ضمیر

غزالہ حبیب

’’امی، امی ! مجھے کل اسکول کی فیس دے دیجیے گا۔ مس نے کہا ہے کہ کل ہر حال میں فیس آجانی چاہیے ورنہ تمہارا نام کٹ جائے گا۔‘‘
’’تو تم نے ان سے کہا نہیں کہ دس تاریخ تک دے دیں گے۔‘‘
’’کہا تھا مگر وہ نہیں سنتیں، اور ہاں! میرا یونیفارم بھی پھٹ گیا ہے۔ جوتے بھی خراب ہورہے ہیں، لڑکیاں میرا مذاق اڑاتی ہیں۔ امی !پلیز دلوادیں گی!‘‘
یہ بات چیت ایک ماں اور اس کی گیارہ سالہ بیٹی کے درمیان ہورہی ہے۔ ماں ہے رابعہ اور بیٹی ہے اسما، جو ایک اوسط درجے کے انگلش اسکول کی پانچویں جماعت کی طالبہ ہے۔ رابعہ ایک بیوہ عورت ہے، جس کی تین بیٹیاں رخشندہ، ماہ جبیں اور اسما ہیں۔ بڑی بیٹی رخشندہ بی اے کرکے گھر بیٹھی ہے۔ اور آفس میں نوکری کرنا چاہتی ہے۔ اسکول کی نوکری اسے اب پسند نہیں ہے جبکہ آفس کی نوکری رابعہ کو مناسب نہیں لگتی۔
رابعہ ایک بے حد سلیقہ مند اور محنتی عورت ہے۔ ماں باپ کے گھر بھی اس کی زندگی سادگی میں گزری تھی۔ واجبی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کے والدین نے اسے سلیقہ، صبر و قناعت گھول کر پلادیے تھے۔ اسی لیے وہ اپنی بچیوں کو بھی صبر و قناعت پسندی کا سبق دینا چاہتی تھی۔
غفار احمد کی موت ایک حادثے کے نتیجے میں ہوئی۔ اس وقت بڑی بیٹی پندرہ سال کی، منجھلی تیرہ سال کی اور چھوٹی تین سال کی تھی۔ رابعہ کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی۔ جبکہ شوہر کے بعد سوائے اللہ کے اس کا کوئی نہ تھا، نہ میکے میں نہ سسرال میں۔ میکے میں صرف ایک بھائی تھا جو اس وقت زیرِ تعلیم تھا۔
تب اس نے خود محنت کی، ہمت کی، تھوڑی بہت سلائی آتی تھی، گھر پر کپڑے سینے لگی۔ رابعہ کے شوہر چونکہ گورنمنٹ ملازم تھے، اس لیے ان کے انتقال کے بعد ان کے واجبات ملے تو اس نے وہ پیسے بینک میں رکھ دیے تاکہ بیٹیوں کے کام آسکیں۔ گھر میں سلائی کے علاوہ اسے ماہ جبیں کی ایک کلاس فیلو کی امی مسز شیخ کے بوتیک کے کپڑے بھی سلائی کے لیے ملنے لگے۔ ویسے بھی آج کل بوتیک کے کپڑے فیشن میں ہیں۔ اس طرح اس کی آمدنی میں بھی معقول اضافہ ہونے لگا۔ گھر اپنا تھا، کرایہ دینے کا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اس ہوش ربا مہنگائی میں گھر کے اخراجات، دو بیٹیوں کے کالج اور اسکول کا خرچہ آسان نہیں تھا۔ ماہ جبیں کالج میں تھی اور اسما اسکول میں۔
وہ ایک عام سا اتوار کا دن تھا۔ رابعہ بوتیک سے لائے ہوئے شادی کے دو جوڑے سی رہی تھی، جو اسے ایک ہفتے میں سی کر دینے تھے۔ اسما اسکول کا کام کررہی تھی، بڑی دونوں کچن میں کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔
اچانک دھڑ سے دروازہ کھلا اور دو کرخت صورت افراد گھر کے اندر دندناتے ہوئے داخل ہوگئے۔
’’ہاں بڑی بی! جلدی سے بتاؤ الماری کی چابی کہاں ہے؟‘‘ ان میں سے ایک بولا۔
رابعہ کے تو جیسے کاٹو بدن میں لہو نہیں۔ اس کی آواز اس کے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔ وہ دونوں خود ہی کمروں میں گھس گئے اور سامان تلپٹ کرنا شروع کردیا۔ اس دوران انھوں نے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر الماری کی چابی حاصل کرلی تھی۔
