تعلیم انسان کا زیور ہے اور طالب علمی کا دور زندگی کا حسین ترین مگر نازک اور فیصلہ کن دور ہے۔ اس دور میں جہاں انسان علوم و فنون کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے وہیں زندگی کی قدریں ، زندگی جینے کے طریقہ، برتاؤ اور معاملات کا علم حاصل کرتا ہے۔ اسی دور میں اس کے ذہن و فکرکے سانچے تیار ہوتے ہیں اور مستقبل کی زندگی کا رخ اور اس کی شاہراہ متعین ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اور لادین ممالک بھی اپنے تعلیمی نظام میں اخلاقی قدروں کی تعلیم کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا نظام تعلیم اخلاق و اقدار کی جو تعریف کرتا ہے وہ کھوکھلی، بے روح اور بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغربی ممالک ہی کا نہیں بلکہ اس پوری دنیا کا جو ان کے نظام کی کسی بھی حد تک پیروی کررہی ہے نظام تعلیم بے سمتی و بے راہ روی کا شکار ہے۔ وہ اخلاق و کردار کی تعلیم دینے کے بجائے فکری و عملی فساد کا ذریعہ بن گیا ہے۔ ملک کے لیے ذمہ دار شہری تیار کرنے کے بجائے خواہشات نفس اور پیٹ کے غلام پیدا کررہا ہے اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جدوجہدکرنے والوں کے بجائے اس کی تباہی و بربادی کا سامان پیدا کرنے والے انسان تیار کررہا ہے۔ اور آج دنیا کے ہر گوشہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ تشدد، غیر ذمہ داری، جرائم کا ارتکاب اور منشیات کااستعمال کرنے والا سب سے بڑا گروہ طالب علموں ہی کا گروہ ہے۔
امریکہ جو آج کی نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کا تن تنہا قائد ہے خود اس قسم کی پریشان کن صورتحال سے گذررہا ہے۔ اور تماشہ یہ ہے کہ پوری دنیا آنکھیں بند کیے اس کے پیچھے بھاگی جارہی ہے۔
گذشتہ دنوں پریس کے ذریعہ دئے گئے اعدادو شمار اس نظام کے سربراہوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں۔ ’ٹائمس آف انڈیا‘ کے ذریعہ پیش کی جانے والی ایک رپورٹ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گذشتہ چھ سالوں کے درمیان امریکہ کے مڈل اور ہائی اسکول کے طلبہ میں تمباکو اور الکحل کے استعمال میں زبردست اضافہ ہوا ہے جب کہ والدین اور سرپرستوں کا خیال ہے کہ اس صورت حال کے انسداد کے لیے جو اقدامات کیے گئے وہ بے حیثیت ہیں۔
امریکہ کے مڈل اور ہائر اسکولوں کے کئے گئے ایک سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ اسکول کے ۸۷ فیصد طلبہ تمباکو نوشی کو اور ۸۸ فیصد طلبہ شراب کے استعمال کو زیادہ آسان تصور کرتے ہیں۔
امریکی معاشرہ کا دوسرا بڑا مسئلہ تشدد اور غیر ذمہ دارانہ طرز فکروعمل ہے۔ یہاں پر صورتحال یہ ہے کہ اسکولی طلبہ میں بعض ایسے بھی ہیں جو اپنی کاپی کتابوں کے ساتھ ساتھ بستہ میں ریوالور بھی لے کر اسکول جاتے ہیں۔ ایسے میں ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ پچپن اور نوعمری کے عام جھگڑوں کے درمیان ان کا طرز عمل کیا ہوتا ہوگا۔ ابھی چند سالوں قبل کا ایک واقعہ تو قارئین کے ذہن میں ہوگا ہی جس میں ایک طالب علم نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر بھیڑ بھاڑ والی سڑک پر گذرنے والے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور کئی افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ بعد میں جب پولیس نے اسے گرفتار کرکے اس کا سبب جاننا چاہا تو وہ صرف اتنا کہہ سکا کہ اسے یہ اچھا لگتا ہے۔
یہ ایک دھندلی سی تصویر ہے اس معاشرہ کی جس کے پیچھے آج پوری دنیا بگ ٹٹ بھاگی جارہی ہے۔ جب کہ وہ معاشرہ خود ہمیں اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ اس کے انجام پر غوروفکر کریں اور خود کو اس کے تباہ کن انجام سے بچانے کی راہیں تلاش کریں۔
طلبہ قوم کا مستقبل ہیں ان کی شخصیتوں کی تعمیر اور تباہی سے بچانے کی فکر کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ اور اس ذمہ داری سے ہم کسی بھی صورت میں خود بری نہیں سمجھے جاسکتے۔ اس لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے بچوں کے اندر کس قسم کی افکار و خیالات پروان چڑھ رہے ہیں۔ اور اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ ان کے اندر مستحکم شخصیت، صالح افکار و خیالات اور بلند نگاہی پیدا ہو تاکہ وہ اپنی ذات کے خول سے نکل کر ملک و ملت کی تعمیر کے خواہاں ہوسکیں۔