طلاق اور قانون

عقیدت اللہ قاسمی

ایک جوڑے کو شادی کے ایک سال بعد ہی رشتہ منقطع کرنے کے لیے کورٹ کا سہارا لینا پڑا۔ نباہ کی کوئی سبیل نہ تھی۔ بات اپنے دکھ سے نہیں دوسرے کے سکھ سے پریشانی کی پیدا ہوگئی۔ اپنے اپنے سکون کی نہیں دوسرے کو پریشان کرنے کی راہیں تلاش کرنے لگے۔ زیریں کورٹ سے ہائی کورٹ ہوتے ہوئے سپریم کورٹ تک پہنچ گئے، خود تو پریشان تھے ہی مگر دوسرے کو سکون کا سانس لیتے دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔ کورٹ سسٹم کی پیچیدگیاں، وکیلوں کے داؤ پیچ، انتقام در انتقام کی کارروائیوں کا لامتناہی سلسلہ ۲۶ سال بعد طلاق کا فیصلہ ہوا۔ اگر ۲۵-۲۶ سال کی عمر میں شادی ہوئی ہو ایک سال بعد مقدمہ بازی شروع ہوگئی ، ۲۶ سال بعد فیصلہ ہوا۔ عمر کے ۵۳-۵۴ سال برباد ہونے کے بعد کیا ملا؟ اس قانون یا کورٹ سسٹم نے کونسی راحت بہم پہنچائی؟ اسلامی نظام کا غلط استعمال کرنے والوں کی وجہ سے دین اسلام پر لعن طعن کرنے والوں کو اپنی آنکھوں کے یہ شہتیر پریشان کرتے ہیں مگر سچائی قبول کرنے کو پھر بھی تیار نہیں ہوتے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وکلا اور دانشوروں کو جمع کیا، ان کے سامنے اسلامی تعلیمات و احکام کی تشریح و وضاحت کی۔ اپنا موقف رکھا کہ ان لائنوں پر کورٹوں کی رہنمائی کریں۔ سپریم کورٹ کے ایک بڑے ایڈوکیٹ نے کہا۔ مولانا! آپ لوگ کیسی باتیں کرتے ہیں، آپ کی بتائی ہوئی تشریحات کے نتیجے میں کورٹوں میں طلاق کے کیسوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے راستے تلاش کیجیے۔
میں نے دھیرے سے پوچھا۔ وکیل صاحب! کورٹوں میں طلاق کے کیسوں کے انبار کن لوگوں کے ہیں؟ اسلام کے پیروکاروں کے کیس ہیں یا اسلام سے بیر رکھنے والوں کے؟ وکیل صاحب کے دماغ کوجھٹکا لگا۔ دیر تک خلا میں گھورتے سوچتے رہے ’’وہ تو سب غیر مسلموں کے کیس ہوتے ہیں۔‘‘ مسلمانوں کو توطلاق کے لیے کورٹ سسٹم کی پرپیچ وادیوں کا سہارا لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ان کے خلاف تو یہی پرشور پروپیگنڈہ ہے کہ کھڑے کھڑے طلاق، طلاق، طلاق کہہ دیتے ہیں اور زندگی برباد کردیتے ہیں۔ عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑدیتے ہیں۔ سچ ہے کہ کچھ لوگ غیر اسلامی طریقے اختیار کرکے دینِ اسلام کی صاف و شفاف شبیہ کو بگاڑتے ہیں۔ غلط پروپیگنڈے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور بیویوں کے ساتھ اپنی بھی زندگیاں برباد کرلیتے ہیں، وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم و زیادتی کرلیتے ہیں۔ ہوش سے کام نہیں لیتے۔ غیظ و غضب کے شعلوں میں کود کر اپنے ساتھ گھر اور خاندان کو بھی تباہ و برباد کرتے ہیں۔ سارے معاشرہ کا سکون غارت کردیتے ہیں، اس کے لیے دینِ اسلام کے احکام و تعلیمات پر عمل نہیں ان پر عمل نہ کرنا ذمہ دار ہے۔
۲۴؍جون ۲۰۱۰ء کو انڈیا کے مرکزی وزیر قانون و انصاف ویرپا موئیلی نے پارلیمنٹ میں ہندو میرج ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا، گورنمنٹ نے پہلی بار طلاق سے متعلق کیسوں کے سلسلہ میں اعداد و شمار پیش کیے اور بتایا کہ ۵۵؍ہزار جوڑے طلاق سے متعلق فیصلوں کے انتظار میں پریشان پھر رہے ہیں۔ ہر سال اوسطاً ۷۵۰۰ کیس بمبئی میں ۹ ہزار دہلی میں اور تین ہزار بنگلور میں دائر کیے جاتے ہیں، انھوں نے طلاق کے لیے پریشان جوڑوں کا مسئلہ جلد از جلد حل کرنے کی راہیں تجویز کیں۔ دعویٰ کیا کہ ہندو میرج ایکٹ ۱۹۵۵ء اور اسپیشل میرج ایکٹ ۱۹۵۴ء میں پارلیمنٹ کے ذریعے مجوزہ ترمیم کردیے جانے کے بعد کیس ۱۵؍دن کے اندر طے ہوجایا کریں گے۔ وعدہ کیا کہ ہم فیملی کورٹس کی تعداد بڑھا رہے ہیں تاکہ طلاق کے کیسوں کا انبار ختم کیا جاسکے۔ ترمیم کے بعد طلاق کے ان تمام کیسوں کو جو تین سال سے زیادہ عرصہ سے زیرِ التوا ہیں سب سے پہلے طے کیا جائے گا۔ فیملی کورٹوں کو ٹارگیٹ دیا جائے گا کہ طلاق اور بچوں کی تحویل سے متعلق کیسوں کو دائر کرنے کے بعد ایک سال کے اندر طے کردیا جائے۔ لاء کمیشن محسوس کرتا ہے کہ ایسے افراد کو رشتۂ ازدواج میں باندھ کر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو پرامن طور پر ساتھ نہ رہ سکتے ہوں۔ جبکہ ایک حالیہ سروے میں پایا گیا ہے کہ طلاق یافتہ نوجوان حتی الامکان جلد نئی زندگی شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وعدے تو وعدے ہیں، ان وعدوں سے کب مسائل حل ہوتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے بنیادی حق کو بیجا طریقے سے قانون کے ذریعے سلب کرلیا گیا ہے۔ زندگیاں برباد کردی گئی ہیں اور کی جارہی ہیں۔ اللہ جانے کب تک برباد کی جاتی رہیں گی کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
راجیہ سبھا میں بل پیش کیا گیا۔ہندو دھرم میں طلاق کا تصور نہیں ہے۔ ۱۹۵۴ء میں اسپیشل میرج ایکٹ اور پھر ۱۹۵۵ء میں ہندو میرج ایکٹ بنا، خوب شور اور واویلا مچا، ہنگامہ برپا ہوا، بنیادی حق کو بیجا طریقہ سے اور زبردستی چھیننے والوں نے دھرم کو نشٹ کرنے اور اس میں مداخلت کرنے کے خلاف آسمان سر پر اٹھالیا۔ بہرحال ایکٹ پاس ہوئے، زندگیوں کی بربادی کا سلسلہ چلتا رہا بلکہ تیز تر ہوگیا۔ کئی نسلوں کی تباہی و بربادی کے بعد ترمیم کی سوجھی مگر اسلام دشمن کہاں برداشت کرسکتے تھے۔ ایک بار پھر ہنگامہ ہوا ترمیمی بل پاس نہ ہونے دیا گیا۔ پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالہ کردیا گیا۔ بل دوبارہ ڈرافٹ کیا گیا۔ ۲۲؍مارچ ۲۰۱۲ء کو اسے کابینہ نے منظوری دے دی۔ کہا گیا پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن میں اسے پیش کردیا جائے گا۔
موجودہ ایکٹ میں فریقِ ثانی کی طرف سے بدکاری، ظلم و زیادتی اور چھوڑ کر چلے جانے صرف تین صورتوں میں طلاق کے لیے کیس درج کرایا جاسکتا ہے۔ مجوزہ ترمیم کورٹ کو یہ اختیار بھی دے دے گی کہ اگر فریقین تین سال سے زیادہ مدت سے الگ رہ رہے ہیں اور نباہ کی کوئی صورت نہیں بن رہی ہے تو وہ رشتۂ ازدواج کو تحلیل کرنے کے لیے درخواست پیش کرنے کی اجازت دے دیں۔ تاہم اس صورت میں بھی بیویوں کو خصوصی حق دیا گیا ہے کہ اگر درخواست شوہر نے دی ہے تو وہ اس کی مخالفت کریں، جبکہ اگر درخواست بیوی نے دی ہے تو شوہر کو اس کی مخالفت کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ یعنی طلاق کے لیے عورت کی مرضی کا ہونا ضروری ہے۔ حالانکہ عملاً ملک کے کورٹ سسٹم میں انتقامی کارروائی کی جو روایت پائی جارہی ہے، اس کے تحت صرف ضد کی بنیاد پر دونوں بیک وقت رضا مندی سے بچیں گے اور اپنے ساتھ دوسرے کو پریشان کرنے میں مزہ آنے کی روایت بہت مستحکم پائی جاتی ہے کہ ہر ایک دوسرے کی غلطی بتاتا ہے اور جانتا ہے کہ نباہ ناممکن ہے مگر دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اس کے خلاف رائے دیے چلا جاتا ہے۔ کورٹ زیادتی کا مفہوم بھی وسیع کرچکے ہیں۔ جس میں جنسی تعلق قائم نہ کرنے، گالی گلوج، شوہر کے ساتھ نہ رہنے حتی کہ شوہر کے لیے کھانا نہ بنانے وغیرہ تمام امور کو شامل کرچکے ہیں۔ سپریم کورٹ ۲۰۰۶ء میں ایک ایسی شادی کو تحلیل کرچکا ہے جس میں نباہ کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تھی، اس مقصد کے لیے کورٹ نے قانون کے دائرہ سے آگے بڑھ کر آرٹیکل ۱۴۲ کے تحت اپنے خصوصی اختیارات استعمال کیے تھے۔
رشتۂ ازدواج کو ختم کرنے یا طلاق کے قوانین کا ایک مضحکہ خیز پہلو قانون کی دفعہ ۱۲۶ کے تحت تاحیات نان و نفقہ کا مسئلہ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب بیویوں کو طلاق دے کر رخصت کرو تب بھی دائمی دشمنی کی سوچ استعمال نہ کرو۔ بلکہ نباہ نہ ہونے کی صورت میں بخوشی ورضا ہمدردانہ وخیرخواہانہ انداز میں رخصت کرو کہ باہم ایک تعلق رہا ہے بہتر ہے کچھ دے دلاکر رخصت کرو۔ لیکن جن مذاہب و اقوام و تہذیبوں میں اس طرح رخصت کرنے کا تصور نہیں ہے یا ستی و جہیزی اموات کے انتہا پسندانہ احساس جرم میں مبتلا ہیں، وہ اس رخصتی کو بہرصورت پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ خواتین کے خلاف ستی اور جہیزی اموات جیسے انتہا پسندانہ اقدامات کے جواب میں ان کی ہمدردی کے نام پر دوسری انتہا پر پہنچ جاتے ہیںکہ کہیں تاحیات نان ونفقہ کی شرط لگادیتے ہیں تو کہیں بہت موٹی دولت دلانے کی بات کرتے ہیں، نئی مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ طلاق کے وقت مطلقہ کو ازدواجی زندگی کے تمام اثاثہ کا نصف حصہ دیا جائے گا۔
اس طرح کی باتیں کہنے میں بہت اچھی لگتی ہیں جبکہ عملاً یہ عورتوں کے اوپر ظلم و زیادتی ان کا دائرئہ حیات تنگ کرنے اور موت سے ہمکنار تک کردیتا ہے کہ مرد بیوی کو ساتھ رکھ کر اس سے اپنے کام کراتا ہے، خدمت لیتا ہے، اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے، ایسی صورت میں وہ خود بھی بیوی کی ضرورتیں پوری کرتا ہے، جب بیوی پاس نہیں رہے گی، اس کی خدمت، ضرورت پوری نہیں کرے گی اور تا حیات نان و نفقہ یا نصف اثاثہ کا مطالبہ کرے گی تو مرد اس کے لیے کس طرح راضی وتیار ہوگا۔ وہ اس سے بچنے کے لیے عورت پر ظلم کرے گا اس کو اس حق سے دستبردار ہونے پر مجبور کرے گا، یہاں تک کہ خود کشی اور خود سوزی پر مجبور کرے گا، جس کو جہیزی موت کہا جائے یا کچھ اور۔ چنانچہ مسلمانوں میں بیویوں کی جہیزی اموات کم ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ کورٹ سے باہر ہی معاملہ طے کرلیتے ہیں، جبکہ دوسروں کو کورٹ سسٹم کی الجھنوں کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا اور وہاں ان مطالبات کا دینا لازمی ہوتا ہے، اس لیے اس ادائیگی سے بچنے کی صورت جہیزی اموات کے نام پر خود سوزی ، خود کشی اور قتل کے واقعات ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے ۱۹۸۶ء میں شاہ بانو کیس معاملہ کے بعد حکمرانوں اور ماہرینِ قانون کو بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں حقوق مطلقہ، تحفظ ایکٹ بنا بھی مگر فاضل ججوں کے ذہنوں میں بھی کہیں نہ کہیں اپنے معاشرہ کے ستی اور جہیزی اموات کے انتہا پسندانہ اقدامت کی تلافی کے لیے انتہا پسندانہ راہیں جاں گزیں رہتی ہیں، اس لیے انھوں نے اس ایکٹ کو ماننے سے انکا رکردیا یا اپنی جانبدارانہ انتہا پسندانہ سوچ کے نتیجہ میں اس کا غلط استعمال شروع کردیا، چنانچہ اس کے بعد سے مسلمانوں میں بھی جہیز کے نام پر اموات کی خبریں سامنے آنے لگیں حالانکہ وہ جہیزی اموات نہیں، نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کی راہ کی پیچیدگی کے نتیجہ میں ہونے والی اموت ہیں۔
——

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں