تو پھر کیا سوچا ہے امّی ؟
نہیں میں بالکل نہیں جاؤں گی۔
اب چھوڑیے بھی۔ امی پرانی باتوں کو جانے دیجیے۔
تم چپ رہو تمہیں کیا معلوم، انھوں نے کیا کہا ہے؟
اب ایسا کیا ہوا… بچوں میں ذرا کہا سنی ہوگئی اور آپ لوگ چھ مہینے سے قطع تعلق کیے ہوئے ہیں۔ ادھر بھی ایسا ہی حال ہے۔
بالکل نہیں… میں تو ان کے در پہ قدم بھی نہیں رکھوں گی تمہیں نہیں پتا ان لوگوں نے تمہاری بہن کو برا بھلا کہا تھا۔
امی… اگر ان لوگوں نے ایسا کیا ہے تو جواب میں آپ لوگوں نے بھی خوب کھری کھوٹی سنا دی تھیں اس لیے حساب برابر۔ جھگڑا کیسا؟ اور پھر آنگن کی دیوار سے دیوار ملی ہے پڑوسی سمجھ لیں اور پھر وہ ہمارے چچا اور چچی ہیں، اس لیے اس خوشی کے موقع پر اُن کو بلانا ضروری ہے۔ آخر والدصاحب کے بعد اب وہی ہمارے بڑے ہوئے ۔ اتنی سی بات پر قطع تعلق کرنا مناسب نہیں۔ گلے شکوے جانے دیجیے اور پھر ہمارے رسولﷺ کا بھی کہنا ہے کہ تین دن سے زیادہ آپس میں قطع تعلق نہ کرو۔ اور یہ بھی کہ جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو ، جو تمہیں محروم کرے تم اسے دو۔
رہنے دو… ان سے ہماری خوشی دیکھی نہیں جائے گی اور … ہاں پرسوں بھی تمہاری چچی کسی سے ہمارے متعلق برا بھلا کہہ رہی تھیں۔
آپ کو کیسے پتا چلا؟
کیا آپ نے آنکھوں سے دیکھا اور خود اپنے کانوں سے سنا ہے؟
نہیں… مجھ سے ایک عورت کہہ رہی تھی یہ بات۔
امی… خدا کے واسطے ایسے لوگ کسی کے خیرخواہ نہیں ہوتے بلکہ ایسے لوگ آپسی تعلق کو مزید خراب کردیتے ہیں۔
تم بس رہنے دو… میں جانتی ہوں تمہارے چچا چچی بدفطرت ہیں، انھوں نے ایسا ہی کہا ہوگا۔اصل میں وہ ہم سے جلتے ہیں، وہ نہیں آئیں گے۔
امی… شاید آپ ایک بار چل کر اُن سے آنے کو کہہ تو دیں، ہماری بہن کی شادی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے ایک چچا اور چچی ہیں وہ بھی شامل نہیں ہوئے۔ کیا؟
نہیں میں بالکل نہیں جاؤں گی تم چاہتے ہو کہ میں اُن کے پیر پکڑلوں؟
اوہ ہو، اس میں پیر پکڑنے کی کیا بات ہے۔
نہیں… تمہیں اگر کہنا ہے خود ہی جاکر کہہ دو۔میں تو نہیں جاؤںگی میرے تو وہ پکّے دشمن ہیں۔ یہ کہہ کر امّی کمرے سے نکل گئیں۔