طلاق

نیر بانو

یوں تو مجھے اس ریستوران میں آئے ہوئے کئی مہینے ہوگئے تھے لیکن اس عجیب شخصیت کو میں چند ہی روز سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے یہ ریستوران اس وجہ سے بہت پسند تھا کہ یہ دنیا کے ہنگاموں سے دور بہت ہی پرسکون جگہ پر واقع تھا اور خوبصورتی کے لحاظ سے بھی انوکھا تھا۔ سرخ ٹائلس کی چھت، انگوری دیواریں، احاطے میں سرخ اور سفید گلاب کی کیاریاں، انگوری رنگ کی کرسیاں، سفید سنگ مرمر کی میزیں، ان سب چیزوں نے مل کر شاہی ریستوران کو ایک حسین گلدستے کی شکل دے دی تھی۔

مجھ جیسے ملازمت پیشہ بے گھر سے لوگ عام طور سے اس ریستوران میں ناشتہ کرنے اور دوپہر کا کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔ میں سورج نکلنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا اور ناشتے کے بعد آٹھ بجے تک لوگوں کی قسم قسم کی گفتگو سنتا رہتا۔ میں نے صبح چھ بجے کے قریب دیکھا کہ وہ بڑی تیزی سے ریستوران کی طرف چلا آرہا ہے۔ اس نے شلوار اور پشاوری چپل پہن رکھے تھے۔ اس نے شیروانی پہن رکھی تھی اور سر ننگا تھا۔چپل کے تسمے اور شیروانی کے پورے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ تسمے زمین میں ٹکرا ٹکرا کر چٹاخ چٹاخ کی آواز پیدا کررہے تھے۔

ایک ہاتھ میں سگریٹ لائٹر اور دوسرے میں سگریٹ کیس تھا۔ وہ صورت سے بالکل دیوانہ معلوم ہورہا تھا اور جب اس نے گیٹ کے پاس آکر کچھ توقف کیا اور منڈیر پھلانگ کر احاطے میں داخل ہوگیا تو مجھے اس کی دیوانگی کا پورا یقین ہوگیا۔ وہ یکے بعد دیگرے ہر کیاری کے پاس گیا اور اس میں کچھ تلاش کرتا رہا اور جب سورج کی کرنیں اپنی پوری تمازت سے کیاریوں پر پڑنے لگیں تو اس نے بڑی بے بسی سے سورج کی طرف دیکھا اور تھکے تھکے قدم بڑھاتا ہوا ریستوران میں داخل ہوگیا۔ میرے سیدھے ہاتھ والی میز پر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکنے لگا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایش ٹرے میں سگریٹوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس دوران میں اسے کئی مرتبہ کھانسی اٹھی۔ وہ جب تک کھانستا رہا سگریٹ اس کی انگلیوں میں کانپتا رہا۔ اور جونہی کھانسی رکی اس نے بے تابی سے سگریٹ ہونٹوں میں دبالیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ چوبیس گھنٹے سگریٹ پینے کا عادی ہے۔ کچھ دیر وہ اسی طرح سے کھویا کھویا سا بیٹھا رہا۔ جب مکرانی بیرے نے اس کے کان پر چیخ کر کہا ’’بابو کیا مانگتا؟ تو اس نے انگلی سے اشارہ کیا’’ایک‘‘! پھر اس کے آہستہ سے ہونٹ ہلے ’’چائے‘‘۔ بیرا چلا گیا اور وہ پھر اپنے خیالات میں کھوگیا۔ تھوڑی دیر بعد بیرا چائے رکھ کر چلا گیا۔ وہ اسی طرح اپنے خیالات میں منہمک تھا۔ پھر وہ یکایک ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔

چائے بالکل سرد ہوچکی تھی۔ اس نے چائے کی قیمت میز پر رکھی اور ریستوران سے باہر نکل گیا۔ اسی طرح بیس پچیس روز گزرگئے۔ اس کے معمول میں فرق نہ آیا۔ وہ روز اسی طرح آتا ایک پیالی کا آرڈر دیتا اور سرد چائے کے پاس قیمت رکھ کر چلا جاتا۔ اس کی ذات سے میری دلچسپی بڑھتی ہی جارہی تھی لیکن بات کرنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا تھا۔ ہر روز سوچ کر جاتا تھا کہ ضروربات کروں گا لیکن قریب بیٹھا ہوا دیکھ کر جرأت نہ ہوتی۔

