یوں تو راہل گھر سے نکلنے سے پہلے چیختا ’’ماں! میں جا رہا ہوں اور انیتا کہیں اندر سے جواب دیتی۔ ’’بیٹا سنبھل کر جانا‘‘ لیکن آج وہ اسے دروازے تک چھوڑنے آئی اور راہل نے اس کے پاؤں چھوئے آشیر واد دیتے ہوئے انیتا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ راہل بائیں ہاتھ سے جیب میں گھر کی چابی اور موبائل سنبھالتا ہوا کھڑا ہوگیا اور سیدھے ہاتھ سے ماتھے کو چھوتا ہوا جھپاک سے نکل گیا۔ انیتا نے دروازے کی کنڈی میں لگی ہوئی پتے کی پڑیا کو نکال لیا اس میں پوجا کے پھول تھے۔
ہال میں پہنچ کر وہ اپنے مرحوم شوہر پردیپ کی تصویر سے مخاطب ہوئی ’’راہل ایڈمیشن کی تازہ لسٹ دیکھنے گیا ہے۔ ویٹنگ لسٹ میں اس کا نمبر سب سے اوپر ہے۔ بس ایک سیٹ خالی ہو تو اس کا نام میرٹ لسٹ میں آجائے۔ اور نہ بھی آئے تو کیا؟ بھگوان کی کرپا سے ہم نقد روپے دے کر ڈونیشن سیٹ لے لیں گے۔ مبارک ہو، راہل ڈاکٹر بن جائے گا۔ ہے نا خوشی کی بات۔ یہ سب ہمارے پچھلے جنم کے نیک کاموں کا پھل ہے۔ خوش ہوجائیے، آپ کی دیرینہ خواہش پوری ہوجائے گی۔
یکایک پردیپ کی تصویر بول پڑی۔ یہ انیتاکے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ روزانہ دن میں کئی بار اپنے شوہر کی تصویر سے گفتگو کرنے کی عادی تھی۔ پردیپ کہہ رہا تھا: ’’انیتا! تم سے کتنی بار کہا ہے۔ یہ جنموں کرموں کا چکر بھگوان پر چھوڑو اور اپنی اس زندگی پر دھیان دو اور رہی خوشی کی بات تو سن لو۔ سچی خوشی اس بات پر نربھر ہے کہ ہماری خواہش بجا ہے یا نہیں اور ہم اسے کس طرح پوری کرتے ہیں اور صحیح غلط کی پہچان تو بھگوان نے انسان کو دی ہے۔ اور اپنے کرموں کی ذمہ داری بھی۔۔۔‘‘
’’بس، بس، مرگئے لیکن لیکچر دینے کی عادت نہیں گئی۔‘‘
انیتا نے خالص بیوی والے لہجے میں کہا۔ لیکن فوراً نادم ہوکر کہا: ’’سوری، مرے ہوئے کو مردہ نہیں کہنا چاہیے۔ اور تم؟ تم تو ہر وقت میرے ساتھ رہتے ہو۔ کبھی کبھی ڈانٹتے ہو لیکن اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہو۔ میرے لیے تو تم زندہ ہو۔ پچھلے بارہ سال سے یہ زندگی تمہاری تصویر کے سہارے گزر رہی ہے۔‘‘ انیتا نے پردیپ کے چہرے پر تمسخر آمیز مسکراہٹ دیکھی۔ اس کی پرانی عادت تھی۔ زندگی کی بیشتر بڑی بڑی خوشیوں کو ٹھکرا دیتا اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر بچوں کی طرح کھل اٹھتا۔ انیتا نے اس کی طرف دیکھ کر منہ ٹیڑھا کیا اور اپنی خوشی میں مست اٹھلاتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی۔
کچن کے ایک کونے میں تقریباً ساڑھے تین چار فٹ کی اونچائی پر لکڑی کے ایک چوڑے تختے پر انیتا نے مندر بنا رکھا تھا۔ یہاں اس کی کل (خاندانی) دیوی کے علاوہ دیگر دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بھی سجی ہوئی تھیں۔ ان میں لکشمی کی تصویر سب سے زیادہ نمایاں تھی اس نے پتّے کی پڑیا ایک طرف رکھی اور پوجا کی تیاری میں لگ گئی۔
کچھ ہی دیر میں مندر کی صفائی ہوگئی۔ لکشمی جی اور کل دیوی تازہ ہار پہنے کھڑی تھی اور باقی دیوی دیوتاؤں پر پھولوں کا چھڑکاؤ ہوچکا تھا۔ گھی کا چراغ روشن تھا، اگربتی کا لہراتا ہوا دھواں مندر سے نکل کر پورے کچن کو چندن کی خوشبو سے مہکا رہا تھا۔ انیتا نے ہاتھ جوڑ کر سر جھکا دیا کسی بھجن کی دھن گنگناتی ہوئی بیڈ روم کی طرف روانہ ہوگئی۔
