عالمی یومِ خواتین، بے اثر قوانین، بے خطر شیاطین

ڈاکٹرطاہر محمود

آج مارچ کی ۸؍تاریخ ہے اور اقوامِ متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ عالمی یومِ خواتین ہر سال کی طرح ایک بار پھر منایا جارہا ہے۔ ہمارے یہاں ہندوستان میں اس بار بھارتی ناریوں کو ۱۴؍سال سے بن باس یافتہ ’’خواتین رزرویشن بل‘‘ پاس ہوکر تحفہ میں مل جائے گا۔ اس اقدام سے پارلیمنٹ میں صنف نازک کی نمائندگی کچھ بڑھ جائے گی مگر کیا یہ بڑھی ہوئی تعداد خواتین کے تعلق سے ملک کی معاشرتی کیفیت میں کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی؟ گزشتہ ۵۰؍سالوں میں لڑکیوں اور عورتوں کے لیے تابڑ توڑ نہ جانے کتنے قوانین بنائے گئے ہیں، جو سب کے سب قطعاً بے اثر رہے ہیں۔ کیا قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے ایک تہائی رزرویشن کردینے سے ان حالات میں کوئی فرق آنے والا ہے؟

آزادی کے بعد اس ضمن میں سب سے پہلے بنایا جانے والا قانون ۱۹۶۱ء کا انسداد جہیز ایکٹ تھا، جس میں شادیوں میں جہیز مانگنا، لینا اور دینا سب کو جرم قرار دیا گیاتھا۔ بعد کے برسوں میں اس قانون میں نہ جانے کتنی تبدیلیاں کی گئیں اور اسے کارگر بنانے کے لیے انڈین پینل کوڈ، ضابطہ فوجداری اور قانون شہادت میں بھی اہم نکات شامل کیے گئے، لیکن پھر بھی جہیزی لین دین کی لعنت جوں کی توں برقرار ہے۔ انسدادِ جہیز ایکٹ مجریہ ۱۹۶۱ء کا مکمل اطلاق دیگر فرقوں کی طرح مسلمان شہریوں پر بھی ہوتا ہے۔ مگر اس کی پرواہ نہ وہ کرتے ہیں نہ یہ۔ساتھ ہی تمام فرقوں میں اس کا غلط اور خود غرضانہ استعمال بھی ہورہا ہے اور زوجین میں ناچاقی ہوجائے تو خواہ غلطی ۱۰۰ فیصد بی بی صاحبہ ہی کی کیوں نہ ہو ان کی طرف سے شوہر نامدار کے خلاف جہیز کامقدمہ دائر کردیا جاتا ہے۔ انسدادِ جہیز ایکٹ مسلمان عورتوں کے حق مہر کو ’’جہیز‘‘ کی تعریف سے صراحتاً مستثنیٰ کرتا ہے، کیوں کہ ظاہر ہے وہ ایک بالکل دوسرا ہی تصور ہے۔ جہیز کا مطالبہ جناب نوشہ یا ان کے اہلِ خاندان دلہن کے گھر والوں سے کرتے ہیں، جبکہ مہر ہر شادی کرنے والے مسلمان مرد کو اپنی شریکِ حیات کو دینی ہوتی ہے، جس کے حق میں یہ مستقبل کے لیے ایک مالی ضمانت کی حیثیت رکھتا ہے۔ شریعت نے مہر کی رقم، نوعیت اور ادائیگی کا وقت طے کرنے کا فریقین کو اختیار دیا ہے اور شادی کے وقت اس بارے میں کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو تو مہر کے تعین کے لیے قانونی قاعدے مقرر کیے ہیں، مگر ہمارے یہاں پیروانِ دعوتِ ایمانی نے مہر کے اصل اسلامی قانون کو بری طرح مسخ کرنے کے ساتھ ہی قطعاً غیراسلامی جہیزی لین دین کو اپنا شعار بنالیا ہے۔

