طلاق کی دھمکی

سمیہ رمضان

طلاق ایک ایسا خطرناک اور تباہ کن اقدام ہے جس سے پل بھر میں ہنستا بستا گھر اجڑ جاتا ہے۔ خوشی و مسرت غمی اور دکھ میں بدل جاتی ہے۔ طلاق پر سکون مستحکم خاندان کو اکھیڑ کے رکھ دیتی ہے۔ طلاق معاشرے میں سیاہ دھبے چھوڑدیتی ہے۔ بیوی کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے، بچے الگ حیران و پریشان ہوتے ہیں۔ ماں کے ساتھ رہیں تو باپ کی شفقت و نگرانی سے محروم۔ باپ کے پاس رہیں تو ماں کی مامتا اورمہربانی سے محروم۔ خاوند الگ پریشان اور مخبوط الحواس ہوجاتا ہے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے۔

مشکلات کا ایک ایسا چکر چل پڑتا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ یہ مشکلات دنوں اور مہینوں میں ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ سالہا سال تک رہتی ہیں۔ معاشرے کو طلاق کی وجہ سے کئی مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے۔ گھر نحوست کدے بن جاتے ہیں اور عدالتوں میں معاشرے کی معزز خواتین و حضرات ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ گھروں کے پردے کی باتیں عدالتوں میں برسرِ عام بیان ہوتی ہیں تو رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

ہم نے مسجد میں ہفتہ وار درسِ قرآن کے دوران اس پیچیدہ اور مشکل مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی۔ مسجد میں ہم تمام عورتوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ ہم جس زوال و پستی کا شکار ہیں اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آیاتِ قرآنی کے ذریعے زوال کے گڑھے سے نکلے۔ چنانچہ اس عہد کو وفا کرنے کے لیے جب اگلے ہفتے کے لیے قرآن کریم کی آیت کا انتخاب کرنے کا مرحلہ آیا تو ہم نے ایک بار پھر یہ کہا کہ قرآن کریم کی آیت پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی خواہشات اور اپنے ماحول کی بندشوں اور رسموں کی پروا نہیں کریں گے۔ اس مرتبہ ہم نے اس ارشاد ربانی کے بارے میں طے کیا:

یایہا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقواہن لعدتہن واحصوا العدۃ واتقوا اللّٰہ ربکم لا تخرجوھن بیوتہن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ وتلک حدود اللّٰہ ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا۔ (الطلاق: ۱)

’’اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ (زمانہ عدت میں) نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔ اِلاَّ یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا، وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے شایداس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے۔‘‘

آیت کی تلاوت کے بعد جب اس کی تفسیر بیان ہوئی تاکہ خواتین کو یہ معلوم ہوسکے کہ اس آیت پر کیسے عمل کرنا ہے اور آیت کے ذریعے اللہ کے واضح حکم کو کیسے نافذ کرنا ہے تو درس میں شامل ایک خاتون نے پکار کر کہا: ’’ذرا ٹھہریے! آپ لوگ کیا بات کررہے ہیں؟ کیا اس عورت کے لیے جس کا خاوند اسے طلاق دے دے، ضروری ہے کہ وہ عدت کے عرصے کے دوران اپنے (خاوند) کے گھر میں ہی ٹھہرے؟‘‘ میں نے اس خاتون پر واضح کردیا کہ مطلقہ کے لیے عدت خاوند کے گھر میں گزارنے کا حکم اللہ رحمان و رحیم نے دیا ہے تاکہ اس دوران موافقت کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ میاں بیوی اپنے گھر میں ایک ساتھ رہیں اور اپنے اپنے اہلِ خاندان کی مداخلت سے محفوظ رہیں تو شاید ان میں ساز گاری پیدا ہوجائے اور وہ ازسرِ نو خیروعافیت کے ساتھ رہنے لگیں۔ بیوی کا گھر سے نکل جانا یا اسے نکال دینا اشتعال کا سبب بنتا ہے، جس سے بہتوں کے دلوں کو تپش و حرارت پہنچتی ہے۔ غصہ، نفرت، اشتعال، مخالفت اور شکوہ و شکایت کا ماحول شیطان کے لیے موسم بہار ہوتا ہے۔ معاملات کی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے تو علیحدگی اور جدائی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ یوں شیطان کی خوشی کی کوئی حد نہیں رہتی۔

