اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ یہ نصف ایمان ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ۔ (البقرۃ)
’’ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو پاک و صاف رہنے والے ہیں۔‘‘
زندگی کو حقیقی حسن سے آراستہ کرنے اور شائستہ بنانے کے لیے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی پاکیزگی کی ضرورت ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھ کر آدمی کفر و شرک اور معصیت و گمراہی کی نجاستوں سے پاک ہونے کا عہد کرتا ہے اور جو شخص سوچ سمجھ کر یہ عہد کرتا ہے ایسے ہی شخص کو اپنے جسم کو پاک و صاف رکھنے کی فکر ہوتی ہے کیونکہ جسم کے صاف ستھرا رہنے سے انسان کی روح بھی پاکیزگی پسند بن جاتی ہے اور وہ بہت سی ایسی ظاہری و روحانی غلاظتوں سے محفوظ رہتا ہے جو دوسروں کو بہ آسانی لگ جاتی ہیں۔
اسلام کا مزاج کس قدر صفائی پسند ہے اور اسے معاشرے میں کس قدر فروغ دینا چاہتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے لازمی صفائی کے لیے ہفتہ کا ایک دن مخصوص کیا پھر اس میں صفائی ستھرائی حاصل کرنے اور اس سے متعلق اعمال کی انجام دہی کو تقویٰ اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بتاتے ہوئے مغفرت اور نجات کی سبیل قرار دیا اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلم معاشرہ کا ہر مومن ہفتہ میں ایک روز لازمی طور پر ظاہری صفائی ستھرائی کا مکمل اہتمام کرے اور اس کا پرتو خود اس کی ذات پر اور پورے مسلم سماج پر بھی نظر آنا چاہیے۔
اور اس کے بعد دن میں پانچ مرتبہ وضو کو لازمی قرار دیا تاکہ انسان ہر وقت صاف ستھرا رہے اور اس وضو کو محض کوئی رسمی چیز قرار نہیں دیا بلکہ اس کے اہتمام اور بہ حسن و خوبی انجام دینے کو گناہوں سے پاکی کا ذریعہ قرار دیا اور اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی مومن ایسا نہ ہو جو دن میں چند گھنٹے بھی مسلسل طور پر پاکی و صفائی کے حصول سے غافل رہ سکے۔
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مسلمان پر خدا کا یہ حق ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک بار غسل کرے، سر اور بدن کو دھوئے۔‘‘ حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جمعہ کے دن ہر بالغ جوان کے لیے غسل لازمی ہے۔ مسواک کرنا اور خوشبو لگانا بھی، اگر میسر ہو۔‘‘ (بخاری و مسلم) حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے وضو کیا اور بتائے ہوئے طریقے کے مطابق خوب اچھی طرح وضو کیا تو اس کے سارے گناہ نکل جائیں گے یہاں تک کہ اس کے ناخون کے نیچے سے بھی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت سلمانؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن نہایا دھویا اور اپنے بس بھر طہارت و نظافت کا پورا پورا اہتمام کیا پھر اس نے تیل لگایا، خوشبو ملی پھر دوپہر ڈھلے مسجد میں جا پہنچا اور (مسجد میں جاکر صف میں بیٹھے ہوئے) آدمیوں کو ایک دوسرے سے نہیں ہٹایا۔ پھر نمازپڑھی جو اس کے لیے مقدر تھی، پھر جب امام اٹھا تو چپ چاپ بیٹھا سنتا رہا تو تو اس شخص کے وہ سارے گناہ بخش دئے جائیں گے جو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس سے سرزد ہوئے تھے۔‘‘ (بخاری)
نبیؐ نے اپنی شخصی زندگی میں پاکی و صفائی کا جس قدر اہتمام کیا اور امت کو اس کی تلقین کی اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی آپ نے ذکر کیا اور امت کو اس کی طرف توجہ دلائی۔ آپؐ نے بار بار مسواک کرنے اور دانت صاف کرنے کی تلقین فرمائی۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ’’ہم نبی ﷺ کے لیے وضو کا پانی اور مسواک تیار رکھتے تھے جس وقت بھی خدا کا حکم ہوتا آپؐ اٹھ بیٹھتے اور مسواک کرتے پھر وضو کرکے نماز ادا فرماتے تھے۔‘‘ (مسلم)
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مسواک منہ کو صاف کرنے اور خوشنودی رب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘ (نسائی)
اللہ کے رسول ﷺبالوں میں کنگھا کرنے اور تیل ڈالنے کا بھی بڑا اہتمام فرماتے تھے۔ داڑھی کے بڑھے ہوئے بالوں کو درست فرماتے، ناخن ترشواتے اور اگر کسی کو اس کے خلاف دیکھتے تو کراہت محسوس فرماتے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں حضور ﷺ ملاقات کی غرض سے تشریف لائے تو آپؐ نے ایک آدمی کو دیکھا جو گردو غبار سے اٹا ہوا تھا اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا اس آدمی کے پاس کنگھا نہیں ہے جس سے یہ اپنے بالوں کو درست کرلیتا۔‘‘ آپؐ نے ایک دوسرے آدمی کو دیکھا جس نے کپڑے میلے پہن رکھے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کیا اس آدمی کے پاس وہ چیز (صابن وغیرہ) نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولیتا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
اللہ تعالیٰ کی ذات عظیم خود انتہائی پاک اور پاکی پسند ہے اسی لیے وہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کے لیے سخت وعیدیں ہیں جو اس کا اہتمام نہیں کرتے۔ اور چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی اس سے غفلت برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے امت کو اس عذاب سے بھی آگاہ کیا ہے جو اس غفلت برتنے والوں کو لاحق ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کا گذر دو قبروں سے ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ جو دو آدمی ان قبروں میں مدفون ہیں ان پر عذاب ہورہا ہے اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے ان پر عذاب نہیں ہورہا ہے جس کا معاملہ بہت مشکل ہوتا (یعنی جس سے بچنا بہت دشوار ہوتا بلکہ یہ دونوں اپنے ایسے گناہوں کی پاداش میں عذاب دئے جارہے ہیں جس سے بچنا کچھ زیادہ مشکل نہ تھا) ان میں سے ایک کا گناہ تو یہ تھا کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ کی یا پاک صاف رہنے کی کوشش اور فکر نہیں کرتا تھا۔ اور دوسرے کا گناہ یہ تھا کہ وہ چغلیاں لگاتا پھرتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے کھجور کی ایک تر شاخ لی اور اس کو بیچ سے چیر کر دو ٹکڑے کیا پھر ہر ایک قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ یہ آپؐ نے کس مقصد سے کیا؟ آپؐ نے فرمایا: امید ہے کہ جس وقت تک شاخ کے یہ ٹکڑے بالکل خشک نہ ہوجائیں ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کردی جائے۔‘‘ (بخاری و مسلم)