حمل کے دوران ہونے والے بچے کی جنس معلوم کرکے ’’اے مری لختِ جگار نورِ نظر پیدا نہ ہو‘‘ کا عمل اختیار کرنے کے غیر انسانی رواج کی بیخ کنی کے لیے ۱۹۹۴ء سے پارلیمنٹ اور ریاستی حکومتوں نے ایک کے بعد ایک کتنے ہی قانون بنائے، مگر اس قبیح رواج کو نہ ختم ہونا تھا نہ ہوا۔ کم عمری میں معصوم بچوں کو شادی شدہ زندگی کی آگ میں جھونکنے کے قدیم رواج پر روک لگانے کا قانون تو آزادی سے بہت پہلے بن چکا تھا۔ ۱۹۲۱ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک میں کم سنی کی شادی اس حد تک رائج تھی کہ ہزاروں لڑکیاں ۷،۸ سال کی عمر میں ’’بیوہ‘‘ ہوچکی تھیں۔ اس سے سراسیمہ ہوکر کچھ نفوس قدسیہ نے شادی کی کم سے کم عمر بذریعہ قانون مقرر کروانے کے لیے ’’ودھوا کنواری تحریک‘‘ چلائی جن میںبابائے قوم گاندھی جی اور ان کے دوست ہر بلاس شاردا پیش پیش تھے۔ بالآخر ۱۹۲۹ء میں ’’شاردا ایکٹ‘‘ کے نام سے ایک تعزیری قانون پاس ہوا، جس کے تحت نابالغ بچوں کی شادی کے قانونی جواز کو تو نہیں ختم کیا گیا، مگر اسے ایک جرم قرار دے کر مجرموں کے لیے معمولی سزائیں مقرر کردی گئیں۔ ۱۹۵۵ء میں جب ملک کی ۸۰؍فیصد آبادی کے لیے ’ہندو میرج ایکٹ‘‘ کے نام سے ایک جدید قانون بنا تو اسی اصول کو وہاں بھی اختیار کرلیا گیا اور ظاہر ہے اس سے کیا ہونے والا تھا۔ آزاد ہوئے نصف صدی گزرگئی تو سماجی مصلحین نے اس فرسودہ اور بے اثر قانون میں اصلاح کے لیے زور ڈالنا شروع کیا، مگر حکومت نے اس کام میں پورے دس سال لگائے۔ خدا خدا کرکے ۲۰۰۶ء میں شاردا ایکٹ کی جگہ ’’نکاحِ نا بالغان (ممانعت) ایکٹ‘‘ کے نام سے ایک نیا قانون بنا جس کے تحت نابالغوں کی شادیوں کے ذمہ داروں کے لیے سزائیں تو بڑھا دی گئیں ساتھ ہی بچپن میں شادی کے بندھن میں باندھے جانے والے ہر لڑکی و لڑکے کو بالغ ہونے پر عدالت سے اسے مسخ کروانے کا غیر مشروط حق بھی دیا۔ یہ سب قوانین بنتے اور نافذ ہوتے رہے مگر کم عمری میں شادیوں کا رواج بدستور جاری و ساری رہا، اگر کچھ فرق پڑا ہے اور ایسی شادیوں کی تعداد کم ہوئی ہے تو ان قوانین کے باعث نہیں بلکہ صرف لڑکیوں کی تعلیم سے۔