میری یہ ضاحت سن کر سوا ل کرنے والی خاتون نے بتایا: ’’ہائے میری بدبختی و بدنصیبی، کہ دین اسلام سے ناواقفیت میرے گھر کے اجڑنے کا سبب بنی۔ قرآن کریم سے میری لاعلمی نے میرے بچوں کو مجھ سے دور کردیا۔ میرے خاوند اور میرے درمیان معمولی سا اختلاف ہوا۔ بات بالکل چھوٹی سی تھی۔ اس بات سے میرا خاوند مشتعل نہ ہوتا مگر میںنے بلاوجہ کچھ ایسی باتیں کردیں کہ اس کا غیظ و غضب اپنی انتہا کو جاپہنچا۔ غصے کے سبب میرا شوہر ہوش و ہواس میں نہ رہا اور اس نے طلاق کا لفظ بول دیا۔ یہ لفظ سنتے ہی میںنے جلدی سے اپنا سامان باندھا اور گھر سے نکل پڑی۔ دل درد سے لبریز تھا اور آنکھیں آنسوؤں سے۔ میں جو نہی اپنے میکے پہنچی تو میری کہانی سن کر میرے میکے کا ہر فرد میرے خاوند سے میری توہین کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھا۔ میرے خاوند نے مجھے کہلا بھیجا کہ گھر چلی آؤ مگر میں نے اس کی یہ پیشکش حقارت سے ٹھکرادی۔ یوں میرے نفس نے، میری انانیت نے مجھے غوروفکر اور درست فیصلہ کرنے سے محروم کردیا۔

آپ نے جو آیت ابھی پڑھی ہے، میں یہ آیت کئی بار پڑھ چکی ہوں مگر افسوس کہ میں نے اسے سمجھنے کی ایک بار بھی کوشش نہ کی۔ مجھے نہ اس کی سمجھ آئی اور نہ میں نے کبھی اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ عدت گزرنے کے بعد، ہم میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔ عدت کے د وران اپنے گھر سے نکلنے کے گناہ کا ارتکاب بھی کیا۔ میں خاوند سے بھی محروم ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے صاف اور واضح حکم کی مخالفت کا گناہ بھی مول لیا۔

اس غمزدہ خاتون نے زاروقطار روتے ہوئے، آنسو بہاتے ہوئے کہا ہائے میری شامت و بدبختی! میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ لوگوں نے کتاب اللہ پر عمل کا جو عہد کیا ہے، اس پر مہربانی فرماکر سختی سے کاربند رہنا۔

یہ دکھ بھری داستان سن کر ہم نے ایک بار پھر آیتِ کریمہ پر عمل کرنے کے پختہ عہد کی تجدید کی اور پورے عزم کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہنے کا عہد کیا۔

کچھ عرصہ بعد ہم نے بہنوں سے طلاق کے بارے میں ارشاد رب العزت پر عمل کے تجربات سننے کا ارادہ کیا۔

ایک بہن نے کہا: ’’جب سے میں نے مولیٰ کریم کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ میرے قول و فعل پر آیت کریمہ ہی کی حکمرانی ہوگی تو میں ہمیشہ یہ دعا کرتی رہتی تھی کہ جب حقیقی عمل کا موقعہ آئے تو اللہ مجھے استقامت دینا تاکہ میں عملاً قرآن کے مطابق اقدام کروں۔ میرا خاوند جذباتی آدمی ہے، اکثر غصے میں آکر اول فول بکنے لگتا ہے۔ آیت کریمہ پر عمل درآمد کے دور سے پہلے تو میں بھی مشتعل ہوجاتی اور اسے ترکی بہ ترکی جواب دیتی۔ میں برداشت نہ کرتی۔ ہم میاں بیوی کی یہ حالت دیکھ کر ہمارا چھوٹا بچہ ہمیں دیکھتا، چپ چاپ رہتا، صدمے سے کچھ نہ بولتا تھا۔ ہم میاں بیوی اس کیفیت میں ایک دوسرے کی بات قطعاً نہ سنتے اور ہر کوئی اپنی بات پر اصرار کرتا۔

