ظلم کی سزا

قاضی محمد سعید

میرے ایک عزیز دوست غنی صاحب اور میں، ایک ہی محکمے میں تقریباً چالیس برس اکٹھے کام کرتے رہے ہیں۔ اب وہ بھی ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور میں بھی۔ اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں۔ بڑے تجربہ کار اور مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل ہیں۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا: غنی صاحب! آپ کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جو اب تک آپ کے ذہن میں ہو؟‘‘ انھوں نے قدرے تامل کیا، پھر کہنے لگے:’’ایک واقعہ ایسا ہے جو ناقابلِ فراموش ہے، مگر سناؤں گا پھر کسی دن۔ آج میں ذہنی طور پر تیار نہیں۔‘‘ میں نے ان سے وعدہ لے لیا۔

اگلے دن غنی صاحب تشریف لائے اور معمول کی گپ شپ کے بعد کہنے لگے: ’’آج سے تقریباً بیس برس پہلے میں پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک دوست کے یہاں مہمان ہوا۔ میزبان دوست باتوں باتوں میں کسی خیال سے رنجیدہ ہوگیا اور ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ آپ اتنے مغموم ہوگئے ہیں۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ: ان کا ایک قریبی عزیز جو قریب کے گاؤں میں اچھی خاصی زمین کا مالک تھا، پھانسی پاگیا ہے اور اس کی میت گزشتہ روز ہی دفن کی گئی ہے۔ مرنا تو سب کو برحق ہے لیکن اس کی موت کا واقعہ نہایت عبرت ناک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کے حالات سے ہر کسی کو محفوظ رکھے۔

’’پھانسی پانے والے شخص کا نام شہداد تھا۔ اس کا باپ اس وقت فوت ہوگیا تھا جب وہ دس برس کا تھا۔ وہ اکلوتا لڑکا تھا، ماں باپ کا لاڈلا۔ باپ کی وفات کے بعد اس کا اٹھنا بیٹھنا آوارہ قسم کے لڑکوں کے ساتھ ہوگیا۔ ماں نے اسے سدھارنے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ زمین کی آمدنی معقول تھی اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا۔ اس نے جی بھر کے آوارگی شروع کردی۔ بتدریج اسے جوئے بازی کی لت پڑ گئی۔ اب وہ اٹھارہ برس کا کڑیل جوان تھا، اور بڑے بڑوں کے منہ آنے لگا تھا۔

رفتہ رفتہ اسے رستہ گیر اور راہزن ساتھیوں کا گروہ مل گیا اور تھوڑے عرصے میں وہ ان کا سردار بن گیا۔ قرب و جوار کے دیہات میں ڈاکہ ڈالنا ان کا مشغلہ بن گیا۔ کئی بار پولیس نے اسے گرفتار کیا، مگر عدم ثبوت کے باعث بری ہو جاتا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کئی دلہنوں کے سہاگ اجاڑے اور کئی معصوم بچوں کو یتیم بنایا، لیکن قانون کی گرفت سے بچتا رہا، قدرت نے بھی ظالم کی رسی دراز کر رکھی تھی، مگر اب وقت آگیا تھا کہ قدرت نے رسی کھینچ لی۔

