س: فلسطین، مصر اور عراق میں اسلام پسندوں کو انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔ حال اور مستقبل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں؟
ج: اثرات پرگفتگو کرنے سے پہلے ان پس پشت عوامل پر گفتگو ضروری ہے جو اسلام پسندوں کو اس مقام پر لائے ہیں۔ انتہائی اختصار کے ساتھ میں کہوں کہ تحریکاتِ اسلامی کے آگے آنے کا سب سے بنیادی سبب ہے دیگر مشرقی یا مغربی رجحانات کا زوال۔ سرمایہ داری اور کمیونزم میں یہ قدرت نہیں ہے کہ وہ عالم عرب و اسلام کو اس نقصان سے بچا سکیں جس میں وہ مبتلا ہے۔ یا جن مشکلات و مصائب میں وہ گرفتار ہیں ان کا کوئی بنیادی حل پیش کرسکیں۔ بالخصوص اقتصادی و اجتماعی مسائل کا کوئی حل پیش کرسکیں۔ اس لیے ان دوبڑی تہذیبوں کے سقوط کے بعد اسلام کی جانب واپسی اور اس پر قائم رہنے کے علاوہ اور کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ یہی وہ موقع ہے جس نے اسلام پسندوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی بنیادیں مستحکم کریں اور اسلام کو فکری و نظری مرحلے سے نکال کر عمل کی دنیا میں لائیں۔
تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے کاموں پر اس بات کا عکس نظر آئے گا۔ کیونکہ اقتدار میں تحریکاتِ اسلامی کی کامیابی مقامی و علاقائی مہمات کی ادائیگی سے زیادہ عالمی پیمانے پر اس مہم کو انجام دینے کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ اسلام پسندوں کی یہ کامیابی اس بات کا اعلان ہیں کہ آئندہ عالمی تہذیب کا گہوارہ اسلام ہوگا۔ یہ بات بیشتر اقوام کو اسلام کی جانب متوجہ کررہی ہے اور لوگ اسلام کے مطالعے اور اس سے واقفیت میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
اسلام کی فتح اور اسلام کی جانب لوگوں کا متوجہ ہونا ایک ایسے عالمی نظام کی طرف لے جائے گا جس کی بنیاد عدالت اجتماعی (Social Justice) پر ہوگی نہ کہ موجودہ نظام کی مانند تنگ دلی اور سنگ دلی پر۔
س: کیا آپ کو حال ہی میں کامیاب ہونے والی اسلامی تحریکات اور ان طاقتوں کے درمیان تصادم کا اندیشہ نہیں ہے جو سو برس سے زیادہ عرصے سے اقتدار پر قابض ہیں؟
ج: مجھے اس کا صرف اندیشہ ہی نہیں ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ ایسا ہوگا۔ عبادت گاہوں کے پجاری اور تنظیموں و جماعتوں کے سربراہ اپنے مناصب سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ان کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنا منصب چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ چنانچہ کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ اسی کشمکش کا برپا ہونا یہاں بھی فطری ہے۔ چنانچہ مصر میں مختلف طریقوں اور زیادتیوں کے ذریعہ اسلام پسندوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی کوششیں کی گئیں۔ کیونکہ اگر اسلام اقتدار تک پہنچ گیا تو ان جماعتوں کی برائیاں طشت از بام ہوجائیں گی۔
دونوں فریقوں کے درمیان یہ تصادم اور کشمکش اسلام پسندوں کے اقتدار تک پہنچنے سے پہلے سے جاری ہے۔ اور اگر انھوں نے اقتدار حاصل کرلیا تو ان پر مخالفین کا حملہ شدید تر ہوجائے گا۔ لیکن اسلام پسند تحریکات کی حکمت و پالیسی اور عوام کی مشکلات و مسائل پر فوری قابو حاصل کرنے سے ممکن ہے کہ عوام ان کے ہی پالے میں آجائیں۔ خاص طور سے اس وقت اس کا امکان ہے جب وہ عوام کے روز مرہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں مثلاً روزگار کے مسائل، معاشی مسائل، تعلیم و صحت کے مسائل اور امن وغیرہ۔ اگرچہ یہ تصادم موجود ہے۔مگر اسلام پسندوں کے لیے ممکن ہے کہ وہ ثابت قدم اور جمے رہیں بشرطیکہ وہ نظام حکومت کو صحیح طریقے سے چلائیں۔ یہی مرحلہ ہے جب کہ حکومت ممکن ہوسکتی ہے اور عوام کا ایسا مضبوط حلقہ بن سکتا ہے جو تمام زیادتیوں سے ان کو محفوظ رکھ سکے۔
س: مقامی طور پر تو اسلام پسندوں کی کامیابی نظر کے سامنے ہے لیکن عالمی سطح پر ہم کسی ایک پالیسی یا منصوبہ پر اسلامی حلقے میں اتحاد و اتفاق نہیں دیکھ رہے ہیں جو متحدہ عالمی پابندیوں اور اڑچنوں کا مقابلہ کرسکے؟
ج: یہ ایک قدیم حقیقت ہے جو اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر کوئی اسلامی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ بعض عالمی پیمانے کی اسلامی تحریکات ہیں جو صرف بین الاقوامی انداز ، اور طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں تاکہ وہ ’عالمی‘ تحریک بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسلامی مشن کے حوالے سے مقامی و علاقائی پروگرام ہی دیکھتے ہیں جو ابھی تک عالمی و بین الاقوامی صورت نہیں اختیار کرسکے۔ حالاں کہ مسلمان اور اسلام پسند تحریکیں جن چیزوں کا سامنا کررہی ہیں وہ سب بین الاقوامی ہی ہیں نہ کہ مقامی و علاقائی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی چیلنجوں کے مقابلے کے لیے بین الاقوامی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کسی مقامی، علاقائی یا ریاستی منصوبہ بندی سے ان کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔
چیلنجوں کے مناسب حال اسلام کے موافق فضا تیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میدان کا انتظام ایک متحدہ منصوبے کے تحت ہو۔ یہ چیز اسلامی قوت کو حاصل کرنے اور اسے محفوظ رکھنے میں بھی معاون ہوگی۔ تاکہ عالمی و بین الاقوامی پروگرام میں وہ اپنا صحیح مقام پالے اور ملت اسلامیہ کے اندر سے ظاہری اختلافات ختم ہوجائیں۔
اصل اور مشکل مسئلہ اسلامی پلیٹ فارم کی وحدانیت کا ہے جس کی وجہ بین الاقوامی منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے۔اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسی کسی منصوبہ بندی کے نہ ہونے کی وجہ بعض اسلامی تحریکات کا کوئی ایک خاص رخ اختیار کرلینا ہے۔ اس چیز نے اسلامی مشن کے میدان میں مختلف گروہ پیدا کردیے ہیں جن کی حالت دن بہ دن گویا بموں کی سی ہوتی جارہی ہے جو اسی میدان میں پھٹ جائیں۔ یہی صورت حال ہے جس سے ہم لبنان اور بیشتر عربی و اسلامی ممالک میں دوچار ہیں۔ اس حیثیت سے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ اسلام پسندوں اور امریکی و صہیونیوں کے درمیان تصادم و کشمکش کے بجائے اسلامی تحریکات کے درمیان ہی آپسی تصادم نہ شروع ہوجائے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ایک بین الاقوامی منصوبہ و پروگرام ہو جو اجتماعی، ثقافتی، سیاسی، جہادی و معاشی ہر اعتبار سے مکمل و جامع ہو۔ اور ایک بین الاقوامی مرکزی قیادت کی ضرورت بھی ہے جس کا کسی علاقے یا ملک سے کوئی تعلق نہ ہو کہ وہ اسی کے کاموں اور مسائل، میں مشغول رہے۔
س: جو کچھ کامیابی ہمیں حاصل ہوئی ہے کیا اس کے بعد ہمیں اسلامی و مغربی تہذب کے ٹکراؤ کا سامنا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ان کامیابیوں کے نتیجے میں مغرب سے گفتگو، مفاہمت اور مشترک پلیٹ فارم جیسی کوئی چیز قائم ہوگی؟
ج: بنیادی طور پر میں ’’مغرب سے ٹکراؤ‘‘ کی اصطلاح کے خلاف ہوں۔ ہمارا تصادم یا ٹکراؤ جماعتوں اور لیڈران سے ہوتا ہے۔ لیکن اسلام جس کے ہم علمبردار ہیں اس کے یہاں ’’مغرب کے خلاف حملہ آور ہونے کا کوئی عنوان‘‘ مطلقاً ہے ہی نہیں۔ اسلام تو تمام عالم کے لیے رحمت ہے۔ اور ہمارا اپنا اور پوری دنیا کا مفاد اسی میں ہے کہ ہم مغرب کے سامنے اسلام کو اس کی تہذیبی شکل میں پیش کریں اسی طرح جس طرح ہم مشرق کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ اسلام ایک عالمی دین ہے۔ اگر ہم مغرب کو اپنا دشمن تصور کیے رہیں تو ممکن نہیں کہ اسلام عالمی دین بن کر رہے۔ پھر مغرب میں اصحاب اقتدار و قوت مختلف ہیں۔ پورا مغرب ایک سا نہیں ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک کے درمیان بہت فرق ہے۔
چنانچہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے لیے اپنے دروازے کھولیں اور اہل مغرب سے گفتگو کریں اور ان کے سامنے اسلام کو پیش کریں تاکہ وہ اس سے واقف ہوں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکمراں جماعتیں اپنا وجود باقی رکھنے کے لیے اسلام کو ناپسندیدہ شکل میں پیش کرتی اور لوگوں کو اس سے متنفر کرتی ہیں۔ اس کے لیے بہت سے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ عراق میں کیا گیا۔ سی آئی اے اور موساد وغیرہ کے ذریعہ کام انجام دیا جاتا ہے اور پھر اس کو اسلام پسندوں پر چسپاں کردیا جاتا ہے۔
جس راستے اور ذریعہ سے بھی اسلام کو مغرب تک پہنچانا ممکن ہو، پہنچانا چاہیے۔ ریڈیو، انٹرنیٹ وغیرہ جس طرح بھی ممکن ہو ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مغرب نے اپنی تہذیب کو ہر طریقے سے پہنچایا اور ہماری بھی ضرورت یہی ہے کہ ہمارے اور مغرب کے درمیان دروازے کھلے رہیں تاکہ ہم ان کے سامنے بلا رکاوٹ اسلام پیش کرسکیں۔ یہاں تک کہ اسلام کی جنگی و عسکری قانون میں یہ بات ہے کہ ہم کسی سے اس وقت تک جنگ نہ کریں جب تک وہ ہمیں دعوت سے نہ روکیں۔ گویا دعوت اصل بنیاد ہے۔ یہ ابتدا ہے۔ جب دعوت کی بنیاد قائم ہوجائے اور فریقین کے درمیان بند دروازے وا ہوجائیں تو اسلام میں جنگ کے اسباب مفقود ہوجاتے ہیں۔ الا یہ کہ بلادِ مسلمین پر حملہ کیا جارہا ہو۔ چنانچہ جنگ یا تلوار بنیادی نہیں ہے بلکہ دعوت اصل بنیاد ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ تصور ہر داعی اور تحریکات اسلامی کے ذہنوں میں واضح رہے کیونکہ ہمارا اصل مقصد اور اہم فریضہ یہ ہے کہ ہم اس دین کو انسانیت کے لیے نجات دہندہ کے طور پر پیش کریں۔
س: بعض اسلامی ریاستیں دباؤ کے نتیجے میں شرعی احکامات کو کالعدم کررہی ہیں۔ کیا اس کا کوئی شرعی جواز ہے؟
ج: بعض شرعی احکامات ایسے ہیں جن کا کسی بھی حال میں ترک کرتا جائز نہیں ہے۔ اور تاریخ میں ایسے شرعی احکامات کا ذکر بھی ہے جن پر خلیفہ راشد نے عمل نہیں کیا۔ مثلاً حالت فقر یا معاشی تنگی کی حالت میں قطع ید، یہ چند ’ضرورات‘ کے ضمن میں آتی ہے۔ اور ضرورات زمان و مکان اور حالات سے عبارت ہے۔ لیکن اس کو عام چیز نہیں بنایا جاسکتا کہ یہ اقتدار و حکومت کا جز نہ بن جائے۔ کیونکہ اقتدار کا حکم شریعت پر نہیں چلتا۔ اگر آپ کے اندریہ قدرت نہیں ہے کہ اپنے اقتدار کے ساتھ ساتھ آپ شریعت کو بھی نافذ کرسکیں تو پھر بہتر یہ ہے کہ آپ اقتدار سے دور رہی رہیں۔
س: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ تحریکات اسلامی کا اقتدار تک پہنچنا محض جذباتی جوش ہے۔ اور وقت کے ساتھ جو ش ٹھنڈا اور مدھم پڑجائے گا جب جدید نظام حکومت کے ساتھ معاملات کی ادائیگی میں یہ تحریکات ناکام ہوجائیں گی؟
ج: مختلف مناسبتوں سے اس موضوع کی گنجائش موجود ہے۔ اقتدار میں آنے والے اسلام پسندوں کا عمل اس خیال کو غلط یا قوی کرے گا۔ ان کی کارکردگی ہی خود یا تو ان کے حق میں فیصلہ کردے گی یا ان کے خلاف۔ لبنان میں جماعت اسلامی نے ۱۹۹۲ء کے انتخابات میں انتہائی محدود امکانات کے باوجود حصہ لیا۔ موجودہ سیاسی جماعتوں کو عوام نے مسترد کردیا تھا اور لوگ اسلام پسندوں کو برسراقتدار لانا چاہتے تھے۔ مذہبی حالت کی جانب آندھی کا یہ جھونکا ہمارے حق میں تھا کہ ہم لوگوں کو یہ دکھاتے کہ اقتدار میں اسلام پسندوں کی موجودگی نے سماجی انصاف اور متوازن زندگی کو ممکن الثبوت بنادیا، عمل سے جی چرانے والوں کی تعداد گھٹا دی، معاشرے سے جرم و جہالت کے بیشتر مسائل کو ختم کردیا۔ یہ چیز جذباتی حالت کو اعتقادی و منطقی حالت میں بدل دے گی۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مستقبل میں اسلام پسندوں کے اقتدار میں آنے کی تائید کرنے والوں میں اضافہ ہوجائے۔ مثلاً حماس زبردست ووٹ سے اقتدار میں آئی ہے۔ حکومت سازی میں کامیاب ہوئی تو اس تناسب میں مزید اضافہ ہوگا۔ تو اس سلسلے میں فیصلہ کن امر کارکردگی ہے۔ امن وقانون کی صورت حال کو قائم رکھنے کے علاوہ ’’اطعمہم من جوع وآمنہم من خوف‘‘ (بہ الفاظ دیگر بے روزگاری اور حالت خوف سے نجات) کا اصول اور یہ اصول کہ ’’تمام لوگ تین چیزوں پانی، اشیاء خوردنی اور آگ میں برابر کے حصہ دار ہیں۔‘‘ اہم ہے۔
س: سیاسی آزادی، اقتصادی نشو ونما، اجتماعی تعمیر اور نظام تعلیم میں برسراقتدار اسلامی تحریک کی اولین ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟
ج: ترجیحات میں ان سب کا ہی اعتبار ضروری ہے۔ آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ ایک کو ترجیح دے کر دوسرے کو نظر انداز نہ کریں۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ سیاسی آزادی کی کوشش جاری ہے تو اقتصادی ترقی کو روک دیا جائے، البتہ اجتماعیت کو اولیت دینا ضروری ہے۔ بہت سی تحریکات کے پاس اقتدار تک پہنچنے کا پلان تو ہوتا ہے لیکن ان میں سے بہت کم ایسی تحریکات ہوتی ہیں جن کے پاس حکومت کو چلانے کا پلان اور منصوبہ بھی ہوتا ہے۔ اقتدار تک پہنچنا اقتدار میں باقی رہنے اور حالات کو بہتر بنانے سے بالکل الگ چیز ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ انقلاب لانے کا سبب ہوجائیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ حکومت کا منصوبہ نافذ کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں۔ انقلاب حکومت و اقتدار سے مختلف چیز ہے۔ انقلاب لانا حکومت سازی کے مقابلے میں کم درجے کی ذمہ داری ہے۔ جب آپ اقتدار تک پہنچ گئے، حکومت آپ نے قائم کرلی تو اب آپ کا پروگرام اور منشور کیا ہے؟ کیا آپ نے اس کے لیے تیاری کرلی ہے؟ اس کے لیے آپ کے پاس کیا ساز و سامان ہیں؟ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر لوگ آپ کے گرد جمع ہوں گے۔