اس نے الماری سے ایک بریف کیس نکالا اور اسے سر پر رکھ کر آہستہ آہستہ پیر گھسیٹتی ہوئی مندر کی طرف لوٹی۔ مندر کے پاس پہنچ کر اس نے بریف کیس کل دیوی کے آگے رکھ کر اسے کھول دیا۔ ایک ایک ہزار کے نارنگی نوٹوں کی گڈیاں رکھ کر انیتا کا چہرہ کھل گیا اور آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے ہاتھ جوڑے اور سر جھکا کر بولی: ہے میری کل دیوی، میرے گھر میں ساکشات لکشی کے روپ میں پدھارنے کا شکریہ۔ بس اب تجھ سے ایک ہی بنتی ہے۔ میری اور میرے بیٹے کی رکشا کرنا۔ راہل کا ایڈمیشن ہوتے ہی میںتیری چاندی کی مورتی بنواؤںگی اور سونے کا مکٹ چڑھاؤں گی۔ ہے ماتا۔‘‘
’’کل دیوی کو رشوت دی جا رہی ہے؟‘‘ ایک مبہم سی آواز نے کان میں سرگوشی کی۔ انیتا جانتی تھی کہ جب انسان بھگوان کا دھیان کرتا ہے تو شیطان اس کا دھیان ہٹاتا ہے۔ پوجا کے اس ماحول میں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی تھی اس نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا: کون ہو تم؟ ہمت ہے تو سامنے آؤ۔
’’دکھائی دینے کی ضرورت نہیں۔ میری آواز ہی میری پہچان ہے۔ اس بار آواز نرم اور صاف تھی۔ انیتا کے کانوں میں مانوسیت کی گھنٹی بجی لیکن پہچان نہ سکی۔
’’کل تک تو تم فرض اور دَیا کی بھیک مانگتی پھر رہی تھیں۔ آج یکایک مالدار ہوگئیں۔ کہاں سے لائیں اتنی دولت؟‘‘
انیتا چراغ پا ہوگئی۔ اس نے پہچان لیا کہ یہ آواز اس کی خوشی کی دشمن اور اس کے شوہر پردیپ کی ہمنوا تانیا کی تھی۔
تانیا! جس کی قوم کا نصب العین تھا آدم اور حوا کی اولاد کے دلوں میں احساس گناہ کا بیج بوتے رہنا۔ لیکن انیتا جانتی تھی کہ وہ بے گناہ ہے اور تانیا کی مداخلت بے بنیاد۔ اس نے اعتماد سے کہا کہاں سے لائی ہوں یہ دولت؟ چوری نہیں کی۔ ڈاکہ نہیں ڈالا۔ نہ ہی کسی کا خون کیا۔ یہ روپے خود چل کر میرے گھر آئے ہیں۔‘‘
’’تو یہ تمہارے ہوگئے؟‘‘
’’بے شک۔ بھگوان نے بھیجے ہیں۔ یہ میرا کرم ہے پچھلے جنم کی کمائی۔‘‘
’’یہ تو بتاؤ یہ روپے تمہارے گھر آئے کیسے؟‘‘
جلگاؤں گئی تھی۔ کملا دیوی سے پیسے مانگنے۔ راہل کے میڈیکل کے داخلہ کے لیے۔ ادھار، وہ روپے تو نہ دے سکی لیکن بالکل ایسا ہی بریف کیس دیا۔ اس میں راہل کے اور میرے لیے ایک ایک جوڑا کپڑا۔ شکر پارے اور چاکلیٹ تھے۔ اسے لے کر جلگاؤں سے واپس آرہی تھی۔ کسی چھوٹے اسٹیشن سے ایک مسافر چڑھا بالکل ایسا ہی بریف کیس لیے۔ مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ بیٹے کی بیماری سے پریشان تھا۔ اس لیے سنتی رہی۔ اس کے دونوں گردے بیکار ہوچکے تھے۔ ایک گردہ تبدیل کرنے کے لیے بڑی مشکل سے دونر ملا ہے۔ خوش قسمتی سے میں ابھی ابھی ریٹائر ہوا ہوں۔ پیسہ ہاتھ میں ہے۔ چالیس گاؤں کے مشن اسپتال جا رہا ہوں۔ آپریشن کی تیاری ہوچکی ہے۔ آپریشن کامیاب ہوجائے تو اسپتال اور ڈائلیسس سے نجات ملے اس کے چہرے پر خوشی کی چمک آگئی۔ اس نے اپنا بریف کیس اٹھایا اور اوپر والی برتھ پر چڑھ کر سوگیا۔ میرا بریف کیس سیٹ کے نیچے پڑا تھا۔ صبح آنکھ کھلی تو چالیس گاؤں گزر چکا تھا۔ ٹرین ممبئی کے مضافات میں داخل ہو رہی تھی۔ ممبئی آنے تک میرے آس پاس کے سب ہی مسافر اتر چکے تھے۔ جب راہل مجھے لینے آیا تو میری سیٹ کے نیچے اس بریف کیس اور میری اٹیچی کے علاوہ اور کچھ نہیںتھا۔ ہے نا چمتکار! بھگوان کی لیلا نیاری!