شہداد ایک آسودہ حال کسان کا بیٹا تھا۔ اس نے مویشیوں کے لیے ایک باڑہ بنا رکھا تھا، جس کی نگرانی کے لیے ایک ملازم تھا۔ اس کا نام کالو تھا۔ کالو نے ایک دن مویشیوں کے باڑے میں دیکھا کہ وہاں کتیا نے بچے دیے ہوئے ہیں۔ وہ انھیں ٹھکانے لگانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں شہداد وہاں آگیا۔ کالو نے مالک کو بتایا کہ یہاں کتیا نے بچے دیے ہیں۔ شہداد کو بہت تاؤ آیا۔ اس نے ملازم سے کہا کہ ان کو یہاں سے اٹھا کر حویلی کے باہر رکھ دے۔ کالو نے ایسا ہی کیا۔کتیا اس وقت باہر تھی۔ وہ لوٹ کر آئی تو بچوں کو پھر اٹھا کر اسی باڑے میں لے آئی۔ کالو نے زمیندار کو بتایا کہ بچے پھر وہیں موجود ہیں۔ شہداد کو بہت طیش آیا۔ اس نے کالو سے کہا کہ اب جس وقت کتیا باہر جائے اس کے بچوں کو حویلی سے دور چھوڑ آئے۔ کالو انہیں دور چھوڑ آیا لیکن اگلی صبح انہوں نے دیکھا کہ کتیا مع بچوں کے باڑے کے اندر موجو دہے۔ شہداد نے یہ منظر دیکھا تو اس کا خون کھول اٹھا۔ کتیا کے باہر جانے پر اس نے کالو سے کہا کہ ان پلوں کو ایک بوری میں بند کرو اور میرے ساتھ آؤ، چنانچہ کالو نے پلے بوری میں ڈالے اور اٹھا کر زمیندار کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ خاصی دور جاکر ایک جگہ وہ رکے۔ زمیندار نے کالو سے کہا کہ بوری کا منہ بند کرکے اسے وہاں پھینک دے۔ یہ کام کرنے کے بعد وہ واپس آگئے اور کتیا کا ردعمل دیکھنے لگے۔ کتیا نے جب اپنے بچے نہ دیکھے تو ادھر ادھر کھیتوں میں دوڑنے لگی اور بچوں کو تلاش کرنے لگی۔آخر اسے پتہ چل گیا اور وہ بو سونگھتی بوری کے پاس چلی گئی۔ سخت سردی کے باعث بچے مرنے لگے تھے۔ کتیا نے بوری دانتوں سے پھاڑنی شروع کی، لیکن بچے مرے ہوئے تھے۔ وہ وہیں بیٹھ گئی اور اس نے آسمان کی طرف منہ کرکے دردناک آوازیں نکالنا شروع کیں۔ گویا خدا سے فریاد کررہی ہو۔ سخت سردی میں وہ دو دن وہیں بیٹھی روتی رہی۔

ادھر زمیندار اپنے طور پر مطمئن ہوگیا تھا کہ اب کتیا اور اس کے بچوں سے نجات مل گئی ہے۔ دو روز بعد اس نے دیکھا کہ وہی کتیا اور اس کے بچے اس کی گردن پر سوار ہیں۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور گھبراہٹ میں حویلی سے باہر نکل گیا۔ اس نے اس جگہ جانے کا ارادہ کیا۔ جہاں اس نے کتیا کے بچوں کو بوری میں بند کرکے پھینکا تھا۔ اس نے دیکھا کہ کتیا بھی مرچکی ہے۔ اور اس کی لاش بھی وہاں پڑی ہے۔ اب اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوگیا۔ وہ گھر لوٹا، لیکن اسے نیند نہ آسکی۔ اگلے دن جیسے ہی اس کی آنکھ لگی، کتیا اور اس کے پلے خواب میں اس کی گردن پر سوار تھے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، اور باہر نکل گیا، اس نے دیکھا کہ اس کی حویلی کے قریب ہی کھیت میں ایک لاش پڑی ہے۔ وہ لاش کے قریب گیا تو معلوم ہوا کہ یہ اس کے گروہ کے ایک آدمی کی ہے۔ وہ حیران ہوا کہ اسے کس نے قتل کرکے یہاں پھینک دیا ہے۔ وہ ابھی وہیں کھڑا تھا کہ پولیس پہنچ گئی اور اسے گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اسے خواب کے واقعات کے بعد یقین ہوچلا تھا کہ اب وہ نہیں بچ سکے گا۔ اسے رہ رہ کر کتیا اور اس کے بچوں پر ڈھایا گیا ظلم یاد آرہا تھا اور اس کو یقین ہوچلا تھا کہ اب قدرت کا انتقام شروع ہوچکا ہے۔ جب بھی اسے اونگھ آتی، کتیا مع بچوں کے اس کے سر پر سوار دکھائی دیتی تھی جو اسے نوچ رہی ہوتی۔ اب یہ صورت ہو چلی تھی کہ وہ جاگتے میں بھی محسوس کرنے لگا کہ کتیا اور اس کے بچے اس کی گردن پر سوار ہیں اور اسے نوچ رہے ہیں۔ وہ روتا اور لوگوں سے کہتا کہ مجھے اس کتیا اور اس کے بچوں سے بچاؤ۔ انہیں میری گردن سے علیحدہ کرو۔

وہ ہذیان میں مبتلا ہوچکا تھا۔ اس نے سب کو منع کردیا کہ اس کے مقدمے کی پیروی نہ کی جائے، اس نے عدالت میں اقبال جرم کرلیا، حالانکہ یہ قتل اس نے نہیں کیا تھا، لیکن وہ ذہنی اور روحانی اذیت سے چھٹکارا حاصل کرنا اور جلد از جلد موت کو گلے لگانا چاہتاتھا، چنانچہ اسے پھانسی کی سزا ہوئی اور یوں وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں