاق‘ الیکشن کمشنر، الکٹرانک میڈیا، پرنٹنگ میڈیا بار بار الیکشن ختم ہونے تک دہراتے رہتے ہیں۔ آج وہ ہاکر کی دوکان پر بیٹھا، اخبار ہاتھ لیا، کھولا ہی تھا کہ ضابطہ اخلاق والی خبر پر نظر پڑی۔ سامنے دو طالب علم بارہ تیرہ سالہ جو شاید ساتویں یا آٹھویں جماعت کے ہوں گے، جا رہے تھے۔ اسلم کے ان کو قریب بلایا۔ وہ آئے اور اسلم سے پوچھا کیا ہے جی؟ اس نے ان سے پوچھا بابا اخلاق کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں معلوم۔ اتنا کہہ کر وہ جانے لگے۔ وہ ان کو دیکھتا رہ گیا۔ کچھ دیر کے لیے وہ ماضی میں کھو گیا۔ آزادی سے پہلے اور بعد کچھ دنوں تک مدرسوں میں تعلیمی نصاب میں اخلاقیات اور دینیات دو مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ اخلاقیات میں ماں کا احترام و حسن سلوک استاذ کا ادب اور انسانوں سے ہمدردی، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت، مکمل انسانیت کا درس ہوتا تھا۔ اور دینیات میں خدا کا تصور، نیکی بدی کا تصور، مرنے کے بعد جوابدہی کا تصور ہوتا تھا۔ مگر آزادی کے بعد دانشوران تعلیم نے تعلیمی نصاب سے ان دونوں مضامین کو نکال دیا۔ دوسرے معنی میں تعلیمی نصاب کو معاشی حیوانی نصاب بنا کر رکھ دیا۔ اسی لیے یہ بچے اخلاق سے واقف ہی نہیں بلکہ نصاب میں سیکس کی تعلیم کا اضافہ کر کے شرم و حیا کو بھی ختم کر دیا۔
الیکشن کمشنر کی زبان سے یہ الفاظ ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ نکلتے ہی عجیب خیالات کا ایک سلسلہ بن جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، دنگا فساد، بم دھماکے، لوٹ مار، قتل و غارت گری، کالے دھن کو سفید بنانا۔ جھوٹے وعدے کرنا کروڑوں کی شراب تقسیم کرنا، پینا پلانا، رقوم تقسیم کرنا ہی ضابطۂ الیکشن ہے۔ جب کہ الیکشن کمشنر کی جانب سے بار بار ان کاموں کے خلاف تلقین کی جاتی ہے۔ الیکشن سے پہلے دوران تشہیر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی چند شکایتیں کمشنر کے پاس آتی ہیں۔ اور پھر جس پارٹی یا لیڈر کے خلاف شکایت ہوتی ہے، وہاں سے کمشنر پر دباؤ بھی بڑھتا ہے۔ شکایت کی تحقیقات ہوتی ہے۔ پارٹی یا پارٹی لیڈر پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں پڑتا۔ ہاں مگر ایک دو سرکاری عہدہ داروں کو معطل کردیا جاتا ہے۔
پولنگ کے دن تو ضابطہ اخلاق کی پابندی کا پورا مظاہرہ ہوتا ہے۔ پارٹیوں کے نمائندے اور ورکرس ایک دوسرے کو زہریلی نگاہوں سے گھورتے رہتے ہیں۔ ان تمام مراحل کو طے کر کے یہ ’’بااخلاق، باکردار منتخب نمائندے‘‘ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں پہنچائے جاتے ہیں۔ لیکن اخلاق کے کس معیار پر ہیں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۴ء کے اعداد و شمار کے مطابق پارلیمنٹ میں ۵۴۲ اراکین میں ایک تہائی مجرم اور سزا یافتہ افراد ہیں۔ وہاں کے منظر کچھ الگ ہی ہوتے ہیں، اپوزیشن کی کچھ پالیسی یا پروگرام نہیں ہوتا۔ ان کا کام کی غیر ضروری مسئلہ کو ایوان میں اٹھا کر بار بار اسمبلی یا پارلیمنٹ کے اجلاس کو ملتوی کروانا، حد ہوگئی کہ اگر کسی عوامی مسئلہ کو ایوان میں اٹھانا ہو تو عوام سے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ اگر عوام کو معلوم ہوجائے کہ ان نمائندوں کی تنخواہیں، ان کو ملنے والے فنڈس اور سہولتیں اور ہر اجلاس کے موقع پر فی منٹ کتنا خرچ آتا ہے تو عوام الیکشن کا بائیکاٹ کردیں۔ اگر اسپیکر اپنا کچھ اثر و رسوخ استعمال کر کے اجلاس جاری رکھنا چاہتا ہو تو گڑبڑ شروع ہوجاتی ہے۔ اپوزیشن اراکین نشستوں سے اٹھ کر ایوان کے درمیان آجاتے ہیں، پہلے نعرے بازی ہوتی ہے، اسپیکر کا گھیراؤ ہوتا ہے، گالی گلوچ، دھکم پیل، مار پیٹ، فرنیچر اور مائک توڑ دینا، ایک دوسرے کو خطرناک وارنینگ دینا اور الزام تراشی پارلیمان کے مناظر میں جسے عوام ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں۔
پہلے زمانے میں عوام کو خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں کیا کارروائی چلتی ہے۔ سائنس نے ترقی کی اور ٹی وی ایجاد کیا۔ اس کی دین ہے کہ ملک اور دیگر ممالک کے عوام کے سامنے ہندوستان کے منتخب نمائندوں کا منظر نامہ پیش ہوتا ہے۔ اسلم سوچ رہا تھا۔ اسی لیے شاید گاندھی جی نے بہار میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسی حکومت ہو اس صورت میں ہندوستان میں عدل و انصاف ہوسکتا ہے۔ اور یہاں سے عوام امن سے رہ سکتی ہیں اور ہندوستان اخلاقی و مادی ترقی کرسکتا ہے۔lll