ابھی آٹھ ہی بجے تھے، لیکن گلیوں میں خاموشی اور سکون کا احساس چاروں طرف چھایا ہوا تھا۔ بچے بے حد خوش ہوئے۔ باری باری سب آکر ملے، اپنے اپنے تحفے وصول کیے۔ ان کے چہرے اور آنکھیں اندرونی خوشی سے چمک رہے تھے۔
ابھی چائے نہیں آئی تھی۔ بھابی کہنے لگیں آپ منہ ہاتھ دھولیں۔ میں باہر نکلی تو برآمدے میں چارپائی پر کوئی لیٹا نظر آیا۔ میں نے پوچھا کون ہے تو بھابی نے بتایا کہ اپنی پڑوسن ماسی رحمت ہے۔ پاس جاکر سلام کیا۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگالیا اور پیا رکیا۔ بھابی بتارہی تھیں کہ ان کو فالج ہوگیا ہے۔ چل پھر نہیں سکتیں۔ڈھیڑھ سال سے چار پائی پر ہیں۔ آج شام ان کی بہو نے انہیں گھر سے نکال دیا تو یہ ہمارے گھر آگئیں۔ شام کے وقت یہ کہاں جاتیں۔ ہم نے چارپائی اور کھانادے دیا ہے۔ ان کے گھر سے ابھی تک تو کوئی نہیں آیا۔ ان کی تین بیٹیاں، ایک بیٹا، سات پوتیاں، چار پوتے، پانچ نواسیاں اور پانچ نواسے ہیں۔میں نے کہا میں جانتی ہوں۔میرا بچپن اسی گھر میں گزرا ہے۔
ان کی بڑی بیٹی ثمینہ میری ہم جماعت تھی۔ بہت ٹھاٹھ کی زندگی گزاری تھی ماسی نے۔ ہم ان کے گھر جاکر کھیلا کرتے تھے۔ کیکر کے پھول اکٹھے کرنا اور گیند سے کھیلنا ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔ آتے جاتے ماسی دروازے میں نظر آتیں۔ اسکول اور بازار کا راستہ یہی تھا۔ وہ اکثر مجھے ٹوکری اور پیسے دیتیں تاکہ ان کا سودا بھی لے آؤں۔ کبھی ٹماٹر، آلو، پیاز، کبھی کیک اور مٹھائی، متوسط گھرانہ تھا۔ ان کے شوہر تلے کے خوبصورت جوتے، سینڈل اور پشاوری چپل بنایا کرتے تھے۔ مشین کا کام ماسی کرتیں۔ رات گئے ہمارے گھر کام کی آواز آتی رہتی۔ پھر جب تعلیم کے حصول کے لیے ہم نے وہ شہر چھوڑا اور کبھی کبھار چھٹیوں میں جاتے تو ملاقات ہوجاتی۔ لیکن والدین کی وفات کے بعد یہ آنا جانا برائے نام رہ گیا۔ کبھی کسی شادی یا غمی پر ہی جانا ہوتا۔ اس طرح بہت طویل عرصے تک ماسی سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ان کے سارے بچوں کی شادیاں ہوگئیں۔ شوہر کا انتقال ہوگیا۔ بیٹے کے گھر بیٹیوں کا تانتا لگ گیا۔ بس اس کے بعد کچھ یاد نہیں۔ آج اتنے عرصے بعدان کو دیکھا تو یاد آیا کہ ہمارے گھر کچھ نہ کچھ پکاکر بھیجنا، میری امی جان کے پاس امانت رکھوانا، عیدین کی نماز میں ہمارے گھر ضرور شریک ہونا ان کا معمول تھا۔ انہوں نے میری امی سے عبادت کا سلیقہ سیکھا، کپڑوں کی سلائی کڑھائی، کھانا پکانا اور گھرداری کا سلیقہ بھی۔ امی اپنی بہنوں کی طرح ان کا خیال رکھتیں۔ ہر مشکل میں حوصلہ دینا، بیماری میں عیادت، مصیبت میں دلجوئی اور خوشی میں شراکت، ہر تہوار ر کھانا اور تحفہ امی جان کے معمولات میں شامل تھا۔ کسی غمی یا خوشی پر جانا ہوتا تو دونوں جاتیں۔ کاش آج امی زندہ ہوتیں! میری آنکھیں تر ہوچکی تھیں اور چائے بالکل ٹھنڈی۔ تھوڑی دیر پہلے کی خوشی، اشتیاق ملاقات، جذبے اب اشکوں میں ڈھل چکے تھے۔ خوشی اتنی لمحاتی کیوں ہوتی ہے؟ میں سوچنے لگی۔
میں بستر میں لیٹ گئی لیکن آنکھوں میں نیند کہاں۔ ماضی کی فلم، ایک ایک واقعہ، بچپن … یہ اپنا گھر، یہ گلیاں یہ راستے یہ لوگ اب کس قدر اجنبی ہوگئے ہیں۔ اب یہ گلیاں تنگ لگتی ہیں۔ ماضی جویہاں گزرا کتنا بھرپور اور خوبصورت تھا۔ تیس برس ایک عرصہ ہوتا ہے۔ مجھے محسوس ہواکہ شاید میری آزمائش ہے اور اللہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ میں ان کے لیے کیا کروں، ساتھ لے جاؤں، علاج کراؤں؟‘‘ پھر خیال آیا کہ ان کی بیٹی میری ہم جماعت رہ چکی ہے۔ اس نے چوتھی جماعت سے اسکول جانا چھوڑدیا تھا۔ صبح اسے بلاکر بات کرتی ہوں۔ وہ میری بات ضرور مان لے گی کہ اپنی ماں کو گھر لے جائے اور اس کی خدمت کرے۔ یہ فیصلہ کرکے دل کو سکون ملا اور میں سوگئی۔