اسی سال ۲۰۰۶ء میں ہی خواتین سے متعلق ایک اور قانون ’’تحفظ نسواں از خانگی تشدد‘‘ کے عنوان سے پاس ہوا جس میں ہر لڑکی اور عورت کو اپنے آبائی گھر یا سسرال میں کسی مرد رشتہ دار کے تشدد کا شکار ہونے پر اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کا حق دے کر مجرموں کے لیے سزا مقرر کی گئی اور عدالتوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ زیادہ سخت مقدمات میں تشدد کرنے والے مرد کو حکم دے کہ وہ یا تو خود گھر چھوڑ دے یا اس کی شکار عورت کے لیے اپنے خرچ پر الگ رہائش کا بندوبست کرے۔ آئندہ سال ۲۰۰۷ء میں ’’والدین اور بزرگ شہریوں کی کفالت اور فلاح کا قانون‘‘ کے نام سے ایک اور قانون وجود میں آیا جس کے تحت ایسے والدین اور دادا، دادی، نانا، نانی کو جو خود اپنی کفالت نہ کرسکتے ہوں، حق دیا گیا کہ وہ اپنی اولاد یا پوتے نواسوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرکے اپنی مناسب کفالت کیے جانے کا حکم نامہ حاصل کریں اور اپنی کفالت خود کرنے پر قادر نہ ہونے والے لاولد بزرگ شہریوں کو بھی ایسی ہی چارہ جوئی اپنے رشتہ داروں کے خلاف کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر کسی نے اپنی جائداد کسی اور کے حق میں اس شرط پر منتقل کی تھی کہ وہ بصورتِ بزرگی و ناداری اس کی کفالت کرے گا اور وہ شخص یہ ذمہ داری پوری نہیں کررہا ہے تو جائداد منتقل کرنے والا عدالت کے ذریعے اس منتقلی کو منسوخ کرواسکتا ہے۔ ساتھ ہی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ سن رسیدہ مردوں اور عورتوں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کریں۔ یہ قانون کتنا کارگر ہے یہ شاید ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں۔

کون کہہ سکتا ہے کہ عورتوں سے متعلق یہ قوانین اپنی اصلی صورت میں نافذ ہیں اور اپنے مقاصد کو پورا کررہے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سچائی اس کے برعکس ہے۔ گھروں کے اندر خاموشی سے ان سبھی قوانین کی خلاف ورزی کا سلسلہ بدستور قائم ہے اور واویلا جبھی مچتا ہے جب آپس میں کوئی تفرقہ کھڑا ہوجائے۔ ساتھ ہی ان قوانین کی برسرِ عام دھجیاں اڑانے والے شیاطین کی کارروائیوں سے بھی اخبارات کی سرخیاں بھری ہوتی ہیں اور زنا بالجبر، جہیز کی خاطر قتل و غارت، ننھی نابالغ لڑکیوں کی شادیاں، ضعیفہ عورتوں کے گھروں میں گھس کر ڈکیتی اور قتل کی واردات سبھی کچھ تقریباً روز ہی کا معمول نظر آتا ہے۔ ملکی دستور میں ۱۹۷۶ء میں ’’شہریوں کے بنیادی فرائض‘‘ کے باب کا اضافہ کیا گیا تھا اور ان فرائض میں ’’عورتوں کے تئیں اہانت آمیز اعمال کردینا‘‘ بھی شامل تھا، مگر ایسے نہ جانے کتنے اعمال آج بھی ہمارے سماجی نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ ایسے کئی اعمال کو اپنے دین و مذہب کا جزو لاینفک بناکر اپنے ہم مذہبوں کو انھیں ہرگز ترک نہ کرنے کی تنبیہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں بجا طور پر پوچھا جاسکتا ہے کہ عورتوں کی زبوں حالی جیسی معاشرتی بیماری کا علاج کیا یہی ہے کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں ان کی تعداد بڑھا دی جائے؟ کیا یہ فہم صحیح ہے کہ جس بیماری کو بھاری تعداد میں وہاں پہنچنے والے مرد ان ۶۰؍برسوں میں ٹھیک نہیں کرسکے، اب پہلے سے قدرے زیادہ تعداد میں وہاں رسائی حاصل کرکے خواتین اس کا تیر بہ ہدف علاج کرلیں گی؟ ہم خواتین کی ہر ملکی ادارہ میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری کے یقینا حامی ہیں، مگر اس کے لیے ان کے حق میںرزرویشن کو کسی معاشرتی مسئلہ کا حل نہیں مانتے۔ خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ان کی شب و روز اہانت کا علاج نہ سخت قانون بناکر ہوسکے گا نہ ان کے لیے کہیں رزرویشن کرکے۔ اس بیماری کا علاج تو صرف وہ نسخہ کیمیا ہے، جسے دنیا تعلیم کہتی ہے۔ بقول حکیم ملک و ملت علامہ اقبالؔ بلا شک و شبہ

خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146