’’بیٹا! خدا کے لیے مجھ بیوہ پر رحم کرو۔ میرا کل اثاثہ یہ میری محنت کی کمائی ہے، خدارا یہ مجھ سے نہ چھینو، یہ میری بچیوں کی امانت ہے۔ تمہاری بھی بہن بیٹیاں ہوں گی، تمہیں ان کا واسطہ۔‘‘ رابعہ نے ان سے بہت التجا کی۔ مگر وہ سامان سمیٹنے میں لگے رہے۔ اس کی بیٹیاں اور وہ خود تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ان کی منت سماجت کررہی تھی، لیکن اس کی التجاؤں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ دس منٹ سے بھی کم وقت میں بڑی بیٹیوں کا زیور اور نقدی جو ان کی ماں کی رات دن کی محنت کا نتیجہ تھا، لے کر چمپت ہونے ہی والے تھے کہ اچانک اسما سامنے آگئی، اس نے ایک ڈاکو سے بڑی معصومیت کے ساتھ کہا: ’’پلیز انکل! آپ یہ پیسے لے لیں مگر یہ میری باجی کا زیور اور کپڑے چھوڑ دیں۔ باجی کی شادی ہونے والی ہے، آپ کو اللہ کاواسطہ۔‘‘
جانو نے چونک کر اس چھوٹی سی بچی کو دیکھا جو چند مڑے تڑے نوٹ مٹھی میں دبائے کھڑی تھی۔ پھر اس نے وہ پیسے اس کو دے دئیے۔
’’انکل یہ پیسے میں نے جمع کیے تھے۔ یہ میری پاکٹ منی ہے، یہ آپ لے لیں پلیز! مگر یہ سامان چھوڑ دیں۔‘‘
جگو لوٹا ہوا سامان ایک تھیلے میں ڈال رہا تھا۔ اچانک بچی کی بات سن کر اس کے ہاتھ سے سامان گرگیا۔ اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے، پھر اس نے دل ہی دل میں ایک فیصلہ کرلیا۔
’’اوئے جگو! جلدی جلدی ہاتھ پاؤں چلا۔ سامان سمیٹ اور نکلنے کی کر۔ یہ جو اس لڑکی نے پیسے دیے ہیں تین چار سو تو ضرور ہوں گے۔ بس اب ہمارے عیش ہیں۔‘‘
’’نہیں جانو استاد! میں یہ سب نہیں کرسکتا۔ اس بچی کی آنکھوں میں پتا نہیںکیا تھا میرا دل اب تک کانپ رہا ہے۔ نہیں نہیں،چلو استاد چلو۔ یہ پیسے اور سامان ہمیں راس نہیں آئے گا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کررہا ہے۔ میرے باپ کی توبہ جو آج کے بعد میں ڈاکا ڈالوں، اور تم بھی یہ چوری چکاری چھوڑ دو۔ میں جارہا ہوں۔ تم جانو اور تمہارا کام۔‘‘
یہ کہہ کر جگو، جانو کو ہکا بکا چھوڑ کر باہر نکل گیا۔ ’’اس جگو کو آج کیا ہوا؟‘‘ جانو حیران تھا۔ اس دوران دروازے پر دستک ہونے لگی تھی۔ جانو جلدی سے گھبرا کر پیچھے دروازے سے نکل گیا۔
ماں بیٹیاں خوف اور صدمے سے گنگ کھڑی تھیں کہ دروازہ کھلا اور حامد اندر داخل ہوا:
’’کیا ہوا باجی؟ اور یہ سامان کیسا بکھرا ہوا ہے اور تم سب رو کیوں رہی ہو؟‘‘ اس نے اپنی بہن سے پوچھا۔ ’’باجی تم بتاؤ! کیا ہوا ہے؟‘‘
’’بس بھیا اللہ نے بڑا کرم کردیا۔ اس مالک نے میری لاج رکھ لی۔‘‘ پھر اس نے بھائی کو ساراماجرا کہہ سنایا۔
’’شکر کرو باجی! اللہ نے عزت و آبرو رکھ لی۔ عزت بڑی چیز ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’سچ ہے وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ اپنے بندوں پر صرف وہی رحم کرتا ہے۔ ان سفاک لوگوں کے دل میں اسی نے رحم ڈالا۔‘‘ رابعہ نے کہا۔
’’چلو بھئی رخشی، ماہ جبیں، اسما بیٹا … اپنی شکلیں ٹھیک کرو اور ماموں کو اس خوشی میں چائے پلاؤ‘‘
’’ساتھ میں کچھ پیٹ پوجا کے لیے بھی لانا۔‘‘ حامد نے فرمائش کی۔’’ اب سب ٹھیک ہے، ریلیکس ہوجاؤ۔ اس ڈاکو کے دل میں ابھی نیکی باقی تھی، جبھی اس کے ضمیر کی ملامت نے اپنا کام دکھادیا۔‘‘
’’جی ماموں! تینوں بھانجیوں نے بیک آواز کہا۔
’’اور ہاں! چائے سے فراغت کے بعد سب شکرانے کے نفل ادا کرنا اور اللہ کاشکر ادا کرنا جس نے اس آفت کو ٹال دیا۔‘‘ حامد نے کہا۔
اب سب پرسکون تھے۔ رابعہ بھی دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کررہی تھی اور ڈاکو کو دعائیں دے رہی تھی۔ سچ ہے کہ بندے کا دل اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ جانے وہ کب اسے کس طرف پھیر دے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146