ایک روز اتوار کو میں ناشتے کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ وہ سامنے سے آتا ہوا نظر آیا۔ آج اس نے بڑے سلیقے سے سوٹ پہن رکھا تھا۔ بجائے منڈیر پھلانگنے کے وہ گیٹ سے داخل ہوا۔ اور حسب عادت کیاریوں میں کچھ تلاش کرنے لگا۔ اور جب دھوپ نے سب کیاریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اسی طرح بے بسی سے سورج کی طرف دیکھ کر وہ ریستوران میں داخل ہو گیا۔ آج اس نے بغور مجھے دیکھا اور سلام علیکم کہتا ہوا میرے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کی نظریں بیرے کو تلاش کرنے لگیں جب بیرا قریب آیا تو اس نے آرڈر دے دیا۔ ’’دوناشتے‘‘ میں نے اس سے کہا کہ میں روز یہیں ناشتہ کرتا ہوں تو اس نے حیرت سے کہا ’’میں نے تو اس سے پہلے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

آج وہ بڑے ہوش کی باتیں کررہا تھا۔ ناشتے کا بل بھی اس نے خود ہی ادا کیا۔ یکایک وہ پھر کھو سا گیا۔ پھر میرے کان کے پاس منہ لاکر سرگوشی کی۔ ’’کہانی سنئے گا؟ چڑیا چڑے کی۔‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں‘‘ اس نے کہا ایک انسان کی، بدقسمت انسان کی۔ ضرور ۔ میں نے کہا۔

اپنے خیالات کو مجتمع کرنے کے بعد اس نے کہنا شروع کیا۔ ایک لڑکا تھا۔ اس کا نام اسلم تھا۔ اس کے کان ناکامی کے لفظ سے ناآشنا تھے۔ وہ جس طرف بڑھا کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ اس نے عالیٰ تعلیم حاصل کی اور ایک بڑے عہدے پر فائز ہوگیا جس لڑکی سے شادی کرنی چاہی وہ بغیر کسی جدوجہد کے مل گئی اور زندگی بڑے سکون سے گزرنے لگی۔ روپیہ تھا، حسن تھا، صحت تھی، محبت تھی، اسی طرح چار سال گزرگئے۔ اسلم کی ہر خواہش پوری ہوچکی تھی لیکن ایک خواہش ابھی تک تشنہ تکمیل تھی، جس نے اس کی پرسکون زندگی میں ایک کھٹک سی پیدا کردی تھی۔ وہ اکثر سوچا کرتا، کیا وہ اولاد سے ہمیشہ محروم رہے گا۔ اس خیال نے یکایک اس کی طبیعت میں تغیر پیدا کردیا۔ وہ ہنستے ہنستے ایک دم سنجیدہ ہوجاتا۔ بات کرتے کرتے جھنجھلا اٹھتا۔ کچھ عرصے تک وہ اپنے اس خیال کو دبائے رہا لیکن پھر اس کے شیطانی جذبے نے اس کو اکسایا۔ تو کس سے ڈرتا ہے تو اپنی اس فطری خواہش کو دبا رہا ہے۔ تیری یہ خواہش بھی پوری ہوسکتی ہے۔ سنجیدہ کو طلاق دے دے اور دوسری شادی کرلے۔ لیکن جو منہ ہمیشہ اس سے جھوٹی محبت کرتا رہا تھا ایک دم طلاق کا لفظ کہنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسلم کو یہ ترکیب سوجھی کہ وہ سنجیدہ کو اتنا تنگ کرے کہ وہ خود طلاق کی خواہش مند ہوجائے۔ اس طرح اسلم کو چھٹکارہ بھی مل جائے گا اور اس کی ذمہ داری بھی سنجیدہ پر ہی عائد ہوگی۔ اب سنجیدہ کو خوش رکھنے کی بجائے وہ اس پر طنز کرنے لگا اور بعض وقت تو وہ بہت واضح الفاظ میں کہہ دیتا جو عورت ماں نہیں وہ عورت کہلانے کی مستحق نہیں۔ وہ چاہتا تھا سنجیدہ چیخ پڑے میں ’’بانجھ نہیں ہوں! میں ماں بنوں گی، ضرور بنوں گی۔‘‘ لیکن سنجیدہ خاموش رہتی اور اس کی خاموشی اسلم کو یقین دلادیتی کہ سنجیدہ مجرم ہے۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ عورت کتنی بھی صابر ہو، اجنبی نے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے کہا۔ لیکن … لیکن جب اس کی عزت پر حملہ کیا جائے تو وہ چیخ پڑتی ہے۔ اسلم نے بھی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ وہ اچانک گھر میں آجاتا اور اس طرح کمروں کی تلاشی لیتا گویا کوئی چھپا ہوا ہے اور بڑی رعب دار آواز سے پوچھتا۔ میری غیر موجودگی میں کون آیا تھا؟ کوئی نہیں سنجیدہ جواب دیتی اور اس کے فاسد خیالات پر کانپ اٹھتی۔ اسلم دل ہی دل میں مسکراتا ہوا گھر سے نکل جاتا اور وہ گھنٹوں آنسو بہایا کرتی۔ بعض مرتبہ وہ وقت سے پہلے ہی گھر آجاتا اور آتے ہی کھانا مانگتا اور جب سنجیدہ میز پر کھانا لگادیتی تو وہ غصے سے ہونٹ کاٹنے لگتا۔ بغیر بھوک کے دو چار نوالے حلق سے اتار کر پلیٹ زمین پر دے مارتا۔ سنجیدہ چھنا کے کی آواز سن کر دوڑی ہوئی آتی تو وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا۔ گوشت میں نمک زہر ہے۔ روٹی جلا کر خاک کردی۔ سنجیدہ اس طرح پلیٹ کے ٹکڑے جمع کرتی گویا اپنے دل کے ٹکڑے جمع کررہی ہے لیکن اسلم کو اس پر بالکل رحم نہ آتا۔ سنجیدہ کی یہ خاص عادت تھی کہ وہ اسلم کے سامنے کبھی نہ روتی، کبھی اس سے شکایت نہ کرتی۔ وہ سمجھی تھی کہ

مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

اسلم اس سے بے خبر تھا کہ وہ تنہائی میں گھنٹوں آنسو بہایا کرتی ہے۔ اسلم کی امید کے خلاف سنجیدہ ابھی تک جمی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ آج صاف صاف کہہ دے گا کہ تم اپنے گھر چلی جاؤ مجھے تم سے نفرت ہے لیکن جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ سنجیدہ بڑی محبت سے اس کے فوٹو کا فریم صاف کررہی ہے۔ اس کو دیکھ کر اسلم یہ تو نہ کہہ سکا لیکن اس نے دل توڑنے سے پھر بھی گریز نہیں کیا۔ یہ فوٹو مجھے دے دو۔ کیوں؟ سنجیدہ نے پوچھا۔ کسی نے فرمائش کی ہے اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ تو آپ مجھے دے چکے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسلم نے فوٹو چھینتے ہوئے کہا۔ سنجیدہ تڑپ کر رہ گئی لیکن اس کی آنکھیں اب بھی خشک تھیں۔ اس نے اسلم سے رحم کی بھیک نہ مانگی۔ اسلم جھلا گیا اور بڑبڑاتا ہوا گھر سے نکل گیا۔

مغرب کے قریب وہ واپس آیا۔ اس نے آتے ہی سنجیدہ کو آواز دی۔ ایک سال کے بعد آج اس نے پہلی مرتبہ سنجیدہ کو پکارا تھا۔ وہ بجلی جیسی سرعت سے اس کے پاس آکھڑی ہوئی۔ اس نے سوچا خدا نے اس کی دعا سن لی۔ اس نے پر امید نظروں سے اسلم کی طرف دیکھا۔ یہاں تک پہنچ کر اجنبی رک گیا۔ اس کا سانس پھول رہا تھا اور اسے قابو میں لانے کی کوشش کررہا تھا چند منٹ بعد اس نے پھر کہنا شروع کیا۔ اسلم نے اس پر برسنا شروع کردیا۔ سنجیدہ تم اپنے میکے چلی جاؤ۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ میں تمہارے ساتھ ایک منٹ بھی رہنا نہیں چاہتا۔ تمہارے پاس حیا اور خودداری نام کی کوئی شے نہیں ہے اور اگر ہوتی تو تم میرے کہنے سے بہت پہلے جاچکی ہوتیں اورمجھے طلاق دینے پر مجبور نہ کرتیں۔ سنجیدہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اسلم نے طنز آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔‘‘ سنجیدہ کا ہاتھ اس طرح اسلم کے منہ کی طرف بڑھا جیسے وہ اس کی زبان بند کرنا چاہتی ہے۔ اسلم نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور سنجیدہ کا ہاتھ جس تیزی سے بڑھا تھا اسی تیزی سے پیچھے ہٹ گیا۔ اسلم کی آواز اونچی ہوتی جارہی تھی۔ ’’تم ایک ملعون ہستی ہو تم بانجھ ہو، تم بے حس ہو، میں اپنی قیمتی زندگی تم پر قربان نہیں کرسکتا۔ میں باپ بننا چاہتا ہوں، وہ تھوڑی دیر کے لیے رک گیا پھر سنجیدہ کی طرف دیکھ کر کہا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اس کی نظریں چند لمحے سنجیدہ کے چہرے پر رکیں، شدت غم سے اس کا چہرہ سفید ہورہا تھا اور وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رورہی تھی۔ اسلم کو کچھ اطمینان سا محسوس ہوا اور وہ اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد سسکیوں کی آواز بند ہوگئی۔ قدموں کی چاپ دوسرے کمرے میں سنائی دی۔ پھر اندر سے دورازہ بند ہوگیا۔

اسلم نے اپنے پلنگ پر لیٹ کر بے چینی محسوس کی۔ اس نے سوچا یہ کیسی بے چینی ہے اب تو مجھے سکون ہونا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کمرے کے سامان میں کوئی تبدیلی کی گئی ہو۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا۔ شاید میز اپنی جگہ نہیں۔ نہیں میز تو وہیں رکھی ہے۔ میرے سر کے نیچے ایک تکیہ ہے۔ تکیے بھی دونوں موجود ہیں۔ اس نے دماغ کو ان خیالات سے خالی کرنے کی کوشش کی اور آنکھیں بند کرلیں۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ وہ تمام رات کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح ہوتے ہوئے اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو دھوپ سارے کمرے میں پھیل چکی تھی۔

وہ اٹھ بیٹھا۔ پہلا خیال جو اس کے دل میں آیا تھا وہ یہ تھا کہ پہلے اس کمرے کی طرف جائے جس میں سنجیدہ نے رات گزاری تھی۔ وہ دبے پاؤں دروازے سے پر پہنچ گیا۔ کمرے کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا۔ اور سنجیدہ جاچکی تھی۔ پہلی مرتبہ اس کے دل کو دھکا لگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اس گھر کو سنجیدہ کی ضرورت ہے۔ دل نے جواب دیا۔ نہیں سنجیدہ جیسی ایک عورت کی ضرورت ہے جو اس گھر کی مالکہ ہونے کے ساتھ ساتھ تیرے بچوں کی ماں بھی ہو۔ اس جواب سے وہ مطمئن ہوگیا۔ لیکن آج یہ گھر بے رونق کیوں معلوم ہورہا ہے اس کی وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں گھومنے لگا۔ وہ کیا تلاش کررہا ہے اس کی اسے بھی خبر نہ تھی۔ یکایک آسمان پر کالے بادل چھاگئے اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس پر بجلی گرنے کے سامان ہورہے ہیں۔ اس کے مجرم دل نے آج پہلی مرتبہ بادلوں سے خوف محسوس کیا۔ اس نے سوچا وہ تمام رات نہیں سویا ہے اس لیے دماغ پریشان ہے۔ وہ لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا نیم غنودگی میں اس نے سنجیدہ کے قدموں کی چاپ سنی۔ پھر سنجیدہ کی آواز آئی۔ غضب خدا کا سارے بھیگ گئے۔ آپ بھی بڑے بے خبرسوتے ہیں۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ واقعی کھڑکی سے پانی کی بوچھار آرہی تھی اور وہ بالکل بھیگ چکا تھا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی سنجیدہ کا کہیں پتہ نہ تھا۔

بارش مسلسل ہورہی تھی۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور صوفے پر دراز ہوگیا۔ اس نے پھر سنجیدہ کا ہاتھ اپنے بازو پر محسوس کیا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ اٹھئے سات بج چکے ہیں ناشتہ تیار ہے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس مرتبہ بھی اس کے کانوں نے اسے دھوکا دیا تھا۔ وہ بیتاب ہوگیا۔ اس سے ضبط نہ ہوسکا، وہ چیخ پڑا۔ اے میرے خدا! میں سنجیدہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ میں اسے واپس لے آؤں گا۔ میں اس سے اعتراف کرلوں گا کہ وہ اس گھر کی سب سے اہم ہستی ہے لیکن اسے فوراً ہی خیال آیا کہ وہ سنجیدہ کو طلاق دے چکا ہے۔ وہ ہر عالم کے پاس دوڑا لیکن کوئی اس کی مدد نہ کرسکا۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔

سنجیدہ کو گئے تین روز ہوچکے تھے۔ اسلم اپنی زندگی کی سب سے بڑی ناکامی سے دوچار تھا۔ وہ اوندھے منہ پلنگ پر پڑا ہوا تھا۔ وہی اسلم جس کے کھانے میں غیر معمولی پابندی ہوتی تھی تین روز سے بھوکا تھا۔ اس نے خود کشی کرنی چاہی لیکن خدا نے اس کی طاقت سلب کرلی اور وہ اپنے گناہوں کی پاداش بھگتنے کو زندہ رہا۔ تین روز کی مسلسل بارش کے بعد بادل چھٹنے لگے تھے۔ اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ ہرے دھنیے کے پتے دھل کر نکھر گئے تھے۔ مرچوں کے چھوٹے چھوٹے پودوں میں ہری مرچیں جھول رہی تھیں۔ سرخ پھولوں سے لدی ہوئی بیل کھڑکیوں اور دروازوں پر چھا رہی تھی۔ ہر چیز سنجیدہ کی مرہون منت ہے۔ اس گھر کو چھوڑدوں لیکن میرا وجود اس کی یاد دلانے کو کافی ہے۔ کیوں نہ سنجیدہ ہی سے اپنی حالت زار بیان کی جائے اس نے کاغذ اور قلم اٹھایا اور اپنے درد کو شعر میں سمودیا:

تیرے بغیر پھول بھی شعلوں سے کم نہیں

جیسے کسی نے آگ لگادی بہار میں

(جان بلب اسلم)

خط سپرد ڈاک کرنے کے بعد وہ انتظار کرنے لگا۔ تیسرے روز جواب اسلم کے ہاتھ میں تھا:

مایوسیوں پہ رنج نہ کر اب تو یہ سمجھ

میں اپنے بس میں ہوں نہ تیرے اختیار میں

’’پہلی اور آخری ناکامی‘‘ اجنبی نے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔ میں نے دیکھا کہ سگریٹ نے جلتے جلتے اس کی انگلی میں چھالے ڈال دئیے ہیں۔ اس نے مزید کہا: ’’لوگ کہتے ہیں وہ پاگل ہوگیا ہے۔ پھولوں کے تختوں میں سنجیدہ کے آنسو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ شبنم کو آنسو سمجھنا دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے اس نے خود ہی جواب دیا لیکن اگر وہ پاگل ہوتا تو ہر سال اپنی شادی کی سالگرہ کیوں مناتا۔ اس نے اپنے قیمتی سوٹ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا اور اس سے پہلے کہ میں ہوش میں آؤں وہ ریستوران سے باہر نکل چکا تھا۔ ایک ماہ کا عرصہ ہوگیا میں روز شاہی ریستوران میں جاتا ہوں۔ میری نگاہیں اس عجیب و غریب شخصیت کو تلاش کرتی ہیں لیکن ہمیشہ مایوس ہوکر لوٹتی ہیں—!!!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146