طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے

ڈاکٹر فیض احمد انصاری

ہمارے ایک دوست ہیں ’’مسٹر ایکس‘‘ بڑے آزاد طبیعت کے مالک۔ انہیں آزادانہ زندگی سے بڑی محبت ہے۔ ماہِ رمضان کی آمد سے قبل ان کے چہرے پر بڑی رونق آجاتی ہے کیونکہ اس ماہ مبارک کے سحر و افطار کے لذیذ پکوان ان کے منتظر رہتے ہیں اور وہ پکوانوں کے۔ وہ روزہ رکھے بنا افطاری اتنی سیر ہوکر کرتے ہیں کہ پھر انہیں رات کے کھانے کی گنجائش اور تراویح پڑھنے کی سکت ہی نہیں رہتی۔ اس افطاری کے بعد وہ سیر و تفریح کی غرض سے شہر کا ایک لمباچکر لگاکے آتے ہیں ، اس وقت تک تراویح کی نماز ہوچکی ہوتی ہے اور لوگ خرید وفروخت میں مصروف ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کھانے پینے میں بھی لگے ہوتے ہیں۔ وہ بھی ان ہی کی صف میں نظر آتے ہیں۔ اسی اثناء میں مسٹر ایکس کا ایک اور ناشتہ ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں سحر تک جاگنے اور بازار کی رونقیں دیکھنے اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کا عمدہ موقع مل جاتا ہے۔

سحر کے بعد مسٹر ایکس پر ایسا نیند کا غلبہ طاری ہوتا ہے کہ وہ گھر جاکر جو آرام کرتے ہیں تو پھر دوپہر ٹھیک دو بجے ہی نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور گھر کا کھانا کھانے کے بعد پھر کچھ دیر اور آرام کرنے کے بعد روزہ داروں کی خدمت یعنی اپنے اہل و عیال کی افطاری کی تیاری میں لگ جاتے ہیں بلکہ خود کی افطاری ہی سامنے رہتی ہے۔ افطار بھی خوف ڈٹ کر کرتے ہیں۔ چونکہ ہم بھی بعد نمازِ عصر تھیلا لے کر بازار جاتے ہیںاس لیے ڈاکٹر وہیں ان سے ہماری ملاقات بھی ہوتی ہے۔ وہ بڑے طمطراق سے نئی ٹوپی پہنے ہاتھ میں تھیلا لیے مختلف النوع کھانے پینے کی چیزیں خریدنے میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ ہم سے ملاقات کے دوران ان کی نظریں ہم پر کم اور دوکانوں میںلٹکے ہوئے سامانوں پر زیادہ رہتی ہیں۔ مسٹر ایکس کا تیسرا کمال یہ ہے کہ ہر رمضان کے مہینے میں نئی ٹوپی پہنتے ہیں مگر آج تک کسی کو ٹوپی نہیں پہنائی۔

بہر حال ٹوپی کا ذکر ہم یہیں ختم کرتے ہیں کیونکہ گذشتہ رمضان ہم ’’ٹوپی‘‘ پر مضمون لکھ چکے ہیں۔ مسٹر ایکس کا بس یہی رمضان المبارک کا معمول ہوتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم پچھلے سال سے انھیں سمجھاتے آرہے ہیں کہ دیکھو میرے بھائی روزہ ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ اور یہ بہت آسان ہے کیا تم دیکھتے نہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے کتنے شوق سے روزہ رکھتے ہیں۔ بس تھوڑی سے ہمت کی ضرورت ہے پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا ورنہ وہ آخرت میں ضرور پوچھے گا کہ صحت مند ہونے کے باوجود روزے سے غفلت کیوں کی؟ کہنے لگے یار یہ تو سب ٹھیک ہے مگر وہ آزادی نہیں ملے گی جو بنا روزے کے ملتی ہے یعنی راتوں کا جاگنا اور سحر کے بعد کی پیاری نیند اور شکم سیرکھانا وہ ڈٹ کر افطاری کرنا وہ تندوری مرغے وغیرہ۔

ہم نے پھر سمجھایا۔ دوست! ان سب کی قربانی کا نام ہی تو روزہ ہے۔ ورنہ بھوکا پیاسا رہنا ہی مقصود تھوڑی ہے۔ ذرا سوچو کیا یہ لذیذ پکوان، یہ پھل، یہ مرغ مچھلی اللہ نے کس کے لیے پیدا کیے؟ اور سچ پوچھو تو روزہ کے بعد ان تمام چیزوں کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بات سمجھ میں آئی اور پھر انھوں نے ایسا پکا ارادہ کیا کہ رمضان کے صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوگئے ۔ ’’مگر ہیں ابھی بھی صرف ’’رمضانی‘‘ مسلمان‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146