رات کو اچانک آنکھ کھلی تو ایک پراسرار سی آواز سنائی دی۔ بہت کوشش کی کہ پتہ چلے یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ میری بھتیجی میرے کمرے میں سورہی تھی۔ کبھی خیال آتا کہ وہ خراٹے لے رہی ہے، لیکن پھر یہ خراٹے بند کیسے ہوجاتے۔ ایسے لگتا تھا جیسے کوئی چیز گھسیٹنے کی آواز آرہی ہے۔ ابھی صبح کی اذان نہیں ہوئی تھی۔ بھابی کے صحن میں چلنے پھرنے اور بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں بھی باہر نکل آئی۔ جو منظر میری آنکھوں نے دیکھا وہ مجھے منجمد کردینے کے لیے کافی تھا۔ ماسی صحن کے درمیان زمین پر بیٹھی تھیں۔ نیچے بوری کا دوہرا ٹکڑا تھا، دونوں ہاتھوں کے نیچے کپڑے کی گدیاں بناکر رکھی ہوئی تھیں تاکہ گھسٹ کر چلنے سے ہاتھ زخمی نہ ہوجائیں۔ جب انہوں نے حرکت کی تو مجھے رات والی پر اسرار آواز کی بات سمجھ میں آگئی۔ وہ باتھ روم جارہی تھی، کھڑے ہونا ناممکن، چھ ماہ کے بچے کی طرح۔
میرے دل میں تلاطم، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے اور بھابی نے اٹھاکر چلانے کی کوشش کی لیکن پاؤں ہوا میں جھول گئے۔ مجبوراً دوبارہ اسی بوری پر بٹھادیا۔ غسل خانے کے سامنے دوسیڑھیاں تھیں۔ وہ کہنے لگیں آپ فکر نہ کریں بی بی، میں چلی جاؤں گی۔ میں صحن میں دم بخود کھڑی رہ گئی اور وہ ہاتھوں کی مدد سے شرر شرر کی آواز پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔ زندگی کا یہ رخ ایسا تکلیف دہ اور بھیانک تھا کہ میں حرکت کرسکی نہ دعا مانگ سکی۔ پتہ نہیں میں کتنی دیر وہاں کھڑی آسمان کو دیکھتی رہی۔ شاید ماسی کی قسمت کے ستارے کو ڈھونڈرہی تھی۔ اے میرے رب! تو بہت ہی رحیم اور رحمان ہے توپھر یہ آزمائش ہے یا عبرت ہے یا اولاد کی بے حسی ہے؟ میں سکتے کی حالت میں واپس آئی اور سرتھام لیا۔ یا اللہ! ایسی بے بسی! سوچتے سوچتے خیال آیا کہ صبح ان کی بیٹی کو بلاکر ان سے بات کروں گا۔
چھ بجے میں نے پیغام بھیجا۔ ساڑھے چھ بجے وہ آگئیں۔ بچپن میں دیکھا تھا۔ اب دنیا کی بے رخی کی داستان اور زندگی کی محرومیون کی داستان اس کے چہرے پر رقم تھی۔ میں نے کہا: ’’ثمینہ! ہم بچپن میں اکٹھے کھلیے ہیں۔ مجھے امید ہے تم میرے سچ کابرا نہیں مانوگی۔ ادھر آؤ میں تمہیں کسی سے ملواؤں۔‘‘ میں اسے برآمدے میں لے آئی۔ ماں کی شکل دیکھ کر بھی اس کاچہرہ ویسا ہی رہا۔ کوئی تاثر نہ ابھرا … خوشی نہ غم، ندامت نہ افسوس۔ میں نے کہا: ’’ثمینہ! تیری عبادت، تیری بخشش، خدا کے حکم کی اطاعت، آخرت میں بچاؤ کا سہارا اور جہنم سے آزادی کا پروانہ تیرے سامنے ہے۔ اپنی ماں کو اپنے ساتھ گھر لے جا۔ اس کی خدمت کر اور ان کو اس طرح گلی گلی …‘‘میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کہنے لگی: ’’بھابی ان کا خیال تو کرتی ہے پر یہ بھی زبان کی تیز ہیں۔‘‘ میں سناٹے میں آگئی … یا خدا! مصلحتیں … ہمیں کہاں لے جائیں گی۔
ماسی کہنے لگیں: ’’میری پوتی ثمینہ کی بہو ہے۔ اس گھر میں میری جگہ کہا ں ہے!‘‘
میں اپنے آپ سے اور اس معاشرے سے پوچھتی ہوں کہ ایک عورت جو ساری زندگی خدمت اور اطاعت کی دیوی ہوتی ہے، اس عمر اور بیماری کی حالت میں اس کی جگہ کہاں ہے؟ کوئی بتائے گا؟ کوئی بتائے گا مجھے!!