’’تو بیگ تبدیل ہوگئے۔ اور یہ روپے اب تمہارے ہیں۔‘‘
’’ہوسکتا ہے اس نے پچھلے جنم میں مجھ سے ادھار لیے ہوں۔‘‘
’’اور اس جنم میں واپس کردیے۔ کہا ہوگا۔ انیتا جی ادھار دینے کا بہت بہت شکریہ۔ یہ لیجیے آپ کی رقم سود کے ساتھ جائیے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنا لیجیے۔‘‘ اور تانیا ٹہاکہ مار کر ہنسنے لگی۔‘‘
’’ہنسنا بند کرو، میں کیا کروں؟ گھر آئی لکشمی پر دروازہ بند کردوں؟‘‘
’’ظاہر ہے اس کے پاس تمہارا نام نشاں کچھ بھی نہیں۔ ورنہ اب تک ڈھونڈ لیتا۔ اور تمہیں چالیس گاؤں کا مشن اسپتال ڈھونڈنے کی کیا ضرورت؟ کسی کے بیٹے کی جان جاتی ہے جائے بس تمہارا بیٹا ڈاکٹری کی ڈگری ۔۔۔۔ یا لوگوں کو مارنے کا لائسنس۔‘‘
’’چپ رہو، بکواس بند کرو۔‘‘ انیتا غصہ میں چیخی۔آج تم مجھے سبق سکھانے آئی ہو۔ نیکی کے ٹیڑھے میڑھے راستہ پر چلنے کا۔ ساری زندگی میں نے مصیبتوں کو خوشی خوشی قبول کیا، اب اس وردان کو قبول کر رہی ہوں تم مجھے خود غرض سمجھ رہی ہو۔ مجھے کسی کے بیٹے کی موت کی ذمہ دار ٹھہرا رہی ہو۔ آخر تم چاہتی کیا ہو؟‘‘
’’انیتا! تمہارے بیٹے کی تعلیم اور اس کے بیٹے کی زندگی دونوں اہم ہیں لیکن کسی کی محنت کی کمائی کو بھگوان کی دین سمجھ کر اپنا سمجھ لینا؟‘‘
’’بس، بس، میں سمجھ گئی۔ تم میری پیدائشی دشمن ہو۔ تم سے میری پل بھر کی خوشی نہیں دیکھی جاتی۔‘‘
’’انیتا! میں تمہاری سچی دوست ہوں اور تمہیں سچی خوشی دینا چاہتی ہوں، مجھ پر بھروسہ کرو۔‘‘
’’ہاں ۔تم اور تمہاری دوستی!میری پیاری تانیا خیر اندیش دوست دکھ کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔ تم صرف ایک مجازی شخصیت ہو صرف ایک عکس۔ تم کیا جانو اس مادی دنیا کی حقیقت۔ تم کیا جانو اس جسم و جاں کو یکجا رکھنے کے لیے کتنی اذیتیں سہنی پڑتی ہیں۔ تانیا کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن انیتا اپنی رو میں کہے جا رہی تھی: ’’میری خود ساختہ دوست! کہاں تھیں تم؟ اس وقت جب میرا پتی علاج کے لیے پیسے نہ ہونے کے کارن مرگیا۔ جب میں اور میرا بچہ بھوک کے مارے راتیں جاگ کر گزارتے تھے؟ اس وقت تم چین کی نیند سو رہی تھیں کیوں کہ تمہارا کام ہے صرف کچوکے لگانا۔
جب میرے بیٹے کی چودہ سال کی محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ میڈیکل کا ایڈمیشن اس کے نام پر آکر رک گیا اور اس کا نام ویٹنگ لسٹ میں سب سے اوپر آگیا ہم نے اسے کرموں کا پھل سمجھ کر قبول کرلیا۔ اس وقت تمہیں ہمارے عقیدے میں کوئی عیب نہیں نظر آیا۔ اور اب جو اس کے ایڈمیشن کا ایک راستہ نکل آیا ہے تو تم پہنچ گئیں صحیح اور غلط کی منطق لے کر! میرے عقیدے کا مذاق اڑانے۔ جس عقیدے کے سہارے میں نے زندگی کے ستم سہے۔ میں جانتی ہوں تم کیا چاہتی ہو تم ہاتھ میں چابک لے کر میری زندگی کو اپنے طے کیے ہوئے راستہ پر چلانا چاہتی ہو۔ مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ مجھے صحیح اور غلط کی پہچان ہے اور میں اپنے فیصلوں کی ذمہ داری لے سکتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ تمہارا منہ بند رکھا ہے اور اب بھی تم کچھ نہیں کہہ سکتیں کیوں کہ میں نردوش ہوں۔ جاؤ، نکل جاؤ اپنی منحوس آواز لے کر۔ پھر کبھی مت آنا۔ سنا تم نے؟ انیتا، تانیا کی آواز سننے کے لیے رک گئی۔ لیکن وہ خاموش ہوچکی تھی۔
خوش ہوکر انیتا نے پردیپ کی تصویر کی طرف دیکھا وہ گردن پھیرے دوسری طرف دیکھ رہا تھا، پردیپ میں نے اسے بھگا دیا۔‘ تصویر خاموش تھی۔ اس نے ایک بار پھر اسے آواز دی لیکن کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ مایوس ہوکر اس نے کل دیوی کی طرف دیکھا وہ بھی بے جان مورتی تھی۔ اس نے مندر کے ہر دیوی دیوتا کو بلایا لیکن اس کی آواز کسی نے نہیں سنی۔ یکایک اسے احساس ہوا کہ اپنی خوشی میں وہ تنہا ہے۔ کل دیوی۔ سارے دیوی دیوتا یہاں تک کہ پردیپ جو اس کا دائمی سکھ دکھ کا ساتھی تھا، جسے موت بھی اس سے نہیں چھین سکی تھی، اس نے بھی اسے چھوڑ دیا تھا۔ زندگی کا بوجھ ڈھونا تو درکنار خوشی منانا بھی مشکل تھا۔ سامنے نوٹوں کا بریف کیس کھلا پڑا تھا، اپنی اس دولت کو لے کر وہ تنہا اور بے سہارا ہوگئی تھی۔ اس کے پیر لڑکھڑائے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اس نے دونوں ہاتھوں سے مندر کے تختے کا سہارا لیا۔ اس کا سر نوٹوں کی گڈیوں پر گر گیا۔ وہ ہوش میں تھی نہ بے ہوش۔ چاروں طرف سے اندھیرے اور خاموشی نے گھیر رکھا تھا۔ احساس تھا تو صرف اوپر نیچے آتی جاتی سانسوں کا۔ وہ اپنے دل و دماغ، دنیا وما فیہا اور وقت کی رفتار سے بے خبر تھی۔
کہیں دور سے زندگی نے آواز دی۔ ’’ماں!‘‘ روشنی کی ایک کرن نظر آئی اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس کی زندگی میں روشنی آگئی تھی۔ وہ تنہا نہیں تھی۔ اس کا بیٹا راہل سامنے کھڑا تھا۔ ’ماں! لسٹ نہیں لگی۔ شاید کل لگے۔‘‘
انیتا نے جیسے سنا ہی نہیں۔ اس نے بریف کیس بند کیا اور راہل سے کہا ’’بیٹا، ذرا جسٹ ڈائیل سے چالیس گاؤں کے مشن اسپتال کا نمبر مانگو۔‘‘
راہل نے فوراً موبائل جیب سے نکالا۔ انیتا نے پردیپ کی تصویر کی طرف دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔lll