طلاق اور ماڈل نکاح نامہ

؟؟

جب شیعہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے تیار کیے نکاح نامے میں عورتوں کو طلاق دینے کا حق دیا تو ملک بھر کے مسلمانوں میں طلاق کے موضوع پر بحث چھڑ گئی۔ طلاق کے بارے میں جب بھی بات ہوتی ہے تو سنّی اور شیعہ ، حنفی اور اہلِ حدیث اپنا اپنا مسلک پیش کرنے لگتے ہیں۔ حنفی، شافعی اور حنبلی مسلک کے مسلمان ایک ساتھی کہی گئی تین طلاقوں کو مکمل طلاق مان کر نکاح ختم کردیتے ہیں۔ جبکہ اہلِ حدیث مسلک کے مسلمان تین طلاقوں کو ایک طلاق مان کر نکاح ختم نہیں کرتے۔

اس ساری بحث میں قرآن کے ذریعہ متعین کردہ طریقوں پر کوئی طبقہ بھی دھیا ن نہیں دیتا۔ حالانکہ قرآن میں طلاق کا جو طریقے آیا ہے اس میں بحث بازی کی بالکل نہیں ہے وہ تو اپنے آپ میں ایک مکمل طریقہ ہے لیکن طلاق کے مسئلہ میں قرآن کے متعین کردہ طور طریقے کی بات نہ کرکے اسلامی خلفاء کے باتوں کے حوالے سے بات ہوتی ہے۔ یہی بات بحث کی خاص وجہ ہے۔

قرآن کے مطابق طلاق کے تین مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ طلاق کا اندیشہ ہو تو کیا کیا جائے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ طلاق کیسے دی جائے اور تیسرے مرحلے میں طلاق کے بعد شوہر کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

جب شوہر اور بیوی میں جھگڑا ہو اور طلاق کا اندیشہ ہو تو، قرآن کا حکم ہے:

’’اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔‘‘(النساء:۳۵)

اس حکم سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہیں کہ طلاق سے پہلے موافقت اور سمجھوتے کی بات کی جائے۔ سمجھوتے کی بات کے بغیر طلاق دیے جانے کو ۱۹۸۱ء میں ضیاء الدین بنام انوری بیگم کے مقدمے میں طلاق کو بغیر سمجھوتے کی گفتگو کے ناجائز مانا گیا اور جج مڑی سینا اور ایس وی رام نے اپنے فیصلے میں کہا کہ طلاق سے پہلے سمجھوتے سے متعلق بات چیت ہونی چاہیے۔ انھوں نے یہ بات سورہ نساء کی مذکورہ آیات کے حوالے سے کہی تھی۔

سمجھوتے کی کوشش ناکام ہونے پر قرآن میں طلاق کے وقت اور طریقہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ طلاق کے بارے میں حکم ہے کہ:’’ اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت دو اور ایام عدت کی پوری گنتی رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘

مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ قرآن کے حکم کے مطابق طلاق دینے کے وقت کی کوئی فکر نہیں کرتا۔ طلاق کا وقت بتانے کے بعد حکم ہے:’’طلاق دوبار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔‘‘(البقرہ:۲۳۱)

تین طلاق دینے کے بارے میں قرآن میں سرے سے کہا ہی نہیں گیا ہے۔ صرف دو بار طلاق ہے۔ دو بار طلاق، وہ بھی دو مہینے میں دینے سے اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر دو طلاق کے بعد سمجھوتے کے آثار بنتے ہیں تو شوہر پھر بیوی کواپنی زوجیت میں لے سکتا ہے۔ اگر تین مہینے تک ایسا نہیں ہوتا تو نکاح خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں اس کی گنجائش ہے کہ اگر تین مہینے بعد شوہر طلاق شدہ بیوی کو اختیار کرنا چاہے تو دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔

اس حکم کے آگے متنبہ کیا گیا ہے کہ:’’پھر اگر کوئی تیسری طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے پھر اگر وہ اسے طلاق دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بدستور مل جائیں۔‘‘(الطلاق:۲۳۰)

اس طرح قرآن میں تیسری طلاق کا مطلب تیسرے مہینے میں دی طلاق کے فوراً بعد نکاح فسخ ہوجاتا ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوجاتی ہے۔ اگر یہ مرد بھی اسے طلاق دے دے تو وہ اپنے پہلے شوہر سے اس کی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے۔ ان آیات کی بنیاد پر علما نے حلالہ جیسی ایک اور بری رسم ایجاد کرلی ہے۔ تین طلاق کے بعد اگر کوئی کسی مفتی سے (اہل حدیث کو چھوڑ کر) فتویٰ لینے جاتا ہے تو اس کا فتویٰ ہوتا ہے کہ بغیر حلالہ کے وہ طلاق شدہ کو اختیار نہیں کرسکتا۔ اس طرح سے مسلسل حلالہ کے فتووں نے حلالہ کی زبردست تشہیر کردی ہے۔ جبکہ قرآن میں ایک عام بات دوبارہ شادی کے لیے کہی گئی ہے۔

طلاق کے بعد شوہر کو کیا کرنا ہے اس بارے میں واضح حکم ہے: ’’انھیں (مطلقہ کو) رہنے کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق دو جس طرح تم رہتے ہو۔ انھیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ ان کی زندگی تنگ ہوجائے اگر وہ حاملہ ہیں تو انھیں وضع حمل تک خرچہ دیتے رہو۔‘‘(الطلاق)

اگر ایسا ہے تو ایک ساتھ تین طلاق دینے کا تبدیل شدہ قانون کہاں سے آیا۔ اس سلسلے میں مشہور حدیث حضرت ابن عباس کی ہے کہ ’’پیغمبر ﷺ اور خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس معاملہ میں لوگوں کو سوچنے اور سمجھنے کا موقع دیا گیا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں۔ لہٰذا ہم کیوں نہ یہی قانون لاگو کردیں اور حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کو تین طلاق ماننے کا فرمان جاری کردیا۔‘‘ (مسلم، کتاب الطلاق)

حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ کو تین طلاق کے لیے بطور دلیل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں طلاق کے بارے میں تمام تفصیلات بتائی ہیں کہ طلاق کا موجودہ قانون قرآن کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن کو سارے مسلمان اللہ کا حکم مانتے ہیں لیکن طلاق کے بارے میں ہندوستانی مسلمان اللہ کے حکم کو چھوڑ کر خلیفہ کے حکم کی پابندی کرتے ہیں اور مفتی حضرات بھی اسی راہ پر چلتے ہیں۔ اگر شیعہ، سنی، حنفی، شافعی، حنبلی اور اہلِ حدیث مسلک کے مسلمان آپس میں مل بیٹھ کر قرآن کے مطابق طلاق دینے پر غور کریں تو مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ لیکن طلاق کے بارے میں قرآن کا حکم نافذ کرنے کی بات سے پتہ نہیں کیوں علما بچ کر نکل جاتے ہیں۔

ماڈل نکاح نامے کو اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک پیش رفت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146