یہ منظر اب پھر سامنے آیا لیکن اب میرے دل کی کیفیت بدل چکی تھی۔ میں نے اللہ سے لو لگائے رکھی اور قرآن کریم کی آیات پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ آج میری پوری کوشش یہ تھی کہ میں خاوند کو مشتعل نہ کروں۔مجھ پر بے چینی و بے قراری کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ میں چاہتی تھی کہ گھر سے نکل کر اپنے گھر کے قریب واقع مسجد میں چلی جاؤں، مسجد ہی کو میں اپنی پناہ گاہ اور سکون وقرار کی جگہ سمجھتی تھی۔ کبھی یہ خیال آتا کہ اپنی کسی مسلمان بہن کے پاس چلی جاؤں تاکہ وہ ہمدردی کے چند بول بول کر مجھے تسلی دے اور میری ڈھارس بندھائے اور یوں میرے دل کو سکون و ٹھنڈک نصیب ہو۔ میری حالت تو یہ تھی، ادھر میرا خاوند آپے سے باہر ہورہا تھا، غصے کے مارے اس کا برا حال تھا، اس کی غضب آلود باتوں سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھے طلاق دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

کئی بار خاوند کو جواب دینے کا شیطانی خیال دل میں آیا مگر میں نے ہر بار اپنے اوپر قابو پالیا۔ میں نے اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح وتقدیس شروع کردی۔ میں ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتی رہی کہ اگر خدانخواستہ میرے خاوند نے طلاق کا لفظ منہ سے نکال ہی دیا تو پھر مجھے خاوند کے گھر میں یہیں رہنا ہوگا۔ میں تو چاہتی ہوں کہ مسجد میں جاؤں وہاں ہفتہ وار درسِ قرآن سنوں۔ عدت کے دوران تو میں گھر سے باہر نہ نکل سکوں گی۔ کیا میں درس قرآن کی مجلس سے بھی محروم ہوجاؤں گی۔ یہ خیال میرے لیے سوہانِ روح بن رہا تھا۔ درسِ قرآن کے حلقے نے تو میری زندگی کو ایسی تابندگی بخشی تھی جس کا میں اس سے پہلے تصور و احساس بھی نہ کرسکتی تھی۔ میں کثرت سے قرآن پڑھا کرتی تھی مگر اللہ کا کلام میرے گلے سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ میں تصورات کی دنیا سے باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ میرے بچے نے اپنے باپ پر نظریں گاڑ رکھی ہیں، گویا زبانِ حال سے اسے کہہ رہا ہے کہ وہ بھی امی کی طرح خاموش ہوجائے۔ میں نے بچے کو اپنی گود میں لے لیا اور اللہ سے دعا کرنے لگی کہ وہ خاوند کو پرسکون کردے۔

آہستہ آہستہ میرے شوہر کے غصے کا پارہ نیچے اترنے لگا اور وہ خاموشی سے اپنے کام کرنے لگا۔ پھر بیٹھ کر استغفار پڑھنے لگا جب کہ میں اپنی جگہ سے نہ ہٹی، تسبیح و ذکر میں مشغول رہی اور اللہ سے دعا کرتی رہی۔ بعد میں جب گھر میں محبت و سکون کا دور دورہ ہوگیا اور غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو میرے خاوند نے کہا: ’’میں بہت معذرت خواہ ہوں، مجھے برابر اس بات کا اندیشہ رہا کہ تم میری باتوں کا حسب عادت تابڑ توڑ جواب دوگی۔ آج طلاق کا لفظ میرے ہونٹوں کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ میں حیران ہوں کہ آج تم نے طلاق کا مطالبہ نہیں کیا۔ پہلے تو تم کہتی تھیں کہ مجھے طلاق دے دو، مگر میں نہیں دیتا تھا۔ آج میں نے سوچ رکھا تھا کہ تمہاری طرف سے طلاق کا مطالبہ ہوتے ہی میں تڑاق سے طلاق دے دوں گا۔ تم نے آج حسبِ معمول طلاق کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ میں نے جواب دیا: میرے رب نے مجھے اپنی کتاب کے ذریعے اور اپنے احکام کے ذریعے ادب سکھادیا ہے۔ میں پہلے سوچا کرتی تھی کہ طلاق سے مجھے آزادی مل جائے گی مگر میری سوچ اللہ کی کتاب کی عملی تعبیر سے یکسر متصادم تھی۔‘‘

اس بہن نے اپنی یہ داستان سنا کر ہمیں بتایا: ’’اس دن کے بعد سے اب تک ہم گھر میں خوش و خرم پیار و محبت سے رہ رہے ہیں۔ ایسا اتفاق، امن و سلامتی اور سکون و اطمینان ہمیں اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ شکر ہے کہ میری زبان اس دن قرآن کی برکت سے بند رہی اور میں نے خاوند سے یہ نہیں کہا کہ مجھے طلاق دے دو۔ پہلے مجھے شیطان طلاق کو خوش نما بناکر پیش کرتا تھا۔ وہ اسے میری آزادی قرار دیتا تھا۔ جب کہ فی الحقیقت طلاق تو پابندی ہے۔ اس واقعے کے بعد میرے خاوند میں بھی کافی تبدیلی آچکی ہے۔ اس کا رویہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اس نے اپنے غیظ و غضب اور نفرت و عناد پر قابو پالیا ہے کیونکہ میرے پرسکون ردِّ عمل پر اسے کافی کچھ معذرت کرنی پڑتی تھی۔‘‘

جب یہ بہن اپنا واقعہ سنا چکی تو حلقہ درس میں موجود خواتین میں سے ایک خاتون نے بات کرنے کے لیے اپنا سر اٹھایا، لیکن پھر شرما کر جلدی سے نیچے کرلیا۔ تھوڑی دیر تک وہ اس کشمکش میں مبتلا رہی، پھر ہمت کی اور بات کرنے کی اجازت طلب کی۔

اجازت ملنے کے بعد اس نے بتایا: ’’کہ میرا خاوند دل کا اچھا ہے مگر ہے غصے والا، اپنے فیصلوں میں جلد باز اور عجلت پسند۔ مجھے بھی اس سے کچھ کچھ نفرت تھی۔ اگر وہ میرے خلاف ایک بات کرتا تو میں اس کے خلاف دس باتیں کرتی۔ میں اس کو ہر کام پر ٹوک دیتی اور اسے شدید تنقید کا نشانہ بناتی۔ وہ اگر مجھے کوئی کام کرنے کے لیے کہتا تو میرے ردِّ عمل کے بعد اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کا واسطہ کسی چٹان سے پڑا ہے۔ ایک روز ہمارے درمیان تلخ کلامی نے شدت اختیار کرلی۔ بک بک اور جھک جھک کے ایک ایسے ہی دورے کے بعد اس نے مجھے آواز دی۔ میں سمجھی کہ شاید میرے ساتھ صلح صفائی کرنا چاہتا ہے میں نے اس کی طرف توجہ کی تو میرا نام لے کر کہنے لگا: ’’تمہیں طلاق ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’تم کیا کہہ رہے ہو؟ میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ میرے پانچ بچے ہیں۔ ان کا انجام کیا ہوگا؟ طلاق کا لفظ تم نے کتنی آسانی سے کہہ دیا ہے۔ میری ان باتوں کا اس پر بالکل اثر نہیں ہورہا تھا۔ گویا میرا چیخنا چلانا بے سود اور فضول تھا۔ میں جلدی سے اپنے کمرے کی طرف لپکی، اور انتہائی غصے کی حالت میں اپنے سوٹ کیس میں خاص خاص کپڑے رکھنے لگی۔ اس دوران بچے رو رہے تھے، چلا رہے تھے۔ ان کے رونے کی آواز سن کر سنگ دل سے سنگ دل شخص کا دل بھی پسیج جاتا۔ میں نے اپنا سوٹ کیس بند کیا تو اس کے ساتھ ہی ا س ظالم شخص کی طرف سے اپنے دل کو بھی بند کرلیا۔

جونہی میں نے گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کے اس حکم نے باہر جانے سے روک دیا: ’’ولا یخرجن‘‘ (اور نہ وہ خود نکلیں)۔ میں دروازہ بند کرکے کمرے میں بیٹھ گئی اور سوچنے لگی یا اللہ! اب میں کیا کروں؟ میں مسلسل رو رہی تھی، میرے پاس میرے بچے بیٹھ کر مجھے تسلی دینے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ میرے آنسو پونچھ رہے تھے۔ جب مجھے قدرے سکون ہوگیا تو خاوند کمرے کے دروازے کے پاس آکر کہنے لگا: ’’تم گئی کیوں نہیں؟ کیا میں نے تمہیں طلاق نہیں دے دی؟‘‘ میں نے اس سے بڑے انکسار سے کہا: ’’ایک بہت بڑی چیز مجھے جانے سے رو ک رہی ہے؟‘‘ اس نے تمسخر کرتے ہوئے کہا: ’’یہ بہت بڑی چیز کیا ہے؟‘ میں نے کہا: ’’اللہ، اللہ نے اپنی ایک آیت کے ذریعے مجھے جانے سے روک رکھا ہے۔‘‘ خاوند بولا: ’’اب تم قرآن کی بات کررہی ہو۔ تم جب پہلے میری حکم عدولی کرتی تھیں اور میرے حقوق کو نظر انداز کرتی تھیں تو اس وقت تمہیں قرآن یاد نہیں آتا تھا؟ اب تم ایک طلاق یافتہ عورت ہو اور تمہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا: ’’یہ تو آپ کہہ رہے ہیں اور اس گھر کا مالک کچھ اور کہہ رہا ہے۔ وہ تو طلاق دینے والے مردوں کو مخاطب ہوکر فرما رہا ہے:

ولا تخرجوہن من بیوتہن ولا یخرجن۔ (الطلاق:۱)

’’نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔‘‘

اللہ کا یہ حکم مجھ پر بھی نافذ ہے اور آپ پر بھی۔ میرے لیے اتنی سزا کافی ہے جو میں نے قرآن کے مطابق نہ چل کر پالی ہے۔‘‘ جب میرے خاوند نے دیکھا کہ میںیہاں ہی رہنے پر بضد ہوں تو اس نے بھی اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

میری عزیز بہنو! میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ رہنے پر بہت خوش ہوں۔ میرے مشکل دن گزر گئے۔ میری اب یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ممکن طریقہ سے اپنے خاوند کو خوش کروں اور اس کے کھانے پینے، لباس اور راحت و آرام کا خیال رکھوں۔ مجھے افسوس ہے کہ پہلے میرا طرزِ عمل درست نہیں تھا۔ مجھے اپنے سابقہ رویے پر سخت ندامت ہے۔ میں اس قصور و کوتاہی کی تلافی کے لیے خاوند کی زیادہ خدمت کرتی ہوں، نوافل اور استغفار کرتی ہوں۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ اب مجھے اتنی فرصت دے کہ میں اپنی خدمت و محبت سے اپنے خاوند کا دل جیت لوں۔ وہ فی الحقیقت ایک اچھا آدمی ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس کی شرافت کو اس کی کمزوری نہ سمجھوں۔

اپنے خاوند کے ساتھ طلاق کے بعد رہنے کے قرآنی حکم پر عمل کرنے کا خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ میرے خاوند نے میرے ساتھ بول چال شروع کردی۔ آہستہ آہستہ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے اور ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک ماہ کے بعد ہی گھر سکون و قرار اور محبت و پیار کا گہوارہ بن گیا۔ میرے خاوند نے طلاق سے رجوع کرلیا تھا۔ اس کے اس اقدام نے میری مسرتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا، میری دعائیں رنگ لائیں اور قرآن کی برکت سے میری زندگی، میرا گھر، میرے بچے اور میرا خاندان ایک بہت بڑے معاشرتی المیے سے بچ گئے۔ میرے بچے بھٹکنے اور نفسیاتی مریض بننے سے بچ گئے۔ میں بے حد خوش و خرم ہوں اور کہتی ہوں کہ میرے سچے دانا رب نے کس قدر درست فرمایا تھا:

لعل اللّٰہ یحدث بعد ذ لک امرا۔ (الطلاق:۱)

’’شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کردے۔‘‘

یہ تھا اس متأثرہ خاتون کاواقعہ۔ میں نے یہ سن کر بارگاہِ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا۔ کیا عظمت ہے آیاتِ قرآنی کی۔ ہم نے جب اپنے ہفتہ وار درس قرآن میں یہ تجربات سنے، دیکھے تو اللہ حکیم کی حکمت اور اللہ علیم کے علم پر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تنہا اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہماری جہالت اور ناسمجھی سے جنم لینے والے تمام مسائل حل کردے۔ اللہ کی مضبوط رسی ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے علم و دانش کی روشنی میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آیاتِ قرآنی کے مطابق چلیں اور ہمارا ردِّ عمل اللہ رحمان کے احکام کے مطابق ہو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں