ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گاؤں کے مدرسے میں اسرافیل چودھری اور فخر الدین بھوئیاں ایک ساتھ قاعدہ پڑھا کرتے تھے دونوں میں اس قدر بے تکلفی تھی کہ تالاب میں نہاتے وقت ایک دوسرے کو کیچڑ میں لت پت کردیا کرتے تھے، مگر آج فخرالدین بھوئیاں حافظ فخر الدین اور اسرافیل چودھری، چودھری صاحب کہلاتے ہیں۔
حافظ فخر الدین گاؤں کی مسجد کے پیش امام ہیں۔ متشرع اور انتہائی امن پسند ہونے کی وجہ سے انہیں رشک کی حد تک ہر دل عزیزی حاصل ہے۔ ان کا کردار ایک بڑے درخت کے سائے کی طرح گاؤں پر چھایا ہوا ہے۔
اس کے برعکس چودھری صاحب کے چہرے پر داڑھی تھی نہ کردار وگفتار میں کوئی خوبی اور دین سے تو وہ بہت دور ہوچکے تھے۔ بہت اہتمام سے انگریزی لباس پہنتے اور فرنگیوں کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ مثلاًکھڑے کھڑے پیشاب کرلینا ان کے لیے کوئی عیب ہی نہیں تھا۔
یہ دونوں خاندان پشت ہا پشت سے ’نبی نگر‘ میں ایک ہی جگہ آباد تھے۔ اب تک ان میں کوئی رشتہ داری تو نہ ہوسکی لیکن آپس کا میل جول اپنی جگہ موجود تھا۔ چودھری صاحب کے والد وافر جائداد کے مالک ہونے کے باعث خاصے خوشحال تھے۔ ان کے خاندان کے لوگ تعلیم یافتہ اور روشن خیال مانے جاتے تھے ڈھاکہ یا دوسری جگہوں سے ان کے ہاں دانشور قسم کے مہمانوں کی آمدو رفت رہا کرتی۔
ایک دن اسی قسم کی گہما گہمی میں کسی نے اسرافیل کو مدرسے سے پڑھ کر واپس آتے ہوئے دیکھ لیا… ننگے پاؤں، پاجامہ، کرتا، دوپلی ٹوپی اور بغل میں قاعدہ بغدادی! اس ہیئت کذائی پر جدید تہذیب میں رنگے مہمانوں نے فلک شگاف قہقہہ بلند کیا اور پھر اسرافیل کے مستقبل کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ آخر یہ طے پایا کہ اسے گاؤں سے شہر منتقل کردیا جائے اور وہ وہیں رک کر کانونٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے نئی تعلیمی زندگی کا آغاز کرے۔
فخر الدین کا خاندانی پس منظر گہرا اسلامی تو نہیں تھا البتہ دین کی نمایاں جھلکیاں ضرور موجود تھیں۔ وہ انگریزی کی معمولی شدبد حاصل کرنے کے بعد حافظِ قرآن ہوئے اور عمر کے ساتھ بتدریج ان کی عزت بھی بڑھتی گئی یہاں تک کہ امام مسجد مقرر کردیے گئے۔
عائشہ ان کی بیٹی تھی جسے دیکھ کر یہ گمان نہیں گزرتا تھا کہ وہ ایک امام مسجد کی بیٹی ہے۔ وہ جہاں حسنِ سیرت اور ذہانت میں یکتا تھی، وہاں نسوانی حیا کا پاکیزہ نمونہ سمجھی جاتی اور اپنی انہی صفات کے باعث گاؤں میں ایک مثالی کردار بن گئی تھی۔
امام صاحب آج ظہر کی نماز پڑھا کر گھر آئے، تو شدید طور پر مغموم دکھائی دے رہے تھے۔ عائشہ نے باپ کا پژمردہ چہرہ دیکھا، تو جیسے بلبلا اٹھی، پنکھا لیے لپکتی ہوئی قریب آئی اور مضطرب ہوکر بولی: ’’بابا! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
امام صاحب نے زبردستی مسکرا کر بیٹی کا دل رکھنا چاہا۔ ’’بیٹی! کوئی بات نہیں۔‘‘
عائشہ نے سلیقے سے پنکھا جھلتے ہوئے کہا: ’’لیکن بابا! چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ بہت پریشان ہیں۔‘‘
امام صاحب اپنی بیٹی کے سامنے جیسے چور بن گئے، وہ اپنی اندرونی کیفیت چھپانے کے لیے جلدی سے باورچی خانے کی طرف بڑھے تاکہ کھانے کی مصروفیت کے بہانے بیٹی کے سوال و جواب سے بچ سکیں، مگر عائشہ باپ کو بد دل دیکھ کر سب کچھ سمجھ گئی۔
اس کی شادی کے سلسلے میں آج ایک جگہ سے ہاں یا نا ہونے والی تھی۔ اس نے خیال کیا کہ شاید باپ کی یہ اداسی اسی سلسلے میں ہے۔ وہ پیڑھی پر بیٹھ کر پنکھا جھلنے لگی۔ خود اس کے جذبات بھی بے قابو ہوئے جارہے تھے، وہ سوچ رہی تھی ’’کاش! میں اپنے بابا کا لڑکا ہوتی اور میرا نام بجائے عائشہ کے محمد علی یا کچھ اور ہوتا۔‘‘
امام صاحب بظاہر کھانے میں مصروف تھے، مگر وہ اپنی سوچ میں گم تھے۔ وہ محسوس کررہے تھے کہ چودھری بھوت بن کر ان پر مسلط ہوگیا ہے اور اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت نہیں… چودھری صاحب طلبِ علم کے زمانے اور اس کے بعد جب بھی گاؤں آتے، ان کا دل دکھاتے کبھی باتوں سے، کبھی اوچھی حرکتوں سے اور کبھی امیرانہ ٹھاٹ سے۔
امام صاحب کے ساتھ چودھری کی اس بلاوجہ چشمک سے گاؤں والے بھی اچھی طرح واقف تھے، مگر زبان کھولنے کی ہمت کبھی نہ کرسکے کیونکہ اب چودھری کا دبدبہ پورے گاؤں پر بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے خاندان کے کچھ لوگ عرب،امریکہ اور برطانیہ تک پہنچ گئے تھے اور ہر طرف سے دولت کی ریل پیل تھی۔ ملکی سیاست میں بھی ان لوگوں کا کچھ نہ کچھ عمل دخل تھا، خاص طور پر سرکار کی جانب سے دیہات کے زرعی منصوبوں میں چودھری صاحب پیش پیش تھے۔
مصلحتاًخاموش رہنے کی بات الگ، ویسے بستی کے باشندوں کے دلوں میں چودھری کے خلاف شدید نفرت تھی۔ وہ جیسے جیسے امام صاحب کو ستاتے، ان کی نظروں میں امام صاحب کا مرتبہ اور بلند ہوجاتا۔ چودھری کی گفتگو سے کھلی بے دینی ظاہر ہوتی تھی۔ وہ کہتے ’’ابے مولبی! لوگوں کو افیون پلانے کا دھندا چھوڑاور محنت مشقت سے کمانے کی عادت ڈال۔‘‘
ایک دن انھوں نے بھرے بازار میں امام صاحب کو ٹوک دیا: ’’ابے او فخری کے بچے! اذان بھونکنے کا چونگا موڑ کر دوسری طرف کردے، صبح میری بھی نیند خراب ہوتی ہے اور بچوں کی پڑھائی کا حرج بھی ہوتا ہے۔‘‘
یہ سن کر امام صاحب کو یقین ہوگیا کہ موٹی موٹی اور اجنبی نظریات کی کتابیں پڑھ کر چودھری ملعون ہوگیا ہے۔ ان باتوں سے قطع نظر چودھری صاحب نے امام صاحب کی انا پر براہِ راست بھی حملہ کیا تھا۔ انھیں اس بات کا بڑا صدمہ تھا۔ اگر وہ فطری طور پر امن پسند نہ ہوتے، تو نہ جانے اب تک کیا کچھ کر گزرتے۔
بیٹی کے سوال جواب سے بچنے کے لیے وہ اس وقت دسترخوان پر آبیٹھے۔ ان کے ذہن میں آج سے چار سال قبل کا واقعہ تیزی سے گردش کررہا تھا۔ عائشہ کی بات ایک جگہ پکی ہوچکی تھی اور جمعہ کے دن لڑکے والے انگوٹھی پہنانے آرہے تھے لیکن اس دوران پتا نہیں کیسے ان لوگوں میں سے چند چودھری کے ہتھے چڑھ گئے۔ انھوں نے انہیں ایسی پٹی پڑھائی کہ وہ لوگ انگوٹھی پہنائے بغیر ہی واپس چلے گئے۔ اس واقعے کے ایک ماہ بعد وہی لوگ چودھری صاحب کی چھوٹی لڑکی کے لیے برات لے کر آگئے۔ چودھری صاحب کا داماد سونالی بینک کی ایک شاخ میں منیجر تھا۔
چودھری صاحب کی لڑکی ایلورا تھی تو خوبصورت مگر بے سلیقہ اور باپ کی طرح دولت پر مغرور بھی! اس کی شادی جس قدر دھوم دھام سے ہوئی، ٹھیک ایک سال بعد اس سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ وہ شوہر کو چھوڑ کر اپنے باپ کے گھر واپس آگئی۔ غیرت مند آدمی کے لیے یہ واقعہ وجہِ اضطراب ہوتا ہے لیکن چودھری صاحب نے اپنی لڑکی کے اس عمل کو یہ کہہ کر سراہا ’’ایلورا ایک روشن خیال لڑکی ہے، وہ اپنے روشن مستقبل کا انتخاب کرنا خوب جانتی ہے۔‘‘ اور پھر ایلورا اس آدم خور شیرنی کے مانند زندگی گزارنے لگی جو ایک بار انسانی خون کا مزہ چکھ لیتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں عائشہ کے لیے بہت سارے پیغامات آئے، ان میں سے امام صاحب نے ایک رشتے کا انتخاب کیا تھا۔ گفتگو کے تمام تر مراحل طے ہوجانے کے بعد آج اس کا حتمی فیصلہ ہونا تھا۔ اس کی خبر عائشہ کو بھی تھی مگر اس نے اپنے بابا کے چہرے پر لکھی اپنی قسمت کی تحریر پڑھ لی تھی۔ اسے یقین تھا کہ بابا اس وجہ سے پریشان ہیں مگر وہ الجھ الجھ کر چودھری صاحب کے بارے میں مسلسل سوچے جارہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ چودھری مدرسے سے بچھڑنے کے بعد آخر اس قدر بدل کیوں گیا؟ اب تو ماشاء اللہ وہ بڑی بڑی ڈگریوں کا مالک ہے، علم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ روشنی ہے، اسے حاصل کرکے کند ذہن بھی روشن خیال ہوجاتا ہے۔ چودھری نے تو کافی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کی الماریوں میں ڈھیر ساری کتابیں بھری پڑی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ عام آدمیوں جیسا بااخلاق بھی نہیں؟
امام صاحب پھر ایک نئے زاویے سے سوچنے لگے انھوں نے چودھری کے مقابلے میں اپنا بھر پور جائزہ لیا۔ انہیں خیال آیا، غالباً مجھ سے کوئی ایسی چوک ہوگئی ہے، جس کے ردعمل میں چودھری نے اپنے اندر انتقام کا شعلہ بھڑکا رکھا ہے اور اسی غوروفکر کی کیفیت میں انہیں ایک واقعہ یاد آگیا۔
چودھری نے بی اے کی تعلیم مکمل کی، تو اس خوشی میں ان کے باپ نے اپنے گھر میں ایک تقریب منعقد کی، لیکن ٹھیک اسی دن گاؤں کی مسجد کے احاطے میں امام صاحب کے حافظِ قرآن ہوجانے پر ان کی دستار بندی کا جشن منایا جارہا تھا اور اس گاؤں میں دستار بندی کی یہ پہلی تقریب تھی۔
امام صاحب کی آنکھوں میں وہ منظر گھوم گیا جب وہ خو چبوترے پر بیٹھے اور لوگ بہت محبت سے انہیں تحفے دے رہے تھے۔ تقریباً ہر آدمی کے ہاتھوں میں پھولوں اور نوٹوں کے ہار تھے۔ یہ بات ان کے علم میں تھی کہ بڑے چودھری صاحب کے ہاں بھی آج اسرافیل کی کامیابی پر دن کو کھانے اور رات کو گانے بجانے کا پروگرام ہے۔ اس تقریب میں انھیں مدعو نہیں کیا گیا، لیکن جشنِ دستار بندی کا دعوت نامہ مدرسہ کمیٹی کی جانب سے چودھری صاحب کے نام جاری کیا گیا تھا۔
چالیس برس پہلے کا یہ واقعہ یا دآیا، تو انھوں نے خیال کیا کہ شاید چودھری صاحب نے اس بات کو اپنی ہتک سمجھا ہوگا کہ جس دن اس کی کامیابی کا جشن منایا گیا اسی دن دستار بندی کی تقریب منعقد کی گئی،مگر انھوں نے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دی کہ اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں تھا، دستار بندی کی تقریب تو بستی کے لوگوں نے منعقد کی تھی۔
پڑوس کے گاؤں سے عبدالحمید خان کا جو پیغام آیا تھا، آج اس کے بارے میں ان کے آدمی نہ صرف انکار کرگئے بلکہ انھوں نے براہِ راست عائشہ کے کردار پر حملہ کیا تھا۔ امام صاحب نے اپنی عادت کی مطابق اس وار کو بھی صبر کی ڈھال پر روکا، لیکن وار ایسا کاری تھا کہ ان کی ہمت جواب دے گئی۔ دل کے زخم چہرے پر نمایاں ہوگئے تھے۔ وہ بہت ہی غمزدہ نظر آنے لگے اور عائشہ ان کی بری حالت دیکھ کر کچھ زیادہ ہی دکھی تھی۔
چودھری صاحب کی ضرورت سے زیادہ روشن خیالی اور بے جا لاڈ پیار نے ان کی بیٹی ایلورا کو غلط راستے پر ڈال دیا۔ وہ مہینے میں پندرہ دن ڈھاکہ میں رہتی اور شہر کی آزاد زندگی میں خوب گلچھرے اڑاتی۔ماں کی نظر میں بیٹی کے یہ لچھن جتنے خراب تھے، باپ بیٹی کی طرف سے اتنا ہی خوش تھا۔ چودھری صاحب نے اسے کلب جانے کی کھلی اجازت دے دی اور اسے اس بات کی پوری آزادی تھی کہ باہر گھومے پھرے یا گھر میں رہے۔ چودھری صاحب اپنی بیٹی کو ایسی آزاد زندگی گزارتے دیکھ کر فخر محسوس کرتے۔ ان کی آنکھ تو اس خوابِ مدہوشی سے اس دن کھلی جب ان کی عزت داؤ پر لگ چکی تھی۔
عزت بچانے کے لیے چودھری صاحب نے شہر کی رہائش کو خیر باد کہہ کر گاؤں میں مستقل سکونت اختیار کرلی اوراپنے ساتھ ایلورا کو بھی لے آئے۔ اب وہ بھی ہر وقت بجھی بجھی سی رہتی، لگتا تھا احساسِ گناہ نے اسے نڈھال کردیا ہے۔ چودھری صاحب کی بیگم کا حال ان دونوں سے خراب تھا، ماں ہونے کے ناتے وہ ہر وقت اس فکر میں گھلتی رہتیں کہ جب بدنامی کا یہ داغ نمایاں ہوگا تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔
ایک دن وہ چودھری صاحب سے کہنے لگیں: ’’میں نے ہمیشہ آپ سے کہا کہ لڑکی کو بے لگام نہ چھوڑیں، مگر آپ نے اپنے علم کے زعم میں میری باتوں کو جہالت پر محمول کیا۔ آپ مرد ہیں، باہر آپ کا دبدبہ پھیلا ہوا ہے، مگر گھر گھر عورتوں کی کانا پھوسی کا علم تو آپ کو نہیں، کلمونہی بیٹی کی کرتوتوں سے میرے کانوں میں جو زہر ٹپک رہا ہے، اسے برداشت کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ کسی دن کچھ کھا کرسورہوں گی۔ آج نہیں تو کل جب آپ اپنی لاڈلی بیٹی کو گلے کا ڈھول بنا کر سارے گاؤں میں پھریں گے، تو میں اس منظر کی تاب نہ لاسکوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر چودھرانی خاموش ہوگئیں۔ ان کا گلا رندھ گیا اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ چودھری صاحب اپنی بیگم کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے۔ وہ یوں گم سم بیٹھے تھے جیسے سوچنے سمجھنے کی ساری قوتیں مفلوج ہوگئی ہوں۔
امام صاحب کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ آج چودھری سے مل کر بات کریں گے کہ آخر وہ انھیں کس گناہ کی سزا دے رہے ہیں؟ اتنے میں عائشہ کی ماں ہانپتی کانپتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی اور چیخ کر بولی: ’’چودھری صاحب کے گھر آگ لگ گئی ہے اور آپ یہاں بے فکری سے بیٹھے ہیں۔‘‘ یہ بات سن کر امام صاحب فوراً باہر آگئے۔ چودھری صاحب کے مکان کے آنگن سے شعلے بلند ہورہے تھے۔
یہ دیکھ کرامام صاحب فیصلہ نہیں کرپائے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اتنی دیر میں چودھری صاحب کے تین کارندے دندناتے ہوئے ان کے پاس پہنچے اور ان میں سے ایک گرج کر بولا: ’’مولبی! ہمارے ساتھ چل، چودھری صاحب نے تجھے بلایا ہے۔‘‘
یہ سنا تو امام صاحب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ انہیں شک ہوا کہ یہ خدا ناشناس آدمی شاید آگ لگنے کا الزام میرے سر دھرنا چاہتا ہے۔ وہ کچھ دیر سوچتے رہے، پھر فیصلہ کن لہجے میں بولے ’’نہیں، میں نہیں جاؤںگا۔‘‘
یہ جواب سن کر چودھری کے تینوں ملازم آگ بگولا ہوگئے۔ انھوں نے دھمکی دی’’اگر اپنی خوشی سے نہیں جاؤگے تو ہم اٹھا کر لے جائیں گے۔‘‘ اور پھر ان ظالموں نے یہی کیا۔ نہ امام صاحب کچھ کرسکے نہ ان کی گھر والی، کمزوری اپنی بے بسی پر آنسو بہاتی رہ گئی۔
چودھری صاحب لنگی اور بنیان پہنے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر آنگن میں ٹہل رہے تھے۔ وہ اس قدر وسیع تھا کہ بچے باقاعدہ گول پوسٹ بنا کر فٹ بال کھیل سکتے تھے۔ اس کے درمیان بہت بڑے دائرے میں آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ جیسے جیسے اس آگ کی خبر پھیل رہی تھی، قرب و جوار کے لوگ بھاگے چلے آرہے تھے لیکن یہاں کا ماحول دیکھ کر انہیں تعجب ہورہا تھا۔ چودھری اپنے ان ملازموں کی کاہلی پر گرج رہے تھے،جو ایک تواتر کے ساتھ ان کی لائبریری سے موٹی موٹی کتابیںلالاکر آگ کے شعلوں میں پھینک رہے تھے۔
اسی عالم میں امام صاحب کو ان کے سامنے لا کر کھڑا کردیا گیا۔ امام صاحب اندرونی طور پر خوفزدہ تھے یا نہیں، یہ معلوم نہیں مگر اب ان کے چہرے سے جلال ظاہر ہورہا تھا۔ چودھری ان کی نگاہوں میں ایک وحشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ تینو ںکارندے ان کا محاصرہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ چودھری نے ایک اچٹتی سی نگاہ اپنے کنبے پر ڈالی پھر اپنی بیٹی ایلورا کی جانب دیکھا۔ اس کی شکل و صورت اب وہ نہیں رہی تھی جو پہلے تھی۔ رنگ مدھم، جسم لاغر اور پیٹ ناگوار حد تک ابھرا ہوا تھا۔ وہ اپنے باپ سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہ کرسکی اور پاؤں کے انگوٹھے سے متواتر مٹی کریدنے میں مصروف رہی۔
چودھری صاحب اچانک امام صاحب کی طرف پلٹے اور تقریباً دوڑ کر ان کے بالکل قریب آگئے۔ انھوں نے پہلے اپنی خالی خالی آنکھوں سے امام صاحب کے چہرے کو غور سے دیکھا پھر رقت آمیز آواز میں چیخ پڑے ’’فخرو! فخرو میرا بھائی! میرا دوست! آہ فخرو!‘‘ دوسرے ہی لمحے انھوں نے امام صاحب کو اپنے فربہ جسم کے ساتھ چمٹا لیا اور بلک بلک کر رونے لگے۔
امام صاحب کے گھر والے وہاں پہنچے تو یہ انوکھا منظر دیکھ کر اپنی جگہ جامد ہوگئے۔ چودھری صاحب انتہائی عقیدت کے ساتھ امام صاحب کی داڑھی کو بوسے دے رہے تھے جیسے امام صاحب کی پیشانی کا درکھلے، تو تھوڑی سی ایمان کی روشنی کی بھیک مانگ لیں۔ وہ امام صاحب کی پیٹھ سہلاتے جارہے تھے۔ ان کی ہر ادا سے مجنونانہ انداز مترشح تھا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔
خاصی دیر بعد چودھری صاحب نے امام صاحب کو تھوڑا سا الگ کیا اور پھر گلوگیر آواز میں بولے: ’’فخرو میرے دوست! فخرو میرے بھائی! دیکھ فخرو، آج میں نے وہ دیوار گرادی، جس نے تیرے میرے درمیان زہریلی نفرت اور دشمنی کی خلیج پیدا کررکھی تھی۔ دیکھ فخرو! غور سے دیکھ، میں نے آگ کے الاؤ میں مادہ پرستی کی ان تمام فتنہ پروریوں کو جلاکر راکھ کردیا جن کے جادو نے مجھے تجھ سے دور کردیا تھا۔ میں نے اپنی تمام الماریوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کردیا ہے۔ اب ان میں وہی کتابیں آئیں گی جو تو نے اور عائشہ نے پڑھی ہیں… فخر ومیرے دوست، میرے بھائی! مجھ سے وعدہ کر! اب تو مجھے نئے سرے سے قاعدہ بغدادی پڑھایا کرے گا؟ بول، پڑھائے گا نا…؟ الف دو زبر ان، بے دوزبر بن…‘‘
اس کے بعد انھوں نے بنیان کے اندر سے کچھ کاغذات نکال کر کھولے اور رندھے ہوئے گلے پر قابو پاکر ایک ایک ورق الٹتے ہوئے دوبارہ کہنے لگے: ’’فخرو، میرے بھائی! میں صرف تیرا ہی مجرم نہیں تیری بیٹی عائشہ کا بھی مجرم ہوں۔ میں نے اس معصوم اور پاک دامن لڑکی کے راستے میں کانٹے ہی کانٹے بکھیر دیے۔ میں اپنے ضمیر کی ملامت سے اندر ہی اندر گھل رہا ہوں۔ میں نے اپنے اس گناہ کی تلافی یوں کی ہے کہ عائشہ کے نام اپنی بڑی جائداد منتقل کردی ہے، یہ اسی کے کاغذات ہیں۔ اپنی بیٹی عائشہ کی شادی اب میں خود کراؤں گا۔ فخرو! میرے دوست، میرے بھائی! خدا سے میرے گناہوں کی معافی کے لیے دعا کرے گانا؟‘‘
آگ کے شعلے بدستور بلند تھے۔ جلے ہوئے اوراق کی راکھ کے ریزے بڑی تعداد میں فضا میں بلند ہوکر یوں منتشر ہورہے تھے جیسے چودھری صاحب کا ذہن ان کتابوں کے علم سے آج خالی ہوجائے گا۔ وہ بڑی توجہ سے ان اڑتے ہوئے ریزوں کو دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے دوبارہ بڑی گرم جوشی سے امام صاحب کو اپنے سینے سے لپٹا لیا اور اپنے ساتھ انہیں قدم سے قدم ملا کر چلاتے ہوئے وہاں پہنچ کر رک گئے جہاں ان کا کنبہ کھڑا تھا۔ اچانک ایلورا والہانہ انداز میں امام صاحب کے قدموں میں گرکرزار و قطار رونے لگی اور بولی ’’کاکا! مجھے روشنی چاہیے… مجھے اسلامی آدرش چاہیے۔‘‘
امام صاحب کو بے ساختہ بچپن کے وہ دن یاد آگئے جب وہ اور اسرافیل ایک ساتھ مدرسے میں جھوم جھوم کر ’’الف دو زبر ان، بے دو زبر بن‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ وہ جھک کر بیٹھے اور ایلورا کی پیشانی پر بوسہ دے کر کہا: ’’بیٹی! اعترافِ گناہ بخشش کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اللہ نے توبہ قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے بیٹی!‘‘اسی عالم میں انھوں نے عائشہ کی آواز سنی، ایسی آواز جسے جبریل امین کے پروں ہی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، جس میں خوف، محبت، سوز، دہشت، اندیشہ اور یقین سب ہی کچھ شامل تھا۔ وہ اپنے بابا کو پکار رہی تھی۔
سب کا رخ امام صاحب کے گھر کی طرف ہوگیا اور وہ اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑے ہوگئے۔ چودھری صاحب کو یوں لگا جیسے ان کے آنگن کی طرف عائشہ کی آواز نہیں آرہی بلکہ ایک غیر مرئی روشنی کا سیلاب آرہا ہے۔ ان کا چہرہ اندرونی جذبات سے دمک اٹھا۔ ناریل اور سپاری کے قطار در قطار پیڑوں سے بچتی بچاتی، سراپا نور بن کر عائشہ دوڑتی چلی آرہی تھی۔ اس کے دوپٹہ کا پلو کسی مجاہدہ کے پرچم کی طرح دور تک پھیلاہوا تھا۔ اسے دیکھ کر سب ہی کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ عائشہ اپنے باپ سے لپٹ کر مطمئن ہوگئی۔
امام صاحب دونوں ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوگئے۔ ان کا چہرہ آسمان کی جانب تھا اور بند آنکھوں سے محبت کا رس قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا۔ (بنگالی سے ترجمہ)